مصر کی اعلی ترین عدالت نے ایک ایسے فیصلے کی تائید کر دی ہے جس کے مطابق کسی بھی ایسے مصری باشندے کی شہریت کو منسوخ کیا جا سکتا ہے جو کسی اسرائیلی شہری سے رشتہ ازدواج میں بندھا ہوا ہو۔
مصر کی اعلی ترین عدالت، سپریم ایڈمنسٹریو کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت کی اس اپیل کو رد کر دیا جس میں اس نے ایک سال پہلے ماتحت عدالت سے کی طرف سے جاری ہونے والے ایک فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
مصر کی ایک ماتحت عدالت نے ایک سال قبل یہ فیصلہ سنایا تھا کہ ایسا کوئی مصری شہری جو اسرائیل شہری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گا اس کی شہریت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
اعلی اپیلٹ کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ وزارت داخلہ ہر شہریت کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کرتے وقت اسرائیل کے عرب باشندے اور غیر عرب باشندوں کو دھیان میں رکھے۔
مصبرین کا خیال ہے کہ مصری عدالت کا فیصلہ ان جذبات کی عکاسی کرتا ہے کہ مصری حکومت کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے باوجود، مصری عوام اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔
اس مقدمے کے محرک وکیل نبی الوہاش نے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کا مقصد مصری نوجوانوں اور ملکی سکیورٹی کا تحفظ ہے۔
مصر کی حکومت نے اسرائیلی شہریوں سےجڑے مصری باشندوں کے بارے میں کوئی اعداد تو جاری نہیں کیے ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد تین ہزار تک ہو سکتی ہے۔
دو ہزار پانچ میں مصر کے مفتی اعظم نصر فرید وسل نے ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس میں مصری شہریوں کو اسرائیلی شہریوں سے شادی سے روکا گیا تھا۔ مفتی اعظم نے یہودی اسرائیلی اور عرب اسرائیلوں میں تفریق کیے بغیر مصری شہریوں کو کہا تھا کہ وہ کسی بھی اسرائیلی شہری سے شادی سے گریز کریں۔
اسرائیل نے کہا کہ اس کے پاس مصر کی عدالت کے فیصلے پر تبصرے کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
مصر کی اعلی ترین عدالت، سپریم ایڈمنسٹریو کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت کی اس اپیل کو رد کر دیا جس میں اس نے ایک سال پہلے ماتحت عدالت سے کی طرف سے جاری ہونے والے ایک فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
مصر کی ایک ماتحت عدالت نے ایک سال قبل یہ فیصلہ سنایا تھا کہ ایسا کوئی مصری شہری جو اسرائیل شہری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گا اس کی شہریت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
اعلی اپیلٹ کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ وزارت داخلہ ہر شہریت کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کرتے وقت اسرائیل کے عرب باشندے اور غیر عرب باشندوں کو دھیان میں رکھے۔
مصبرین کا خیال ہے کہ مصری عدالت کا فیصلہ ان جذبات کی عکاسی کرتا ہے کہ مصری حکومت کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے باوجود، مصری عوام اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔
اس مقدمے کے محرک وکیل نبی الوہاش نے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کا مقصد مصری نوجوانوں اور ملکی سکیورٹی کا تحفظ ہے۔
مصر کی حکومت نے اسرائیلی شہریوں سےجڑے مصری باشندوں کے بارے میں کوئی اعداد تو جاری نہیں کیے ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد تین ہزار تک ہو سکتی ہے۔
دو ہزار پانچ میں مصر کے مفتی اعظم نصر فرید وسل نے ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس میں مصری شہریوں کو اسرائیلی شہریوں سے شادی سے روکا گیا تھا۔ مفتی اعظم نے یہودی اسرائیلی اور عرب اسرائیلوں میں تفریق کیے بغیر مصری شہریوں کو کہا تھا کہ وہ کسی بھی اسرائیلی شہری سے شادی سے گریز کریں۔
اسرائیل نے کہا کہ اس کے پاس مصر کی عدالت کے فیصلے پر تبصرے کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment