کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی دو قبریں ہیں؟
یہ بات تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ مفکرِ پاکستان، شاعرِ مشرق، علامہ محمد اقبال (رح) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور اُن کی آخری آرام گاہ لاہور میں ہے۔ اُن کا مزار بادشاہی مسجد اور قلعہ لاہور کے درمیان حضوری باغ میں واقع ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ نے وہاں حاضری بھی دی ہو۔ لیکن کیا آپ کو یہ بھی پتا ہے کہ علامہ صاحب کی ایک قبر ترکی میں بھی واقع ہے؟
اگر نہیں پتا تو پھر سنیے! حضرت علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ کا جسد تو لاہور ہی میں دفن ہے، لیکن ترکی کے شہر قونیہ میں بھی اُن کی ایک علامتی قبر موجود ہے۔ حضرت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے نواح میں ایک علامتی قبر پر علامہ صاحب کی تختی لگی ہے.
قونیہ آج بھی ترکی کا سب سے زیادہ مذہبی شہر ہے بلکہ اسے ملک میں "اسلام کا قلعہ” کہا جاتا ہے۔
حضرت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ 13 ویں صدی کے ایک عظیم صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ آپ کا پورا نام جلال الدین محمد رومی تھا۔ آپ موجودہ افغانستان کے علاقے بلخ میں پیدا ہوئے لیکن منگولوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کی وجہ سے اُن کے والد نے مغرب کی طرف ہجرت کی جہاں مولانا نے بالآخر قونیہ شہر کو اپنا ٹھکانا بنایا۔ آج اسی شہر میں مولانا رومی کا مزار مرکزِ نگاہ ہے۔ مولانا کا شعری مجموعہ "مثنوی" اِس وقت مقدس آسمانی کتابوں کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر سے لوگ ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں، نواح میں اُن کے شاگردوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ انہی قبروں میں سے ایک کے کتبے پر علامہ صاحب کا نام بھی لکھا ہے۔
تختی پر لکھا ہے، "یہ مقام پاکستان کے قومی شاعر اور دانشور محمد اقبال کو دیا گیا ہے۔"
یہ علامتی قبر دراصل ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا جلال الدین رومی کے رُوحانی تعلق کو بیان کرتی ہے۔ یہ تعلق کتنا گہرا تھا؟ اس کا اندازہ اقبال کی شاعری میں بار بار ہوتا ہے۔
"بالِ جبریل" کی نظم ہے 'پیر و مُرید' جس میں مولانا کو "پیرِ رومی" کہا گیا ہے اور اقبال نے خود کو "مریدِ ہندی" قرار دیا ہے۔
شاید یہ علم ہی ہے جو زمان و مکان کی پابندیاں توڑ دیتا ہے، ورنہ کہاں تیرہویں صدی کے اوائل میں پیدا ہونے والے رومی اور کہاں 19 ویں صدی کے آخر میں پیدا ہونے والے اقبال، دونوں میں 670 سال کا فاصلہ تھا لیکن علم کی دنیا میں یہ صدیوں کا فاصلہ بھی کوئی معنی نہیں رکھتا اور ان حدود کو یہاں تک توڑ دیتا ہے کہ آج ہمیں اقبال رومی کے مزار کے سائے تلے بھی نظر آتے ہیں۔
مصر کی ایک مشہور علمی شخصیت تھے عبدالوہاب عزام، انہوں نے ایک بار کہا تھا "اگر جلال الدین رومی اِس زمانے میں جی اٹھیں تو وہ محمد اقبال ہی ہوں گے۔ ساتویں صدی کے جلال اور چودھویں صدی کے اقبال کو ایک ہی سمجھنا چاہیے۔"
"بالِ جبریل" کی ایک نظم میں علامہ اقبال مولانا رومی کے حوالے سے کہتے ہیں:
ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار
اک بحرِ پر آشوب و پر اسرار ہے رومی
تُو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبال
جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی
اس عصر کو بھی اس نے دیا ہے کوئی پیغام؟
کہتے ہیں چراغِ رہِ احرار ہے رومی
پاکستان سے بہت سارے سیاح اور عقیدت مند ترکی کے شہر قونیہ جاتے ہیں اور مولانا رومی کے مزار کے بعد علامہ اقبال کی اس علامتی قبر پر بھی حاضری دیتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے ان مقبولان کے درجات مزید بلند فرمائے اور ہمیں ان کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین