Wednesday, August 7, 2019

قربانی فی سبیل اللہ۔۔۔تحریر: مجدی رشید



عید قربان حقیقی معنوں میں ایسے پسے ہوئے طبقے کے لئے خوشیوں کا پیغام لے کر آتا ہے جنہیں سارا سال گوشت میسر نہیں آتا۔ پیر 5 اگست 2019 qurbani Fi sabilillah عیدالفطر کے گزرتے ہی تمام امت مسلمہ عید الضحیٰ کے استقبال کی منصوبہ بندی اورتیاریوں کے لئے کمر کس لیتی ہے۔عیدِ قرباں پر رسمِ قربانی جہاں رضائے الہیٰ کے حصول کا موجب بنتی ہے وہیں پر اُن کروڑوں غریب اور مستحق افراد کے لئے بھی مسرت کا باعث ثابت ہوتی ہے جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ قربانی کا دن وہ دن ہے جب حضرت ابراہیم علیہ سلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں۔ اس خواب کو حکم خداوندی سمجھتے ہوئے انہوں نے اپنے لختِ جگر کے ذبح کا ارادہ کیا لیکن جیسے ہی گردن پر چھری چلائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی کہ ”اے ابراہیم! آپ نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا“۔ اور پھر انعام کے طور پر قربانی کے لئے ایک دنبہ بھیجا گیا۔ قربانی کے اس جذبہ نے خدا وند کریم کے دربار میں وہ مقام پایا کہ جسے زندہ رکھنے کے لئے تاقیامت قربانی ہر صاحب ِ استطاعت مرد و زن پر فرض کردی گئی۔ قربانی فی سبیل اللہ کا مقصد نمود ونمائش کی بجائے خالصتاََ اللہ کی رضا اور مستحقین کی مدد ہونا چاہئے اور یہی اس کی اصل روح ہے۔ صدقہ و خیرات کے لئے تو کوئی دن مقرر نہیں ہے لیکن اس کے لئے ایک خاص دن مقرر کیا گیا ہے جسے یوم النحر یایوم الضحیٰ کہا جاتا ہے۔اسلام کے نظام عبادت میں ہر لحاظ سے قربانی کا وجود پایا جاتا ہے یعنی نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے،زکوة انسان کے مال و زر کی قربانی ہے اسی طرح حج بیت اللہ بھی انسان کی ہمت اور مال و دولت کی قربانی ہے۔ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر قربانی کی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے: ارشادباری تعالیٰ ہے کہ ”تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔“(سورہ کوثر) ”اورہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کردی ہے تاکہ وہ اللہ کا نام لیں، ان جانوروں پر جو ہم نے ان کو عطا کئے ہیں۔“(سورة حج) حدیث مبارکہ میں ہے کہ ”جس شخص نے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کی وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ “ (ابن ماجہ جلد 2 صفحہ 232) ”جس نے خوشی اور اخلاص کے ساتھ قربانی کی وہ اس کے لیے جہنم سے آڑ اور رکاوٹ بن گئی۔“(طبرانی) ”حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا جن کی قربانی میں نے کردی تھی۔“(صحیح بخاری۔ (1707 ایسا ملک جہاں لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو، ننھے ننھے کتنے ہی بچے بھوکے پیٹ سوتے ہوں، پینے کا صاف پانی بھی دسترس سے باہر ہو، الغرض کوئی پرسان حال نہ ہو، وہاں اسلام کے اس فلسفہٴ قربانی کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس موقع پردنیا بھر میں بھائی چارے اور غریب نوازی کا فقید المثال مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ افراد جو سال بھر دو وقت کی روٹی کے لئے ترستے ہیں ان کو بھی اس مذہبی تہوار پر پیٹ بھر کر گوشت کھانا نصیب ہوتا ہے۔ یہ تہوار حقیقی معنوں میں ان پسے ہوئے افراد کے لئے خوشیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ انفرادی طور پر صاحبانِ استطاعت قربانی کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور اس کے گوشت کے تین حصوں میں سے ایک غربا و مساکین کے لئے مختص کیا جاتا ہے جبکہ اس مقصد کے لئے اب بھی ایسے بہت سے رفاہی ادارے موجود ہیں جو کسی بھی ذاتی مفاد کو پسِ پشت ڈالے خالصتاََ رضائے الہیٰ کے حصو ل کے لئے میدانِ عمل میں کوشاں ہیں۔ یہ ادارے بڑے پیمانے پر بہت منظم انداز میں قربانی فی سبیل اللہ کا اہتمام کرتے ہیں۔انہی میں سے ایک ادارہ الخدمت فاؤنڈیشن ہے۔ الخدمت فاوٴنڈیشن پاکستان بلا تفریق رنگ و نسل،ذات پات اور مذہب کے غریب اور بے سہارا افراد کی خدمت کے لئے ہر دم کوشاں اداروں میں ایک نمایاں نام ہے۔ الخدمت کے تحت عید الضحیٰ کے موقع پر ملک کی سب سے بڑی قربانی فی سبیل اللہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دورِ حاضر کے رجحانات کے پیش نظر اب ملک گیر جانوروں کی قربانی کرنے اور اس کے بعدان کا گوشت ملک کے دور دراز پسماندہ علاقوں میں مستحق افراد تک پہنچانے کے لئے جدید طریقہ کار اپنائے جارہے ہیں۔کراچی، لاہور سمیت چند دیگر شہروں میں جدید سلاٹر ہاوٴسزکی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جہاں جانوروں کی قربانی، چرم قربانی الگ کرنے اور گوشت کو پیکٹوں میں پیک کرنے تک کا عمل نہایت منظم اور حفظانِ صحت کے تمام تر اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاف طریقے سے سرانجام دیا جاتا ہے۔ اس گوشت کوبحفاظت دور درازعلاقوں تک منتقل کرنے کے لئے چلر ٹرکوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ الخدمت کو ملنے والی قربانیوں کا ایک بڑا حصہ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں اور تنظیموں کی بھیجی گئی قربانیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔پاکستا ن اور تیسری دنیا کے ممالک کے برعکس یورپ، امریکہ اور ایسے ممالک جہاں جانور خریدنا، اس کی دیکھ بھال کرنا ،قربانی کرنا اور اس کا گوشت تقسیم کرنا قدرے مشکل ہے یا قربانی کی سہولیات میسر نہیں اور وہاں کے قوانین بھی اس حوالے سے سخت ہیں تو وہاں کے مسلمان قربانی کی رقم پاکستان یا دیگر ایسے ممالک بھجوا دیتے ہیں جہاں الخدمت ایسی تنظیمیں ان کی قربانی مستحقین تک پہنچانے کا اہتمام کرتی ہیں۔ کچھ ایسے صاحبانِ استطاعت بھی موجود ہیں جو اپنی قربانی آفت زدگان کے لئے وقف کرنا چاہتے ہیں یا ایک سے زائد قربانی کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی اس سلسلے میں الخدمت فاؤنڈ یشن سے رجوع کرتے ہیں۔گزشتہ سالوں میں بھی الخدمت فاؤنڈیشن نے سیلاب، زلزلے ، تھرپارکر اور فاٹا کے بے گھر افراد کے لئے سمیت گلگت بلتستان ، آزادکشمیر، خیبر پختونخوا،پنجاب، سندھ، بلوچستان سمیت ملک بھر میں قربانی کا گوشت تقسیم کیا۔ اس کے علاوہ الخدمت چرم قربانی اکٹھی کرنے والا بھی سب سے بڑا ادارہ ہے۔ ان سے حاصل شدہ رقم سال بھر جاری رہنے والے خدمت خلق کے منصوبوں پر خرچ کی جاتی ہے۔ شام میں خانہ جنگی اورمیانمار میں حکومتی سرپرستی میں روہنگیا مسلمانوں پر جاری مظالم سے لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین ترکی اور بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور عارضی کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے شب وروز بسر کررہے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اِن بہن بھائیوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کریں۔الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی غریب و مستحقین میں قربانی کا گوشت پہنچانے کے ساتھ ساتھ شامی اور روہنگیا مہاجرین کے لئے قربانی فی سبیل اللہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ان رفاہی اداروں کی مسلمہ حقیقت اور اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی معاشرہ ایسا نظر نہیں آتا جہاں ان کا قیام عمل میں نہ لایاگیا ہو۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں معاشی و معاشرتی مسائل بھی گمبھیر صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومتوں کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ ان تمام مسائل کا حل سرکاری طور پر کرسکیں لہٰذا ایسے میں اگر کچھ ادارے فلاحِ عامہ کے لئے نیک نیت کے ساتھ اس کام کو مشن سمجھ کر سرانجام دے رہے ہیں تو اس سے بہتر اور کوئی خدمت ہو ہی نہیں سکتی۔ اپنی ذات سے باہر نکل کر دوسروں کے حقوق کیلئے لڑنا اور دکھی انسانیت کی خدمت یقیناً اولین انسانی فریضہ اور شیوہِ پیغمبری ہے۔ لہٰذا ہمارا اولین فرض ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن جیسے اداروں کے ساتھ ہر ممکن تعاون جاری رکھیں۔ رمضان میں زکوٰة و فطرانہ، عید الضحیٰ پر قربانی فی سبیل اللہ اور چرم قربانی کے علاوہ بھی سال بھر اپنے صدقات و عطیات دیتے ہوئے ایسے اداروں کو ضرور یاد رکھیں۔

political history of pakistan

Political History of Pakistan

QUAID-E-AZAM MUHAMMAD ALI JINNAH

Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah is a well-known leader of Pakistan.He was born at Karachi on 25 December 1876.His father was a leading merchant of Karachi.He received his primary education at Karachi and Bombay.He passed his matriculatin examination from the Mission High School,Bombay and went to England for studying law.He was called to the bar in 1896.

He started his legal practice at Karachi in 1896.Next year he shifted to Bombay and in a short time won great distinction as a barrister.From 1930 to 1934 he practised in England at the Privy Council and established himself as a lawyer of the first order.On his return to India,he resumed practice at Bombay.

In the meanwhile,he had developed keen interest in politics when he was law in England.Therefore,he joined Indian National Congress to work for the self-government for India.He became member of the All-India Muslim League also and retained membership of both the parties for a long time.Jinnah worked as a mediator between the two parties and tried to bring about understanding between the Muslims and the Hindus.In acknowledgement of his services and popularity the " Jinnah Hall " was built in Bombay.

When the Indian National Congress rejected the Montagu-Chelmsford Scheme of 1918 and launched a non-co-operation movement,Jinnah left the Congress.He did not agree with the non-cooperation movement because he considered it a departure from the policy of constitutional agitation.From this time onward.he became the most determined critic and opponent of all the politics of Gandhi.He was convinced the Hindus were pursuing a deliberate policy.Hindu domination over the entire sub-continent of India. 

As a result Muhammad Ali Jinnah soon became the voice of the Muslims of India.He formulated their demands and presented them in the form of famous fourteen points of 1929.He also re-organized the Muslim League to make it an active and united organization,Under his inspiring and able leadership,the Muslim League contested elections in 1935 and swept the polls in Punjab,Sindh and Bengal.

With the passage of time more and more Muslims were joining the Muslim League.Other Muslim Parties in Bengal and Punjab accepted the leadership of Jinnah and also joined the league.In 1940,the Muslim League passed the famous Lahore Resolution demanding Pakistan-a sovereign Muslim State,comprising the Muslim majority areas of India.

Quaid-e-Azam Muhammd Ali Jinnah showed great ability and tremendous courage in his struggle for Pakistan.He countered the shrewd moves of the Congress and was able to change the viewpoint of British Government.His lifelong struggled was crowned with success on 14th August 1947,when Pakistan came into being.

He said;
"THERE IS NO POWER ON EARTH THAT CAN UNDO PAKISTAN."
The Quaid-e-Azam became the Governor General of Pakistan.He worked day and night for the consolidation and progress of the country.His health had been failing for many years;now the great responsiblities of the state wrecked his health,and he passed away on September 11,1948.No one can forget his struggles for Pakistan. 
"WITH FAITH,DISCIPLINE AND SELF-DEVOTION TO DUTY,THERE IS NOTHING 
WORTHWHILE THAT YOU CANNOT ACHIEVE."
[ Muhammad Ali Jinnah ]

Wednesday, November 1, 2017

ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ #fabulouspakistan



جناب اشفاق احمد نے فرمایا:
ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻝ ﮐﺮ رﻭﮈ ﭘﺮ ﭼﻼ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ کہﺍﯾﮏ ﺑﺎبا ﻧﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭨﮩﻨﯽ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﺭﮔﮍ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ:
ﻟﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ- ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﻧﮧ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺩﻭ، ﺟﻮ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺷﮑﺮ ﮐﺮﻭ ‘ ﺟﻮ ﭼﮭﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،
ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﻭ، ﺟﻮ
ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎؤ- ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎؤ ﮔﮯ، ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺟﻤﻊ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،
ﮨﺠﻮﻡ ﺳﮯ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮﻭ،
ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺑﻨﺎﺋﻮ،
ﺟﺴﮯ ﺧﺪﺍ ﮈﮬﯿﻞ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺣﺘﺴﺎﺏ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،
ﺑﻼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺳﭻ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ،
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﻮ،
ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﭼﭗ ﺭﮨﻮ،
ﻟﻮﮒ ﻟﺬﺕ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﺬﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺑﺮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ،
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺧﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﯿﺮ ﭘﺮ ﻧﮑﻞ ﺟﺎؤ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻥ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺑﮭﯽ،
ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ،
ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ،
ﺩﻭﻟﺖ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺭﮎ ﺟﺎؤ ﮔﮯ،
ﭼﻮﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﭼﻮﺭ ﮨﻮ ﺟﺎؤ ﮔﮯ،
ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺟﮓ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ،
ﻭﮦ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺍﮌ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ،
ﺳﺎﺩﮬﻮؤﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺎ ﺳﺎﺩﮬﻮ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ،
ﺗﻢ ﺟﺐ ﻋﺰﯾﺰﻭﮞ، ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ، ﺍﻭﻻﺩ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﮍﻧﮯ ﻟﮕﻮ
ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﻟﻮ ﺍللہ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﮯ،
ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﺣﻢ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﻮ ﺗﻮ ﺳﻤﺠھ ﻟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺧﺎﻟﻖ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﮯ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺎﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ-
ﺑﺎﺑﮯ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯽ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﮭﺘﺮﯼ ﮐﮭﻮﻟﯽ،
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
ﺟﺎؤ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﯾﮧ ﭼﮭﺘﺮﯼ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﺗﮏ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ، ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ، ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﯾﻨﺎ،
ﯾﮧ ﺍللہ ﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﮨﮯ، اللہ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﻮ ﺗﻨﮩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﺎ، ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌﺗﯽ ﮨﮯ-
ﺍﻭﺭ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺟﻮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﮕﺮﺟﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ، ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍللہ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﮨﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻼ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ- ﺗﻢ ﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ، ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﻣﯿلہ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ-
ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ
- اشفاق احمد

