Saturday, January 15, 2011

Our system is corrupt from the roots?

Well the islamic teachings tell us that in order to find solutions to problems we must use logic and start from the root of the problem.
We have problems of Loadshedding, food crisis, unemployment, inflation, balance of payment deficits. All these problems have the same roots so they are all related in a way and possible there is only one solution for all these problems.
In a democratic system anyone with the ability to work for his country can become prime minister but not in this country. Why because this is not a democracy its a plutocracy. In a plutocracy the people with money rule the country. In simple words if you do not have money you cant be prime minister or any minister. I have a few relatives who are MPAs, they offered my older brother to stand in elections but i was disgusted when I found out the precedure of elections here.

If you are looking for a MPA seat then you must hav about 1crore to 5crore rupees, you call this democracy. If I have 1crore rupees in my bank and i spend it on the election process and win, where will i get my 1 crore rupees back from? Obviously corruption, with this mindset and system how is it possible that our ministers will be worried about the problems this country is facing rather than worrying their investment in election.
They can not only recover the 1crore but lots more. 100% investment recover + many times more profit in 5 year time is one of the best business investment in world.
I think we need to change our system, the world is laughing at us. USA has a constitution of about 25-30 pages compared to indias 5000 pages. But personally I think the US constitution is a masterpiece theres alot that we can learn from it.

Pakistan's Vision

Pakistan's Vision




















پاکستان فظائیہ میں پہلا ستارہ جرات

آپ لوگ کیسے ہیں۔؟

آج ایک ایسے پاکستانی کے بارے میں آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں جس نے پاکستانی کی پیدائش کے وقت ہمت جرات کا بھرپور مظاہرہ کیا اور پاک فظائیہ کا پہلا ستارہ جرات کا تمغہ لیا۔۔
ان کا نام ہے مختار ڈوگر۔۔


اکتوبر 1947 کو ریاست کشمیر کے ہندو مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ ریارست کے الحاق کا اعلان کردیا اور دوسرے ہی دن ہندوستان کی فوجیں کشمیر میں داخل ہوگئیں۔ اس بات کی اطلاع ملتے ہی گلگت کے عوام نے پرچم آزادی بلند کیا اور ان کی درخواست پر حکومت پاکستان نے علاقے کے نظم و نسق کے لیے ایک پولیٹیکل ایجنٹ بھیج دیا۔ اس کے ساتھ ہی پونچھ اور میر پور کے علاقے میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم ہوگئی۔

بری فوج کے ساتھ ہندوستان کی فضائیہ نے بھی آزاد کشمیر کے مجاہدین پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور گلگت کا محاصرہ کرلیا گیا تاکہ یہ لوگ اپنےآپکو ہندوستان کے حوالے کردیں۔

اس وقت تک پاکستان کے حصے میں آنے والا سامان زیادہ تر ہندوستان میں ہی پھنسا ہوا تھا۔ پاک فضائیہ کے پاس اس وقت صرف 16 لڑاکا طیارے تھے جبکہ ہندوستان کے پاس کل 68 لڑاکا طیارے تھے۔

گلگت کے تمام علاقے اور آزاد کشمیر کے مجاہدین کے پاس رسد کی بے حد کمی تھی اور ان کو رسد پہنچانے کا فقط یہی ایک طریقہ تھا کہ ان کی ضرورت کی اشیاء کو ہوائی جہاز سے ان کے علاقے میں گرایا جائے۔ ان دنوں پاک فضائیہ کے پاس صرف دو ڈکوٹا جہاز پرواز کے قابل تھے۔ مدد کی درخواست ملتے ہی ان میں سے ایک ڈکوٹا جہاز کو رسالپور روانہ کردیا گیا۔
سپلائی گرانے کا جو کام اس جہاز کے عملے کو سونپا گیا وہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ جہاز دس ہزار فٹ کی بلندی سے اونچا پرواز نہیں کرسکتا تھا، اس لیے یہ مجاہدین کے علاقے میں واقع بلند و بالا پہاڑوں کے اوپر پرواز کرنے سے قاصر تھا لیکن 250،000 مجاہدین کو بے یار و مدد گار چھوڑا بھی نہیں جا سکتا تھا۔

ڈکوٹا جہاز کے لیے چلاس، بنجی، گلگت اور سکردو سپلائی گرانے کا صرف یہی راستہ تھا کہ جہاز 17000 فٹ پہاڑوں کے درمیان وادی انڈس میں دریائے سندھ کے اوپر پرواز کرے۔ اس راستے پر جہاز کے لیے راستہ اتنا تنگ تھا کہ موسم خراب ہونے کی صورت میں جہاز کے لیے اس محدود اور تنگ جگہ میں مڑنا اور واپس آنا قطعی محال تھا اور خدانخوستہ کسی ہنگامی حالت میں لینڈ کرنے کے لیے اس جگہ ہموار زمین کا ایک چپہ بھی میسر نہ تھا۔ ان جغرافیائی اور موسمیاتی خطرات کے ساتھ ساتھ ہندوستانی لڑاکا جہازوں سے مدبھیڑ کا بھی امکان موجود تھا۔

