Friday, October 11, 2013

آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِ اعظمؒ

آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِ اعظمؒ
بے رنگ ہوئے سرو و سمن قائدِ اعظمؒ

تنظیم و اخوّت ہے نہ اب عزم و یقیں ہے
ہم بھول گئے عہدِ کُہن قائدِ اعظمؒ

گلشن کی تباہی کا سماں پیشِ نظر ہے
اُڑتے ہیں یہاں زاغ و زغن قائدِ اعظمؒ

بخشا تھا جسے تُو نے اُجالوں کا لبادہ
اُس قوم نے اوڑھا ہے کفن قائدِ اعظمؒ

پاکیزہ سیاست نہ امامت رہی باقی
دنیا بھی ہے فن ‘دین بھی فن قائدِ اعظمؒ

’شاہیں کے لیے موت ہے کرگس کی غلامی'
ہے زار و زبوں ارضِ وطن قائدِ اعظمؒ

وہ رنگ دکھائے ہیں نئے شیشہ گروں نے
پردیس بنا اپنا وطن قائدِ اعظمؒ

تو نے ہمیں بخشی تھی جو آزادی کی دولت
ہم نصف لُٹا کر ہیں مگن قائدِ اعظمؒ

یہ زخم بھرے گا تو عدو کے ہی لہو سے
زخمی ہیں عساکر کے بدن قائدِ اعظمؒ

کیا تجھ سے کریں گردشِ افلاک کا شکوہ
کھانے لگی سورج کو کرن قائدِ اعظمؒ

اَشکوں کا تلاطم ہے یہاں میرے چمن میں
اُمڈے ہیں وہاں گنگ و جمن قائدِ اعظمؒ

اصنام پرستوں کے لیے صبحِ مسرّت؟
واصف کے لیے رنج و محن قائدِ اعظمؒ

______________________________

حضرت واصف علی واصف ؒ کے شعری مجموعہ ”شب چراغ“ سے انتخاب

سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں


کل ہی کی بات ہے‘ میں کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ گھروالی چاءے لے کر نازل ہو گئ۔ مجھے سوچ میں ڈوبا میں ڈوبا ہوا دیکھ کر بولی “کیا بات ہے خیر تو ہے‘ کس سوچ میں ڈوبے ہوءےہو؟!"
"
نہیں کوئ ایسی خاص بات نہیں"
"
پھر بھیمجھے اپنی پنشن کے بےبابائ ہونے کے سبب پنشن آڈر میں کیڑا بھرتی کرنے کا تذکرہ اچھا نہ لگا۔ ہر روز ایک ہی راگ سن کر کان پک جاتے ہیں۔ دوسرا اس نے مجھے ہی جھوٹا کرنا تھا۔ جب رشوت اصول اور ضابطہ بن گئ ہو تو حاجی ثناءالله بننے کی کیا ضرورت ہے۔ اصول اور ضابطے سے انکار موت کو ماسی کہنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی کہ اصلاح اور بہتری جو کسی کی معدہ کشی کا سبب بنتی ہو جرم کبیرہ سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ دوسرا میرے اپنے حوالہ ہی سے سہی‘ اصلاح اور بہتری کا ٹھیکہ میں نے کیوں لے رکھا ہے۔ یہ حاکم کا کام ہے‘ وہ کرے نہ کرے‘ مجھے اس سے کیا۔ میرے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھتے ہیں۔ اس میں کسی اور کو ٹانگ زنی کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں تو لوگ اپنا کام ایمانداری تو بہت دور کی بات بددیانتی سے کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لہذا مجھے نہایت فرمانبرداری سے زر رشوت ادا کرکے کام نکلوا لینا چاہیے تھا۔ اب اپنی کرنی کی بھگتوں۔ایک ہی با ت پر ایک ہی انداز سے بےعزاتی کروانا سراسر بدذوقی تھی۔ کم از کم انداز اور ذاءقہ تو بدلا جانا چاہیے۔ ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھا جا سکتا ہے۔ اچانک ایک نئ با ت میرے ذہن میں آئ۔ میں نے اس کے سوال کے جواب میں عرض کیا“ کوئ بہت گڑبڑ میرے اندر چل رہی ہے۔"
"
کیوں کیا ہوا؟"
"
اب عینک سے دھندلا نظر آتا ہے اور بغیرعینک کے تو کچھ نظر آتا ہی نہیں"
"
میں تو پہلے ہی کہتی ہوں تمہارے سر میں دماغ نام کی چیز ہی نہیں"
کیا بکواس کرتی ہو“ میں نے جعلی غصہ دیکھاتے ہوءے کہا۔
"
ہاں ٹھیک کہتی ہوں"
"
خاک ٹھیک کہتی ہو"
"
ارے میں کب کہتی ہوں تمہارے دماغ میں گڑبڑ ہے‘ دماغ ہوگا تو ہی گڑبڑ ہو گی۔"
"
یہ کیا پہلیاں بھجوا رہی ہو‘ صاف صاف کہو"
"
جاؤ جا کرعینک کا نمبر بدلو"
"
میں نے پکا سا منہ بنا کرکہا ارے یہ بات تومیرے ذہن میں ہی نہیں آئ۔ تم جینیس ہو واہ واہ"
"
