Saturday, January 15, 2011

پاکستان فظائیہ میں پہلا ستارہ جرات

آپ لوگ کیسے ہیں۔؟

آج ایک ایسے پاکستانی کے بارے میں آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں جس نے پاکستانی کی پیدائش کے وقت ہمت جرات کا بھرپور مظاہرہ کیا اور پاک فظائیہ کا پہلا ستارہ جرات کا تمغہ لیا۔۔
ان کا نام ہے مختار ڈوگر۔۔


اکتوبر 1947 کو ریاست کشمیر کے ہندو مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ ریارست کے الحاق کا اعلان کردیا اور دوسرے ہی دن ہندوستان کی فوجیں کشمیر میں داخل ہوگئیں۔ اس بات کی اطلاع ملتے ہی گلگت کے عوام نے پرچم آزادی بلند کیا اور ان کی درخواست پر حکومت پاکستان نے علاقے کے نظم و نسق کے لیے ایک پولیٹیکل ایجنٹ بھیج دیا۔ اس کے ساتھ ہی پونچھ اور میر پور کے علاقے میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم ہوگئی۔

بری فوج کے ساتھ ہندوستان کی فضائیہ نے بھی آزاد کشمیر کے مجاہدین پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور گلگت کا محاصرہ کرلیا گیا تاکہ یہ لوگ اپنےآپکو ہندوستان کے حوالے کردیں۔

اس وقت تک پاکستان کے حصے میں آنے والا سامان زیادہ تر ہندوستان میں ہی پھنسا ہوا تھا۔ پاک فضائیہ کے پاس اس وقت صرف 16 لڑاکا طیارے تھے جبکہ ہندوستان کے پاس کل 68 لڑاکا طیارے تھے۔

گلگت کے تمام علاقے اور آزاد کشمیر کے مجاہدین کے پاس رسد کی بے حد کمی تھی اور ان کو رسد پہنچانے کا فقط یہی ایک طریقہ تھا کہ ان کی ضرورت کی اشیاء کو ہوائی جہاز سے ان کے علاقے میں گرایا جائے۔ ان دنوں پاک فضائیہ کے پاس صرف دو ڈکوٹا جہاز پرواز کے قابل تھے۔ مدد کی درخواست ملتے ہی ان میں سے ایک ڈکوٹا جہاز کو رسالپور روانہ کردیا گیا۔
سپلائی گرانے کا جو کام اس جہاز کے عملے کو سونپا گیا وہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ جہاز دس ہزار فٹ کی بلندی سے اونچا پرواز نہیں کرسکتا تھا، اس لیے یہ مجاہدین کے علاقے میں واقع بلند و بالا پہاڑوں کے اوپر پرواز کرنے سے قاصر تھا لیکن 250،000 مجاہدین کو بے یار و مدد گار چھوڑا بھی نہیں جا سکتا تھا۔

ڈکوٹا جہاز کے لیے چلاس، بنجی، گلگت اور سکردو سپلائی گرانے کا صرف یہی راستہ تھا کہ جہاز 17000 فٹ پہاڑوں کے درمیان وادی انڈس میں دریائے سندھ کے اوپر پرواز کرے۔ اس راستے پر جہاز کے لیے راستہ اتنا تنگ تھا کہ موسم خراب ہونے کی صورت میں جہاز کے لیے اس محدود اور تنگ جگہ میں مڑنا اور واپس آنا قطعی محال تھا اور خدانخوستہ کسی ہنگامی حالت میں لینڈ کرنے کے لیے اس جگہ ہموار زمین کا ایک چپہ بھی میسر نہ تھا۔ ان جغرافیائی اور موسمیاتی خطرات کے ساتھ ساتھ ہندوستانی لڑاکا جہازوں سے مدبھیڑ کا بھی امکان موجود تھا۔