Friday, November 18, 2016

عمران خان اور روایتی سیاست — محمد عباس شاد

کبھی ہماری سیاست مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان تقسیم ہوتی تھی اور باقی قوتین انہیں دو قوتوں کے ساتھ اپنے معاملات طے کرتی تھیں لیکن جب سے عمران خان نے اپنے آپ کو منوایا ہے تب سے وہ ہماری سیاست اور صحافت کی خاصی توجہ حاصل کئے رہتے ہیں ۔ان پر کئی حوالے سے بہت کچھ کہا جاتا ہے۔کسی کے ہاں تو وہ کلی طور پر رد کردیئے جاتے ہیں اورکہیں ان کو پاکستان کے سارے مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے۔ہمارے ہاں چونکہ وابستگیاں عقل وشعور سے زیادہ جذباتی طورپر قائم کی جاتی ہیں تو اسی لیے ہمارے ہاں اعتدال سے زیادہ انتہاپسندی موجود رہتی ہے۔
اب جب کہ دو نومبر آنے کو ہے اور عمران خان اسلام آباد کو بند کرنے جارہے ہیں تو اس موقع پر عمران خان کے بارے میں دونوں پہلووں پر بات کیوں نہ کرلی جائے کہ ان کی طرز سیاست میں کیا مثبت ہے اور کیا منفی ہے۔ہمارے وہ دوست جو عمران خان سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اور وہ لوگ جو حکومت وقت کے چوکھٹے میں فٹ ہیں وہ یہ بات یاد رکھیں کہ عمران خان پر تنقید کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ نواز شریف بہترین حکمرانی کررہے ہیں اور نوازحکومت پر تنقید کا بھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ عمران خان موجودہ حکومت کا بہترین متبادل ہیں۔بلکہ پاکستانی سیاست کو اس کے معروضی حقائق کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور قوم کے سامنے حقائق بیان ہونے چاہئیں کیونکہ اب قوم کسی بھی خوش فہمی اور تجربے کی متحمل نہیں ہے۔
شریف خاندان کا طرز حکمرانی ایسا ہے کہ وہ سیاست کے ہر کھلاڑی کو اپنے ساتھ شریک کرلیتے ہیں اور اچھے کاروباری کی طرح اپنے پارٹنر کے مفادات اور حصے کو تسلی بخش طریقے سے حلیف کی جھولی میں ڈالتے ہیں ۔ مشرف کے مارشل لاء کے بعد ان کے اس رویے میں اور زیادہ سنجیدگی اور پختگی آئی ہے اور انہوں نے پپلز پارٹی سمیت بہت سی پارٹیوں کو اپنا پارٹنر بنالیا اور یہ ساری پارٹیاں جمہوریت کے نام پر اپنی اپنی باریاں لگانے لگیں اور طرفہ تماشہ یہ کہ مذہبی پارٹیوں نے بھی اس گنگا سے فیض یاب ہونے کے گر سیکھ لیے۔
اور وہ بھی نظریات کی دھوپ سے تنگ آکر اقتدارکے سائے تلے سستانے کو ہی اسلام کی خدمت سمجھ لیتے ہیں اور اقتدارکا شجرسایہ دارنوازشریف کا ہو یا زرداری کا اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پرت۔
