Friday, November 18, 2016

عمران خان اور روایتی سیاست — محمد عباس شاد

کبھی ہماری سیاست مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان تقسیم ہوتی تھی اور باقی قوتین انہیں دو قوتوں کے ساتھ اپنے معاملات طے کرتی تھیں لیکن جب سے عمران خان نے اپنے آپ کو منوایا ہے تب سے وہ ہماری سیاست اور صحافت کی خاصی توجہ حاصل کئے رہتے ہیں ۔ان پر کئی حوالے سے بہت کچھ کہا جاتا ہے۔کسی کے ہاں تو وہ کلی طور پر رد کردیئے جاتے ہیں اورکہیں ان کو پاکستان کے سارے مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے۔ہمارے ہاں چونکہ وابستگیاں عقل وشعور سے زیادہ جذباتی طورپر قائم کی جاتی ہیں تو اسی لیے ہمارے ہاں اعتدال سے زیادہ انتہاپسندی موجود رہتی ہے۔
اب جب کہ دو نومبر آنے کو ہے اور عمران خان اسلام آباد کو بند کرنے جارہے ہیں تو اس موقع پر عمران خان کے بارے میں دونوں پہلووں پر بات کیوں نہ کرلی جائے کہ ان کی طرز سیاست میں کیا مثبت ہے اور کیا منفی ہے۔ہمارے وہ دوست جو عمران خان سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اور وہ لوگ جو حکومت وقت کے چوکھٹے میں فٹ ہیں وہ یہ بات یاد رکھیں کہ عمران خان پر تنقید کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ نواز شریف بہترین حکمرانی کررہے ہیں اور نوازحکومت پر تنقید کا بھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ عمران خان موجودہ حکومت کا بہترین متبادل ہیں۔بلکہ پاکستانی سیاست کو اس کے معروضی حقائق کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور قوم کے سامنے حقائق بیان ہونے چاہئیں کیونکہ اب قوم کسی بھی خوش فہمی اور تجربے کی متحمل نہیں ہے۔
شریف خاندان کا طرز حکمرانی ایسا ہے کہ وہ سیاست کے ہر کھلاڑی کو اپنے ساتھ شریک کرلیتے ہیں اور اچھے کاروباری کی طرح اپنے پارٹنر کے مفادات اور حصے کو تسلی بخش طریقے سے حلیف کی جھولی میں ڈالتے ہیں ۔ مشرف کے مارشل لاء کے بعد ان کے اس رویے میں اور زیادہ سنجیدگی اور پختگی آئی ہے اور انہوں نے پپلز پارٹی سمیت بہت سی پارٹیوں کو اپنا پارٹنر بنالیا اور یہ ساری پارٹیاں جمہوریت کے نام پر اپنی اپنی باریاں لگانے لگیں اور طرفہ تماشہ یہ کہ مذہبی پارٹیوں نے بھی اس گنگا سے فیض یاب ہونے کے گر سیکھ لیے۔
اور وہ بھی نظریات کی دھوپ سے تنگ آکر اقتدارکے سائے تلے سستانے کو ہی اسلام کی خدمت سمجھ لیتے ہیں اور اقتدارکا شجرسایہ دارنوازشریف کا ہو یا زرداری کا اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پرت۔
ا پہلے پہل تو نظریاتی کارکن جماعتوں کے اندر ہنگامے کھڑے کردیتے تھے کہ بدنام زمانہ جماعتوں سے اتحاد ہماری کاز کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوتا کارکنوں کے اخلاص کو حالات کی سنگینی بتاکر راضی برضا رہنے کا فلسفہ سمجھایا جاتا ہے کہ ہم اگر اسمبلی میں نہ ہوں گے تو وہاں کوئی اور ہوگا لہذا یہ وقت کی ضرورت اور دینی حمیت کا تقاضا ہے کہ ہمیں اقتدارکے ایوانوں میں موجود رہ کر اسلام کے خلاف ہونے والی سارشوں پر نظر رکھنی ہے۔
لہذا یوں یہاں اقتدارکا پہیہ گھومتا رہتا ہے اور عوام امیدوں کے سراب میں زندہ رہتے ہیں۔اس صورتحال نے سیاست دانوں کا ایک ایسا مافیا جنم دیا ہے جسے عوام اور ملک سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔وہ صرف پاکستان میں آکر الیکشن لڑتے ہیں جیت جائیں تو اقتدار کے لیے رہ جاتے ہیں نہیں تو بیرون ملک جاکر اپنے کاروبار کووقت دیتے ہیں ۔
گویا ان کا تعلق اس ملک سے صرف اقتدار اور حکمرانی کا رہ گیا ہے اور بس ۔ بددل ہوتے عوام نے جب دیکھا کہ اس سکوت کو عمران خان توڑ سکتاہے تووہ جوق درجوق اس کی طرف لپکے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک کاررواں بن گیا ۔ جن لوگوں کی نظر اس ملک میں پارٹیاں بننے کی تاریخ پر ہے وہ جانتے ہیں کہ ان دیکھی قوتیں کس طرح نئی بننے والی پارٹیوں کو آکوپائے کرلیتی ہیں ۔عمران خان نے جیسے ہی سر نکالنا شروع کیا تووہ سارے لیڈر جو دوسری پارٹیوں میں پچھلی صفوں میں کھڑے تھے وہ یہاں آکر کارکنوں کو کہنیاں مارتے ہوئے پہلی صفوں میں آ بیٹھے اور عمران خان کو بھی شریف فیملی کی اندھی دولت کے مقابل ایسے پہلوان چاہئیں تھے جو ان کا مقابلہ کرسکیں الیکشن میں موٹر سائیکلیں دے کر ووٹ توڑ سکیں سو ایک پوری رجیم جوساری زندگی اسی سیاسی کلچر کا حصہ رہی اور سرمایہ دارانہ ،جاگیردارانہ بیوروکریٹک اور فیوڈل نفسیات کے ساتھ عمران خان کے ساتھ آشریک ہوئی۔ عمران خان پارٹی میں ایسا کوئی میکنزم نہ بنا سکے جس کی بدولت وہ اس زنگ آلود قیادت سے جماعت کو بچھاسکتے۔
کیا عمران خان اسی نظام کی تیارشدہ بیساکھیوں کے ذریعے اقتدار کے ایوان میں پہنچ کر قوم کے مسئلے حل کرسکیں گے یا وہ بھی مذہبی جماعتوں والا نظریہ ضرورت اپنا کر کارکنوں کو اگر ہم نہیں تو کوئی اور ہوگا کے فلسفے کے ذریعے مطمئن کئے رکھیں گے۔ ہماراخیال ہے کہ عمران خان پاکستان کی روایتی سیاست میں کوئی ڈراڑ ڈاالنے سے پہلے ہی اس کا شکار ہوچکے ہیں ۔ قوم کا مسئلہ اقتدار کی تبدیلی نہیں بلکہ مسائل کے حل کا کوئی جوہری طریقہ ہے جس سے قوم موجودہ دلدل سے نکل سکے۔

جھنگ کا قبرستان شہیداں — ثریا منظور

جھنگ سے ملتان کی جانب جائیں تو راستے میں مہلوآنہ موڑ سے چند کلو میٹرکے فاصلے پر ایک تاریخی قبرستان ہے ۔ پرانے وقتوں میں اس علاقے کا نام پیرڈولی مشہور تھا جسے 1857 کے جنگ آزادی کے شہدا کی نسبت سے اب قبرستان شہیداں کے نام سے پکارا جاتاہے۔
تاریخ دان بلال زبیری اپنی کتاب “تاریخ جھنگ” میں لکھتے ہیں کہ یہاں ایک بزرگ رہا کرتے تھے جو آمد و رفت کے لِیے ڈولی کا استعمال کرتے تھے اسی نسبت سے اس علاقے کا نام پیر ڈولی رکھ دیا گیالیکن جھنگ کے جانباز سپوتوںنےآزادی کی راہ میں اپنا خون بہا کر اس کا نام تبدیل کر دیا۔
ان کے مطابق یہ اس وقت کی بات ہے جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کے بعدعلاقے کو کنٹرول کرنے کے لئے کرنل لارنس کو لاہور کا چیف کمشنر مقرر کیااور اس کی زیر نگرانی دو چھاونیاں ملتان اور گوگیرہ ساہیوال میں قائم کیں۔ملتان میں کمشنر ایڈورڈ جب کہ گوگیرہ ساہیوال میں چھاونی کا انچارچ کمشنربرکلے تھا۔دس مئی 1857 کو میرٹھ بھارت کی رجمنٹ کےستاسی ہندو، مسلم اور سکھ سپاہیوں نے انگریزوں کے دئیے ہوئے کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکا کردیا اور انگریزوں کے خلاف بغاوت کردی۔
