Saturday, January 15, 2011

ہماری قومی غیرت


اسلام و علیکم دوستو

ایک مسلمان اور پاکستانی ہوتے ہوئے جب میں آج کل اپنے ملک کے نوجوانوں اور عوام کی بالکل بے حسی دیکھتا ہوں اور اپنے ملک کے لوگوں کو برائی کی طرف مائل دیکھتا ہوں تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔

آج میں آپ سب کی توجہ ایک بہت ہی اہم ایشو کی جانب دلانا چاہتا ہوں۔۔ جس نے میرے پیارے اللہ تعالیٰ کو ہم سے ناراض کردیا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے لیکن اس نے ہمیں زندگی گزارنے کے تمام راستے بھی بتا دیے ہیں۔۔۔ اب اگر ہم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوے راستوں کی بجائے اپنی ہی دنیا میں گم غلط راستوں پر قدم رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی باراضگی مول لیتے ہیں۔۔۔ اور جب یہ ناراضگی بڑھ جاتی ہے تو قوموں پر عذاب آنا شروع ہوتے ہیں۔۔۔
اور اگر آپ غور کریں تو ہم اسی راہ پر قدم رکھ چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہم پر ظاہر ہو چکی ہے ۔۔۔

۱۔ پہلے پہل ہماری عوامی ٹرانسپورٹ میں صرف ٹیپ ریکارڈر بجتے تھے اور لوگ اس سے تنگ تھے اور ہمارے ڈرائیور حضرات انتہائی بیہودہ گانے لگاتے تھےاوراتنی اونچی آواز میں کہ اللہ کی پناہ۔۔ اگر اس وین، بس میں کوئی مریض ہوتا تو بھی اسکی پراوہ نہیں کی جاتی تھی۔۔۔ پہر آہستہ آہستہ لگژری بسوں کا دور آیا ۔۔۔ پہلے پہل اس میں بھی صرف ٹیپ ریکارڈر چلا کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ انہوں نے ٹیپ کی جگہ وی سی آر اور ٹی وی کو دے دی
اور شروع میں کچھ جھجھک کی وجہ سے اس پر صرف کارٹون ڈراموں اور دستاویزی فلموں کو لگایا گیا۔۔ مگر بہت جلد اس کی جگہ انڈین فلموں اور گانوں نے لے لی۔ بیہودہ گانے ویڈیوز۔بڑی دیدہ دلیری سے دکھائی جاتی ہیں اس چیز کی پرواہ کیے بغیر کہ اس بس خواتین اور فیملیز بھی سفر کررہی ہیں اور سواریوں کی بے حسی نے انکو مزید شیر کردیا۔۔۔ اگر کسی شخص نے ہمت کرکے ڈرائیور کو اسکو بند کرنے کو کہا بھی تو سب لوگ اسکو ایسے دیکھتے ہیں جیسے وہ کسی اور ہی سیارہ کی مخلوق ہو۔۔۔ آج ہر گھر ہر کاروبار، گلی محلہ یہاں تک کہ ہر شخص کے موبائل میں انڈین گانوں کی رنگ ٹونز ہیں۔۔۔ اور ایسا کئی بار دیکھا گیا ہے کہ لوگ نماز پڑھتے ہوئے بھی اپنا موبائل جب آف نہیںکرتے تو ان کا موبائل پر کوئی کال آجائے تو نماز کے دوران ہی انڈین گانا بجنا شروع ہو جاتا ہے۔۔۔ ہم لوگ مسلمان ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ پاکستانی بھی ہیں۔۔ ویسے تو ہم بہت غیرت والے ہیں۔۔۔ اگر کوئی ہمارےسامنے انڈیا کی حمایت میں کچھ بولے تو کچھ شک نہیں کہ ہم اسکو قوم کا غدار کہ کر اسکی حالت ابتر کردیں۔۔۔لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کچھ ہی دیر بعد ہم گھر جا کر انڈین پروگرام ڈرامے شوق سے دیکھ رہے ہوتے ہیں تب ہماری غیرت کہاں جاتی ہے۔۔۔ انڈیا نے ہمارا پانی بند کرکے اس پر ڈیم بنانا شروع کر دیے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ لاکھوں کروڑوں ان کو ٹی وی کارڈوں کے زریعے ان کی نذر کر رہے ہیں۔۔۔

۲۔ اسی طرح بڑے اور چھوٹے شہروں میں خواتین کے کپڑے فروخت کرنے والوں کی دکانوں پر عورتوں کی شبیہیں، بت یا ڈمّیاں (dummies) بہ کثرت دکھائی دیتی ہیں۔ ان دکان داروں نے یہ تصور کرلیا ہے کہ ان بتوں کے سہارے ہی ان کا کاروبار چل سکتا ہے۔ ایسی اُمت کہ جس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر بتوں کو گرایا، انھی کے نام لیوا دولت کی ہوس کے لیے نہ صرف بتوں بلکہ شرمناک بتوں کا سہارا لیتے اور اسے ’کاروباری مجبوری‘ قرار دیتے ہیں
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
اب سے 25 ، 30 سال قبل جن دکانوں پر ایسے ماڈل رکھے ہوتے تھے، لوگ انھیں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے اور توجہ بھی دلاتے تھے، مگر اب یہ ’ڈمی کلچر‘ اس پیمانے پر پھیل چکا ہے کہ بت شکن اُمت کی نئی نسل یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ شاید روزِ اوّل سے کاروبارِ زندگی میں یوں ہی ہوا کرتا تھا، حالانکہ یہ چیز حالیہ عشروں میں ہمارے ہاں زبردستی در آئی ہے۔ ان مظاہر کا سامنا کرتے ہوئے کوئی بھی معقول انسان نظریں نیچی کیے اور شرمندگی کے پسینے میں نہائے بغیر رہ نہیں سکتا۔

۳۔ کیبل سروس کے ذریعے بیسیوں چینل ایک انگوٹھے کی ضرب سے تمام برے بھلے پروگراموں کے ذریعے ٹیلی ویژن اسکرین پر آموجود ہوتے ہیں۔ یہ امر بھی سامنے رہے کہ اکثر ٹیلی ویژن اور اخبارات نے منظم دباؤ کے ساتھ پورے معاشرے کو فکری اور تہذیبی طور پر یرغمال بنالیا ہے۔ پریس کی آزادی کے تمام تر احترام اور ایک صحت مند معاشرے کے لیے اس کی کماحقہ ضرورت کا پاس و لحاظ رکھنے کے باوجود، یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا تہذیب اسی کو کہتے ہیں کہ اس سے وابستہ چند سو افراد، 17 کروڑ افراد کو جس انداز سے چاہیں، ہانکتے چلے جائیں مگر یہ عظیم اکثریت ان سے سوال کربیٹھے تو
’آزادیِ صحافت‘ پر حملے کی دہائی دی جاتی ہے۔

