Monday, November 2, 2015

دہی کے چونکا دینے والے فوائد ابھی پڑھیں

ہم میں سے کون ہے جو بیکٹیریا کے نام سے ہی خوفزدہ نہیں ہوتا اور اس سے بچاؤ کی تدبیر نہیں کرتا لیکن دہی ایسا Probiotice ہے جو صحت کے کئی مسائل حل کردیتا ہے۔ غیر صحت بخش غذائیں٬ کم پانی کا استعمال ہر وقت تشویش یا انتشار کی کیفیت میں رہنا یا کسی طویل بیماری کے بعد نظام ہاضمہ کا بُری طرح متاثر ہونا ایسی کیفیتیں اور رویے ہیں جن سے لوگ اکثر و بیشتر متاثر ہوتے ہیں لیکن ان مسائل پر توجہ نہیں دیتے-
 

جس وقت کسی بیماری کے علاج کے طور پر اینٹی بایوٹکس استعمال کرنا ناگزیر ہوجائے تو عموماً منہ خشک ہونے اور رنگت کے زرد پڑجانے کی شکایت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور پھلوں کے عرقیات یا سادہ پانی کا استعمال بڑھا دیتے ہیں۔ 

یہ محتاط رویہ ایسا غلط نہیں ہوتا تاہم اگر وہ اپنی غذا میں دہی کا استعمال شامل کرلیں تو چند دنوں میں حیرت انگیز تبدیلی محسوس کریں گے۔ بیشتر بیماریاں معدے کے افعال بگڑنے سے ہوتی ہیں۔ کم کھانا یا ضرورت سے زیادہ کھالینا دونوں روئیے معدے پر گرانی کا باعث بنتے ہیں۔

ہماری غذا خاص کر کھانوں میں دہی کا استعمال ہوتا ہے۔ مشرقی لوگ رائتے اور چٹنیوں میں دہی شامل کرتے ہیں یا میٹھے دہی سے کھانے کا اختتام کرتے ہیں۔ اس شکل میں یہ معدے میں اچھے اور بُرے بیکٹیریا کا ایک توازن قائم کرتا ہے۔
 

اگر ہم کئی روز تک کسی بھی شکل میں دہی نہیں کھاتے تو اس کا مطلب ہے کہ صحت خراب کرنے والے بیکٹیریا اپنے قدم جمالیں گے۔ اینٹی بایوٹکس کے مضر صحت اثرات اچھے بیکٹیریا کو مار دیتے ہیں‘ اسی وجہ سے چہرے اور پورے جسم کی ہئیت اور رنگت متاثر ہوتی ہے۔ 

مختلف تیزابی ردعمل معدے میں سرائیت کرجانے کی صورت میں نئی شکایات پیدا ہوتی ہیں جن میں قبض‘ اسہال یا دستوں کی بیماری یا قے کی صورت میں بدنظمی جیسے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

جسم کا مدافعتی نظام درست کرنے کیلئے دہی کا استعمال بڑھا دینا چاہیے۔ معدے میں تیزابیت کے خاتمے اور ٹھنڈک کے احساس کیلئے دہی نہایت اکسیر پروبایوٹکس ہے۔ ڈائریا کا خاتمہ کرتا ہے اور دودھ یا دیگر غذاؤں سے پیدا ہونے والی حساسیت کا خاتمہ کرتا ہے۔ عام طور پر اسہال کی صورت میں دہی کو بطور دوا استعمال کریں تو چونکانے والے نتائج سامنے آتے ہیں یہ توانائی کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔
 

جلدی امراض اور دہی کا استعمال
ماں بننے والی خواتین غذائی عادتوں کی تبدیلی کے باعث حساسیت کا شکار ہوسکتی ہیں۔ نوعمر بچے بدہضمی کا شکار ہوسکتے ہیں‘ اسی طرح مختلف گرم تاثیر والی یا مقوی غذاؤں کے استعمال کے بعد الرجی کی شکایت دہی کھانے سے دور ہوسکتی ہے۔ 

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ بیرونی علاج کے طور پر ادویات کا استعمال جاری رکھنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن اگر غذائی علاج میں محتاط رویہ اپنالیا جائے یعنی دہی کا استعمال جاری رکھا جائے تو تکلیف سے بہت جلد چھٹکارا مل سکتا ہے۔

بچوں میں جلدی خارش‘ چھوٹے چھوٹے دانے نکلنے اور Atopic Eczemaسے نجات کیلئے دہی کا استعمال بڑھا لینا چاہیے۔
 

دہی چہرہ نکھارنے کا وعدہ پورا کرتا ہے
نوجوان بچیوں کو کیل مہاسوں اور دانوں کے علاوہ چہرے کے دورنگی ہونے کی شکایت ہوسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پچاس فیصد کیسز میں دہی نے ہارمونز کے نظام کو توازن دے کر چہرے کو ان مسائل سے نجات دلادی جس کیلئے ایکنی لوشنز وغیرہ استعمال کیے جاتے رہے تھے تاہم ڈائیٹیشنز کے مطابق دہی کا استعمال روزانہ کرنا بہتر نتائج دیتا ہے۔ 

دہی صاف اور تازہ استعمال کیا جائے تو بہتر ہے۔ کھٹی دہی میں غذائیت کی تاثیر تبدیل ہوجاتی ہے لیکن اگر اسے ماسک یا ابٹن کے طور پر استعمال کرنا چاہیں تو بہتر افادیت رکھتا ہے یا پھر شہد کے ساتھ معتدل کرلیا جائے تو موافق آتا ہے۔

گدھا تو گدھا ہوتا ہے

٭ مردہ گوشت بیچنے پر 8سال قید 5لاکھ جرمانہ ہوگا۔ خبر
اس کا مطلب ہے زندہ اور تازہ گوشت کرنے والوں کو 10سال قید اور10لاکھ جرمانہ ہوگا۔گدھا کھلانے والے قصاب تو اب دہائیاں دیں گے۔وہ تو اس بات کا اصرار کریں گے کہ اس بے ایمانی کے دور میں اتنی ایماندار ی دکھانے والوں کو ان بے ایمان قصابوں سے زیادہ سز ا ملنی چاہیے۔گدھا تو اب ڈی ویلیو ہو گیا ہے۔گدھے کی کھال کے بہانے ظالم کے بچوں نے پاکستانیوں کو گدھا تکہ،گدھا بریانی،گدھا قورمہ،گدھا سری پائے اور گدھا کباب کھلانے کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔یہ تو بھلا ہو عائشہ ممتا ز جیسی نڈر فوڈ انسپکٹر ز کا جنہوں نے ہمیں حلال گوشت کھلانے کا بندوبست شروع کر دیا ہے ورنہ یقین کریں ہم پاکستانی تو گدھے کے گوشت کے شوقین ہو چلے تھے۔جنہوں نے میرے سمیت ہوٹلوں پر کھانا کھایا ہے وہ اب ایک مہینہ بلا ناغہ کدو کریلے کھائیں اور روز اینٹی باؤٹک ادویات استعمال کریں کہیں گدھا خدانخواستہ ہمیں بھی ’’گدھا‘‘ ہی نہ بنا دے۔

٭ عراق سے سبق ملا ، طاقت اور پیسے سے دوسرے ملک میں امن نہیں لا سکتے۔ اوبامہ
شکر ہے امریکہ نے بھی سچ تسلیم کر لیا ہے ورنہ ایسا سچ تسلیم کرنا شاید ناممکنات میں سے تھا۔اسامہ بن لادن کے چکر میں افغانستان تاحال جل رہا ہے۔عراق کو فتح کرنے کے چکر میں نہ صرف صدام کو فارغ کیا بلکہ پورے عراقیوں اور عراق کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔لیبیا میں کرنل قذافی کی خاطر پورے لیبیا کی واٹ لگا دی۔اس کو کہتے ہیں دنیا بھر کی تھانیداری یا پوری دنیا کی بڑی اجارہ داری۔کئی دفعہ گاؤں کا نمبردار بھی پورے گاؤں کو مار کر پچھتاتا ہے کہ اب نمبرداری کس پر کروں گا؟ طاقت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ہر مسئلے کا حل امن اور مذاکرات ہیں۔جو لوگ اور قومیں مذکرات کا رستہ چھوڑ دیتی ہیں وہ ناکام و نامراد رہتی ہیں۔

٭ برطانوی صحافی مظہر محمود پر فرد جرم عائید۔ خبر
کر کٹرمحمد عامر،محمد آصف اور سلمان بٹ کا دھڑن تختہ کرنے والا جھوٹا اور بلیک میلر نکلا۔حقیقت میں یہ بھی ایک بڑا ڈرامہ ہے کہ ’’تینوں مذکورہ‘‘ جب اپنے کھیلنے کا بہترین دور کھو چکے ہیں تب بلیک میلر صحافی پکڑا گیا ہے۔اب نہ تو مذکورہ کھلاڑیوں کی سزا واپس ہو سکتی ہے اور نہ دنیا بھر میں پاکستان کی ’’جگ ہنسائی‘‘ کا کوئی ازالہ ہو سکتاہے۔اس کو کہتے ہیں چور الٹا کوتوال کو ڈانٹے۔چور بھی کہے چور چور چوروں سے ہوشیار رہیئے۔ایک خاتون کو ہالی ووڈ کی بڑی ہیروئن بنانے کے چکر میں اس کو گولیاں دینے والا مظہر محمود خود ہی بڑا ’’ڈان‘‘ نکلا۔سٹہ بازی کیس میں اگرچہ کچھ نہ کچھ قصوروار سلمان بٹ اور محمد آصف تھے لیکن اس کی زیادہ سزا نو عمر محمد عامر کو اٹھانا پڑی۔

٭ بھارت نے رواں سال 400مرتبہ سیز فائر کو توڑا۔ اقوام متحدہ میں شکایت
ملک کا نام ہو ہندوستان اور پنگے بازی نہ کرے۔پنگہ بازی تو ہندوستان کے انگ انگ میں رچا بسا ہے۔ہندوستان تو وہ ملک ہے جہاں ان کی اپنی عوام ہندوستانیوں سے تنگ ہے۔ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی عزتیں تک غیرمحفوظ ہیں۔گزشتہ روزہندوؤں کو فقط اتنی خبر ملی کہ ایک مسلمان اخلاق حسین کے گھر گائے کا گوشت ہے۔بس یہ سننا تھا کہ تنگ نظر ہندوؤں نے اس کے گھر میں کر اسے شہید کر دیا اور اس کے بیٹے کو شدید زخمی کر دیا۔ اتنا بھی نہ سوچا کہ مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں یہ تو کم بخت ہندو ہیں جو گائے کھانا برا سمجھتے ہیں۔سکھ قوم ہندوستانیوں کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔مقبوضہ کشمیر والے ہر روز پاکستانی پرچم لہرا کر ہندوستان کے منہ پر تھپڑ مارتے ہیں لیکن صاحب غیر ت تو غیرت والوں کی ہوتی ہے ہندوستان کی غیر ت ہی نہیں وہ بھلا کہاں شرم حیا کریں گے۔دعا کریں کہ مسلمان کشمیری ،ہندوستانی سکھ اور ہندوستان میں رہنے والے مسلمان ہندوستان کی چنگل سے نکل جائیں۔باقی جہاں تک ہمارے پاکستانی بارڈر کی بات ہے پاکستان ہندوستان کو جواب دینا خوب جانتا ہے۔پاکستان نے یہ اچھا کیا کہ اقوام متحدہ کو ہندوستان کی سرحدی خلاف ورزیوں کی ویڈیو اور کلپس کے شواہد دے دیئے ۔جس دن دو دو ہاتھ ہوگئے ہماری فوج اور ہماری قوم ہندوستان کو اس کی نانی یاد دلا دے گی۔انشاء اﷲ

٭ 4اکتوبر کو میگا کرپشن بے نقاب کرونگا۔ عمران خان
خان صاحب اگر ہو سکے تو کسی اچھے منصوبے کی نقاب کشائی ہی کر لیں۔آپ نے چند سالوں سے سیاسی بیان بازویوں کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔آپ کا دھرناا یک فلاپ شو تھا اورآپ کے ہر مطالبے پر الیکشن کمیشن اور عدالتوں نے شفافانہ تحقیقات کیں۔جو الیکشن ہو گئے اور جو ہونے ہیں سب میں آپ کو زمینی حقائق ماننا پڑیں گے۔خان صاحب یہ کرکٹ گراؤنڈ نہیں ہے۔یہ سیاسی میدان ہے اور سیاسی میدان میں ووٹ سے فیصلہ ہوتا ہے۔آپ جو مرضی بے نقاب کریں اس سے پہلے آپ کو عوامی خدمات کے پروجیکٹس کی نقاب کشائی کرنا ہو گی ورنہ ہر میدان میں آپ ہی مات کھائیں گے۔خالی باتوں سے کس کا پیٹ بھرتا ہے۔عوام کی عملاً خدمت کرنا ضروری ہے۔ عملی زندگی اور بیان بازی ولی زندگی میں بہت فرق ہے۔جعلساز جعلساز ہوتا ہے۔لومڑی جتنی بھی چالاک ہو ایک دن اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔

٭ سانحہ منی پر ایرانی سیاست خبر
سانحہ منی شہادتوں کا ایک بڑا سانحہ ہے۔اس میں بہت گیارہ سے سو زائد حاجی شہید ہو گئے اور بہت سارے زخمی ہو چکے ہیں مزید یہ کہ ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔یہ ایک قدرتی حادثہ ہے۔جہاں بھی زیادہ لوگ اکھٹے ہو جاتے ہیں وہاں احتیاط کا دامن کسی کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔اگرچہ اس حادثے پر سعودی حکومت نے تن من دھن سے تحقیقات شروع کر دی ہیں پھر بھی پوری دنیا کے مسلمانوں کو انہیں شک کی نگاہ سے ہر گز نہیں دیکھنا چاہیئے۔اس حادثے میں داعش یا کوئی اور ملوث ہے اس پر بھی تفتیش جاری ہے پھر بھی ایرانی حکومت کی طرف سے اس پر سیاسی بیانات مذہبی لوگوں کی طرف سے ناپسند کئے گئے ہیں۔سعودی عرب او ر سعودی حکومت کو سب احترام کرتے ہیں اور ساری دنیا جانتی ہے کہ ہر سال فریضہ حج پر سعودی عرب کی گرانقدر خدمات کے خلاف بیان دینا انتہائی شرمناک ہے۔

شرمیلی دلہن

کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہے . ہمارے خاندان میں ایک کزن بھائی کی شادی تھی . بڑے دھوم دھڑاکے سے اورنگ آباد سے بارات آئی تھی . شادی کی رسمیں پوری ہوئیں، نکاح کا خطبہ پڑھایا گیا ، قاضی صاحب نے دولہا بھائی سے نکاح قبول کروایا لیکن جب دلہن سے پوچھا گیا تو دلہن چپ .دوبارہ پوچھا گیا لیکن دلہن پھر چپ . قاضی صاحب نے دلہن کے رشتہ داروں سے معاملہ پوچھا . رشتہ دار جو خاصے پریشان ہو چکے تھے دلہن کو سمجھانے لگے . قاضی صاحب نے پھر ایک بار دلہن سے پوچھا ، لیکن پھر وہی چپ . اتنے میں ایک مولوی ٹائپ کے صاحب جنہوں نے دراصل یہ رشتہ کرایا تھا ، بولے کہ ہمارے خاندان کی لڑکیاں شرم و حیا کا پاس کرتی ہیں ، اس طرح بھری محفل میں کچھ نہیں کہیں گی . لڑکی خاموش ہے ، یعنی وہ راضی ہے ، تینوں بار لڑکی چپ رہی ، یعنی تینوں بار وہ راضی تھی . یوں بھی خاموشی میں رضامندی کی باتیں بڑے بزرگوں سے سنتے آٔئے ہیں . قاضی صاحب نے ایک اور شادی میں خطبہ پڑھنا تھا ، لہٰذا انہوں نے یہ حجت قبول کرلی ، اور یوں یہ شادی ہو گئی . بعد میں کیا ہوا یہ ایک الگ کہانی ہے ، لیکن یہ قصّہ مجھے یوں یاد آ گیا ، کہ ہمارے نئۓ نویلے وزیر اعظم بھی کچھ پوچھے جانے پر اسی طرح شرما کر چپ ہو جاتے ہیں . دادری میں انتہا پسندوں نے ایک معصوم کو قتل کر دیا ، لوگوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا لیکن وہ شرما گئے . مہنگائی آسمان چھونے لگی ، لوگوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا لیکن وہ پھر شرما گئے . سب سے زیادہ تو وزیر اعظم تب شرماتے ہیں جب ان سے لوگ الیکشن میں کیٔے گئے وعدوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ، لیکن وہ ہر بار شرما جاتے ہیں . اب کوئی اتنا شرمأے تو کیا کرے گا قاضی . اسے دوسری شادیاں بھی تو کروانی ہیں . یہ شادی تو سمجھو اسی طرح چلے گی . . . جب تک چل سکے .

مستقل مزاجی کامیابی کی کنجی

کسی بھی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کوئی شخص اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ضروری سمجھتا ہے۔ زندگی میں کامیابی کی قیمت ہمیشہ جہد مسلسل و مستقل مزاجی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر کسی انسان کو سفر کر کے ہزاروں میل دور منزل تک پہنچنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل قدم اٹھاتا جائے، اگر وہ قدم نہیں اٹھاتا یا راستے میں تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے تو کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ چین کے عظیم قائد ماﺅزے تنگ نے تاریخ ساز لانگ مارچ کا آغاز کرتے ہوئے ”انقلابیوں“ سے کہا تھا: ”ہزاروں میل کا فاصلہ ایک قدم آگے بڑھنے سے کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔“ بہت سے لوگ کسی کامیاب انسان کو دیکھ کر اس جیسا بننے کی بات کرتے ہیں، لیکن اس کی طرح جدوجہد نہیں کرتے۔ اس کے موجودہ مقام و مرتبہ پر رشک تو کرتے ہیں، لیکن اس مقام کے پیچھے طویل عرصے کی جدوجہد پر نظر نہیں ڈالتے۔ ہر کامیاب شخص ایک طویل محنت و جدوجہد کرنے کے بعد ہی اس مقام تک پہنچتا ہے، جو مقام ہمیں نظر آرہا ہوتا ہے، اس مقام تک پہنچنے کے لیے یقیناً ہمیں بھی اسی تسلسل کے ساتھ محنت کرنا ہوگی جس تسلسل کے ساتھ کسی بھی کامیاب شخص نے محنت کی۔