اس بغاوت کی خبر جب ملتان پہنچی تو انگریز فوج کی پلاٹون نمبر باسٹھ اورانہتر نے بھی گوروں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔پلاٹون نمبر انہتر سے علم بغاوت بلند کرنے والے ایک سپاہی راجہ ناہرہ نےاپنے گیارہ ساتھیوں کے ہمراہ دریائےچناب کے کنارے ڈیرے ڈال لِے اور ایک نئے لشکر کی تشکیل کرنے لگے۔باقی سپاہیوں میں سے کچھ رائے احمد خاں کھرل سے جا ملے ، کچھ بہالپور میںراجپوتانہ تحریک کا حصہ بنے اور کچھ سپاہیوں نے جھنگ سے پینتیس کلومیٹردور حویلی بہادر شاہ کے پیر سید احمد شاہ گیلانی کے پاس پناہ لی جو بعدمیں راجہ ناہرہ کے لشکر کا حصہ بنے۔
اس واقعہ کے بعد چیف کمشنر لاہور نے ملتان اور گوگیرہ کے تمام ہندوستانی سپاہیوں سے اسلحہ واپس لینے کے احکامات جاری کر دئیے جس نے بغاوت کو مزیدہوا دی اور سپاہی راجہ ناہرہ کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ اس تحریک کا ساتھ جھنگ کی ہندو مسلم اور سکھ تمام برادریوں نے مل کرساتھ دیا جبکہ مقامی سادات اور کچھ سیال قبائل نے بھی راجہ ناہرہ کی آواز پر لبیک کہا جنہیں پیر احمد شاہ گیلانی باغی سپاہیوں کے ساتھ مل کرڈولی پیر کے علاقے میں تربیت دینے لگے۔
اسی دوران راجہ ناہرہ دریائے چناب میں کشتی پر سفر کرتے ہوئے جا رہے تھےکہ انگریز فوج نے مخبری ہونے پر حملہ کر دیا ۔ اس حملہ میں راجہ کے کچھ ساتھی ہلاک ہو گئے جبکہ خود راجہ اور بقیہ ساتھیوں کو گرفتار کر کے جھنگ کے قلعہ اب اس جگہ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول قائم ہے میں قید کر دیا اوربعد ازاں تمام لوگوں کو پھانسی دے دی گئی۔
تاہم پیر احمد شاہ گیلانی نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھی جبکہ انگریز سرکارنے مجاہدین کے خلاف فیصلہ کن معرکے کی ٹھان لی۔پیر احمد شاہ گیلانی کو جب اطلاع ملی کہ انگریز فوجی حویلی بہادر شاہ پر چڑھائی کے لئےآ رہے ہیں تو انہوں نے ایک ہزار مجاہدین کے لشکر کے ساتھ پیر ڈولی کےمقام پر پڑاو کیا۔
یہ مجاہدین کلہاڑیوں اور لاٹھیوں جیسے روایتی ہتھِیاروں سے لیس تھے جبکہ اطلاع ملنے پر ڈپٹی کمشنر جھنگ بھی سو سپاہیوں کے ہمراہ یہاں پہنچا۔انگریزوں اور مجاہدین کے مابین شدید جنگ ہوئی جس میں ستاون انگریز سپاہی مارے گئے تاہم اسلحہ آتشیں نہ ہونے کے باعث سینکڑوں مجاہدین شہید ہوئےاور ان کی لاشیں ایک ماہ تک اسی میدان میں پڑی رہیں۔
اس لڑائی کے بعد علاقہ مکین خوف اور انتقامی کاروائی کے ڈر سے اپنا گھربار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ایک ماہ بعد جب انگریز سرکار نے مقامی افراد کے ساتھ امن کا اعلان کیا تولوگوں نے واپس آ کر اسی مقام پر ایک بڑا گڑھا کھودا اور مجاہدین کو ایک مشترکہ قبر میں دفنا دیا گیا ۔
بعد ازاں اس اجتماعی قبر کی وجہ سے اس جگہ کا نام قبرستاں شہیداں رکھ دیاگیا جو آج بھی سرکاری کاغذات میںاسی نام سے درج ہے۔
تاریخ میں اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ پیر احمد شاہ گیلانی اس واقعہ میںشہید ہوئے یا کسی اور جگہ فرار ہو گئے لیکن وہ آج بھی راجہ ناہرہ اور
رائے احمد خاں کھرل کی طرح انگریزوں کے باغی سپاہیوں کے نام سے جانے جاتےہیں۔

اپنی سوچ کے بہت جلد بدلنے کے منفی اثرات سے اگاہ رہیں۔ زوہیب یاسر