کیبل سروس کے حوالے سے دو باتیں قابلِ غور ہیں: اوّل یہ کہ کیبل آپریٹر کون سے چینل فراہم کر رہا ہے اور دوم: یہ کہ خود کیبل کے ذریعے در آنے والے ٹیلی ویژن چینل کیا دکھا رہے ہیں؟
ان چینلوں پر نمایاں طور پر تین چیزیں توجہ طلب ہیں: اشتہارات، ڈرامے اور ٹاک شو___ اشتہارات کے سلسلے میں یہ بات توجہ طلب ہے کہ جب تک اشتہار لچرپن سے آلودہ نہیں ہوگا، وہ اپنا مدعا بیان نہیں کرسکے گا؟ خصوصاً کثیر قومی (multi national) کمپنیوں کے اشتہار، وہ کمپنیاں جو دنیا بھر سے مال ودولت جمع کرکے اپنی تجوریاں بھرنے نکل کھڑی ہوئی ہیں۔ ان کے نزدیک اصل چیز پیسہ ہے، وہ جس طرح اور جس قیمت پر بھی آئے۔ ان کے نزدیک صارف ممالک کی رعایا، ان کے سامنے بے بس اور ’بے وقوف شکار‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ ان کے ہاں اخلاقی یا تہذیبی قدروں کا مسئلہ تو سرے سے خارج از بحث ہے۔
اب اہلِ وطن کو سوچنا ہے کہ ہم اپنا پیسہ دینے اور فنی سہولت حاصل کرنے کے ہمراہ، تہذیبی اور ایمانی سطح پر کیا لے رہے ہیں؟ ماہرین ابلاغیات کے نزدیک اشتہار ایک مختصر، مگر نہایت مؤثر ڈراما ہوتا ہے اور اس ڈرامے کے سب سے بڑے شکار بچے ہوتے ہیں اور پھر دوسرے درجے میں خواتین۔ ان اشتہاروں میں متعدد ایسے ہیں کہ جنھیں کوئی غیرت مند انسان ایک بار بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتا، مگر وہ بار بار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دوسری جانب بچے ان کی گرفت میں مسحور ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا پورا معاشرہ ان عالمی ساہوکاروں کے سامنے محض ایک ایسا گونگا گاہک ہے، جو حمیت، دولت اور تہذیب کو ان کی چوکھٹ پہ قربان کرنے پر مجبور ہے!
ایک اور اہم چیز ٹی وی کے ڈرامے ہیں جن کا ہماری عمومی سماجی زندگی سے تو تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، مگر گلیمر، فیشن، بے ہودہ لباس، بے باکی اور بدیسی طرزِ زندگی کا ایک چلتا پھرتا سرکس بن کر یہ ڈرامے انسانوں کو فتح کرنے اور اپنے رنگ میں رنگنے کا پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ ڈراما بہرحال مقامی ڈراما نویسوں اور مقامی پروڈیوسروں کے دماغ کی اختراع ہوتا ہے۔ اسی طرح دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی معاشرت میں اس طبقے کا کیا حجم ہے کہ جہاں بیٹی چیخ اور چلّا کر اپنے ابّا اور امّی سے یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ: ’’زندگی میری ہے، جیسے چاہوں اسے بسر کروں‘‘۔ یا یہ جملہ کہے: ’’ٹھیک، شادی نہیں کرتے، مگر اچھے دوستوں کی طرح تو ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں گے‘‘۔ یہ دو جملے جس طرزِ زندگی اور طرزِ فکر کی نشان دہی کرتے ہوئے، نوجوان بچوں اور بچیوں کو اپنی تقلید کی طرف مائل کرتے ہیں، کیا وہ یہاں کے کروڑوں انسانوں کی زندگی کا چلن ہے یا ایک نہایت قلیل اباحیت پسند ٹولے کا ذہنی فتور؟ انھی ڈراموں میں غیرحقیقی امیرانہ شان و شوکت اور بے زاری و بے قراری کے طوفان___ کہاں ہے یہ پاکستانی معاشرے کی تصویر؟ مگر بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ’سفلی محبت‘ کے ان ریفریشر کورسوں کو درست سمت عطا کرنے کے لیے کتنے شرفا نکلتے، لکھتے یا اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہیں؟ شاید کوئی بھی نہیں۔
اسی طرح مباحث یا ’ٹاک شوز‘ میں اکثر توازن نہیں ہوتا۔ بعض اوقات کسی ایک ہی فکر کے لوگوں کی کثرت ہوتی ہے اور اکثر تو خود ’اینکرپرسن‘ کا رویہ نہایت تحکمانہ اور گاہے توہینِ آمیز ہوتا ہے، جب کہ بحث میں حصہ لینے والے حضرات اور گلی میں لڑتے جھگڑتے بچوں کے طرزِعمل میں کوئی بنیادی فرق نہیں نظر آتا۔ ظاہر ہے ٹیلی ویژن، استاد کی طرح بڑے پیمانے پر افکار کی تشکیل کرنے اور شائستگی یا ناشائستگی سکھانے کا کام انجام دے رہا ہے۔ مذکورہ صورت حال کسی صحت مند مستقبل کی طرف نہیں، بلکہ عدمِ برداشت کے کلچر کی طرف لے جانے کا کام کرتی ہے۔ کیا کوئی توانا اور باوقار آواز اس رویے کو درست کرنے کے لیے توجہ دلاتی نظر آتی ہے؟ شاید کوئی نہیں۔

۴۔ جب سے انسان نے ٹیکنالوجی نے ترقیوں کی منازل طے کی ہیں۔۔۔ جہاں ان کے فوائد ہیں وہیں انکے غلط استعمال نے شریف لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔۔۔ اصولا تو ہمیں اس ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کرنا چاہئے اور اگر ہم اسکا مثبت استعمال کریں تو ہم دنیا میں انقلاب لا سکتے ہیں۔۔ لیکن میرے پیارے پاکستان میں اس معاملے کچھ الٹ ہے۔۔۔ میں آپکو اسکی دوبڑی مثالیں دیتا ہوں