سپلائی گرانے کے لیے پہلی پرواز رسالپور سے دسمبر 1947 میں بھیجی گئی۔ جہاز میں چاول، گندم اور چینی کی ایک ایک من کی بوریاں رکھی تھیں۔ یہ جہاز کشمیری مجاہدین کے مورچوں کے قریب سامان رسد گرا کر کامیابی سے بہ خیریت واپس آگیا۔ اس کے بعد تو ایسی پروازوں کا تانتا لگ گیا۔ سپلائی گرانے کا عمل تمام موسم سرما جاری رہا اور 15 اپریل 1948 کو ختم ہوا۔ اس کے بعد اکتوبر 1948 سے یہ سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔
4 نومبر 1948 کو فلائنگ افسر مختار احمد ڈوگر سکردو کے قریب سپلائی گرا کر ڈکوٹا جہاز میں واپس آرہے تھے کہ چلاس کے قریب ان کا آمنا سامنا ہندوستانی فضائیہ کے دو (Tempest) لڑاکا جہازوں سے ہوگیا۔ مختار ڈوگر کے ساتھ جہاز میں فلائنگ افسر الفرڈ جگ جیون، پائلٹ افسر منیر، سارجنٹ محسن اور آرمی کے نائک محمد دین تھے۔

چلاس کے قریب وادی انڈس کوئی 4 یا 5 میل چوڑی ہے اور یہاں پر ہندوستانی جہازوں کے لیے حملہ کرنے کے لیے پینترا بدلنا بہت آسان تھا۔ شکار کو قابو میں دیکھ کر ایک لڑاکا جہاز کے پائلٹ نے مختار ڈوگر کو نزدیک ترین ہندوستانی ایئر فیلڈ پر اترنے کا حکم وائر لیس پر دیا۔ مختار ڈوگر کوئی جواب دیے بغیر جہاز کو نیچے اڑاتا ہوا ، دونوں انجنوں کی پوری طاقت استعمال کرتے ہوئے وادی کے تنگ حصے کی طرف پرواز کرتا رہا۔ دشمن نے تین دفعہ حملہ کرنے کی وارننگ دی اور اس کے بعد ایک لڑاکا جہاز ہوا میں بلند ہوا اور 20 ملی میٹر کی گولیوں سے ڈکوٹا جہاز کو چھلنی کردیا۔ اس حملے کے نتیجے میں نائک محمد دین ہلاک اور جگ جیون کا بازو زخمی ہوگیا۔

اب مختار ڈوگر نے سارجنٹ محسن سے کہا کہ وہ دشمن کے دونوں جہازوں پر نظر رکھے اور جونہی ان میں سے کوئی پیچھے سے حملہ کرنے کے لیے آئے تو وہ ان کو پاؤں سے ٹھڈا ماردیے۔ اس کے بعد دشمن نے تین بار اور حملہ کردیا اور ہر بار مختار ڈوگر نے بڑی پھرتی سے جہاز کا رخ بدل کر دشمن کے ہر وار کو خالی کرگیا۔

اب ڈکوٹا جہاز وادی انڈس کے انتہائی تنگ حصے میں پہنچ چکا تھا جہاں دشمن کے جہاز کا گھسنا محال تھا۔ یہاں پہنچ کر مختار ڈوگر نے وائر لیس پر پہلی بار حملہ آوروں کو مخاطب کرکے (غالباً پنجابی میں) کہا۔
"لالہ جی وہ وقت گذر گیا جب تم میرا کچھ بگاڑ سکتے تھے۔"


اس کے جواب میں ہندوستانی حملہ آوروں نے جہاز کے ونگ کی اسمارٹ جنبش سےمختار
ڈوگر کو سیلوٹ کیا اور اپنے اڈے کا رخ کرکے واپس چلے گئے۔
دشمن کا اس بہادری اور جرات سے مقابلہ کرنے پر فلائنگ افسر مختار احمد ڈوگر کو ستارہ جرات کا اعزاز دیا گیا

پاکستان کی تاریخ ایسے بہت سے عظیم ہیروز سے بھری ہوئی ہے انشااللہ وقتا فوقتاً آپ لوگوں سے شیر کراتا رہوں گا۔۔۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کو ہمیشہ اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے آمین