سپلائی گرانے کے لیے پہلی پرواز رسالپور سے دسمبر 1947 میں بھیجی گئی۔ جہاز میں چاول، گندم اور چینی کی ایک ایک من کی بوریاں رکھی تھیں۔ یہ جہاز کشمیری مجاہدین کے مورچوں کے قریب سامان رسد گرا کر کامیابی سے بہ خیریت واپس آگیا۔ اس کے بعد تو ایسی پروازوں کا تانتا لگ گیا۔ سپلائی گرانے کا عمل تمام موسم سرما جاری رہا اور 15 اپریل 1948 کو ختم ہوا۔ اس کے بعد اکتوبر 1948 سے یہ سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔
4 نومبر 1948 کو فلائنگ افسر مختار احمد ڈوگر سکردو کے قریب سپلائی گرا کر ڈکوٹا جہاز میں واپس آرہے تھے کہ چلاس کے قریب ان کا آمنا سامنا ہندوستانی فضائیہ کے دو (Tempest) لڑاکا جہازوں سے ہوگیا۔ مختار ڈوگر کے ساتھ جہاز میں فلائنگ افسر الفرڈ جگ جیون، پائلٹ افسر منیر، سارجنٹ محسن اور آرمی کے نائک محمد دین تھے۔

چلاس کے قریب وادی انڈس کوئی 4 یا 5 میل چوڑی ہے اور یہاں پر ہندوستانی جہازوں کے لیے حملہ کرنے کے لیے پینترا بدلنا بہت آسان تھا۔ شکار کو قابو میں دیکھ کر ایک لڑاکا جہاز کے پائلٹ نے مختار ڈوگر کو نزدیک ترین ہندوستانی ایئر فیلڈ پر اترنے کا حکم وائر لیس پر دیا۔ مختار ڈوگر کوئی جواب دیے بغیر جہاز کو نیچے اڑاتا ہوا ، دونوں انجنوں کی پوری طاقت استعمال کرتے ہوئے وادی کے تنگ حصے کی طرف پرواز کرتا رہا۔ دشمن نے تین دفعہ حملہ کرنے کی وارننگ دی اور اس کے بعد ایک لڑاکا جہاز ہوا میں بلند ہوا اور 20 ملی میٹر کی گولیوں سے ڈکوٹا جہاز کو چھلنی کردیا۔ اس حملے کے نتیجے میں نائک محمد دین ہلاک اور جگ جیون کا بازو زخمی ہوگیا۔

اب مختار ڈوگر نے سارجنٹ محسن سے کہا کہ وہ دشمن کے دونوں جہازوں پر نظر رکھے اور جونہی ان میں سے کوئی پیچھے سے حملہ کرنے کے لیے آئے تو وہ ان کو پاؤں سے ٹھڈا ماردیے۔ اس کے بعد دشمن نے تین بار اور حملہ کردیا اور ہر بار مختار ڈوگر نے بڑی پھرتی سے جہاز کا رخ بدل کر دشمن کے ہر وار کو خالی کرگیا۔

اب ڈکوٹا جہاز وادی انڈس کے انتہائی تنگ حصے میں پہنچ چکا تھا جہاں دشمن کے جہاز کا گھسنا محال تھا۔ یہاں پہنچ کر مختار ڈوگر نے وائر لیس پر پہلی بار حملہ آوروں کو مخاطب کرکے (غالباً پنجابی میں) کہا۔
"لالہ جی وہ وقت گذر گیا جب تم میرا کچھ بگاڑ سکتے تھے۔"


اس کے جواب میں ہندوستانی حملہ آوروں نے جہاز کے ونگ کی اسمارٹ جنبش سےمختار
ڈوگر کو سیلوٹ کیا اور اپنے اڈے کا رخ کرکے واپس چلے گئے۔
دشمن کا اس بہادری اور جرات سے مقابلہ کرنے پر فلائنگ افسر مختار احمد ڈوگر کو ستارہ جرات کا اعزاز دیا گیا

پاکستان کی تاریخ ایسے بہت سے عظیم ہیروز سے بھری ہوئی ہے انشااللہ وقتا فوقتاً آپ لوگوں سے شیر کراتا رہوں گا۔۔۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کو ہمیشہ اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے آمین

پاکستان زندہ باد

No comments:

Post a Comment