Friday, November 18, 2016

جھنگ کا قبرستان شہیداں — ثریا منظور

جھنگ سے ملتان کی جانب جائیں تو راستے میں مہلوآنہ موڑ سے چند کلو میٹرکے فاصلے پر ایک تاریخی قبرستان ہے ۔ پرانے وقتوں میں اس علاقے کا نام پیرڈولی مشہور تھا جسے 1857 کے جنگ آزادی کے شہدا کی نسبت سے اب قبرستان شہیداں کے نام سے پکارا جاتاہے۔
تاریخ دان بلال زبیری اپنی کتاب “تاریخ جھنگ” میں لکھتے ہیں کہ یہاں ایک بزرگ رہا کرتے تھے جو آمد و رفت کے لِیے ڈولی کا استعمال کرتے تھے اسی نسبت سے اس علاقے کا نام پیر ڈولی رکھ دیا گیالیکن جھنگ کے جانباز سپوتوںنےآزادی کی راہ میں اپنا خون بہا کر اس کا نام تبدیل کر دیا۔
ان کے مطابق یہ اس وقت کی بات ہے جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کے بعدعلاقے کو کنٹرول کرنے کے لئے کرنل لارنس کو لاہور کا چیف کمشنر مقرر کیااور اس کی زیر نگرانی دو چھاونیاں ملتان اور گوگیرہ ساہیوال میں قائم کیں۔ملتان میں کمشنر ایڈورڈ جب کہ گوگیرہ ساہیوال میں چھاونی کا انچارچ کمشنربرکلے تھا۔دس مئی 1857 کو میرٹھ بھارت کی رجمنٹ کےستاسی ہندو، مسلم اور سکھ سپاہیوں نے انگریزوں کے دئیے ہوئے کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکا کردیا اور انگریزوں کے خلاف بغاوت کردی۔
اس بغاوت کی خبر جب ملتان پہنچی تو انگریز فوج کی پلاٹون نمبر باسٹھ اورانہتر نے بھی گوروں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔پلاٹون نمبر انہتر سے علم بغاوت بلند کرنے والے ایک سپاہی راجہ ناہرہ نےاپنے گیارہ ساتھیوں کے ہمراہ دریائےچناب کے کنارے ڈیرے ڈال لِے اور ایک نئے لشکر کی تشکیل کرنے لگے۔باقی سپاہیوں میں سے کچھ رائے احمد خاں کھرل سے جا ملے ، کچھ بہالپور میںراجپوتانہ تحریک کا حصہ بنے اور کچھ سپاہیوں نے جھنگ سے پینتیس کلومیٹردور حویلی بہادر شاہ کے پیر سید احمد شاہ گیلانی کے پاس پناہ لی جو بعدمیں راجہ ناہرہ کے لشکر کا حصہ بنے۔
اس واقعہ کے بعد چیف کمشنر لاہور نے ملتان اور گوگیرہ کے تمام ہندوستانی سپاہیوں سے اسلحہ واپس لینے کے احکامات جاری کر دئیے جس نے بغاوت کو مزیدہوا دی اور سپاہی راجہ ناہرہ کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ اس تحریک کا ساتھ جھنگ کی ہندو مسلم اور سکھ تمام برادریوں نے مل کرساتھ دیا جبکہ مقامی سادات اور کچھ سیال قبائل نے بھی راجہ ناہرہ کی آواز پر لبیک کہا جنہیں پیر احمد شاہ گیلانی باغی سپاہیوں کے ساتھ مل کرڈولی پیر کے علاقے میں تربیت دینے لگے۔
اسی دوران راجہ ناہرہ دریائے چناب میں کشتی پر سفر کرتے ہوئے جا رہے تھےکہ انگریز فوج نے مخبری ہونے پر حملہ کر دیا ۔ اس حملہ میں راجہ کے کچھ ساتھی ہلاک ہو گئے جبکہ خود راجہ اور بقیہ ساتھیوں کو گرفتار کر کے جھنگ کے قلعہ اب اس جگہ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول قائم ہے میں قید کر دیا اوربعد ازاں تمام لوگوں کو پھانسی دے دی گئی۔
تاہم پیر احمد شاہ گیلانی نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھی جبکہ انگریز سرکارنے مجاہدین کے خلاف فیصلہ کن معرکے کی ٹھان لی۔پیر احمد شاہ گیلانی کو جب اطلاع ملی کہ انگریز فوجی حویلی بہادر شاہ پر چڑھائی کے لئےآ رہے ہیں تو انہوں نے ایک ہزار مجاہدین کے لشکر کے ساتھ پیر ڈولی کےمقام پر پڑاو کیا۔
یہ مجاہدین کلہاڑیوں اور لاٹھیوں جیسے روایتی ہتھِیاروں سے لیس تھے جبکہ اطلاع ملنے پر ڈپٹی کمشنر جھنگ بھی سو سپاہیوں کے ہمراہ یہاں پہنچا۔انگریزوں اور مجاہدین کے مابین شدید جنگ ہوئی جس میں ستاون انگریز سپاہی مارے گئے تاہم اسلحہ آتشیں نہ ہونے کے باعث سینکڑوں مجاہدین شہید ہوئےاور ان کی لاشیں ایک ماہ تک اسی میدان میں پڑی رہیں۔
اس لڑائی کے بعد علاقہ مکین خوف اور انتقامی کاروائی کے ڈر سے اپنا گھربار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ایک ماہ بعد جب انگریز سرکار نے مقامی افراد کے ساتھ امن کا اعلان کیا تولوگوں نے واپس آ کر اسی مقام پر ایک بڑا گڑھا کھودا اور مجاہدین کو ایک مشترکہ قبر میں دفنا دیا گیا ۔
بعد ازاں اس اجتماعی قبر کی وجہ سے اس جگہ کا نام قبرستاں شہیداں رکھ دیاگیا جو آج بھی سرکاری کاغذات میںاسی نام سے درج ہے۔
تاریخ میں اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ پیر احمد شاہ گیلانی اس واقعہ میںشہید ہوئے یا کسی اور جگہ فرار ہو گئے لیکن وہ آج بھی راجہ ناہرہ اور
رائے احمد خاں کھرل کی طرح انگریزوں کے باغی سپاہیوں کے نام سے جانے جاتےہیں۔

No comments:

Post a Comment