Monday, May 8, 2023

Biggest release of this year Super Punjabi is releasing Worldwide on 12th May 2023.


فلم سپر پنجابی پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریلیز کیلئے تیار   


Biggest release of this year Super Punjabi is releasing Worldwide on 12th May 2023.

The film will be released on 860+ Screens Worldwide in more than 17 countries. Written & Directed By: Abu Aleeha Produced By: Iftikhar Thakur & Safdar Malik.

مقامی انگریزی اخبار کے مطابق فلم کے پروڈیوسر افتخار ٹھاکر نے بتایا ہے کہ فلم کا دنیا بھر کے 860 اسکرینز پر پرمیئر کیا جائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ فلم باکس آفس پر دھوم مچا دےے گی۔

فلم کی کاسٹ میں محسن عباس، صائمہ بلوچ، ثنا، سلیم البیلا، قیصر پیا اور افتخار ٹھاکر شامل ہیں، فلم کے ہدایت کار ابو علیحہ اور پروڈیوسر افتخار ٹھاکر ہیں۔

فلم کے ٹریلر اور گانوں کی لانچنگ تقریب مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں فنکار برادری نے فلم کو سراہا اور فلمسازوں کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

نامور ہدایت کار شہزاد رفیق نے اس موقع پرکہا کہ یہ ایک تفریحی فلم ہے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ فلم باکس آفس پر دھوم مچائے گی۔

عرفان خان کی آخری فلم مرحوم کی تیسری برسی پر ریلیز کرنیکا اعلان

ڈان اخبار کے مطابق فلم کے رائٹر ناصر ادیب نے آنے والی فلم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا، کامیڈٰن آصف اقبال نے کہا کہ امید ہے کہ افتخار ٹھاکر مستقبل میں بھی مزید فلمیں بنائیں گے۔

بچے تو بچے ہوتے ہیں - دوستانہ ماحول ہی مناسب ہے

 


بچے تو بچے ہوتے ہیں انہیں جیسا ماحول ملتا ہے، اس میں ان کی شخصیت ڈھل جاتی ہے۔ بچوں کی کردار سازی اور ان کی نفسیات کے حوالے سے ماحول بہت گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ جس طرح تعلیم و تربیت انسانی روح کی بہت اہم غذائیں ہیں، اسی طرح ماحول بھی انسان کی نشوونما میں اہمیت کا حامل ہے۔

بچوں کی کردار سازی میں والدین کی تربیت اور انہیں مہیا کیا جانے والا ماحول سب سے زیادہ اہم کردار کرتا ہے۔ صاحب اولاد ہونے کی خواہش تو ہر والدین کرتے ہیں، لیکن بچوں کی کردار سازی کے سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔

والدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تربیت انسان سازی کا ہنر اور انسان کی پہچان ہی اس کی تربیت سے جھلکتی ہے۔ تربیت کا اصل مقصد انسان کی اچھائیوں کو ابھارنا اور اجاگر کرنا ہے۔ انسان کی تربیت میں ماحول کے کردار کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو بچوں کی کردار سازی کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیات پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔


بچوں کی نفسیات سے مراد بچوں کی فطرتیں ہیں، جو ان میں پیدائشی طور پر پائی جاتی ہیں، یہ فطرتیں قدرت کی عکاس ہوتی ہیں جنھیں تبدیل کرنے کے بہ جائے صحیح سمت دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور بچوں کی صحیح سمت میں تربیت کے لیے ان کی نفسیات کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے اولین شرط والدین کا اپنے بچوں سے قربت ہے اور اس قربت میں دوستانہ رویہ اور بے پناہ لگاؤ بھی ہو تو بچوں کی نفسیات کو سمجھنے میں والدین اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کر سکتے ہیں۔ والدین کا دوستانہ رویہ اور شفقت کا برتاؤ بچوں کی کردار سازی اور ان کی نفسیات پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کا ذہن کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے، بچہ جس جیسا ماحول پرورش پاتا ہے وہ اسی ماحول کا اثر قبول کرتا ہے۔ والدین جیسا ماحول بچے کو مہیا کرتے ہیں، وہ اسی ماحول کے مثبت منفی اثرات اپنے اندر پیدا کرتا ہے، جو اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

بچے اپنے ماحول میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو جو کرتا دیکھتے ہیں وہ بھی وہی طور طریقے اپنالیتے ہیں اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی شخصیت پر ماحول کا کتنا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ والدین کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ یہ ضرور دیکھیں کہ ان کے بچے کن لوگوں کے ساتھ میل جول رکھے ہوئے ہیں۔

بچوں کی کردار سازی میں جہاں ماحول اثر انداز ہوتا ہے وہیں والدین کا رویہ بھی اپنا گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ بچوں کی ابتدائی عمر ہر لحاظ سے خوب پھلنے پھولنے کی ہوتی ہے اس عمر میں بچوں کی نقل و حرکت پہ کڑی نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ دوستانہ رویہ بھی ضروری ہے۔ ایک سنہری کہاوت ہے کہ گھر میں بچوں کے اچھے دوست بن جائیں، تو بچے باہر کی بری دوستی سے بچ جاتے ہیں۔

سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کو گھر میں اچھا دوستانہ ماحول مہیا کریں، تاکہ آپ کے بچے بری صحبت اور ہر برائی سے دور رہیں۔ صرف وقت کی کمی اور بچوں سے دوستانہ تعلق کا نہ ہونا ہی وہ واحد مسئلہ ہے کہ بچے والدین سے اپنی بات کہتے ہوئے جھجھک اور ڈر محسوس کرتے ہیں اور اگر وہ اپنا مسئلہ والدین کو بتائیں تو اکثر والدین توجہ ہی نہیں دیتے۔ یوں بچے اپنے والدین سے دوری محسوس کرتے ہیں اور مسائل کا شکار رہتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ بچوں کو مکمل آزادی کسی صورت نہیں دینی چاہیے۔ والدین کا رعب بھی قائم رہنا چاہیے، مگر صرف اتنا جتنا ضروری ہے بلاوجہ کا رعب اور غصہ بچوں کو والدین سے دور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ والدین ہی بچوں کے سب سے اچھے اور گہرے دوست ہوتے ہیں۔ والد کا دوستانہ رویہ بیٹے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ بیٹا اپنی ہر بات اور اپنا ہر مسئلہ اپنے والد سے کر سکتا ہے۔