ا پہلے پہل تو نظریاتی کارکن جماعتوں کے اندر ہنگامے کھڑے کردیتے تھے کہ بدنام زمانہ جماعتوں سے اتحاد ہماری کاز کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوتا کارکنوں کے اخلاص کو حالات کی سنگینی بتاکر راضی برضا رہنے کا فلسفہ سمجھایا جاتا ہے کہ ہم اگر اسمبلی میں نہ ہوں گے تو وہاں کوئی اور ہوگا لہذا یہ وقت کی ضرورت اور دینی حمیت کا تقاضا ہے کہ ہمیں اقتدارکے ایوانوں میں موجود رہ کر اسلام کے خلاف ہونے والی سارشوں پر نظر رکھنی ہے۔
لہذا یوں یہاں اقتدارکا پہیہ گھومتا رہتا ہے اور عوام امیدوں کے سراب میں زندہ رہتے ہیں۔اس صورتحال نے سیاست دانوں کا ایک ایسا مافیا جنم دیا ہے جسے عوام اور ملک سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔وہ صرف پاکستان میں آکر الیکشن لڑتے ہیں جیت جائیں تو اقتدار کے لیے رہ جاتے ہیں نہیں تو بیرون ملک جاکر اپنے کاروبار کووقت دیتے ہیں ۔
گویا ان کا تعلق اس ملک سے صرف اقتدار اور حکمرانی کا رہ گیا ہے اور بس ۔ بددل ہوتے عوام نے جب دیکھا کہ اس سکوت کو عمران خان توڑ سکتاہے تووہ جوق درجوق اس کی طرف لپکے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک کاررواں بن گیا ۔ جن لوگوں کی نظر اس ملک میں پارٹیاں بننے کی تاریخ پر ہے وہ جانتے ہیں کہ ان دیکھی قوتیں کس طرح نئی بننے والی پارٹیوں کو آکوپائے کرلیتی ہیں ۔عمران خان نے جیسے ہی سر نکالنا شروع کیا تووہ سارے لیڈر جو دوسری پارٹیوں میں پچھلی صفوں میں کھڑے تھے وہ یہاں آکر کارکنوں کو کہنیاں مارتے ہوئے پہلی صفوں میں آ بیٹھے اور عمران خان کو بھی شریف فیملی کی اندھی دولت کے مقابل ایسے پہلوان چاہئیں تھے جو ان کا مقابلہ کرسکیں الیکشن میں موٹر سائیکلیں دے کر ووٹ توڑ سکیں سو ایک پوری رجیم جوساری زندگی اسی سیاسی کلچر کا حصہ رہی اور سرمایہ دارانہ ،جاگیردارانہ بیوروکریٹک اور فیوڈل نفسیات کے ساتھ عمران خان کے ساتھ آشریک ہوئی۔ عمران خان پارٹی میں ایسا کوئی میکنزم نہ بنا سکے جس کی بدولت وہ اس زنگ آلود قیادت سے جماعت کو بچھاسکتے۔
کیا عمران خان اسی نظام کی تیارشدہ بیساکھیوں کے ذریعے اقتدار کے ایوان میں پہنچ کر قوم کے مسئلے حل کرسکیں گے یا وہ بھی مذہبی جماعتوں والا نظریہ ضرورت اپنا کر کارکنوں کو اگر ہم نہیں تو کوئی اور ہوگا کے فلسفے کے ذریعے مطمئن کئے رکھیں گے۔ ہماراخیال ہے کہ عمران خان پاکستان کی روایتی سیاست میں کوئی ڈراڑ ڈاالنے سے پہلے ہی اس کا شکار ہوچکے ہیں ۔ قوم کا مسئلہ اقتدار کی تبدیلی نہیں بلکہ مسائل کے حل کا کوئی جوہری طریقہ ہے جس سے قوم موجودہ دلدل سے نکل سکے۔