کسی بھی کام کو اس کے مطلوبہ نتائج تک پہنچانے کے لیے انسان میں صرف شوق اور ہمت کا ہونا ہی ضروری نہیں، بلکہ تسلسل کے ساتھ محنت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر کامیابی کا ملنا محال ہے۔ جو لوگ کسی کام کو تسلسل کے ساتھ کرتے رہتے ہیں، وہ اپنی کشتی کو ایک دن ضرور ساحل پر پہنچا کر رہتے ہیں اور جو ہمت ہار جائیں تو ان کی کشتی ہمیشہ بھنور میں پھنسی رہتی ہے۔ کسی صاحب خرد و دانش کا قول ہے: ”کسی کام کو کرنے سے پہلے سوبار سوچو کہ یہ کام ٹھیک ہے یا نہیں۔ جب تمہارا ذہن اس کام کے کرنے کا فیصلہ دے دے تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کرلو اور دم اس وقت لو جب اسے پورا کرچکو۔ اس بات سے نہ گھبراﺅ کہ راستے میں مشکلات آئیں گی۔ اپنی منزل کی طرف نگاہ کر کے آگے بڑھتے چلے جاﺅ۔ انشاءاللہ کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے گی۔“ بہت سے لوگ کسی کام کا آغاز کرتے وقت بہت جوش و خروش دکھاتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ یہ جوش و خروش مدہم ہوتا جاتا ہے اور پھر ایک دن وہ ہمت ہار جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے مقصد کو پانے کا دم تو بھرتے ہیں، لیکن راستے میں ہی ان کے ارادے دم توڑ جاتے ہیں اور وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ جب کہ بہت سے لوگ کھلی آنکھوں سے بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان کی تعبیر بھی پالیتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو محنت اور مستقل مزاجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں اور پھر جہد مسلسل اور مستقل مزاجی کامیابی کو ان کے قدموں میں لے آتی ہے۔

بہت سے لوگ ایک اچھا لکھاری بننے اور بڑے کالم نگاروں کی طرح مقبولیت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، لیکن دو چار تحریریں مسترد ہونے کے بعد ہی ہمت ہار جاتے ہیں اور لکھنا چھوڑ دیتے ہیں، حالانکہ لکھنا لکھنے سے آتا ہے اور تحریر میں نکھار مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک اچھا لکھاری بننے کے لیے مستقل مزاجی سے پڑھنا اور لکھنا ضروری ہے۔ بہت سے طالب علم تعلیم حاصل کرنا شروع کرتے ہیں، چند دن تک شوق سے پڑھتے ہیں، لیکن چند دن کے بعد ہی وہ اپنی تعلیم سے اکتا کر کسی اور وادی میں اترجاتے ہیں اور انجام کار امتحان میں ناکامی کا داغ لگ جاتا ہے۔ اس کے برعکس کتنے ہی طالب علموں کو اگرچہ تعلیم کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہوتا، لیکن چونکہ ان کی محنت میں تسلسل ہوتا ہے اور وہ پورا سال پڑھتے رہتے ہیں، اس لیے کامیابی بھی ان کے قدموں کی دھول بنتی ہے۔ کامیابی کا راز ہمت اور شوق کے ساتھ مسلسل محنت میں پوشیدہ ہے۔ پانی کا دھارا بھی اگر مسلسل پتھر پر گرتا رہے تو اس میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔ عظیم محدث حافظ خطیب بغدادی لکھتے ہیں: ”ایک آدمی کو علم حاصل کرنے کا شوق تھا، لیکن وہ اس میدان میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا، چنانچہ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب علم حاصل نہیں کرے گا۔ اس کا گزر ایک پہاڑ کے پاس سے ہوا، جس کی چوٹی سے پانی ایک چٹان پر مسلسل گررہا تھا اور اس تسلسل نے چٹان میں شگاف پیدا کردیا تھا، طالب علم نے چٹان پر گرتے پانی کو دیکھا اور بولا: ”پانی نے اپنی لطافت کے باوجود مسلسل بہہ کر چٹان کی کثافت میں یہ شگاف پیدا کردیا تو میں کیوں علم حاصل نہیں کرسکتا؟ سو اللہ کی قسم ! میں بھی ضرور علم حاصل کروں گا، پھر وہ علم کی دھن میں لگ گیا اور علم کو حاصل کر لیا۔“ مستقل مزاجی انسان کو منزل تک پہنچاتی ہے۔ جو لوگ مستقل مزاج نہیں ہوتے، وہ منزل نہیں پاسکتے۔ ان کے ارادے بدلتے رہتے ہیں۔ اگرچہ انسانی فطرت میں متبادلات کا عنصر ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے اور ہونا بھی چاہیے، لیکن بعض اوقات باربار متبادل راستے ڈھونڈنا منزل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ تکلیف یا مصیبت میں متبادل راستہ کام آسکتا ہے، لیکن جب منزل طے ہوجائے تو اس کے بعد بار بار متبادل کا سوچنا راہ نجات نہیں۔

یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ قدرت مستقل مزاج اور محنتی انسان پر ضرور مہربان ہوتی ہے۔ مستقل مزاجی وجہد مسلسل کی بدولت بہت سے لوگوں نے اپنے بلند و بالا خوابوں کو حقیقت کردکھایا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنے لوگ عظیم ،ہیر و اور لیڈر بنے ان کی کامیابی کاراز جدوجہد مسلسل اور مستقل مزاجی ہے۔ دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق اورکارنامے یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور محنت کے کرشمے ہیں۔ اگر انسان مسلسل محنت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے۔ مستقل محنت کے ذریعے ہی بڑے بڑے علمائے کرام، سائنسدان، سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد اور قلمکار و ادیب اس مقامِ خاص تک پہنچے، جہاں آج ہم انھیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ آج کا انسان زمین و آسمان، کوہسار و صحرا اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے اور یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔ تمام افراد جو کامیابی کے بلند و بالا زینے تک پہنچے، وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔

دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو ناممکن ہو۔ مستقل محنت اور جہد مسلسل سے ہر نا ممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مستقل محنت کے سامنے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ لغزش پیدا کرسکتے ہیں، نہ ہی دشت و صحرا آج تک اس کا راستہ روک سکے ہیں۔ جب انسان کسی کام کی تکمیل کا عزم مصمم کر لے تو اس کی راہ میں حسد رکاوٹ بنتا ہے، نہ دھوکا آڑے آتا ہے۔ سازش خلل ڈالتی ہے، نہ کوئی اور چیز مانع ہوتی ہے۔ بند راستے، پرخاروادی اور کھڑی رکاوٹیں اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کرسکتیں۔کامیابی حاصل کرنے کے لیے انسان کو ہمیشہ اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھنا چاہیے۔ اگر کسی موڑ پر اس کی محنت اور ہمت کا شیرازہ بکھربھی جائے، تب بھی ناامیدی کے اندھیر ے کو جہدِ مسلسل سے روشن کرتا رہے تو ترقی اور کامیابی اس کے قدم ضرور چومے گی۔

غیر مسلم کا اعتراض مسلمان کا جواب(لازمی پڑھیں)

کل ہی کی بات ہے ہمارے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ غیر مسلم افراد مسلمانوں کو ایک ظالم قوم سمجھتے ہیں اُن کے بقول مسلمان جانور کو جب زبح کرتے ہیں تو لٹا کر گردن پر چھری پھیرتے ہیں اور تڑپا تڑپا کر مارتے ہیں اور ہم لوگ ایسا نہیں کرتے ہم جانور کو مشین کے زریعے ایک ہی دفعہ میں سر الگ کر دیتے ہیں یا پھر جانور کے سر پر زور سے ہتھوڑا مارتے ہیں جانور وہیں مر جاتا ہے لیکن ہم تڑپا تڑپا کر نہیں مارتے۔سوال تو ہمارے قارئین نے سمجھ لیا ہو گا اب ذرا کھرا جواب بھی مسلمانوں کی طرٖ ف سے ملاحظہ فرمائیں:
۱) پہلی بات تو یہ جو طریقہ جانور کو زبح کرنے کا آپ کے پاس ہے شریعت محمدی ؐ میں اس کو جھٹکے کا گوشت کہتے ہیں جو کہ حرام ہے جانتے ہیں کیوں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ جانور کو جھٹکا مار کر ایک دم مار دیتے ہیں تو اُس کے دل کی دھڑکن رک جاتی ہے اور دل کا کام ہے خون کو Circulate کرنا بس جیسے ہی دل بند ہوتا ہے جانور مر جاتا ہے لیکن رگوں میں خون باقی رہ جاتا ہے جو انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلاء کر دیتا ہے اور کیوں کہ اﷲ اپنی مخلوق سے ۷۰ ماؤں سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے وہ نہیں چاہتا کہ ہم اس طرح کا گوشت کھا کر تڑپ تڑپ کر مختلف بیماریوں سے مریں اس لئے اﷲ نے ایسے گوشت کو حرام قرار دے دیا ہے۔
۲)اور دوسری بات جو آپ نہیں جانتے شاید وہ یہ کہ ہم مسلمان جب جانور کو زبح کرتے ہیں تو تیز چھری سے جانور کو زبح کیا جاتا ہے تا کہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو اور چار رگوں کو اس لئے کاٹا جاتا ہے کیوں کہ ان چار رگوں میں سے ایک رگ وہ ہے جو جانور کو درد کا احساس دلاتی ہے ہم سب سے پہلے اُسی رگ کو کاٹتے ہیں تا کہ جانور کو درد کی شدت کا احساس نہ ہو ،اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر درد والی رگ کو کاٹ دیا جاتا ہے تو پھر جانور تڑپتا کیوں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کے رگوں سے جب خون نکلتا ہے تو جسم کی رگیں کھچنے لگتی ہیں جس کی شدت کی وجہ سے جانور تڑپتا ہے۔
۳)جو مسلمان اﷲ کو ایسے مانتا ہے جیسے رسول ؐ نے حکم دیا ہے وہ کبھی بھی ظالم نہیں ہو سکتا ،قربانی ہم نہیں کرتے ہمیں اﷲ کے محبوب نبی نے حکم دیا ہے کہ قربانی کروا ور قربانی کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے بس جیسے رسول ؐ نے بتایا ہے ویسے ہی ہم کرتے ہیں ،اور شریعت محمدی ؐ میں آپ کو کہیں کسی بھی مسئلے میں ظلم نظر نہیں آئے گا کیوں کہ اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے ۔

محرم الحرام کی فضیلت اور آج کے مسلمان

محرم اسلامی کلینڈر کے مطابق پہلا مہینہ ہے۔یکم محرم کو نئے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔اس مہینے کی بھی بہت زیادہ فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔یوں تو سارامہینہ ہی عظمتوں والا ہے مگر دس محرم جسے یوم عاشورہ بھی کہتے ہیں اس کی کچھ زیادہ ہی فضیلت بیان کی گئی ہے۔یوم عاشورہ کا مطلب ہے(دسواں دن)۔آپ صل الله علیہہ وسلم خود بھی اس دن روزے کا اہتمام فرماتے۔اور اس دن روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت بیان کی۔
دس محرم کو دوسرے دنوں پرفضیلت حاصل ہے۔

اس دن الله تعالی نے آسمانوں زمینوں سمندروں اور پہاڑوں کو پیدا کیا۔حضرت آدم علیہہ اسلام اسی دن پیدا ہوئے اور انکی توبہ بھی اسی دن قبول ہوئی۔حضرت ابراہیم علیہہ اسلام اور حضرت عیسی علیہہ اسلام کی پیدائیش بھی اسی دن ہوئی۔اور حضرت موسی علیہہ اسلام کی قوم کو فرعون سے نجات بھی اسی دن ملی۔حضرت داؤد علیہہ اسلام کی توبہ بھی اسی دن قبول ہوئی۔حضرت ایوب کی تکلیف دور ہوئی۔اسی دن آسمان سے پہلی بارش برسی۔لوح و قلم بھی اسی دن وجود میں آئے اور عاشورہ کے دن ہی قیامت برپا ہوگی۔
آپ صل علیہہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس دن اپنا دستر خواں وسیع کرتا ہے الله تعالی پورا سال اسکے رزق میں کشادگی فرماتے ہیں۔

نواسہ رسول صل علیہ وسلم کو اسی دن شہادت کے رتبے سے سرفراز فرمایا۔بےشک الله نے یہ دن حضرت امام حسین علیہہ اسلام کی شہادت کے لئے مختص کیا۔حضرت امام حسین علیہہ اسلام نے اسلام کی خاطر خود کو قربان کر دیا۔اور اسلام کو زندہ رکھا۔
“قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے۔
“اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد

قربانی کا سلسلہ تو شروع سے ہی چلتا آیا ہے۔کبھی حضرت ابراہیم علیہہ اسلام سے انکے بیٹے کی قربانی اور کبھی حضرت حسین علیہہ اسلام کی قربانی اسلام دین کو بہت سی قربانیوں نے سینچا ہے۔حضرت امام حسین اور انکے خاندان پر بے جا جبر اور نا انصافیاں کی گئیں ۔ مگر انہوں نے صبر کا دامن نہ چھوڑا اور اسلام کی رسی کو مضبوتی سے تھامے رکھا۔

آج دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں ۔کوئی بھی مظلوم مسلمانوں کی خاطر آواز اٹھانے والا نہیں۔ ہر کوئی دو دن کے احتجاج کے بعد صحیح اور غلط بھول کر اپنے کاموں مصروف ہو جاتا ہے۔اپنے مظلوم بھائیوںکا کوئی خیر خواہ نہیں۔
“اخوت اسکو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
“تو ہندوستاں کا ہر پیروجواں بے تاب ہو جائے۔

ہم سب اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ہمارے اندر اخوت نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ہے کوئی مائی کا لال؟جو اپنے مسلمان بہن بھا ئیوں کے لئے ڈٹ جائے اور غلط کو غلط تسلیم کرے۔
“جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو۔
ڈٹ جاؤ حسین کےانکار کی طرح۔

آج بھی اس دور میں بھی بڑے یزید ہیں۔جنک ہمیں حضرت حسین علیہہ اسلام کی طرح مقابلہ کرنا ہوگا تبھی اسلام سرخرو ہوگا۔حضرت امام حسین نے ہمیں صبر امن اور سچائی کا پیغام دیا۔محرم رمضان ایسے مہینے کچھ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ہمیں انکی اہمیت کو سمجھنا چاہئے۔اور ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ ہماری سمت درست ہے یا غلط۔۔ہم سب کو الله کے حضور محرم کے بابرکت مہینے میں حاضر ہو کے معا فی مانگنی چاہیے۔اور باقی ماندہ زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عہد کرنا چاہئیے۔حضرت امام حسین علیہہ اسلام کو یاد رکھ کے راہ حق کے لئے قربانی سے دریغ نہ کریں۔
الله ہمارا حامئ وناصر ہو۔

اسم اعظم٣ (جادو سے حِفاظت) مُشکلات سے نِجات

محترم قارئین السلامُ علیکم ۔
آج مسلمان دُنیا میں پریشان حال ہیں کوئی معاشی مسائل میں گرفتار ہے تو کوئی گھریلو مسائل کا شکار ہے کوئی بیمار ہے۔ تو کسی پہ قرض کا بار ہے اقوام عالم میں ہم جو کل تک حُکمرانی کا تاج پہنے ہوئے تھے آج اُنہی اقوام میں ہماری پستی اور کمزوری کا یہ حال ہے کہ (ایک اخباری رپورٹ کے مُطابق امریکہ میں) ہمارے لئے علیحدہ سے ایسی اسکرینگ مشین لگوائی جارہی ہیں جس سے گزرتے ہوئے ہم برہنہ دَکھائی دیں گے اور وجہ صاف ہے کل تک ہمیں جو تاجِ سُلطانی عطا ہوا تھا تو رَبّْ عزوجل کی فرمانبرداری کی وجہ سے اور آج جو ذلت ہمارا مُقدر ہوئی ہے تو فقط ہماری بڑھتی ہوئی نافرمانیوں کی وجہ سے۔ قُرآنِ مجید فُرقانِ حمید میں اللہ رَبُّ العالمین ارشاد فرماتا ہے۔

وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا

ترجمہ کنزالایمان سورہ طہ آیت نمر ۱۲۴ 

اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگانی ہے

آئیے ہم سب مِل کو اللہ عزوجل کے ذکر کی ایسی دُھوم مچائیں کہ ہم سے ہمارا کریم رَبّ راضی ہوجائے

لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظالمین(سورہ انبیاء آیت نمبر۸ )

علامہ ابن جریر طبری (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی مشہور زمانہ تفسیر میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اِرشاد فرمایا

:”اسم اللہ الاعظم الذی اذا دعی بہ اجاب و اذا سئل بہ اعظے دعوۃ یونس بن متّی”۔

ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا وہ اسمِ اعظم کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے تو وہ قبول فرمائے اور جب اس کے ذریعہ سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے وہ حضرت یونس بن متّٰی علیہ السلام کی دعا ہے ۔

حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ تعالیٰ عنہُ)اِرشاد فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا “یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!یہ حضرت یونس علیہ السلام کے لئے ہی خاص تھی یا تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے ؟”۔
آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اِرشاد فرمایا :” جسکا مفہوم ہے٬ یہ دُعا صرف حضرت یونس علیہ السلام کیلئے مخصوص نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے”۔

کیا تو نے قران نہیں پڑھا کہ 
فاستجبنا لہ ونجیناہ من الغم و کذلک ننجی المومنین

ترجمہ:ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی ۔ اور ان کو غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں۔
پس جو بھی اس دعا کو پڑھے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا قبولیت کا وعدہ ہو چکا۔

علامہ ابن جریر (رحمۃ اللہ علیہ)اِرشاد فرماتے ہیں کہ اس دعا میں اسم اعظم ہے اور اس کے ذریعہ جو دعا کی جائے گی وہ قبول کی جائے گی اور جو خواہش ہوگی وہ پوری کی جائے گی۔

محترم قارئین جب کوئی مسلمان روحانی علاج کے سلسلے میں میرے پاس آتا ہے اور جب مجھے یہ بتاتا ہے کہ میں ہر جگہ علاج کی خاطر گیا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا لوگوں نے خوب مجھ سے پیسے بٹورے اور چکر لگوا لگوا کر پریشان الگ کیا تو مجھے انتہائی دُکھ ہوتا ہے کہ کس طرح جعلی عامل حضرات لوگوں سے کھیل رہے ہیں۔ لیکن مجھے حیرت تب ہوتی ہے جب کسی اچھے خاصے پڑھے لکھے فرد کو سمجھانا مُشکل ہوجاتا ہے کہ بھائی آپکے ساتھ کوئی روحانی مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں تو میں آپ کو مرض کیا بتاؤں؟ لیکن مجھ سے اسرار کیا جاتا ہے کہ آپ اچھی طرح سے پھر چیک کریں جبکہ مجھے سمجھانا مُشکل ہو جاتا ہے کہ بھائی آپ صرف آزمائش میں مبتلا ہیں آپ اسم اعظم پڑھیں کہ احادیث مُبارکہ میں آیا ہے کہ اس کے پڑھنے سے بڑی سے بڑی مُصیبت ٹل جاتی ہے آپ بھی اِس اسم اعظم ( لا الٰہ الا انت سُبحنک انی کنتُ من الظلمین) کا ورد کریں۔ گھر پہ آیت کریمہ کا ورد کروائیں اپنے لئے خود بھی دُعا کریں مدرسے میں حُفاظ بچوں سے بھی ورد بھی کروائیں اور دُعا بھی۔ اور اپنے دوست احباب سے بھی دُعا کی استدعا کریں کہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ایک مسلمان کی اسکے دوسرے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں مانگی ہوئی دُعا رَد نہیں ہوتی خوب صدقہ اور خیرات کریں کہ صدقہ بھی رد ٔ بلا ہے۔ 

اور مجھے غصہ تب آتا ہے جب کوئی مسلمان یہ بتائے کہ میں تو ہندو جوگیوں یا جادوگروں سے بھی علاج کرواچُکا ہوں تب اپنے غصے کو پی کر اُنہیں سمجھانا پڑتا ہے کہ بھائی قرآن مجید کے ہوتے ہوئے تمہیں کیا سوجھی کہ جوگیوں اور جادوگروں کے پاس جانے کی حاجت پیش آئی کیا تم نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ نہیں پڑھا۔ 

کیا تم نے ہاروت ماروت کا واقعہ نہیں پڑھا کیا تم نے خواجہ خواجگان معین الدین چشتی (رحمتہ اللہ علیہ) کا واقعہ نہیں سُنا کہ کس طرح اُن کی جوتی نے زمانے کے سب سے بڑے جادوگر کا سر نیچا کیا تھا کس طرح کوئی مسلمان جوگی یا جادوگر کے پاس استمداد کے لئے جاسکتا ہے کہ جادو سیکھنا۔ جادو کرنا۔ جادو کروانا۔ جادو پر اعتقاد رکھنا سب حرام اور جہنم میں لیجانے والے کام ہیں اکثر سننے میں آیا ہے جادوگر اس طرح کے کُفریہ کلمات پڑھنے کے لئے دیتے ہیں کہ اُنکے پڑھنے سے کفر لازم آتا ہے حالانکہ پڑھنے والے کو خبر بھی نہیں ہوتی ۔ کیا ہمارے پاس قُرانِ مجید جیسی عظیم دولت موجود نہیں ؟ کیا ہمارے پیارے آقا مَدنی مُصطٰفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قُرآنِ پاک کی تشریح ہمارے لئے نہیں فرمائی؟ کیا ہمیں نہیں بتایا گیا کہ دُعا مومن کا ہتھیار ہے ۔

(جادُو سے حِفاظت)
جو مُسلمان ہر نماز کے بعد یا کم از کم روزانہ کسی ایک نماز کے بعد سات مرتبہ اپنے سینے پر( یا مُمیت) پڑھ کر دَم کرے وہ ہمیشہ جادو سے محفوظ رہے گا۔ یہ عمل میرا آزمودہ بھی ہے۔

مُحترم قارئین کرام قُرآنِ مجید فُرقانِ حمید میں جہاں اِنسانوں کے لئے مُکمل ضابِطہ حیات ہے وہیں یہ مومن کا زبردست ہتھیار بھی ہے کیا آپ کو معلوم ہے جیسے انسان شریر جنات اور شیاطین سے ڈرتا ہے ویسے ہی شیاطین اور جنات بھی انسانوں بالخصوص مسلمانوں سے ڈرتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس کلام الہی کی ڈھال بھی ہے اور دو دھاری تلوار بھی اور شیاطین اور خبیث جنات تب تک کسی مُسلمان پر حملہ نہیں کرتے جب تک کہ اُنہیں یقین نہ ہوجائے کہ سامنے والے کو نہ ہی اپنے ہتھیار کا علم ہے اور نہ ہی چَلانے کا طریقہ معلوم ہے۔ میں آپ کو اپنا ایک واقعہ سُناتا ہوں جو کہ مُجھے اسلام آباد میں پیش آیا ہوا یوں کہ جب میں پہلی مرتبہ ایک مذہبی جماعت کے ساتھ تبلیغ دین کی نیت سے ایک ماہ کے مدنی قافلے کی صورت میں اسلام آباد پہنچا یہ اُنیس سو چھیانوے کا واقعہ ہے تو میرا معمول تھا کہ رات ۱۱ بجے اپنے قافلہ کے امیر سے اجازت لیکر ٹیلیفون کرنے کے لئے پی سی او جاتا تھا اور اپنے گھر والوں سے بات کرنے کے بعد تقریباً رات ۱۲ بجے تک واپس مسجد میں آجاتا کال کرنے کیلئے مُجھے کافی دور جانا پڑتا تھا اور درمیان میں کُچھ سُنسان علاقہ پڑتا تھا اور ایک نالہ جو (شائد) نکاسی بارش کے لئے بنایا گیا تھا ۔ ایک دِن میں اور میرے ساتھ ایک بڑی عمر کے ساتھی جو قافلے میں ہمارے ساتھ ہی آئے ہوئے تھے فون کال کر کے واپس آرہے تھے نالہ آنے سے قبل تیز آواز میں گانا گانے کی نِسوانی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی میرے ساتھی نے مجھ سے کہا اقبال بھائی رات کے اس پہر کون اِس ویران جگہ پر گانا گا رہا ہے حیرت مجھے بھی تھی کہ واقعی اتنی رات کو کون گانا گارہا ہے لیکن ہم نے گانے سے دھیان ہٹا کر مسجد کی جانب پیش قدمی جاری رکھی لیکن جب ہم اُس نالے کے قریب پُہنچے تو میری حیرت کی اِنتہا نہ رہی جب میں نے اُس نالے میں چند خَواتین کو رقص کرتے دیکھا وہی خواتین رقص کیساتھ ساتھ گانا بھی گارہی تھیں اور سب سے زیادہ حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ اُن کے قَد ۲۰ فُٹ سے زیادہ تھےاور دُوسری حیرت کی بات یہ تھی کہ مُجھے اُن سے ذرا بھی خُوف محسوس نہ ہُوا

میرے ساتھ جو ساتھی تھے وہ خُوف سے اُس وقت اپنی آواز کھوچُکے تھے اور بار بار میرے دامن کو کھیچ کر وہاں سے بھاگنے کا اِشارہ کر رہے تھے میں نے اُن سے کہا آپ اپنے خُوف پر قابو رکھیں اگر اِنہیں ذرا بھی اِحساس ہوگیا کہ ہم اِن سے ڈر رہے ہیں تو پھر یہاں سے سلامت نِکلنا مُشکل ہوجائے گا میں نے وہاں بُلند آواز سے یا غُوثِ اعظم دستگیر کا نعرہ بُلند کیا اور فوراً ہی وہ مَخلوق ہمارے سامنے سے غائب ہوگئی میرے اُن ساتھی کو تیز بُخار چَڑھ گیا جو دوسرے یا تیسرے دِن تک رہا اور آج بھی جب کبھی اُن سے مُلاقات ہوتی ہے تو وہ اُس ذکر سے ہی کتراتے ہیں میں نے جب واپس آنے کے بعد اپنے روحانی اُستاد سے اِس واقعہ کا تذکرہ کیا تو اُنہوں نے مجھے بتایا کہ دراصل وہ قومِ جِنّات سے تھیں اگر اُس وقت تم اُنکے قد دیکھ کر ڈر جاتے تو وہ تُمہیں شکار کر لیتیں لیکن تُمہاری بے خُوفی سے وہ خُوفزدہ ہوگئیں بے شک اللہ عزوجل نے اِنسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور دوسری مخلوقات کو اپنا مُطیع بنانے کی صلاحیت صرف اِنسان کو بَخشی گئی ہے لیکن اکثر اِنسان اپنے مرتبے سے بے خبر ہوتے ہیں۔

مُحترم قارئین حسب سابق آپ کمنٹس باکس کے ذریعے اپنے لئے اسم اعظم حاصل کرسکتے ہیں اور دیگر روحانی رہنمائی کے لئے فیس بک پر مجھے میسج بھی کرسکتے ہیں اسم اعظم یا کسی بھی قسم کی رہنمائی کی کوئی دُنیاوی فِیس نہیں ہے مُجھے فقط آپ سب کی دُعا درکار ہے باقی اللہ نے اپنے سوھنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم)کے صدقے میں دُنیا کی ہر نعمت عطا کی ہے الحمدُللہ عزوجل
فیس بُک ایڈریس نوٹ فرمالیں
http://www.facebook.com/ishratiqbal.warsi

اب آخر میں جادو اور اُس کی مذمت کا احوال قُرآنِ مجید سے پڑھتے ہیں

اور اس کے پیرو ہوئے جو شیطان پڑھا کرتے تھے سلطنتِ سلیمان کے زمانہ میں (۰) اور سلیمان نے کفر نہ کیا (الف) ہاں شیطان کافر ہوئے (ب)لوگوں کو جادو سکھاتے ہیں اور وہ (جادو) جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اترا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو نری آزمائش ہیں تو اپنا ایمان نہ کھو (ج) تو ان سے سیکھتے وہ جس سے جدائی ڈالیں مرد اور اس کی عورت میں اور اس سے ضرر نہیں پہنچا سکتے کسی کو مگر خدا کے حکم سے (د) اور وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان دے گا نفع نہ دے گا اور بیشک ضرور انہیں معلوم ہے کہ جس نے یہ سودا لیا آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں اور بیشک کیا بری چیز ہے وہ جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچیں کسی طرح انہیں علم ہوتا 
سورہ البقرہ آیت نمبر102

شان نُزول : حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں بنی اسرائیل جادو سیکھنے میں مشغول ہوئے تو آپ نے ان کو اس سے روکا اور ان کی کتابیں لے کر اپنی کرسی کے نیچے دفن کردیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد شیاطین نے وہ کتابیں نکلوا کر لوگوں سے کہا کہ سلیمان علیہ السلام اسی کے زور سے سلطنت کرتے تھے بنی اسرائیل کے صلحاء و علماء نے تو اس کا انکار کیا لیکن ان کے جہال جادو کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا علم بتاکر اس کے سیکھنے پر ٹوٹ پڑے ۔ انبیاء کی کتابیں چھوڑ دیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام پر ملامت شروع کی سید عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک اسی حال پر رہے اللہ تعالیٰ نے حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی برا ت میں یہ آیت نازل فرمائی۔

(الف)
کیونکہ وہ نبی ہیں اور انبیاء کفر سے قطعاً معصوم ہوتے ہیں ان کی طرف سحر کی نسبت باطل وغلط ہے کیونکہ سحر کا کفریات سے خالی ہونا نادر ہے۔

(ب)
جنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر جادوگری کی جھوٹی تہمت لگائی۔

(ج)
یعنی جادو سیکھ کر اور اس پر عمل و اعتقاد کر کے اور اس کو مباح جان کر کافر نہ بن یہ جادو فرماں بردار و نافرمان کے درمیان امتیاز و آزمائش کے لئے نازل ہوا جو اس کو سیکھ کر اس پر عمل کرے کافر ہوجائے گا بشرطیکہ اس جادو میں منافی ایمان کلمات و افعال ہوں جو اس سے بچے نہ سیکھے یا سیکھے اور اس پر عمل نہ کرے اور اس کے کفریات کا معتقد نہ ہو وہ مومن رہے گا یہی امام ابومنصور ما تریدی کا قول ہے مسئلہ جو سحر کفر ہے اس کا عامل اگر مرد ہو قتل کردیا جائے گا مسئلہ: جو سحر کفر نہیں مگر اس سے جانیں ہلاک کی جاتی ہیں اس کا عامل قطاَّع طریق کے حکم میں ہے مردہو یا عورت 

مسئلہ :جادوگر کی توبہ قبول ہے (مدارک)

(د)
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا مؤثر حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور تاثیر اسباب تحت مشیت ہے۔

(جاری ہے۔ انشاَ اللہ عزوجل )