یوں اسے اپنا مسئلہ حل کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ والد اس کا مسئلہ جان کر اپنے بیٹے کو مناسب مشورہ دے کر اس کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں بلکہ باپ کو اپنی بیٹی کے ساتھ بھی اتنا دوستانہ رویہ اپنانا چاہیے کہ وہ بھی اپنے مسائل اپنے باپ سے کہہ سکے یعنی باپ کو اپنے بچوں کا دوست ہونا چاہیے۔

اسی طرح ایک ماں کو اپنی بیٹی کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بیٹیاں اپنے مسائل صرف اپنی ماں سے بہ آسانی کہہ سکے اس میں اسے کسی قسم کی کوئی جھجک نہ ہو۔ بچیاں جب بڑی ہونے لگتی ہیں، تو انھیں سب سے زیادہ اپنی ماں کی قربت اور دوستی کی ضرورت ہوتی ہے۔

ماں اور باپ دونوں کو بچوں کا دوست اور ہم درد ہونا چاہیے، تاکہ بچے بلاخوف ہر بات بتا سکیں۔ والدین چاہیے جتنا بھی دن بھر مصروف ہوں رات کو لازمی طور پر بچوں کو کچھ وقت دیں۔ ان سے دن بھر کی تمام مصروفیات کے بارے میں معلوم کریں۔ ان سے تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اس طرح بچوں کو والدین کی قربت کا احساس ہوگا اور وہ یہ جان سکیں گے کہ ان کے والدین ان کی کس قدر پروا کرتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔

گھر کا دوستانہ ماحول مہیا کرنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ یہ بات ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کس قسم کا ماحول اور کس قسم کی تعلیم اپنے بچوں کو دیتے ہیں۔ ابتدائی عمر سے لے کر انھیں شعور آجانے تک یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بچوں کو ایک اچھا ماحول دیں اور ان کی اچھی تربیت کریں، سب سے بڑھ کر والدین کی محبت بچوں کے لیے بچوں کی تعلیم و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

والدین اگر اپنے بچوں کے ساتھ جس شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آئیں گے، تبھی بچے بھی اسی طرح کی شفقت اور محبت اپنے اندر پیدا کر پائیں گے۔ وہ بچے انتہائی خوش قسمت ہوتے ہیں کہ جن کو گھر کا ماحول اچھا اور والدین کی محبت و شفقت سے بھرپور ملتا ہے اور یہ بچوں کی کردار سازی اور کام یاب زندگی کا اہم ضامن ہے۔

بچوں کو ایک اچھا انسان بنانے میں گھر کا ماحول سب سے اہم ترین عنصر ہے، جو بچے کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے ایک بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی اپنے والدین پر انحصار کرتا جو اس کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔

والدین ہی بچوں کے پہلے معلم ہوتے ہیں اور ان کے لیے رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ والدین ہی تو ہوتے ہیں جو بچوں کی ضروریات کا خیال رکھتے اور ان کو ہر اچھی بری بات بتاتے ہیں تاکہ بچے بڑے ہوکر معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو سکیں۔ بچوں کی کردار سازی میں بھی والدین ہی اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں اور انھیں ایک اعلیٰ ساز گار ماحول بھی والدین ہی مہیا کرتے ہیں جو ان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

والدین اگر یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کتنے کام یاب ہیں اور انھوں نے اپنے بچوں کی تربیت میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے تو اس کا اندازہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی کردار سازی کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں اگر بچے اخلاقی طور پر اچھے اور اچھے کردار کے حامل ہیں، تو یہ والدین کی اعلیٰ کام یابی ہے۔

ورنہ دوسری صورت میں ناکامی ان کا مقدر ہے، لہٰذا دوستانہ ماحول فراہم کرنا والدین کی اہم ترین ذمہ داری ہے، تاکہ بچے ایک اچھے ماحول میں پرورش پاسکیں اور بڑے ہو کر بااعتماد فرد بن کر خاندان اور معاشرے کے کام آسکیں۔


ویران اوردورترین جزیرے پر پرندے گننے کا معاوضہ ایک کروڑ روپے

 


دنیا کے بعید ترین اور ویران جزیرے پر پرندہ شماری کرنے والے کو 45000 کینیڈیائی ڈالر کی رقم دی جائے گی۔ فوٹو: فائل


  لندن: محکمہ جنگلات برطانیہ کو ایک ایسے رضاکار کی تلاش ہے جو دنیا کے بعید ترین اور آبادی سے بالکل پاک جزیرے پر کچھ وقت گزارسکے اور اس کے بدلے 45000 کینیڈا ڈالر کی رقم دی جائے گی جو پاکستانی روپوں میں 95 کروڑ روپے سے کچھ زائد بنتی ہے۔

برطانیہ کی رائل سوسائٹی برائے طیران (آرایس پی بی) ایک ایسے سائنس گریجویٹ کی تلاش میں ہے جو دوردراز اور ویران جزیرے ’گاف آئی لینڈ‘ میں جاکر پرندوں کو دیکھ سکے اور انہیں شمار کرسکے۔  دوسری شرط یہ ہے کہ پرندوں کو شمار کرنے والے تجربہ کار شخص کو ترجیح دی جائے گی۔


گاف آئی لینڈ اس وقت بھی برطانیہ کے زیرِ انتظام ہے جو جنوبی ایٹلانٹک میں واقع ہے اور افریقہ سے بھی 2400 کلومیٹر دور ہے۔ اس جزیرے پر کسی قسم کی کوئی باقاعدہ آبادی نہیں البتہ صرف سات افراد موجود ہیں جو اپنے اپنے لحاظ سے تحقیق کررہے ہیں۔ لیکن یہاں لگ بھگ 80 لاکھ سے زائد پرندے موجود ہیں۔

تاہم یہاں موسمیاتی شدت اور ناکافی سہولیات کی وجہ سے بہت طویل عرصے تک رکنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہر کو جزیرے پر خیمہ زن ہونے کے لیے خطیر رقم دی جارہی ہے۔

مسجد نبوی کے پاکستانی نژاد امام شیخ محمد بن خلیل انتقال کرگئے

 


امام مسجد نبوی شیخ محمد بن خلیل القاری کا تعلق مظفر آباد آزاد کشمیر سے تھا؛ فوٹو: فائل


مدینہ منورہ: مسجد نبوی میں تراویح پڑھانے والے امام شیخ محمد بن خلیل القاری اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے ان کی نماز جنازہ مسجد نبوی میں ادا کی جائے گی۔ 

عرب میڈیا کے مطابق شیخ محمد بن خلیل القاری  مسجد قبا مدینہ منورہ کے امام تھے اور مسجد نبوی میں تراویح کی امامت کی سعادت بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔ وہ آج مدینہ منورہ میں انتقال کرگئے۔


شیخ محمد بن خلیل القاری کا تعلق مظفر آباد آزاد کشمیر سے تھا۔ ان کی نماز جنازہ مسجد نبوی میں ادا کی جائے گی اور تدفن بھی مدینے میں ہی ہوگی۔ سعودی حکام نے قاری محمد بن خلیل کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مغفرت کی دعا کی ہے۔

شیخ محمد بن خلیل القاری کے والد شیخ خلیل القاری بھی سعودی عرب کے معروف قاریوں میں سے ایک تھے اور ان کے کئی شاگرد سعودی عرب کی مقدس مساجد میں امام کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔



آسٹریلوی شہری نے ایک گھنٹے میں سب سے زیادہ پُش اَپس کا عالمی ریکارڈ بنا دیا #fabulouspakistan

 


فوٹو: گنیز ورلڈ ریکارڈ

آسٹریلوی شہری نے ایک گھنٹے میں سب سے زیادہ پُش اَپس کا عالمی ریکارڈ بنا دیا۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ لوکاس ہیمکے نے ایک گھنٹے میں 3 ہزار 206 پُش اَپس لگا کر گنیز ورلڈ ریکارڈز کی کتاب میں اپنا نام درج کروا لیا۔

انہوں نے گزشتہ سال نومبر میں یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا تاہم اب انہیں گنیز ورلڈ ریکارڈز کی جانب سے باضابطہ طور پرایک گھنٹے میں سب سے زیادہ پُش اَپس لگانے کے اعزاز سے نوازا گیاہے۔ 

آسٹریلوی شہری نے ایک منٹ میں اوسطً 53 پُش اَپس لگائے، اس سے قبل ایک گھنٹے میں سب سے زیادہ پُش اَپس کا ریکارڈ بھی ایک آسٹریلوی شہری کے پاس تھا۔

  2022 میں ڈینیئل اسکالی نے ایک گھنٹے میں 3 ہزار 182پُش اَپس لگا کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔


کویت کا دنیا کی بلند ترین عمارت تعمیر کرنے کا منصوبہ

 


اس عمارت کا ممکنہ ڈیزائن ایسا ہوگا / فوٹو بشکریہ یاہو نیوز

جب بھی آپ دنیا کی بلند ترین عمارات کے بارے میں سوچتے ہوں گے تو ذہن میں پہلی تصویر دبئی میں موجود برج الخلیفہ کی ابھرتی ہوگی۔

اور ایسا کیوں نہ ہو آخر دنیا کی سب سے بلند عمارت کا اعزاز اس وقت برج الخلیفہ کے پاس ہے۔

مگر آنے والے برسوں میں دنیا کی بلند ترین عمارت کا اعزاز ایک اور عرب ملک کے پاس منتقل ہو سکتا ہے۔

جی ہاں کویت کی جانب سے دنیا کی بلند ترین عمارت کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

کویت کے نئے شہر مدينۃ الحرير میں برج مبارک الکبیر کے نام سے دنیا کی بلند ترین عمارت کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

اس شہر کی تعمیر 2023 میں مکمل ہونے کا امکان ہے۔

1001 میٹر بلند اس عمارت کی تعمیر پر اربوں ڈالرز خرچ ہوں گے اور اس کی تعمیر مکمل ہونے میں 25 سال لگ سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ برج الخلیفہ عمارت 828 میٹربلند ہے۔

ایک کلو میٹر بلند اس عمارت کا ڈیزائن اسپین کے آرکیٹیکٹ Santiago Calatrava تیار کریں گے۔

رپورٹس کے مطابق اس عمارت میں 234 منزلیں ہوں گی اور اس میں 7 ہزار افراد قیام کر سکیں گے۔

اس عمارت میں دفاتر، اپارٹمنٹس اور ہوٹل سمیت دیگر متعدد سہولیات دستیاب ہوں گی۔

خیال رہے کہ مدينۃ الحرير 250 اسکوئر کلومیٹر رقبے پر پھیلا شہر ہوگا جہاں 70 لاکھ افراد قیام کر سکیں گے۔

خلا سے دبئی کا خوبصورت نظارہ


فوٹو/ ٹوئٹر: خلا باز سلطان النیادی

دبئی کا شمار خوبصورت ممالک میں ہوتا  ہے جہاں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں لیکن اب خلا سے دبئی کی تصویر جاری کی گئی ہے جو دلکش منظر پیش کر رہی ہے۔

 ٹوئٹر پر متحدہ عرب امارات کے خلا باز سلطان النیادی کی جانب سے ایک تصویر جاری کی گئی ہے جس میں دبئی کا خلا سے خوبصورت منظر  دیکھا جاسکتا ہے۔

اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے خلا باز کی جانب سے کیپشن میں لکھا گیا کہ دبئی ستاروں کی طرح چمک رہا ہے۔


تصوریر میں دبئی کی پہچان پام جمیرہ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جبکہ روشن رہائشی علاقے بھی نظر آرہے ہیں۔

واضح رہےکہ متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے سلطان النیادی اس وقت بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے چھ ماہ کے خلائی مشن پر گئے ہوئے ہیں،  وہ عرب دنیا کے پہلے خلا باز ہیں۔