الف۔ موبائل فون

پہلے پہل لینڈ لائن فون ہو کرتا تھا اور ہر گھر میں نہیں ہوتا تھا کیوں کہ ہر شخص اسکو افورڈ ہی نہیں کر سکتا تھا تب معاشرتی برائیوں کی تعداد کم تھی ۔۔پھر موبائل فون آیا جب اسکی ابتدا پاکستان میں ہوئی تو یہ بہت مہنگا اور نان افورڈ ایبل تھا۔۔۔ لیکن پھر باہر کی کمپنیوں نے اسمیں سرمایہ کاری کی اور اسکو ہر شخص کی پہنچ میں دے دیا۔۔۔ اب یہ حالت ہے۔۔ کہ ہمارے گھر میں کھانے کو روٹی ناں بھی ہو تو ہمارے پاس موبائل ضرور ہوتا ہے۔۔۔ یہاں تک ٹھیک تھا کہ اگر ہم اسکا مثبت استعمال کرتے لیکن ہم لوگوں نے اسکا غلط استعمال شروع کیا۔۔۔
لڑکے لڑکیوں کو بات کرنے کے لیے آزادی مل گئی ماں باپ نے موبائل لے کے دے دیا لیکن کبھی یہ نہیں غور کیا کہ صاحبزادہ یا صاحبزادی اس موبائل کا صرف کس میں کر رہے ہیں۔۔۔ آپ اپنے ارد گرد بلکہ اپنے اندر اور اپنے ہی گھر اور محلے میں نظر دوڑائیں تو آپ کو ہر نوجوان موبائل پر مصروف نظر آئے گا۔۔۔ کوئی ایس ایم ایس کر رہا ہے تو کوئی کسی لڑکی سے بات چیت کررہا ہے پھر بات یہاں تک نہیں رکی موبائل کمپنیوں اور حکومت نے پیسہ بنانے کے لیے مزید پیکجز نکالے رات کو کالیں فری کردیں ایک ہی ملک میں سات کمپنیاں ۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک ۔۔ ایک محدود اندازے کے مطابق اوسطا ایک پاکستانی دن میں تیس روپے موبائل پر خرچ کرتا ہے۔۔۔ اللہ کی پناہ آپ اسکو سترہ کروڑ سے ضرب دیں اور اندازہ لگائیں کہ ہم بے کار میں اتنی بڑی رقم خرچ کررہے ہیں ۔۔۔ اور حالت یہ ہے کہ ہم دوسرے ملکوں سے بھیک مانگتے ہیں اور بجلی، آٹا، چینی کے لیے پریشان ہیں۔۔۔۔
پھر کیمرے والے موبائل آگئے۔۔۔ ہمارے نوجوانوں اسکا بھی غلط استعمال کرنا شروع کیا۔۔۔ میرے پاکستان کی کتنی ہی بیٹیاں تھوڑی سی وقتی تفریح کے لیے اپنی ساری ساری زندگیاں برباد کرچکی ہیں۔۔اور لڑکے اپنی عاقبت خراب کر چکے ہیں جب یہ لوگ یہ کام کرتے ہیں تو ایک پل کو نہیں سوچتے کہ انکے گھر میں بھی ایک ماں بہن بیٹی کی شکل میں بھی ایک عورت ہے۔۔۔ لیکن افسوس ہمیں اپنے نفس نے اتنا اندھا کر دیا ہے کہ ہم یہ سب دیکھتے ہی نہیں ہیں۔۔۔۔

ب۔ انٹرنیٹ

انٹرنیٹ کی ایجاد نے جہاں انسان کے لیے کئی دروا کیے ہیں وہیں پر اسکی ایجاد نے بھی جرائم کی شرح میں اضافہ کیا ہے۔۔۔ میں بھی انٹرنیٹ استعمال کرتا ہوں لیکن اب یہ مجھ پر منحصر ہے کہ میں اسکا استعمال کیسے کرتا ہوں۔۔۔ گوگل سرچ کے مطابق پاکستان دنیا میں جنسی تسکین والی ویب سائٹ کو سرچ کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔۔۔ اللہ کی پناہ میرے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام کس سمت جا رہی ہے۔۔۔ انٹرنیٹ کے غلط استعمال نے میرے ملک کے نوجوانوں کا ضمیر مردہ کر دیا ہے۔۔ بچے وقت سے پہلے جوان ہو رہے ہیں۔۔۔ اور غلط سوسائیٹیوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔۔۔ والدیں آنکھیں بند کیے ہوے ہیں۔۔۔۔ اس دوڑ میںصرف لڑکے ہی نہیں اب کافی حد تک لڑکیاں بھی شامل ہو گئی ہیں۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتی ہماری غیرت کہاں سو گئی ہے ۔۔۔۔ اور ہمارے اندر کا مسلمان کہاں سو گیا ہے۔۔۔۔

۵۔ اگرچہ بدکاری ایک معاشرتی ناسور کی شکل میں موجود تھی، تاہم نومبر 2007ء میں ’روشن خیال‘ جنرل مشرف کی زیرقیادت مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے حدود قوانین کا جو حلیہ بگاڑا ہے، اس نے اس گھناؤنے جرم کی رفتار کو بہت تیز کردیا ہے۔ اس کاروبار کی حرکیات اور مظاہر پر تفصیلات بیان کرنے کی یہاں گنجایش نہیں، فقط ایک دوحوالوں سے معروضات پیش ہیں:

پہلی بات تو یہ کہ ’حدود قوانین‘ میں ترمیم 2007ء کے بعد عمومی سطح پر یہی تاثر عوام تک منتقل ہوا کہ: ’’اب بالرضا بدکاری، قابلِ دست اندازیِ پولیس نہیں رہی ہے۔ اور اس تاثر کو گہرا کرنے کے لیے روزنامہ جنگ، جیو ٹیلی ویژن اور خودساختہ ’علماے کرام‘ کی دو سال پر محیط جارحانہ، یک رُخی اور مسلسل مہم نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس قانون کی منظوری کے بعد لاری اڈوں، بازاروں، بعض ہوٹلوں اور کئی گیسٹ ہاؤسوں تک میں بے باکی اور ’کاروباری فعالیت‘ کے مناظر ترقی پانے لگے۔ اس تاثراتی دباؤ کے نتیجے میں خود پولیس دس قدم پیچھے ہٹی ہے، اور انسانیت کی تذلیل کے ایجنٹ بیس قدم آگے بڑھے ہیں۔

دوسری بات: اس ناسور کی جارحیت کا اندازہ اہلِ پاکستان کو اُس وقت ہوا جب جولائی 2009ء میں کراچی میں جنسی کنونشن منعقد ہوا۔ جس کی بہت سی تفصیلات بیان کرنا قرین مصلحت نہیں ہیں، بہرحال بی بی سی لندن نے 22 جولائی 2009ء کو اس کنونشن کے بارے میں جو رپورٹ نشر کی، اس کے چند اقتباسات اُس کے نمایندے ارمان صابر کے حوالے سے پیش ہیں:’’جنسی کارکنوں کے کنونشن کی ایک 28 سالہ مندوب نے بتایا: اب معاشرے نے ہمارے وجود کا احساس کرلیا ہے، تاہم بدکاری ابھی تک اس مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں غیرقانونی دھندا ہے۔ اگرچہ اس کا وجود تو صدیوں سے ہے، مگر کبھی اس کے لیے سپاس و اعتراف کا اظہار نہیں کیا گیا۔ ہرچند کہ گذشتہ دوعشروں کے دوران میں، پاکستان میں اسلامیت میں اضافہ ہوا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمارا یہ دھندا بھی ترقی پا رہا ہے۔ پہلے ہم چوری چھپے یہ کاروبار کرتے تھے، لیکن اس کنونشن نے ہمیں مل بیٹھنے، تبادلۂ خیال کرنے اور اپنے تجربات بیان کرنے کا موقع اور تقویت دی ہے۔ہمیں کشادہ روی کا احساس دیا ہے۔ اب ہم اپنے حقوق کے لیے بھی آواز اُٹھا سکیں گے‘‘۔