جھنگ کا قبرستان شہیداں — ثریا منظور

جھنگ سے ملتان کی جانب جائیں تو راستے میں مہلوآنہ موڑ سے چند کلو میٹرکے فاصلے پر ایک تاریخی قبرستان ہے ۔ پرانے وقتوں میں اس علاقے کا نام پیرڈولی مشہور تھا جسے 1857 کے جنگ آزادی کے شہدا کی نسبت سے اب قبرستان شہیداں کے نام سے پکارا جاتاہے۔
تاریخ دان بلال زبیری اپنی کتاب “تاریخ جھنگ” میں لکھتے ہیں کہ یہاں ایک بزرگ رہا کرتے تھے جو آمد و رفت کے لِیے ڈولی کا استعمال کرتے تھے اسی نسبت سے اس علاقے کا نام پیر ڈولی رکھ دیا گیالیکن جھنگ کے جانباز سپوتوںنےآزادی کی راہ میں اپنا خون بہا کر اس کا نام تبدیل کر دیا۔
ان کے مطابق یہ اس وقت کی بات ہے جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کے بعدعلاقے کو کنٹرول کرنے کے لئے کرنل لارنس کو لاہور کا چیف کمشنر مقرر کیااور اس کی زیر نگرانی دو چھاونیاں ملتان اور گوگیرہ ساہیوال میں قائم کیں۔ملتان میں کمشنر ایڈورڈ جب کہ گوگیرہ ساہیوال میں چھاونی کا انچارچ کمشنربرکلے تھا۔دس مئی 1857 کو میرٹھ بھارت کی رجمنٹ کےستاسی ہندو، مسلم اور سکھ سپاہیوں نے انگریزوں کے دئیے ہوئے کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکا کردیا اور انگریزوں کے خلاف بغاوت کردی۔
اس بغاوت کی خبر جب ملتان پہنچی تو انگریز فوج کی پلاٹون نمبر باسٹھ اورانہتر نے بھی گوروں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔پلاٹون نمبر انہتر سے علم بغاوت بلند کرنے والے ایک سپاہی راجہ ناہرہ نےاپنے گیارہ ساتھیوں کے ہمراہ دریائےچناب کے کنارے ڈیرے ڈال لِے اور ایک نئے لشکر کی تشکیل کرنے لگے۔باقی سپاہیوں میں سے کچھ رائے احمد خاں کھرل سے جا ملے ، کچھ بہالپور میںراجپوتانہ تحریک کا حصہ بنے اور کچھ سپاہیوں نے جھنگ سے پینتیس کلومیٹردور حویلی بہادر شاہ کے پیر سید احمد شاہ گیلانی کے پاس پناہ لی جو بعدمیں راجہ ناہرہ کے لشکر کا حصہ بنے۔
اس واقعہ کے بعد چیف کمشنر لاہور نے ملتان اور گوگیرہ کے تمام ہندوستانی سپاہیوں سے اسلحہ واپس لینے کے احکامات جاری کر دئیے جس نے بغاوت کو مزیدہوا دی اور سپاہی راجہ ناہرہ کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ اس تحریک کا ساتھ جھنگ کی ہندو مسلم اور سکھ تمام برادریوں نے مل کرساتھ دیا جبکہ مقامی سادات اور کچھ سیال قبائل نے بھی راجہ ناہرہ کی آواز پر لبیک کہا جنہیں پیر احمد شاہ گیلانی باغی سپاہیوں کے ساتھ مل کرڈولی پیر کے علاقے میں تربیت دینے لگے۔
اسی دوران راجہ ناہرہ دریائے چناب میں کشتی پر سفر کرتے ہوئے جا رہے تھےکہ انگریز فوج نے مخبری ہونے پر حملہ کر دیا ۔ اس حملہ میں راجہ کے کچھ ساتھی ہلاک ہو گئے جبکہ خود راجہ اور بقیہ ساتھیوں کو گرفتار کر کے جھنگ کے قلعہ اب اس جگہ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول قائم ہے میں قید کر دیا اوربعد ازاں تمام لوگوں کو پھانسی دے دی گئی۔
تاہم پیر احمد شاہ گیلانی نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھی جبکہ انگریز سرکارنے مجاہدین کے خلاف فیصلہ کن معرکے کی ٹھان لی۔پیر احمد شاہ گیلانی کو جب اطلاع ملی کہ انگریز فوجی حویلی بہادر شاہ پر چڑھائی کے لئےآ رہے ہیں تو انہوں نے ایک ہزار مجاہدین کے لشکر کے ساتھ پیر ڈولی کےمقام پر پڑاو کیا۔
یہ مجاہدین کلہاڑیوں اور لاٹھیوں جیسے روایتی ہتھِیاروں سے لیس تھے جبکہ اطلاع ملنے پر ڈپٹی کمشنر جھنگ بھی سو سپاہیوں کے ہمراہ یہاں پہنچا۔انگریزوں اور مجاہدین کے مابین شدید جنگ ہوئی جس میں ستاون انگریز سپاہی مارے گئے تاہم اسلحہ آتشیں نہ ہونے کے باعث سینکڑوں مجاہدین شہید ہوئےاور ان کی لاشیں ایک ماہ تک اسی میدان میں پڑی رہیں۔
اس لڑائی کے بعد علاقہ مکین خوف اور انتقامی کاروائی کے ڈر سے اپنا گھربار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ایک ماہ بعد جب انگریز سرکار نے مقامی افراد کے ساتھ امن کا اعلان کیا تولوگوں نے واپس آ کر اسی مقام پر ایک بڑا گڑھا کھودا اور مجاہدین کو ایک مشترکہ قبر میں دفنا دیا گیا ۔
بعد ازاں اس اجتماعی قبر کی وجہ سے اس جگہ کا نام قبرستاں شہیداں رکھ دیاگیا جو آج بھی سرکاری کاغذات میںاسی نام سے درج ہے۔
تاریخ میں اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ پیر احمد شاہ گیلانی اس واقعہ میںشہید ہوئے یا کسی اور جگہ فرار ہو گئے لیکن وہ آج بھی راجہ ناہرہ اور
رائے احمد خاں کھرل کی طرح انگریزوں کے باغی سپاہیوں کے نام سے جانے جاتےہیں۔