Saturday, May 6, 2023

Best Tips for Spending your life better ... زندگی میں بہتری لانے والے نسخے


زندگی میں بہتری لانے والے نسخے

©گلا خراب ہو اور آواز نہ نکل رہی ہوتو کچا امرود جلاکر کھالیں ©

پیٹ میں درد ہے پودینے کے پتے چبالیں ©

قے نہ رکے ایک چٹکی زیرہ پھانک لیں ©

سر میں خشکی ہے سرسوں کے تیل میں دہی یا انڈہ مکس کریں اور لگالیں۔۔۔ ©

سر میں جوئیں ہیں چنبیلی کا تیل لگائیں ©

پاوں میں درد ہے زیتون کا تیل لگائیں ©

ناف اترگئ ہے نیم گرم ناریل کا تیل ڈالیں ©

چوٹ لگی ہے خون روکنے کے لئے روئی کو ناریل کے تیل میں ڈبو کر لگائیں ©

کمزوری محسوس ہورہی ہے دو کجھور دودھ میں پکاکر ©

کھائیں اور دودھ پی بھی لیں۔۔۔۔ ©

عورتوں کو مخصوص ایام میں بے قاعدگی ہے تو دو کجھور کھالیں ©

گرمی بہت زیادہ لگتی ہے کھیرا کھائیں ©

سردی بہت لگتی ہے دیسی انڈے کھائیں اور چوزے کی یخنی بناکر پیں ©

پیشاپ کرنے میں جلن ہوتی ہے کچی لیسی نمک ڈال کر پیں یا خربوزہ و تربوز کھائیں ©

کھانے کے بعد بھاری پن محسوس ہوتا ہے لیمن کے قطرے پی لیں ©

موٹاپا کم کرنا ہوتو نہار منہ نیم گرم پانی پیں رنگ گورا کرنا ہے تو ابٹن میں عرق گلاب مکس کرکے چہرے ©پہ لگائیں 20 منٹ بعد چہرہ دھو لیں۔۔۔ ©

کان میں درد ہے سرسوں کے تیل میں لونگ جلائیں اور اسمیں روئی اوپر سے تر کرکے کان پہ لگالیں ©

آنکھوں کی روشنی تیز کرنی ہوتو گاجر کھائیں۔۔۔ ©یاداشت کمزور ہے تو بادام و اخروٹ کھائیں۔۔۔۔ ©

لوز موشن ہوتو کیلے پہ زیرہ لگاکر کھائی

ں. 

دلچسپ و عجیب - کچھ سادا اور آسان ٹوٹکے

The Pictures of Hania Aamir Redish Won Many Hearts

The Pictures of Hania Aamir Redish Won Many Hearts


Hania aamir


Hania Aamir is currently garnering a lot of attention and is making a big difference. She acknowledged every role she played, from Sang-e-Mah to Simple Humsafar, and as a result, she is swiftly rising to the top of the acting scene.


The charming romance story of Hala and Hamza and the on-screen science captured the attention of internet users. Simple Humsafar has unquestionably been the most popular television series in recent memory.










Azam Khan Son of Moin Khan Enjoy the Peak Days with some Friends

Azam Khan Son of Moin Khan Enjoy the Peak Days with some Friends

The son of former Pakistani cricketer Moin Khan, Azam Khan, has been savouring his youth with a select group of close friends. With his remarkable exploits, the 22-year-old wicketkeeper-batsman has been creating waves in the world of cricket. However, he also makes time to relax and have fun with his friends.


Azam has been posting images and videos of himself and his buddies engaging in activities like road trips and water sports on social media to give followers a taste of his exploits. 










Biography Munawar Zareef Actor, Comedian, First Comedy Hero of Film Industry

 Biography Munawar Zareef Actor, Comedian, First Comedy Hero of Film Industry 


25 دسمبر..... منور ظریف کا یوم پیدائش ہے۔
منور ظریف ایک پاکستانی کامیڈین اور فلمی اداکار تھے۔ وہ ایک ورسٹائل اداکار اور مزاحیہ اداکار تھے جو 1970 کی دہائی کے پاکستانی سنیما میں اپنے کام کے لیے مشہور تھے۔ ظریف کا شمار جنوبی ایشیا کے مشہور مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے مداحوں نے ان کا نام ’شہنشاہِ ظرافت‘ رکھا۔
وہ 25 دسمبر 1940 کو گوجرانوالہ، پنجاب، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک شریف گھرانے سے تھا۔ انہوں نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز 1961 میں پنجابی فلم ڈانڈیاں سے کیا اور 1964 میں فلم ہتھ جوری سے کامیابی حاصل کی۔ مزاحیہ اداکار کی حیثیت سے فلمی کیرئیر کے بعد وہ فلمی ہیرو بن گئے، فلم پردے میں رہنے دو میں بطور سائیڈ ہیرو۔ پھر اسی سال بنارسی ٹھگ اور جیرا بلیڈ میں ٹائٹل رول اور ہیرو۔ انہیں بہارو پھول برساؤ، زینت اور عشق دیوانہ میں ان کی شاندار کارکردگی پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ 1961-76 تک صرف 16 سالوں میں 280 سے زیادہ فلموں میں نظر آئے۔ وہ اپنی برجستگی ڈائیلاگ ڈیلیوری کے لیے بھی مشہور تھے۔ اکثر، وہ اتنا بہتر بناتے کہ ان کے ساتھی اداکاروں کو
ان کے ساتھ رہنے میں دشواری ہوتی۔


منور ظریف 25 دسمبر 1940 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے اور 29 اپریل 1976 کو دل کا دورہ پڑنے سے محض 36 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ 50 کی دہائی کے عظیم کامیڈین ظریف (محمد صدیق) کے چھوٹے بھائی تھے۔ ان کے بیٹے فیصل منور ظریف کو 90 کی دہائی میں پتر منور ظریف دا (1993) اور پتر جیری بلیڈ دا کے ساتھ دو فلموں میں بطور ہیرو متعارف کرایا گیا، لیکن وہ ناکام رہے۔ دیگر اداکار منیر ظریف، رشید ظریف اور مجید ظریف ان کے بھائی تھے۔
مجموعی طور پر وہ تقریبن 287 فلموں میں نظر آئے جن میں سے 66 اردو، 220 پنجابی فلمیں ہیں۔