پاکستان زندہ باد

Fakhre pakistan amar afzal

APP MAIN SY BHUT SY LOG APNY IS HONHAR PAKISTANI KO JANTY HOUN GAIN


NAJANY HUM PAKSITANIOU KO HMYSHA APNY HONHAROU KI QDER DAIR SY Q HOTI HAI

اے قائد میں شرمندہ ہوں

اے قائد میں شرمندہ ہوں




اسلام و علیکم




جانے کیوں ہم اتنے بے حس ہیں۔۔۔آخر کیوں

کیا ہم ظالم نہیں ہیں۔۔۔کیا اب آپ کو احساس نہیں ہو رہا کہ ہم تمام لوگ خود غرض، ناشکرے ہیں۔۔۔
جس عظیم شخص نے اپنی زندگی کی تمام آسائشیں پس پشت ڈال کر، اپنا دن رات ایک کر کے۔۔۔ ہمارے لیے صرف ہمارے لیے ایک جنت کا ٹکڑا حاصل کیا ہے۔۔۔
کیا آپ کو پتہ ہے کہ اس عظیم شخص کو ۱۹۴۵ ہی معلوم ہو گیا تھا کہ وہ بیمار ہو گیا ہے اور کچھ ہی دنوں کا مہمان ہے۔۔۔ لیکن اس نے یہ بات ہر کسی سے چھپائی۔۔حتیٰ کے اپنی اتنی پیار کرنے والی بہن محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ سے بھی۔۔۔۔
انگریز کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ جناح اس دنیا میں چند دن کا مہمان ہے تو ہم کبھی بھی اتنی جلدی تقسیم نا کرتے اس معاملے کو تھوڑا آگے لے جاتے۔۔۔

لیکن افسوس ہم نے کیا کیا ہے؟
اس عظیم شخص کی اولاد آج کس حالت میں ہے آپ نے دیکھ ہی لیا۔۔۔۔
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے اس وقت سے لیکر آج تک آپ اس ملک کے جابر حکمرانوں کو دیکھئے اور ان کے عزیز و اقارب کو دیکھئے۔۔۔ وہ ایک سے بڑھ کر ایک اچھی زندگی گزار رہا ہے اور عیاشیا ں کر رہا ہے ۔۔۔

لیکن جس شخص نے اپنی ساری زندگی اس ملک کو وقف کر دی اس کی اولاد اس حالت میں ۔۔۔ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے۔۔۔ آخر ہم پر یہ آفتیں کیوں ناں آئیں ہم روتے ہیں ۔۔۔ کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا۔۔۔
اس ملک نے تو ہمیں بہت کچھ دیا۔۔۔ میرے قائد نے تو ہمیں نوجوان اور صحت مند ملک پاکستان دیا تھا۔۔۔ لیکن ہم نے اس پاکستان کو کیا دیا۔۔۔ یہ مجھ سمیت کوئی نہیں سوچتا۔۔۔ حالت یہ ہے کہ ہم اس کی اولاد کو ہی کچھ نا دے سکے۔۔۔
مجھ سے کچھ اور نہیں لکھا جا رہا۔۔۔۔

اللہ نگہبان

یا اللہ تو ہی ہمارے بے حس اور مردہ ضمیر حکمرانوں کو جگا ۔۔۔ اور ہمارے بھی سوئے ہوے ضمیروں کو روشنی دکھا۔۔۔آمین

آئے قائد میں شرمندہ ہوں۔۔۔ کہ میں تیری اولاد کے لیے کچھ نا کرسکا۔۔۔۔

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان

 

پیدائش: 1936ء

ڈاکٹرقدیر خان پاکستانی سائسندان۔ پاکستانی ایٹم بم کے خالق۔ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر قدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان آگئےـ ڈاکٹر خان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے مل کر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں شمولیت اختیار کی ـ اس ادارے کا نام یکم مئی 1981ء کو جنرل ضیاءالحق نے تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

روایتی ہتھیار کا معائنہ کرتے ہوئےڈاکٹر قدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام اور کتابوں میں موجود ہیںـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیا تھاـ

مئی 1998ء میں پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا۔ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی ـ ڈاکٹر قدیر خان کو وقت بوقت 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں ـ انیس سو ترانوے میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند دی تھی۔

فاروق لغاری سے نشان امتیاز حاصل کرتے ہوئےچودہ اگست 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی انکو عطا کیا گیا

ڈاکٹر قدیر خان نےسیچٹ sachet ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہےـ

ڈاکٹر قدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہوئیں۔

Dunia Mai Hi Saza Mil gai

Dunia Mai Hi Saza Mil gai

Name:  Gold.jpg

Views: 209

Size:  571.8 KB