شاعر شمسی مینا
سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا
بارش ہے افسروں کی، تو دفتر گلی گلی
شاعر، ادیب، اور سخنور گلی گلی
سقراط دربدر ہیں، سکندر گلی گلی
سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا
حاکم ہیں ایسے کہ دیش کا قانون توڑ دیں
رشوت ملے تو قتل کے مجرم بھی چھوڑ دیں
نگراں، جو ملزمان کی آنکھیں بھی پھوڑ دیں
سرجن ہیں ایسے، پیٹ میں اوزار چھوڑ دیں
سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا
ہر قسم کی جدید عمارت ہمارے پاس
ہر ایک پردہ دار تجارت ہمارے پاس
اپنوں کو لوٹنے کی جسارت ہمارے پاس
کھیلوں میں ہارنے کی مہارت ہمارے پاس
سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا
ہر کام چل رہا ہے یہاں پر بیان سے
سرکار کے ستون تو رہتے ہیں شان سے
قرضہ تو مل رہا ہے ہمیں ہر دُکان سے
خیرات آ رہی ہے بڑی آن بان سے
سب کچھ ہے اپنے دیس میں، روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لو، لنگوٹی نہیں تو کیا
یہ نور کا نہیں تو سیاہی کا طور ہے
ہر جھوٹ ہر گناہ کا ہم کو شعور ہے
دنیا کے اور دیسوں کو دھن پہ غرور ہے
فنِ گداگری پر ہمیں بھی عبور ہے
سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا
جنتا سے کہہ دو شور مچانا فضول ہے
تکلیف کا بیان سنانا فضول ہے
شاہانِ قوم کو تو ستانا فضول ہے
سوتے ہیں سُکھ کی نیند جگانا فضول ہے
سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لو جو لنگوٹی نہیں تو کیا
شاعر شمسی مینائ
No comments:
Post a Comment