بی بی سی کے نمایندے کے بقول: این جی او، جینڈر اینڈ ری پروڈکٹیو ہیلتھ فورم (GRHF) نے یہ کنونشن اقوامِ متحدہ کے ادارے فنڈ فار پاپولیشن (UNFP) سے مل کر منعقد کیا ہے۔ ایک سو طوائفوں پر مشتمل اس کنونشن کے احوال بیان کرتے ہوئے نمایندے نے رپورٹ دی ہے:

کنونشن میں شریک پیشہ وروں میں سے بہت سی ایسی تھیں، جنھوں نے کیمرے کی تصویر بنانے سے روک دیا اور کہا: ’’ہمیں خوف ہے کہ اپنے اہلِ خاندان کے سامنے بے نقاب ہوجائیں گے‘‘۔ بہت سی کہہ رہی تھیں: ہمارے خاوند اور اہلِ خانہ نہیں جانتے کہ ہم اس کاروبار سے منسلک ہیں، وہ یہی جانتے ہیں کہ ہم نجی کمپنیوں میں ملازم ہیں‘‘۔ ایک مقامی این جی او کے سروے کے مطابق کراچی میں ایسی فاحشہ عورتوں کی تعداد ایک لاکھ ہے، لاہور میں 75 ہزار اور فوجیوں کے شہر راولپنڈی میں 25 ہزار‘‘۔

اسی رپورٹ کو انگریزی روزنامہ دی نیوز نے 4 اگست 2009ء کو ہوش ربا تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہی گروپ آیندہ لاہور اور دوسرے شہروں میں ’کنونشن‘ منعقد کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو ایک این جی او ’عمل ہیومن ڈویلپمنٹ نیٹ ورک‘ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ: ’’ہم نے 2006ء میں ایسی 918 شرکا کی، ملک بھر میں ’تربیت‘ کی تھی۔ اس تربیتی پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوتا تھا‘‘۔

جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ یہاں بہت سی تفصیلات عمداً بیان نہیں کی جارہی، فقط چند سطور نقل کی گئی ہیں۔ اس مناسبت سے چند امور توجہ طلب ہیں:

___ پہلا یہ کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی دیکھ کر نہ صرف اس جرم میں اضافہ ہورہا ہے، بلکہ اس جرم کو ایک ’کاروبار‘ اور ’کارکن‘ یا ’مزدوری‘ سے منسوب کرکے، ایک معمول کی چیز کا قرار دیا جا رہا ہے۔

___ دوسرا یہ کہ عالمی اداروں کی امداد پر چلنے والی این جی اوز معاشی اور سماجی استحصال سے پاک معاشرے کے قیام سے زیادہ دل چسپی اس امر میں رکھتی ہیں کہ جو خرابی موجود ہے، اسے جوں کا توں رہنے دیا جائے، تاہم کچھ آرایشی اقدامات کرکے سبک دوش ہوا جائے۔ انھیں اس چیز کی کوئی فکر نہیں کہ کسی ستھرے متبادل کاروبار کا بندوبست کیا جائے، بلکہ دل چسپی اس سے ہے کہ گندگی خوش نما نام سے برقرار رہے۔

___ تیسرا یہ کہ اپنے ہدف کی ایسی مبالغہ آمیز تصویر پیش کی جائے کہ عامۃ الناس ذہنی شکست سے دوچار ہوجائیں۔ ایسے مبالغہ آمیز اعداد وشمار کی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں، تاہم اُوپر بیان کردہ رپورٹ کے اعداد و شمار کا ذرا تجزیہ کریں، مثلاً کراچی کی آبادی ایک کروڑ 10 لاکھ ہے۔
ظاہر ہے کہ اس میں ہرعمر کی خواتین کی تعداد تقریباً 55 لاکھ ہوگی۔ تو کیا مذکورہ رپورٹ جس میں کہا گیا ہے کہ ایک لاکھ عورتیں اس ’کاروبار‘ کا حصہ ہیں تو گویا وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہر100میں 2عورتیں ایسی ہیں۔ کیا عقل اور مشاہدہ ان گھناؤنے اعداد و شمار کی تائید کرتا ہے؟ بالکل یہی فی صد لاہور کے بارے میں پیش کیا گیا ہے اور اسی سے ملتی جلتی شرح راولپنڈی سے منسوب کی گئی ہے۔ یہ کون سی این جی اوز ہیں، اور ان کی ایسی مبالغہ آمیز تصویرکشی کے کیا مقاصد ہیں؟ یہ ثابت کرنا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اخلاق باختہ اور اخلاقی و جنسی اعتبار سے گندا ملک ہے۔ یہ کہ یہاں اس صورت حال کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت بھی کرلیا گیا ہے اور ایسی مبالغہ آمیز صورت کے سامنے اخلاقی اور دینی پہچان رکھنے والی قوتیں عملاً شکست کھاچکی ہیں۔

___ چوتھا یہ کہ بی بی سی کی رپورٹ نے ’ بے نقاب‘ ہونے سے بچنے کے لیے شرکا کی جس ’مجبوری‘ کی طرف اشارہ کیا ہے، اس نے توگویا محنت، دفتر اور ہُنر سے وابستہ دیگر خواتین کی ساکھ کو داؤ پر لگا دینے کی کوشش کی ہے۔ شک، بے اعتمادی اور جرم کے اس منظرنامے کو پیش کرکے این جی او نے کارکن اور محنت کش خواتین کی پوزیشن خراب کی ہے۔

___ پانچواں یہ کہ ان لوگوں کو: ’’ایسے پروگراموں سے تقویت ملی ہے اور وہ معاشرے میں اپنی تمام آلایشوں کے باوجود ’’باقاعدہ حقوق کے امیدواربھی ہیں‘‘۔
ان افسوس ناک اور شرم ناک حالات میں اہلِ ایمان کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟
یہ سوال دنیا میں کامیابی اور آخرت میں جواب دہی دونوں اعتبار سے اہم ہے۔ تاریخ کا ناقابلِ فراموش سبق یہ ہے کہ برائی کو اگر برداشت کیا جائے تو وہ پنپتی اور بڑھتی ہے اور اگر نیکی کی قوتیں اس کا مقابلہ کریں تو بالآخر اسے پسپا ہونا پڑتا ہے۔ خاموشی اور بے غیرتی سے برائی کو گوارا کرنا اگر ایک طرف اخلاقی جرم ہے تو دوسری طرف تہذیبی بگاڑ اور اجتماعی تباہی کا ذریعہ اور پیش خیمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہرمسلمان اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دے کر بگاڑ کے غلبے کا راستہ بند کیا ہے۔ منکر کے مقابلے میں مداہنت محض بے غیرتی ہی کا رویہ نہیں بلکہ ایمان کے تقاضوں کے بھی منافی ہے۔

اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی تعلیمات اور اسوۂ مبارکہ دونوں کے ذریعے اہلِ ایمان کو بدی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے سے روکا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ صرف انفرادی نیکی ان کو اجتماعی تباہی اور آخرت کی جواب دہی سے نہیں بچاسکتی۔

جس معاشرے میں خدا کی نافرمانی اور فحش کا رواج عام ہوجائے اس کے دن گنے جاتے ہیں اور اس معاشرے کے وہ افراد جو صرف اپنے دامن کو بدی سے بچانے پر قناعت کرلیتے ہیں اور بدی سے معاشرے کو پاک کرنے کی مناسب سعی و جہد نہیں کرتے وہ بھی اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ جن اصولوں کو بیان کیا گیا ہے، ان میں دو چیزیں بہت نمایاں ہیں: ایک یہ کہ برائی، بدی، فحش اور بداخلاقی، اخلاقی اور اجتماعی جرم ہیں اور ان سے بچنا دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ صرف خود بچنا کافی نہیں بلکہ معاشرے کو ان سے پاک کرنا اور ان کے فروغ کے آگے بند باندھنا ایمان کا تقاضا اور اجتماعی زندگی کو بگاڑ اور تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اے نبی!(صلی اللہ علیہ وسلم)ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام ___ خواہ کھلے ہوں یا چھپے ___ اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی ایسے کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمھیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے۔(الاعراف 33:7)
نیز ارشاد ربانی ہے کہ: جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے، وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (النور 19:24)___ فحش اور منکر شیطان کے حربے ہیں اور ان سے بچنا اور اللہ کے بندوں کو ان سے بچانا ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ (النور 21:24)

پھر یہ صاف صاف انتباہ کہ اگر تم انفرادی نیکی پر قناعت کرو گے اور اجتماعی بگاڑ سے معاشرے کو پاک کرنے کی سعی و جہد نہ کرو گے تو اس تباہی سے نہ بچ سکو گے جو اس بگاڑ کا لازمی نتیجہ ہے۔ ارشاد ربانی ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پکار پر لبیک کہو
، جب کہ رسول ﷺ تمھیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔ اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو۔ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔(الانفال8: 24 – 25)

اس قاعدہ کلیے کو مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی تفہیم القرآن میں اسی آیت کی تشریح میں یوں بیان کرتے ہیں: ’’اس سے مراد وہ اجتماعی فتنے ہیں جو وباے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف گناہ کرنے والے ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو گناہ گار سوسائٹی میں رہنا گوارا کرتے رہے ہوں۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ جب تک کسی شہر میں گندگیاں کہیں کہیں انفرادی طور پر چند مقامات پر رہتی ہیں، ان کا اثر محدود رہتا ہے اور ان سے وہ مخصوص افراد ہی متاثر ہوتے ہیں جنھوں نے اپنے جسم اور اپنے گھر کو گندگی سے آلودہ کر رکھا ہو۔ لیکن جب وہاں گندگی عام ہوجاتی ہے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا جو اس خرابی کو روکنے اور صفائی کا انتظام کرنے کی سعی کرے تو پھر ہوا اور زمین اور پانی ہر چیز میں سَمِیّت [زہریلاپن] پھیل جاتی ہے، اور اس کے نتیجے میں جو وبا آتی ہے اس کی لپیٹ میں گندگی پھیلانے والے اور گندہ رہنے والے اور گندے ماحول میں زندگی بسر کرنے والے سب ہی آجاتے ہیں۔ اسی طرح اخلاقی نجاستوں کا حال بھی ہے کہ اگر وہ انفرادی طور پر بعض افراد میں موجود رہیں اور صالح سوسائٹی کے رعب سے دبی رہیں تو ان کے نقصانات محدود رہتے ہیں۔ لیکن جب سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر کمزور ہوجاتا ہے، جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اُس میں نہیں رہتی، جب اس کے درمیان بُرے اور بے حیا اور بداخلاق لوگ اپنے نفس کی گندگیوں کو علانیہ اُچھالنے اور پھیلانے لگتے ہیں، اور جب اچھے لوگ بے عملی (passive attitude) اختیار کر کے اپنی انفرادی اچھائی پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و صامت ہوجاتے ہیں، تو مجموعی طور پر پوری سوسائٹی کی شامت آجاتی ہے اور وہ فتنۂ عام برپا ہوتا ہے جس میں چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ رسول ﷺ جس اصلاح و ہدایت کے کام کے لیے اُٹھا ہے، اور تمھیں جس خدمت میں ہاتھ بٹانے کے لیے بلا رہا ہے، اسی میں درحقیقت شخصی و اجتماعی دونوں حیثیتوں سے تمھارے لیے زندگی ہے۔ اگر اس میں سچے دل سے مخلصانہ حصہ نہ لو گے اور ان برائیوں کو جو سوسائٹی میں پھیلی ہوئی ہیں برداشت کرتے رہو گے، تو وہ فتنۂ عام برپا ہوگا جس کی آفت سب کو لپیٹ میں لے لے گی، خواہ بہت سے افراد تمھارے درمیان ایسے موجود ہوں جو عملاً برائی کرنے اور برائی پھیلانے کے ذمہ دار نہ ہوں، بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھلائی ہی لیے ہوئے ہوں‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج 2، ص 138 -139)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اصولی ہدایت کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ: اللہ عزوجل خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا جب تک عامۃ الناس کی یہ حالت نہ ہوجائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے بُرے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہارِ ناراضی کرنے پر قادر ہوں اور پھر کوئی اظہارِ ناراضی نہ کریں۔ پس جب لوگوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو اللہ خاص و عام سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (مسنداحمد، 4 /192، مشکوٰۃ المصابیح)
اندریں حالات اس امر کو تسلیم کرنا ہوگا کہ گونگی شرافت، اپاہج نیکی اور جمود زدہ حیا کے لشکری اس سیلابِ بلا کو نہیں روک سکتے بلکہ اس مقصد کے لیے شرافت، نیکی اور حیا کی قوتوں کو منظم، فعال اور گروہی سطح سے بلند ہوکر چلنا پڑے گا۔*
سیکولر لابی کتنی انتہاپسند، ناشائستہ اور اشتعال انگیز زبان استعمال کرتی ہے، اس کا اندازہ ایک مثال سے ہوگا۔ ایک روشن خیال محققہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ لکھتی ہیں: جسم فروش طوائفیں اور جہادی درحقیقت ایک ساتھ چلتے اور ایک ہی نوعیت کے تصورات پیش کرتے ہیں۔ دونوں کے ہاں فروخت کے لیے ایک ہی سودا ہے۔ مراد یہ کہ طوائفیں اپنا جسم فروخت کرتی ہیں اور جہادی اپنی زندگی فروخت کرتے ہیں۔ (دی ڈیلی ٹائمز، لاہور، 25 دسمبر 2006ء)۔ ’روشن خیال‘ دانش ور ’غازی‘ صلاح الدین اسی حوالے سے اپنے مضمون کی سرخی جماتے ہیں: The Rape of Young Minds (نوجوان ذہنوں کا زنا بالجبر)۔ کسی تخصیص کے بغیر ان زن و مرد نے تمام ہی مجاہدوں (کشمیر،فلسطین، افغانستان، عراق ) کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا ہے اور زبان کی شائستگی، کیا کہنے!(
یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ بے حیائی کا تعلق اس وطن سے نہیں ہے۔ یہاں کے شہریوں کو بے حیائی کے مقابلے میں اجنبی بن کر رہنے کے بجاے، اس لعنت کے تمام ماڈلوں (مقامی، بھارتی، مغربی) کو دیس سے نکالنا ہوگا۔ اس جدوجہد کے لیے بنیادی ضرورت یہ ہے کہ پہلے ایمان اور شعور کا جذبہ بیدار اور قوی کیا جائے، پھر تنظیم اور دلیل کی قوت سے یہ مسئلہ حل کرنے کی تدبیر کی جائے۔