      زیادہ سے زیادہ ذہنی سکون کے حصول کے لیے ایک طاقتور تکنیک یہ ہے کہ ہم اس بات سے آگاہ رہیں کہ ہماری غیر محفوظ اور منفی سوچ کتنی جلدی کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب آپ اپنی ایسی سوچوں میں الجھے ہوتے ہیں تو آپ کس قدر پریشان ہوتے ہیں؟اور ان سوچوں کو دبانے کے لیے آپ جتنا زیادہ ان میں گم ہوتے ہیں دراصل یہ احساسات اتنے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ایک خیال سے دوسرا خیال جنم لیتا ہے دوسرے سے تیسرا اور یہ سلسلہ طویل ہی ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک مخصوص مقام پر آکر آپ کی برداشت کی حد بھی ختم ہونے لگتی ہے۔
                مثال کے طور آدھی رات کو آپ کی آنکھ کھلتی ہے اور آپ کو یاد آتا ہے کہ آپ نے کل ایک فون کال کرنی ہے اور یہ سوچ کر آپ کو تھوڑی راحت ہوتی ہے کہ آپ کو وقت پر یاد آگیا۔لیکن اس کے بعد آپ اگلی صبح کرنے والے دیگر کاموں کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔آپ آئندہ صبح اپنے باس سے ہونے والی گفتگو کی ایک ریہرسل کرتے ہیں اور مزید پریشان ہوجاتے ہیں۔پھر جلد ہی آپ خود سے یہ کہتے ہیں کہ میں بہت زیادہ مصروف ہوں،مجھے روزانہ کوئی پچاس آدمیوں کو فون کرنا ہوتے ہیں،اتنی مصروف زندگی بھلا کس کی ہو سکتی ہے؟بہت سے لوگوں کے لیے منفی خیالات کے ان حملوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔درحقیقت،مجھے میرے کلائنٹس نے بتایا ہے کہ ان کی بہت سی راتیں اوردن ایسے ہی خیالات کی ریہرسل کرنے میں برباد ہوتے ہیں۔اس امر کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسے معاملات اور پریشانیوں کے نتیجے میں ذہنی طور پر پُرسکون رہنا ایک ناممکن کام ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ آپ کے منفی خیالات جب تحریک پکڑتے ہیں تو اس سے پہلے یہ سوچا جائے کہ آپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔آپ جتنا جلدی اپنے ذہن میں پلنے والے ان منفی خیالات کو قابو کرتے ہیں،اتنا ہی جلد آپ کو سکون کی دولت بھی نصیب ہوتی ہے۔ہماری یہاں بیان کی گئی مثال میں آپ کی منفی سوچ اس وقت شروع ہوئی جب آپ نے اگل صبح کیے جانے والے کاموں کو سوچا۔پھر آپ شعوری طورپر اس سوچ سے چمٹے رہنے کے بجائے خود سے کہتے ہیں کہ واﺅ!!! میں پھر وہی ہوں اور آپ اس صورت حال کو وہیں ختم کر دیتے ہیں۔آپ اپنے خیالات کی گاڑی کو اسٹیشن چھوڑے سے پہلے ہی روک لیتے ہیں۔پھر آپ اس بات پر اپنی توجہ کو مرکوز کرسکتے ہیں،منفی معنوں میں نہیں،بلکہ مثبت معنوں میں کہ شکر ہے مجھے اتنے لوگوں سے فون کر کے معاملات طے کرنے ہیں۔اگر یہ آدھی رات کا وقت ہے تو آپ اسے کاغذ پر لکھیں اور پھر سو جائیں۔ایسی صورت حال کے پیش نظر آپ پہلے سے ہی اپنے بیڈ پرایک کاغذ اور قلم بھی رکھ سکتے ہیں۔
                آپ بلاشبہ ایک بہت مصروف شخص ہو سکتے ہیں۔لیکن یاد رکھیے کہ ان باتوں سے اپنے دماغ کو بھرنے سے آپ اپنی پریشانیوں اور تلخیوں میں اضافہ ہی کرتے ہیں نہ کہ آپ انہیں کم کرتے ہیں۔آئندہ کبھی آپ کو ایسی صورتحال درپیش ہو تو آپ اس مشق کو استعمال میں لائیں۔آپ واقعی حیران ہوں گے کہ یہ کتنی کارآمد ہے۔