ان کی فلموں کی فہرست یہ ہیں: دانڈیاں، اونچے محل، موج میلہ، نیلم، چاچا خامخواہ ڈاچی، جمیلہ، ولایت پاس، عورت کا پیار، واہ بھائی واہ، ہتھ جوڑی، تماشا، یہ جہاں والے، شوکن، ایک سی چور، پلپلی۔ صاحب، من موجی، جیدار، ملنگی، چغل خور، ہمراہی، بھائی جان، زمیندار، بھریا میلہ، سورما، لاڈو، بانکی نار ، کھیڈاں دے دن چار، مادر وطن، آینہ، ابا جی، جگری یار، یار مار، یاراں نال بہاراں، چاچا جی، منگیتر، اکبرا، زندہ لاش، دل دیوانہ، دشمن، شعلہ اور شبنم، جانی دشمن، بے رحم، دوست دشمن، مرزا جٹ، نیلی بار، میدان، پنڈ دی کڑی، سنگدل، چن مکھناں ، شہنشاہ جہانگیر، دو مٹیاراں، جگ بیتی، کُڑ مائی، بدلہ، دوسری شادی، میرا بابل، ایک سی ماں، دل دیا درد لیا، مہندی ، سسی پنوں ، عاشق، باو جی، جوانی مستانی، کنجوس، بیٹی بیٹا، موج بہار، چن چودھویں دا، سجن پیارا، تاج محل، سی آئی ڈی، اوکھا جٹ، نکی ہندیاں دا پیار، تم ہی ہو محبوب میرے ، پنچھی تے پردیسی، سو دن چور دا، درد، غیرت مند ، دیا اور طوفان، حیدر خان، ناجو، دلدار، لاچی، عشق نہ پچھے ذات ، جند جان، مکھڑا چن ورگا، تیرے عشق نچایا، پتھر تے لیک، دھی رانی، گبرو پت پنجاب دے، کونج وچھڑ گئی، جنٹر مین، دلہ حیدری، ڈھول سپاہی کوچوان، وچھوڑا، انوارہ، محلے دار، گڈو، سجنا دور دیاں، بھائی چارہ، یار تے پیار، آنسو بن گئے موتی، لارا لپا، دل دیاں لگیاں، چن سجنا، انسان اور آدمی، سوہنا مکھڑا تے اکھ مستانی، گل بکاولی ، ہیر رانجھا، بہادر کسان، رب دی شان، ہم لوگ، سیاں ، رنگیلا، رنگو جٹ، ات خدا دا ویر، بھولے شاہ، قادرہ، چھڑدا سورج، دنیا مطلب دی، ٹِکا ماتھے دا، شیر پتر، سچا سودا، صحرہ ، اصغرہ، دنیا پیسے دی ، راجہ رانی، حد بندی، پیار دے پلھیکے ، خاموش نگاہیں، اچا نہ پیار دا، آسو بلا، مالی، اچی حویلی، وحشی ، جٹ دا قول ، مستانہ ماہی، عشق بنا کی جینا، دل اور دنیا، خون دا رشتہ، سوہنا پتر، جیو جٹا، پہلوان جی ان لندن، جاپانی گڈی، دو پتر اناراں دے، ایک ڈولی دو کہار، خان چاچا، ایک پیار تے دو پرچھاواں۔ ، میری غیرت تیری عزت، اتھرو ایک مٹیار دے نے، زیلدار، بدلے گی دنیا ساتھی، ڈھول جوانیاں، میری محبت تیرے حوالے ، سوہنا جانی، سوہنی پھل پیار دے، میلے سجناں دے، سر دا سائیں، جاگدے رہنا، سجن دشمن، سجن بے پرواہ، بہارو پھول برساؤ، دولت تے غیرت ، مورچہ، ظلم دا بدلہ، سجن ملدے کدی کدی، پتر پنج دریاواں دا، سلطان، دو رنگیلے، جنگو، اتفاق، قاسو ، خون دا دریا، ضدی، آن، جیب کترا، جوانی دی ہوا، شیرو، ایک دھی پنجاب دی، سر ااچا سرداراں دا، پردے میں رہنے دو، چار خون دے پیاسے، نشان، جتھے وگدی آئے راوی، خدا تے ماں، شادو، ہے ایمان، ماں تے قانون، پنڈ دلیراں دا، آج دا ماہیوال، بالا گجر، وچھڑیا ساتھی، بنارسی ٹھگ، دامن اور چنگاری، خوشیا، رنگیلا اور منور ظریف، بہادرا، جھلی، جیرا بلیڈ، مسٹر 420، شہنشاہ، بڈھا شیر، نگری داتا دی ، زن زر تے زمین، بھولا سجن، بات پہنچی تیری جوانی تک، طوتا چشم، شیر تے دلیر، صبح کا تارا، بندے دا پتر منجھی کتھے ڈاھواں، رنگی، نمک حرام، نوکر وہٹی دا، سچا جھوٹا، ایماندار، مستانی محبوبہ، نیلام ، جوان میرے دیس دا، جرم تے نفرت، جواب دو، مس ہپی، ننھا فرشتہ، سستا خون مہنگا پانی، بھول، لمبے ہتھ قانون دے، چکر باز، ہسدے آو ہسدے جاو، نادر خان، ہیرا پھمن ، ماجھا ساجھا، نہ چھڑا سکو گے دامن، میرا نا پاٹے خان، پیار کا موسم، سندھ باد ، اے پگ میرے ویر دی، آج دی گل ، دھن جگرا ماں دا، ریشماں جوان ہو گئی، زینت، شریف بدمعاش، ایسار ، گڈی، بابل ڈاکو، اناڑی، شرارت، رجو، شیدا پستول، خونی، سجن کملا، شوکن میلے دی، نوکر، خوفناک، عیاش، حکم دا غلام، ماں صدقے ، داغ جانو کپتی، انجام، واردات، مان جوانی دا، چترا تے شیرا، گاما بی اے، ٹھگاں دے ٹھگ، کِل کل میرا ناں ، پتر تے قانون، ڈنکا، بیگناہ، نیا سورج، محبت مر نہیں سکتی، میرا نام راجو، لہو دے رشتے اور سجرہ پیار۔۔