ہو سکتا ہے آپنے یہ اتنی لمبی تحریر غور سے نا پڑھی ہو یا ہو سکتا ہے آپکو اسمیں دلچسپی ہی نہ محسوس ہوئی ہو۔۔ کہ یہ شخص تو کوئی مولانا ہو گیا ہے اور ہو سکتا ہے میری کچھ بہنیں یہ کہیں کہ ایک اور جو عورت کی آزادی کو سلب کرنا چا ہتا ہے۔۔۔۔

میں ایک طالبعلم ہوں اور کل تک میرا بھی ماضی ایسا ہی تھا لیکن میں اپنا ماضی کی ان غلطیوں کو دھونا چاہتا ہوں اور اپنے دوسرے بہن بھائیوں کو بھی ان بیماریوں سے نکالنا چاہتا ہوں میں عورت کی آزادی کوسلب کرنے کے حق میں بلکل نہیں ہوں لیکن اس طرح کی آزادی کے حق میں نہیں ہوں ۔۔ میری بہنوں یہ آزادی نہیں ہے بلکہ مزید غلامی اور ایک ورت کی تذلیل ہے کہ اسکو ایک تفریح کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے ۔۔۔پورے پاکستان کی تمام بہنیں بیٹیاں مائیں میری ماں بہنیں ہیں۔۔۔ اور میری غیرت مجھے گوارا نہیں کرتی کہ میں اپنی ماں بیٹی کو تزلیل کا نشانہ بنتا دیکھوں ۔۔۔ عورت کے لیے بہت سے اچھے شعبے ہیں جس سے وہ ملک انسانیت کی خدمت کر سکتی ہے جیسے تعلیم، ڈاکٹر دستکاری اور ایسی بہت سے شعبے ہیں جہاں میری بہنیں اپنے ملک کی خدمت کرسکتی ہیں۔۔۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ
میرے ملک کی تمام بہنوں بیٹیوں کو اپنی خصوصی سائہ کریمی میں رکھے اور ان کے سروں پر فرشتوں کے پروں کا پردہ رکھے ۔۔۔۔۔

میری ماؤں بہنوں بیٹیوں نے اس ملک کے لیے اسلام کے لیے بہت سی قربانیا ں دی ہے کہ تاریخ میں ان کی مثالیں ملتی ہیں۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ میری آجی کی بہن اس ملک پاکستان اور مزہب اسلام کے لیے خصوصی جزبہ رکھتی ہیں ۔۔۔ اور میری ان بہنوں سے التماس ہے کہ برائے مہربانی اپنے ارد گرد ایسی بہنوں بیٹیوں کی حصلہ افزائی کی بجائے ان کی اصلاح کی کوشش کریں۔۔ اور بھائیوں سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی اب جاگ جائیے اس ملک اس دھرتی ماں کو آپ کی بہت ضرورت ہے خدارا اپنا آپ پہچانئے اور اس ملک اور اسلام کے لیے کچھ کیجے ورنہ ہمارے پاس پچھتانے کو بھی وقت نہ بچے۔۔

اگر کسی بہن بھائی کو میری تحریر میں کچھ برا لگا ہو اور یا کسی کی بھی دل آزاری ہوئی ہو میں اس سے معافی چاہتا ہوں۔۔۔۔

اللہ نگہبان

Our system is corrupt from the roots?

Well the islamic teachings tell us that in order to find solutions to problems we must use logic and start from the root of the problem.
We have problems of Loadshedding, food crisis, unemployment, inflation, balance of payment deficits. All these problems have the same roots so they are all related in a way and possible there is only one solution for all these problems.
In a democratic system anyone with the ability to work for his country can become prime minister but not in this country. Why because this is not a democracy its a plutocracy. In a plutocracy the people with money rule the country. In simple words if you do not have money you cant be prime minister or any minister. I have a few relatives who are MPAs, they offered my older brother to stand in elections but i was disgusted when I found out the precedure of elections here.

If you are looking for a MPA seat then you must hav about 1crore to 5crore rupees, you call this democracy. If I have 1crore rupees in my bank and i spend it on the election process and win, where will i get my 1 crore rupees back from? Obviously corruption, with this mindset and system how is it possible that our ministers will be worried about the problems this country is facing rather than worrying their investment in election.
They can not only recover the 1crore but lots more. 100% investment recover + many times more profit in 5 year time is one of the best business investment in world.
I think we need to change our system, the world is laughing at us. USA has a constitution of about 25-30 pages compared to indias 5000 pages. But personally I think the US constitution is a masterpiece theres alot that we can learn from it.

Pakistan's Vision

Pakistan's Vision




















پاکستان فظائیہ میں پہلا ستارہ جرات

آپ لوگ کیسے ہیں۔؟

آج ایک ایسے پاکستانی کے بارے میں آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں جس نے پاکستانی کی پیدائش کے وقت ہمت جرات کا بھرپور مظاہرہ کیا اور پاک فظائیہ کا پہلا ستارہ جرات کا تمغہ لیا۔۔
ان کا نام ہے مختار ڈوگر۔۔


اکتوبر 1947 کو ریاست کشمیر کے ہندو مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ ریارست کے الحاق کا اعلان کردیا اور دوسرے ہی دن ہندوستان کی فوجیں کشمیر میں داخل ہوگئیں۔ اس بات کی اطلاع ملتے ہی گلگت کے عوام نے پرچم آزادی بلند کیا اور ان کی درخواست پر حکومت پاکستان نے علاقے کے نظم و نسق کے لیے ایک پولیٹیکل ایجنٹ بھیج دیا۔ اس کے ساتھ ہی پونچھ اور میر پور کے علاقے میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم ہوگئی۔

بری فوج کے ساتھ ہندوستان کی فضائیہ نے بھی آزاد کشمیر کے مجاہدین پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور گلگت کا محاصرہ کرلیا گیا تاکہ یہ لوگ اپنےآپکو ہندوستان کے حوالے کردیں۔

اس وقت تک پاکستان کے حصے میں آنے والا سامان زیادہ تر ہندوستان میں ہی پھنسا ہوا تھا۔ پاک فضائیہ کے پاس اس وقت صرف 16 لڑاکا طیارے تھے جبکہ ہندوستان کے پاس کل 68 لڑاکا طیارے تھے۔

گلگت کے تمام علاقے اور آزاد کشمیر کے مجاہدین کے پاس رسد کی بے حد کمی تھی اور ان کو رسد پہنچانے کا فقط یہی ایک طریقہ تھا کہ ان کی ضرورت کی اشیاء کو ہوائی جہاز سے ان کے علاقے میں گرایا جائے۔ ان دنوں پاک فضائیہ کے پاس صرف دو ڈکوٹا جہاز پرواز کے قابل تھے۔ مدد کی درخواست ملتے ہی ان میں سے ایک ڈکوٹا جہاز کو رسالپور روانہ کردیا گیا۔
سپلائی گرانے کا جو کام اس جہاز کے عملے کو سونپا گیا وہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ جہاز دس ہزار فٹ کی بلندی سے اونچا پرواز نہیں کرسکتا تھا، اس لیے یہ مجاہدین کے علاقے میں واقع بلند و بالا پہاڑوں کے اوپر پرواز کرنے سے قاصر تھا لیکن 250،000 مجاہدین کو بے یار و مدد گار چھوڑا بھی نہیں جا سکتا تھا۔

ڈکوٹا جہاز کے لیے چلاس، بنجی، گلگت اور سکردو سپلائی گرانے کا صرف یہی راستہ تھا کہ جہاز 17000 فٹ پہاڑوں کے درمیان وادی انڈس میں دریائے سندھ کے اوپر پرواز کرے۔ اس راستے پر جہاز کے لیے راستہ اتنا تنگ تھا کہ موسم خراب ہونے کی صورت میں جہاز کے لیے اس محدود اور تنگ جگہ میں مڑنا اور واپس آنا قطعی محال تھا اور خدانخوستہ کسی ہنگامی حالت میں لینڈ کرنے کے لیے اس جگہ ہموار زمین کا ایک چپہ بھی میسر نہ تھا۔ ان جغرافیائی اور موسمیاتی خطرات کے ساتھ ساتھ ہندوستانی لڑاکا جہازوں سے مدبھیڑ کا بھی امکان موجود تھا۔

سپلائی گرانے کے لیے پہلی پرواز رسالپور سے دسمبر 1947 میں بھیجی گئی۔ جہاز میں چاول، گندم اور چینی کی ایک ایک من کی بوریاں رکھی تھیں۔ یہ جہاز کشمیری مجاہدین کے مورچوں کے قریب سامان رسد گرا کر کامیابی سے بہ خیریت واپس آگیا۔ اس کے بعد تو ایسی پروازوں کا تانتا لگ گیا۔ سپلائی گرانے کا عمل تمام موسم سرما جاری رہا اور 15 اپریل 1948 کو ختم ہوا۔ اس کے بعد اکتوبر 1948 سے یہ سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔
4 نومبر 1948 کو فلائنگ افسر مختار احمد ڈوگر سکردو کے قریب سپلائی گرا کر ڈکوٹا جہاز میں واپس آرہے تھے کہ چلاس کے قریب ان کا آمنا سامنا ہندوستانی فضائیہ کے دو (Tempest) لڑاکا جہازوں سے ہوگیا۔ مختار ڈوگر کے ساتھ جہاز میں فلائنگ افسر الفرڈ جگ جیون، پائلٹ افسر منیر، سارجنٹ محسن اور آرمی کے نائک محمد دین تھے۔

چلاس کے قریب وادی انڈس کوئی 4 یا 5 میل چوڑی ہے اور یہاں پر ہندوستانی جہازوں کے لیے حملہ کرنے کے لیے پینترا بدلنا بہت آسان تھا۔ شکار کو قابو میں دیکھ کر ایک لڑاکا جہاز کے پائلٹ نے مختار ڈوگر کو نزدیک ترین ہندوستانی ایئر فیلڈ پر اترنے کا حکم وائر لیس پر دیا۔ مختار ڈوگر کوئی جواب دیے بغیر جہاز کو نیچے اڑاتا ہوا ، دونوں انجنوں کی پوری طاقت استعمال کرتے ہوئے وادی کے تنگ حصے کی طرف پرواز کرتا رہا۔ دشمن نے تین دفعہ حملہ کرنے کی وارننگ دی اور اس کے بعد ایک لڑاکا جہاز ہوا میں بلند ہوا اور 20 ملی میٹر کی گولیوں سے ڈکوٹا جہاز کو چھلنی کردیا۔ اس حملے کے نتیجے میں نائک محمد دین ہلاک اور جگ جیون کا بازو زخمی ہوگیا۔

اب مختار ڈوگر نے سارجنٹ محسن سے کہا کہ وہ دشمن کے دونوں جہازوں پر نظر رکھے اور جونہی ان میں سے کوئی پیچھے سے حملہ کرنے کے لیے آئے تو وہ ان کو پاؤں سے ٹھڈا ماردیے۔ اس کے بعد دشمن نے تین بار اور حملہ کردیا اور ہر بار مختار ڈوگر نے بڑی پھرتی سے جہاز کا رخ بدل کر دشمن کے ہر وار کو خالی کرگیا۔

اب ڈکوٹا جہاز وادی انڈس کے انتہائی تنگ حصے میں پہنچ چکا تھا جہاں دشمن کے جہاز کا گھسنا محال تھا۔ یہاں پہنچ کر مختار ڈوگر نے وائر لیس پر پہلی بار حملہ آوروں کو مخاطب کرکے (غالباً پنجابی میں) کہا۔
"لالہ جی وہ وقت گذر گیا جب تم میرا کچھ بگاڑ سکتے تھے۔"


