Friday, November 16, 2012

خواتین کا جلسہ یا میوزیکل پروگرام؟

گزشتہ اتوارکو متحدہ قومی موومنٹ نے خواتین کی طاقت کا مظاہرہ کیا اور مزار قائد کے پاس ایک بڑے جلسہ کا اہتمام کیا جس میں قائد تحریک جناب الطاف حسین کے دعوے کے مطابق 10 لاکھ خواتین نے شرکت کی۔ بلاشبہ صرف خواتین کا اتنا بڑا اجتماع پہلے دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ہی ماوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کا اتنے بڑے پیمانے پر رقص کرنے اور تھرکنے کا منظرنظرسے گزرا۔ لیکن شاید یہی لبرل کلچرہے۔ خود متحدہ کے قائد بھی مختلف فلمی گانے گاکرخواتین کو محظوظ کرتے رہے۔ جناب بابرغوری ڈھولک بجاتے رہے۔ ہرایک نے اپنے اپنے فن کا کھل کر مظاہرہ کیا۔ محترمہ نسرین جلیل جیسی شائستہ اور باوقارخاتون بھی رقص کناں تھیں۔ ایسا لگ رہاتھا جیسے یہ کوئی سنجیدہ پروگرام نہیں میوزیکل پروگرام ہے۔ اوریہ سب کچھ ربیع الاول کے مقدس مہینے میں ہوا۔ مغرب کی اذان پربھی الطاف حسین کا خطاب نہیں رکا‘ خواتین نے سرڈھانپ کر اذان کے احترام کا مظاہرہ کیا اورمنتظررہیں کہ شاید ان کے قائد بھی اپنا گانا اورتقریرروک دیں۔ اتنا احترام تو پیپلزپارٹی کی لبرل رہنما محترمہ بے نظیرنے بھی وزیراعظم ہوتے ہوئے کرلیاتھا اور ”اذان بج رہاہے“ کہہ کر اپنی تقریرروک دی تھی۔ ایسا لگتاہے متحدہ قومی موومنٹ یہ ”بالی ووڈ“ کلچر پورے ملک پر مسلط کرنے چلی ہے‘ کراچی میں تو اس کا مظاہرہ سب ہی نے دیکھ لیاہے۔ حیرت تو ہمیں اپنی عزت مآب خواتین پرہے۔ ان کو علم تھا کہ یہ ناچ‘ گانا کیمروں کے ذریعے تمام ٹی وی چینلزپردکھایاجارہاہے۔ اب ایسے میں اسلام کے احکامات کا کیا ذکرکیاجائے کہ وہ خود بھی واقف ہوں گی۔ لیکن اب متحدہ کے قائد کی نام نہاد فکر اور فلسفہ بہت سے لوگوں کا مذہب اور عقیدہ بن چکاہے۔ جب ایسا ہوجائے تو پھرکوئی معقول بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ زمانہ جاہلیت میں خواتین اپنی نمائش کیاکرتی تھیں اور اسی کو روکنے کے لیے بادی برحق کے ذریعہ احکامات نازل کیے گئے تھے کہ خواتین اپنی نمائش کرنے کے بجائے گھروں میں ٹک کربیٹھی رہیں۔ عورت کو برابری کے حقوق دینے اور مرد کے مساوی سمجھنے کا نعرہ مغرب کے مرد نے لگایا تھا محض عورت کو بے وقوف بنانے اور حقوق کے نام پر اس سے کارخانوں اور دفاترمیںکام لینے کے لیے۔ اب مغرب کی عورت بچے بھی پال رہی ہے اورگھرکے باہرکام بھی کررہی ہے۔ یہی کچھ پاکستان میں بھی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ”بااختیارعورت‘ مضبوط پاکستان“ کا گمراہ کن نعرہ لگایاجارہاہے۔ الطاف حسین کہتے ہیں کہ ہرشعبہ میں خواتین کو بااختیار بنایاجائے گا‘ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں گی اور انہیں مردوں کے برابرحقوق ملیں گے۔ خواتین 52 فیصد ہیں انہیں کم ازکم 50 فیصد حصہ دیاجائے۔ اس سے لگتاہے کہ وہ جائداد میں بھی خواتین کے نصف حصے کے قائل ہیں۔ ممکن ہے کہ انہوں نے وراثت کے اسلامی قوانین نہ پڑھے ہوں اور صرف برطانوی قانون ہی نظرمیں ہو‘ ایسا ہے تو بہترہوگا کہ اورکچھ نہیں تو قرآن کریم کا ترجمہ ہی پڑھ لیں۔ لیکن اس میں تو مرد کو عورت پر”قوام“ بھی بنایاگیا ہے اور کہیں نہیں کہاگیا کہ عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرے اور عورت کو بااختیار بنانے ہی سے ایک مسلم ملک مضبوط ہوسکتاہے۔ لیکن یہ باتیں لبرلزکی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ پھر اس ”کلچر“ میں جو ہلّہ گلّہ ہے اس کی اپنی دلکشی ہے۔ ایسے میں یہ کون یاد رکھتاہے کہ مسلمان عورتوں اور مردوں سے اسلام کیا تقاضہ کرتاہے۔ قوم ابھی تو ویلنٹائن ڈے مناکربیٹھی ہے۔ بہرحال جناب الطاف حسین کو داد دینی چاہیے کہ جس عورت کو گھرمیں بیٹھنے کی ہدایت کی گئی اسے وہ میدان میں لے آئے۔ محترم نے اپنے کارنامے بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ ”خیبرپختونخوا میں ایک معصوم بچی کو کوڑے مارنے کے خلاف ایم کیو ایم نے احتجاجی ریلی نکالی“ ۔یقیناً ایسا ہی ہوا لیکن کیا ان تک ابھی یہ حقیقت نہیں پہنچی کہ سوات میں ایک بچی کو کوڑے مارنا محض ایک ڈراما تھا اور اس ڈرامے کو اسٹیج کرنے والی خاتون ملک سے فرارہوچکی ہیں۔ الطاف حسین کوچاہیے تھا کہ اس انکشاف کے بعد ایک اور ریلی نکالتے اورجعلی وڈیو پھیلانے والوں کے خلاف سزاکا مطالبہ کرتے لیکن انہیں تو اب تک حقائق کا علم ہی نہیں ہوا ورنہ وہ مذکورہ ریلی کو اپنے کارناموں میں شمارنہ کرتے۔ ویسے تو انہوں نے اور بھی کئی ریلیاں نکالی ہیں۔ جناب الطاف حسین نے مظلوم بلوچ عوام کے لیے آواز بلندکی ہے۔ یہ وقت کا تقاضہ ہے لیکن جناب الطاف حسین کو یاد ہوگاکہ انہوں نے بلوچستان کے مسئلہ پر 24 گھنٹے کے اندر اندر حکومتوں سے نکلنے کا اعلان کیا تھا کئی برس گزرنے کے بعد یہ 24 گھنٹے پورے نہیں ہوئے۔ پاکستان میں خواتین کے ساتھ جو زیادتیاں ہورہی ہیں وہ بے شک تشویشناک ہیں لیکن اس کی وجہ لاقانونیت ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ جیسی بڑی جماعت کو چاہیے کہ جہاں بھی کسی مظلوم عورت پرظلم ہو وہ اس کی اعانت کرے‘ اسے قانونی مدد فراہم کرے اور ظالم کو کیفرکردارتک پہنچائے۔ صرف تقریریں کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ عملیت پسندی کی فکر اور فلسفہ کا عملاً اطلاق بھی ہونا چاہیے۔ بلوچستان کی ڈاکٹرشازیہ اور ان کے شوہرکو بیرون ملک بھجوایا‘ بہت اچھا کیا لیکن کیا اس خاتون سے زیادتی کرنے والوں کوبھی سزادلوائی جبکہ متحدہ تو اس وقت بھی جنرل پرویزکی حکومت میں تھی۔ یہ توعملیت پسندی نہیں ہے۔ اب یہ فیصلہ خود مسلمان خواتین کو کرناچاہیے کہ کیا انہیں اسلامی قوانین قبول ہیں‘ خدیجہ ؓ‘ عائشہؓ اورفاطمہؓ کی تقلیدکرنی ہے یا نام نہاد فکروفلسفہ اور لبرل ازم کی اطاعت کرنی ہے۔ پاکستان کی مسلمان عورت مردوں سے زیادہ دین دارہوتی ہے اوراگر وہی جھانسے میں آگئی تو نئی نسل محض گانے بجانے اور تھرکنے ‘مٹکنے کی شیدائی ہوگی۔ مسلمان دشمن چاہتے بھی یہی ہیں کہ یہ عالمی ایجنڈا ہے

No comments:

Post a Comment

Top 25 Natural Lakes In Pakistan #mancharlake #banjosalake #pyalalake

پاکستان حیرت انگیز قدرتی اور مصنوعی جھیلوں سے مالا مال ہے۔ یہ جھیلیں اپنے تازہ شفاف پانی، شاندار خوبصورتی اور قدرتی ...