Biography Tariq Aziz Actor, Host, Politician, Writer, Father Of Quiz Show in Pakistan

 



28 اپریل..... طارق عزیز کا یوم پیدائش ہے۔
طارق عزیز ایک پاکستانی فلمی اداکار اور ٹیلی ویژن کے میزبان ہیں جو کوئز شو نیلام گھر میں اپنے کام کے لیے مشہور ہیں، جو پہلی بار 1974 میں نشر ہوا، بعد میں اسے طارق عزیز شو کا نام دیا گیا اور اس کے بعد بزم طارق عزیز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ طارق عزیز 28 اپریل 1936 کو ساہیوال میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان جالندھر کا آرائیں خاندان ہے۔ ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے سے پہلے انہوں نے ابتدائی تعلیم ساہیوال میں حاصل کی۔ جب پاکستان نے 1964 میں لاہور سے ٹیلی ویژن کا آغاز کیا تو طارق عزیز پی ٹی وی کے پہلے مرد اناؤنسر تھے۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن (PTV) کی نشریات پر نظر آنے والے پہلے آدمی تھے۔ طارق عزیز نے فلمی اداکارہ زیبا کے ساتھ پاکستانی فلم "انسانیت (1967)" میں کام کیا۔ طارق عزیز نے ایک اور پاکستانی فلم ’’ہار گیا انسان‘‘ میں بھی کام کیا۔ عزیز کئی مقامی ٹیلی ویژن پروگراموں اور مارننگ شوز میں نمودار ہو چکے ہیں۔ اس نے خیراتی مقاصد کے لیے ٹیلی تھون کا بھی اہتمام کیا ہے۔ 1996 میں طارق عزیز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن کی حیثیت سے لاہور سے قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔
انہوں نے 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں متعدد پاکستانی فلموں میں سائیڈ رول میں بھی کام کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں سے ایک سالگرہ (1969) تھی جو ایک انتہائی کامیاب میوزیکل فلم تھی اور اس نے اس سال 2 نگار ایوارڈز جیتے تھے۔
وہ پہلے ٹی وی اینکرز میں سے ایک تھے جنہوں نے کوئز شو نیلام گھر/طارق عزیز شو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرکے تجارتی کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے اپنے شوز میں بہت سے قابل ذکر دانشوروں، کھلاڑیوں اور مشہور شخصیات کے انٹرویوز کئے۔ وہ حال ہی میں ایک بار مہمان کے طور پر حاضر ہوئے، اور پاکستان میں گیم شو انعام گھر میں تمام سوالات کے جوابات دیے، اور یہ کرنے والے پہلے آدمی بن گئے۔ اس نے یہ کام ان گیم شوز میں شرکا کو فراہم کی گئی مدد کے بغیر کیا۔ اس کے بعد اس نے گیم شو میں ملنے والے تمام انعامات ایک ایسی تنظیم کو عطیہ کر دیے جو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے۔
عزیز اپنے کالج کے زمانے میں طلبہ کی سیاست میں سرگرم تھے اور 1970 میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ 1996 میں، وہ ان سیاسی کارکنوں میں سے ایک تھے جن پر 1997 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت پر حملہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں، وہ اپنی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے۔ تاہم، وہ اس پارٹی میں قابل ذکر حیثیت حاصل نہیں کر سکے اور تفریحی صنعت میں واپس آ گئے۔ لیکن اس بار انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں ان کا کیریئر 1960، 1970 اور 1980 کی دہائیوں کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکا۔
عزیز ایک انسان دوست، کتاب سے محبت کرنے والے ہیں اور شاعری سنانے میں بھی اچھا کام کرتے ہیں۔ انہیں ان کی خدمات پر صدر پاکستان کی طرف سے 1992 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ وہ 36 پاکستانی فلموں میں نظر آئے۔

خاموش رہو، انسانیت، حکومت، دل دیوانہ، ہمراز،، روٹی، زندگی، کٹاری (بطور ہیرو) سونے کی چڑیا، میلہ، پرستان، سالگرہ، قسم اس وقت کی، کردار، پیا ملن کی آس، پرائی بیٹی، سوغات، افشاں چراغ کہاں روشنی کہاں، بازار، سوداگر، بے ایمان، زخمی، کبڑا عاشق، بہاروں کی منزل، اللہ میری توبہ، ایماندار۔ ساجن رنگ رنگیلا (بطور ہیرو)، ہار گیا انسان، بلونت کور، کالو، زندگی، نشانی، میں بنی دلہن، منجھی کتھے ڈھاواں ، اور مس ہانگ کانگ

Biography Kamal Ahmed Rizvi Known as Allan in Alif Noon Sitcom ......

 