مروں گی تو تمہاری آنکھیں کھولیں گییہ کہہ کر وہ چلی گئ۔ چاءے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔اس واقعے کے بعد اس کی ذہانت کی دھاک پورے خاندان میں بیٹھ گئ تاہم اصل بات کسی کی سمجھ میں نہ آ سکی۔ نظر مفت میں تو ٹیسٹ نہیں ہوتی اگر ہو بھی جاءے تو رکشے والامیرا پھوپھڑ تو نہیں جو مفت میں دوکانوں پر لے جاتا پھرے گا۔ اگر گرہ میں مال ہوتا تو اپنی گروی پڑی پنشن حاصل نہ کر لیتا۔ میں اصل پریشانی کسی کو بتا کر اس تماشے کا مزا کرکرا نہیں کرنا جاہتا۔ ہاں البتہ اپنی گھروالی کی ذہانت کی بانگیں دیتا پھرتا ہوں۔آج ملک عزیز میں سیاسی تناؤ کی فضا ہے۔ گریب گربا کا اس میں کوئ ہاتھ نہیں اور ناہی وہ اس سے کوئ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھیں صرف بھوک پیاس سے خلاصی کی فکر لاحق ہے جس سے چھٹکارے کی سردست کوئ صورت نظر نہیں آتی۔ سیاسی فضا گرم ہو یا سرد‘ انھیں تو بھوک پیاس میں دن رات کرنا ہیں۔ اس مسلے کو دیکھنے کے لیے کبھی کس عینک کا استمال نہیں کیا گیا۔ اس مسلےکے لیے عینک بنائ یا بنوائ ہی نہیں گئ اورناہی ضرورت محسوس کی گئ ہے۔ ہر کسی کی سوچ اپنی ذات تک محدود رہی ہے لہذا عینک کے نمبر بڑھنے یا گھٹنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ہاں البتہ حصولی اقتدار کے لیے اکھاڑ پچھاڑ ضرور ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے۔پہلےپہل دو تین اخبار اور ریڈیو آگہی کی کل بساط تھی۔ بی بی سی کا شہرا تھا۔ آگہی کی کمی کے باعث اتنی بےچینی نہ تھی۔ حکمران عوام سے اور عوام حکمرانوں سے اور ان کی کار گزاری سے بےخبر تھے۔ بےخبری کے سبب توازن کی صورت موجود تھی۔ آج بےخبری یکطرفہ ہے۔ عوام حکمرانوں سے باخبر ہیں لیکن حکمران عوام سے بے خبر ہیں۔ پہلے وقتوں میں سیاسی ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے‘ کؤئ نہیں جانتا تھا لیکن آج میڈیا کے حوالہ سے معمولی سے معمولی بات گلیوں میں گردش کرنے لگتی ہے۔ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات سیر کی سوا سیر بن جاتی ہے۔بھولے بھالے سیاسی لوگ آج بھی پرانے نمبر کی عینک استمال میں لا رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی عینک کا نمبر بڑھ گیا ہے۔ کمزور گرہ کے لوگ پرانے نمبر کی عینک استمال کریں‘ یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ لوگ تو جھٹ سے نءے نمبر کی عینک خرید سکتے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر کچھ بھی خریدا جا سکتا ہے۔ یہ تو عوام کے تابعدار ہیں اور ان کے درمیان گریب بلکہ مقروض صورت بنا کر جاتے ہیں۔ ان بےچاروں کی گرہ میں ذاتی کیا ہے سب کچھ پرایا ہی تو ہے۔سیاست کا ہنر دیگر تمام ہنروں سے زیادہ مشکل ہے۔ قدم قدم پر مشکلوں اور آزماءشوں کے کانٹے بکھرے رہتے ہیں۔ چاروں اور خطرے کے بادل امڈے رہتے ہیں۔ ایسے میں جان اور ووٹ خوری کے لیے جھوٹ اور لایعنی وعدوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ خود کو اچھا اور دوسروں کو برا کہنا سیای اخلاقیات کی مجبوری ہوتی ہے۔ پیٹ بھر کھا کر بھوک کا ناٹک کرنا پڑتا ہے۔ چاروں یکے ہاتہ میں رکھنے کی سعی کرنا پڑتی ہے۔ گو کہ بےنمبر پتوں کو بھی بطور ٹیشو پیپر رکھنے کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ بےنمبر دکی کی سر اگر اتفاقا یا تقدرا کسی پچھڑے سیاستدار کے ہاتھ لگ جاءے توملال باکمال دیدنی ہوتا ہے۔ داؤ پر قوم اور اس کے اثاثے لگتے ہیں۔ جیت ہوئ تو پرایا مال اپنا ہوتا ہے۔ مات ہوئ تو لفظ داھندلی تسکین بخش روح افزا بن جاتا ہے۔ وہ مظلومیت کی جیتی جاگتی تصویر بن کر سامنے آتے ہیں اور گھر کی کھانا نہیں پڑتی۔سیاستداروں کےاثاثوں کی بات زوروں پر رہی ہے۔ ان کے اثاثوں کی بات کرنا سراسر ظلم ہے‘ زیادتی ہے۔ یہ گریب اور مسکین لوگ ہیں۔ جب تک پاکستان کے سارے کے سارے اثاثے ان کے اپنے نہیں ہو جاتے‘ ان کی گربت ختم نہیں ہو سکتی۔ خوشحال عوام کو ملکی قرضوں کی ادءگی میں زندگی گزارنا ہو گی۔ بات کرنی ہے تو تاجروں اور مہامنشی ہاؤس کے لوگوں کے مقینوں کی جاءے۔ پہلے طبقے کے لوگوں کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ انکم ٹیکس والے ان کے دکھنے والے دانتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ثانی الذکر طبقہ خود محتسب اورہر قسم کے احتساب سے بالاتر ہے۔ آج گریب لوگوں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ بالا طبقے کے خسارے اور قرض کو چکایا جا سکے۔ اس طرح وہ لوگوں کے نجی وساءل کو بھی بخوبی ہاتھ میں کر سکیں گے۔ میری یہ گزارش سیاست کی پرانی عینک کی زد میں نہیں آسکے گی۔ اس لیے سیاسی عینک کا نمبر تبدیل کرنے سے ہی سیاسی دھندلاہٹ ختم ہو سکے گی۔