اپنی سوچ کے بہت جلد بدلنے کے منفی اثرات سے اگاہ رہیں۔ زوہیب یاسر

      زیادہ سے زیادہ ذہنی سکون کے حصول کے لیے ایک طاقتور تکنیک یہ ہے کہ ہم اس بات سے آگاہ رہیں کہ ہماری غیر محفوظ اور منفی سوچ کتنی جلدی کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب آپ اپنی ایسی سوچوں میں الجھے ہوتے ہیں تو آپ کس قدر پریشان ہوتے ہیں؟اور ان سوچوں کو دبانے کے لیے آپ جتنا زیادہ ان میں گم ہوتے ہیں دراصل یہ احساسات اتنے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ایک خیال سے دوسرا خیال جنم لیتا ہے دوسرے سے تیسرا اور یہ سلسلہ طویل ہی ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک مخصوص مقام پر آکر آپ کی برداشت کی حد بھی ختم ہونے لگتی ہے۔
                مثال کے طور آدھی رات کو آپ کی آنکھ کھلتی ہے اور آپ کو یاد آتا ہے کہ آپ نے کل ایک فون کال کرنی ہے اور یہ سوچ کر آپ کو تھوڑی راحت ہوتی ہے کہ آپ کو وقت پر یاد آگیا۔لیکن اس کے بعد آپ اگلی صبح کرنے والے دیگر کاموں کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔آپ آئندہ صبح اپنے باس سے ہونے والی گفتگو کی ایک ریہرسل کرتے ہیں اور مزید پریشان ہوجاتے ہیں۔پھر جلد ہی آپ خود سے یہ کہتے ہیں کہ میں بہت زیادہ مصروف ہوں،مجھے روزانہ کوئی پچاس آدمیوں کو فون کرنا ہوتے ہیں،اتنی مصروف زندگی بھلا کس کی ہو سکتی ہے؟بہت سے لوگوں کے لیے منفی خیالات کے ان حملوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔درحقیقت،مجھے میرے کلائنٹس نے بتایا ہے کہ ان کی بہت سی راتیں اوردن ایسے ہی خیالات کی ریہرسل کرنے میں برباد ہوتے ہیں۔اس امر کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسے معاملات اور پریشانیوں کے نتیجے میں ذہنی طور پر پُرسکون رہنا ایک ناممکن کام ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ آپ کے منفی خیالات جب تحریک پکڑتے ہیں تو اس سے پہلے یہ سوچا جائے کہ آپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔آپ جتنا جلدی اپنے ذہن میں پلنے والے ان منفی خیالات کو قابو کرتے ہیں،اتنا ہی جلد آپ کو سکون کی دولت بھی نصیب ہوتی ہے۔ہماری یہاں بیان کی گئی مثال میں آپ کی منفی سوچ اس وقت شروع ہوئی جب آپ نے اگل صبح کیے جانے والے کاموں کو سوچا۔پھر آپ شعوری طورپر اس سوچ سے چمٹے رہنے کے بجائے خود سے کہتے ہیں کہ واﺅ!!! میں پھر وہی ہوں اور آپ اس صورت حال کو وہیں ختم کر دیتے ہیں۔آپ اپنے خیالات کی گاڑی کو اسٹیشن چھوڑے سے پہلے ہی روک لیتے ہیں۔پھر آپ اس بات پر اپنی توجہ کو مرکوز کرسکتے ہیں،منفی معنوں میں نہیں،بلکہ مثبت معنوں میں کہ شکر ہے مجھے اتنے لوگوں سے فون کر کے معاملات طے کرنے ہیں۔اگر یہ آدھی رات کا وقت ہے تو آپ اسے کاغذ پر لکھیں اور پھر سو جائیں۔ایسی صورت حال کے پیش نظر آپ پہلے سے ہی اپنے بیڈ پرایک کاغذ اور قلم بھی رکھ سکتے ہیں۔
                آپ بلاشبہ ایک بہت مصروف شخص ہو سکتے ہیں۔لیکن یاد رکھیے کہ ان باتوں سے اپنے دماغ کو بھرنے سے آپ اپنی پریشانیوں اور تلخیوں میں اضافہ ہی کرتے ہیں نہ کہ آپ انہیں کم کرتے ہیں۔آئندہ کبھی آپ کو ایسی صورتحال درپیش ہو تو آپ اس مشق کو استعمال میں لائیں۔آپ واقعی حیران ہوں گے کہ یہ کتنی کارآمد ہے۔