اس کے جواب میں ہندوستانی حملہ آوروں نے جہاز کے ونگ کی اسمارٹ جنبش سےمختار
ڈوگر کو سیلوٹ کیا اور اپنے اڈے کا رخ کرکے واپس چلے گئے۔
دشمن کا اس بہادری اور جرات سے مقابلہ کرنے پر فلائنگ افسر مختار احمد ڈوگر کو ستارہ جرات کا اعزاز دیا گیا

پاکستان کی تاریخ ایسے بہت سے عظیم ہیروز سے بھری ہوئی ہے انشااللہ وقتا فوقتاً آپ لوگوں سے شیر کراتا رہوں گا۔۔۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کو ہمیشہ اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے آمین

پاکستان زندہ باد

Fakhre pakistan amar afzal

APP MAIN SY BHUT SY LOG APNY IS HONHAR PAKISTANI KO JANTY HOUN GAIN


NAJANY HUM PAKSITANIOU KO HMYSHA APNY HONHAROU KI QDER DAIR SY Q HOTI HAI

اے قائد میں شرمندہ ہوں

اے قائد میں شرمندہ ہوں




اسلام و علیکم




جانے کیوں ہم اتنے بے حس ہیں۔۔۔آخر کیوں

کیا ہم ظالم نہیں ہیں۔۔۔کیا اب آپ کو احساس نہیں ہو رہا کہ ہم تمام لوگ خود غرض، ناشکرے ہیں۔۔۔
جس عظیم شخص نے اپنی زندگی کی تمام آسائشیں پس پشت ڈال کر، اپنا دن رات ایک کر کے۔۔۔ ہمارے لیے صرف ہمارے لیے ایک جنت کا ٹکڑا حاصل کیا ہے۔۔۔
کیا آپ کو پتہ ہے کہ اس عظیم شخص کو ۱۹۴۵ ہی معلوم ہو گیا تھا کہ وہ بیمار ہو گیا ہے اور کچھ ہی دنوں کا مہمان ہے۔۔۔ لیکن اس نے یہ بات ہر کسی سے چھپائی۔۔حتیٰ کے اپنی اتنی پیار کرنے والی بہن محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ سے بھی۔۔۔۔
انگریز کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ جناح اس دنیا میں چند دن کا مہمان ہے تو ہم کبھی بھی اتنی جلدی تقسیم نا کرتے اس معاملے کو تھوڑا آگے لے جاتے۔۔۔

لیکن افسوس ہم نے کیا کیا ہے؟
اس عظیم شخص کی اولاد آج کس حالت میں ہے آپ نے دیکھ ہی لیا۔۔۔۔
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے اس وقت سے لیکر آج تک آپ اس ملک کے جابر حکمرانوں کو دیکھئے اور ان کے عزیز و اقارب کو دیکھئے۔۔۔ وہ ایک سے بڑھ کر ایک اچھی زندگی گزار رہا ہے اور عیاشیا ں کر رہا ہے ۔۔۔

لیکن جس شخص نے اپنی ساری زندگی اس ملک کو وقف کر دی اس کی اولاد اس حالت میں ۔۔۔ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے۔۔۔ آخر ہم پر یہ آفتیں کیوں ناں آئیں ہم روتے ہیں ۔۔۔ کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا۔۔۔
اس ملک نے تو ہمیں بہت کچھ دیا۔۔۔ میرے قائد نے تو ہمیں نوجوان اور صحت مند ملک پاکستان دیا تھا۔۔۔ لیکن ہم نے اس پاکستان کو کیا دیا۔۔۔ یہ مجھ سمیت کوئی نہیں سوچتا۔۔۔ حالت یہ ہے کہ ہم اس کی اولاد کو ہی کچھ نا دے سکے۔۔۔
مجھ سے کچھ اور نہیں لکھا جا رہا۔۔۔۔

اللہ نگہبان

یا اللہ تو ہی ہمارے بے حس اور مردہ ضمیر حکمرانوں کو جگا ۔۔۔ اور ہمارے بھی سوئے ہوے ضمیروں کو روشنی دکھا۔۔۔آمین

آئے قائد میں شرمندہ ہوں۔۔۔ کہ میں تیری اولاد کے لیے کچھ نا کرسکا۔۔۔۔

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان

 

پیدائش: 1936ء

ڈاکٹرقدیر خان پاکستانی سائسندان۔ پاکستانی ایٹم بم کے خالق۔ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر قدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان آگئےـ ڈاکٹر خان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے مل کر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی ـ اس ادارے کا نام یکم مئی 1981ء کو جنرل ضیاءالحق نے تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

روایتی ہتھیار کا معائنہ کرتے ہوئےڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیںـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا تھاـ

مئی 1998ء میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی ـ ڈاکٹر قدیر خان کو وقت بوقت 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں ـ انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔

فاروق لغاری سے نشان امتیاز حاصل کرتے ہوئےچودہ اگست 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی انکو عطا کیا گیا

ڈاکٹر قدیر خان نےسیچٹ sachet ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہےـ

ڈاکٹر قدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہوئیں۔

Dunia Mai Hi Saza Mil gai

Dunia Mai Hi Saza Mil gai

Name:  Gold.jpg

Views: 209

Size:  571.8 KB

 

MQM ya Mukti bahni

MQM ya Mukti bahni

  

 

Ulma Chup Kyun Hein


Ulma Chup Kyun Hein



 

Sailkot Zulam ki Intaha Tow Brothers Killed

Name:  1274.jpg

Views: 130

Size:  70.9 KB

Sailkot Zulam ki Intaha Tow Brothers Killed

Name:  1043.gif

Views: 129

Size:  12.9 KB

Ilm Ke Samandar Ka Inteqal انا للہ وانا الیہ راجعون

Ilm Ke Samandar Ka Inteqal انا للہ وانا الیہ راجعون

 

Name:  Intaqal.jpg

Views: 256

Size:  70.2 KB
__________________

 

شہادت حسین اور اسکا تقاضہ

السلام و علیکم

واقعہ کربلا پر محترم مفتی منیب الرحمن صاحب کی بہترین تحریر۔

اے کاش ھم سب مسلمان صرف شور و شرابے کے بجاءے دین اسلام

کی اصل روح کو سمجھ سکیں اورتاریخ اسلام کے عظیم واقعہ؛

شہادت سیدنا امام حسین کے موقع پر بدعات کے بجاءے کربلا دنیا

میں کردار حسین ادا کرنے پر توجہ دیں؛

جیسے کشمیر و فلسطین؛ اور افغانستان و عراق سمیت پوری دنیا میں

مجاھدین اسلام معرکہ حق و باطل میں کردار حسین کے علمبدار ھیں۔