یکم مئی.... کمال احمد رضوی کا یوم پیدائش ہے۔
کمال احمد رضوی ایک پاکستانی ٹیلی ویژن اداکار اور ڈرامہ نگار تھے۔ وہ بہار، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے اور کراچی، پاکستان میں وفات پائی۔ رضوی نے مزاحیہ سیریز الف نون (1981-82 ٹی وی سیزن) میں لکھا اور اداکاری کی، اور پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کیا۔
کمال احمد رضوی اور ان کا خاندان 1947 کے بعد بہار، برٹش انڈیا سے کراچی، پاکستان ہجرت کر گیا تھا۔ کراچی میں اپنے ابتدائی ایام میں، وہ آرام باغ کے علاقے میں ایک اپارٹمنٹ میں رہتے تھے، اس سے پہلے وہ اپنے آئیڈیل سعادت حسن منٹو و سے ملنے کے لیے لاہور چلے گئے، نامور افسانہ نگار۔ سعادت حسن منٹو جن کے ساتھ انہوں نے 1950 کی دہائی کے اوائل میں لاہور میں بہت قیمتی وقت گزارا، اور ان سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے تہزیب اور شمع جیسے مشہور ڈائجسٹوں کی تدوین میں اپنا ہاتھ آزمایا۔ انہوں نے سنیما کے ساتھ بھی قسمت آزمائی کی لیکن پھر اس کا پیچھا نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بجائے ریڈیو پاکستان سے منسلک ہونے کا انتخاب کیا۔
کمال احمد رضوی کو اپنی پہلی اداکاری کا موقع اس وقت ملا جب معروف پاکستانی اداکار ضیا محی الدین نے بی بی سی اردو سروس کے لیے شیکسپیئر کا ڈرامہ 'جولیس سیزر' اسٹیج کیا۔ اس نے اس کے لیے تھیٹر کے متعدد منصوبے شروع کرنے اور اس کے بعد ٹیلی ویژن کی راہ ہموار کی۔ یہاں، اس کی ملاقات ہارڈی (اداکار ننھا) سے اس کے لارل سے ہوئی (لاوریل خود کمال احمد رضوی نے ان کے مستقبل کے ٹی وی شوز میں ادا کیا)۔ اس اسٹینڈ اپ کامیڈی جوڑی نے 1980 کی دہائی میں اپنی مقبول ٹی وی کامیڈی سیریز کے ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن پر کئی سالوں تک راج کیا۔ کمال ایک سچا فنکار تھا کیونکہ اس نے کبھی بھی اسکرپٹ نہیں لکھا تھا اور اس سے متاثر ہوئے بغیر۔ وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ الہام نہ ہونے کی صورت میں جادو پیدا کرنا ناممکن ہے۔ کامیڈی اور طنز کے ذریعے معاشرے میں بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کے لیے ان کے کام کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔ وہ سعادت حسن منٹو کی طرح اپنے کام میں بہت بے باک اور نڈر تھے۔ ہمہ جہت رضوی ایک بہترین ادیب، ایک اچھے اسٹیج آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی حساس فرد اور ایک مکمل دانشور بھی تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن میں اپنے ابتدائی دنوں میں کمال رضوی نے لاہور کے عام لوگوں کے انٹرویوز کا ایک سلسلہ بھی کیا تھا جس میں ایک 'پان بیچنے والا' اور ایک کافی ہاؤس کا 'ویٹر' شامل تھا 1989 میں چلا۔ ، کمال احمد رضوی، جو ملک کے سب سے مشہور سیریل الف نون میں الف یعنی الن اور نون یعنی ننھا تھے ۔ کمال احمد رضوی 17 دسمبر 2015 کو 85 سال کی عمر میں کراچی میں طویل علالت کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ ان کا ایک ہی بیٹا جو کہ انکی پہلی بیوی، نزہت سے تھا۔ بیٹا عرصہ دراز سے امریکہ میں مقیم ہے۔ دوسری بیوی آمنہ کے ساتھ ان کی شادی کچھ ہی عرصے تک چلی کیونکہ وہ واپس جا کر ہندوستان میں آباد ہونا چاہتی تھی اور وہ پاکستان میں رہنا چاہتےتھے ۔ ان کی تیسری بیوی عشرت جہاں ہیں جو 17 دسمبر 2015 کو ان کی موت تک ان کے ساتھ تھیں۔ انہوں نے دو کتابیں بھی لکھی ہیں ایک کتاب کمال کی باتیں اور دوسری زندگی سے فائدہ اٹھائیں



Untold Story, Biography Living Legend Sohail Ahmed Known as Azizi ......

 


یکم مئی... سہیل احمد کا یوم پیدائش ہے۔
سہیل احمد کو خاص طور پر عزیزی کے طور پر جانا جاتا ہے، ایک پاکستانی کامیڈین اور اسٹیج اور ٹی وی اداکار ہیں۔ وہ لاہور میں مقیم کامیڈی اسٹیج ڈراموں کے لیے سب سے ممتاز ہیں۔ وہ گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے، ملت ہای اسکول گوجرانوالہ سے میٹرک کیا اور گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے گریجویشن کیا۔ سہیل احمد اسٹیج ڈراموں اور کاجمیڈی ڈراموں کے دوران غیر منصوبہ بند مکالمے استعمال کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ وہ سٹیج ڈراموں میں فحاشی اور عریانیت کے سخت مخالف ہیں۔ وہ متعدد اسٹیج ڈراموں کے مصنف اور ہدایت کار بھی ہیں۔ حال ہی میں جناب سہیل احمد نے اپنے آپ کو ایک غیر معمولی ہدایت کار ہونے کا ثبوت دیا ہے جب انہوں نے اپنا دوسرا ڈرامہ سیریل شام پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیا، جسے پاکستان کے معروف ڈرامہ نگار اور مختصر کہانی کے مصنف جناب اقبال حسن خان نے لکھا تھا۔ سہیل احمد مزاحیہ مشہور ٹاک شو حسب حال میں عزیزی کے طور پر بھی نظر آتے ہیں۔
سہیل احمد ایک انتہائی پڑھے لکھے اور سخت گھرانے میں پیدا ہوئے اور پرورش پائی۔ ان کے والد میاں محمد اکرم ڈی ایس پی گوجرانوالہ تھے جبکہ ان کے دادا ڈاکٹر فقیر محمد اپنے تحقیقی کام کی وجہ سے بابائے پنجاب کے نام سے مشہور انسان دوست تھے اور انہوں نے پنجابی میں 40 سے زائد کتابیں لکھیں جن میں اچھی طرح سے تحقیق کی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ وہ صوفی بابا بھلے شاہ اور وارث شاہ کی اصلی کہانیاں ہیں۔ ان کے تین بھائیوں نے تعلیم اور صحافت کو اپنے کیرئیر کے طور پر چنا لیکن سہیل احمد واحد تھے جنہوں نے اداکاری کو پیشے کے طور پر منتخب کیا۔ سہیل احمد کے مطابق ٹیلی ویژن سے ان کا پہلا تعارف ان کے دادا کے لیکچرز کی وجہ سے ہوا جس نے اپنے اندر رہنے والے اداکار کو مشتعل کردیا۔ وہ اپنے F.S.C کے پری میڈیکل امتحانات میں فیل ہو گئے تھے جس کی وجہ ان کی پہلی بار دیکھی گئی فلم تھی جس کا نام تھا "تخت یا تختہ"، فلم دیکھنے کے بعد انہوں نے اداکار بننے کا فیصلہ کیا اور اب تک انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
سہیل بطور اداکار پہلی بار گوجرانوالہ کے تھیٹر میں 1984 میں گوجرانوالہ شہر میں تھیٹر کے علمبردار "بابا شاہد اعجاز" کے ساتھ نظر آئے۔ اس شخص نے سہیل کو اداکاری اور کارکردگی کے بارے میں بہت کچھ سکھایا۔ اداکاری کے ساتھ انہوں نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اپنے بھائی کے اصرار پر سائنس چھوڑ کر بی کام اور پھر اردو میں آنرز کیا۔ سہیل نے سامعین کے رویے کی وجہ سے گوجرانوالہ تھیٹر چھوڑ دیا اور 1998 میں لاہور چلے گئے اور یہاں انہیں اپنے نئے استاد فخری احمد ملے جو ان دنوں لاہور سٹیج کی بڑی مچھلی تھے۔ سہیل کو پہلا مرکزی کردار پنجابی ڈرامے میں ملا جس کا نام "جمالہ
تے کمالا" تھا۔ یہ ڈرامہ کامیابی سے چلا اور سہیل لاہور تھیٹر کے لیے توجہ کا مرکز بن گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اتنی ہٹ ڈرامے دیں کہ ہر کوئی سہیل احمد کو جانتا ہے۔
اب ٹیلی ویژن کی طرف جانے کا وقت تھا، انہوں نے اپنے ٹی وی کیرئیر کا آغاز پی ٹی وی کے لیے "فشار" نامی سیریل سے کیا جہاں انہوں نے منفی کردار ادا کیے اور تھیٹر کی طرح اپنی پہلی پرفارمنس سے ہی وہ مقبول ہوئے اور معروف ٹی وی اسٹارز کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ تھیٹر اور ٹی وی کا تجربہ رکھنے کے بعد وہ دوبارہ فلم کے لیے گئے، ایک منفی کردار سے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا اور فلم ’’گوری دیاں جانجھراں‘‘ تھی جہاں سے انھیں ایک معروف پروڈیوسر کی جانب سے مرکزی کردار میں 10 فلموں کا معاہدہ کرنے کی پیشکش ہوئی لیکن اس کے لیے اسے تھیٹر چھوڑنا پڑا اس لیے اس نے تھیٹر کو اپنا جنون بتانے سے انکار کر دیا۔
سہیل احمد کا شمار ٹی وی اور اسٹیج کے سینئر ترین فنکاروں میں ہوتا ہے سہیل نے اپنے خاندان کے افراد میں سے پہلے اس شعبے میں قدم رکھ کر اپنی وراثت پیدا کی، انہوں نے جن ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کی ہے ان میں سے زیادہ تر پاکستان ٹیلی ویژن (PTV) پر نشر کیے گئے ہیں۔ . ان میں 'فشار'، 'شب دیگ'، 'عندلیب'، 'ملنگی'، 'من چلے کا سودا'، 'ہوم سویٹ ہوم' اور 'مشورہ مفت ہے'۔ سہیل نے نہ صرف خود کو ایک ہنر مند اداکار کے طور پر منوایا ہے بلکہ چند ڈراموں کی ہدایت کاری بھی کی ہے۔ ان کا ایک ڈرامہ بطور ہدایت کار 'شام' حال ہی میں اے ٹی وی پر نشر ہوا۔ انہیں 2011 میں پرائیڈ آف پرفارمنس اور 2013 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔
ان کی فلموں کی فہرست یہ ہیں: گوری دیاں جھانجھراں، جانگلوس، شرطیہ مٹھے، عمر مختار، پنجاب نہیں جاؤں گی، جوانی پھر نہیں آنی 2، دم مستم، لندن نہیں جاؤں گا، گھبرانا نہیں ہے، بے بی بھنگڑا پاوندے، ٹچ بٹن اور ہوے تم اجنبی۔
ان کے ٹی وی سیریلز کی فہرست یہ ہے۔ فشار ، حویلی، دن، شب دیگ، لارنس آف تھلبیہ، ایندھن، ریزہ ریزہ، ہوم سویٹ ہوم، غریبِ شہر، کاجل گھر، شہنشاہ، سسر ان لا، ملنگی، خریدار ، چوکی نمبر 420، ی
جدا ، شام، الو براہے فرخت نہیں، اور چوہدری اینڈ سنز۔



ان کے ٹیلی ویژن شوز کی فہرست: حسب حال اور پیروڈی پنچ ہیں۔

ان کے اسٹیج ڈراموں کی فہرست یہ ہیں:شرطیہ مٹھے، کالی چادر، امریکہ میں فیکا، کوٹھا، ایک تیرا صنم خانہ ، روٹی کھول دیو، بڑا مزہ آئے گا، ڈبل سواری، ٹوپی ڈرامہ، عاشقو غم نہ کرو، لڈی ہے جمالو، کچھ نہ کہو۔ سوئے لال، دیوانے مستانے، سوا سیر، سہیلی میری شوہر کی، لے جا ساقیہ، شاباش بیگم، کھڑکی کے پیچھے، سونے کی چڑیا، ہائے اوئے، کنگلے پروہنے، راجہ اب تو آجا، ہسی وندی دی ، ایک جھوٹ اور سہی، ونڈرفل ، سوہنی لگدی، کیچپ، راونگی بارات، دم دما دم، لو سپاٹ ، بابا کیبل، حاضر جناب، موقع ملے کدی کدی، تاج محل، ہای سپیڈ ، نو ٹینشن، بیگم مجھے عیدی دو، پاوں کا زیور، ولے مسروف، کون جیتا کون ہارا، پھولے بادشاہ، بابا بوری، منڈے نو سمجھاو، انوکھی دلہن، گرم گرم، نوکر صاحب، ریشماں جوان ہوگی، دل دا بوا، چیک پوسٹ، ہاٹ پاٹ، چائےبان، یہ بات اور ہے، مس پینو، انجانے لوگ ، دے جا سکھیا، خاندان دے کھڈونے۔