معاشرہ محنت اور ذہانت کے تحت ترقی کرتا ہے


میںاس امر کا بار بار اظہار کر چکا ہوں کہ برصغیر کے لوگ بلا کے ذہین اور محنتی ہیں۔ کچھ گربت کے سبب تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور ان کی بچپن ہی سے ذہانت ہوٹلوں کے برتن دھونے میں ضاءع ہو جاتی ہے۔ کچھ سردیوں کی سرد راتوں میں گرم انڈے فروخت کرتے کرتے جوان ہو کر معاشرے کی بےحسی کا ثبوت بن جاتے ہیں۔ بڑی کرسیوں پر برجمان اپنی عیش وعشرت کا سامان بہم کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ انھیں کسی کے دکھ درد اور بھوک پیاس سے کوئ غرض نہیں ہوتی۔ اربوں جمع کرکے بھی مزید کی ہوس ان کا نصیبہ بن جاتی ہے۔
یہ معاشرے کے اپنے بچے ہیں۔ معاشرہ ان کی محنت اور ذہانت کے تحت ترقی کرتا ہے۔ بڑی کرسی والے خود غرض سہی معاشرے کو انھیں ہر حال میں سمبھالا دینا چاہیے۔ اہل ثروت یہ دیکھتے ہیں کہ انھیں اس سے کیا فاءدہ ہو گا۔ انھیں فاءیدہ نہ سہی' دیکھنا یہ ہے کہ ان سے معاشرے کو کیا فاءدہ ہو گا۔ ذہانت کو واپسی ملنے والے فاءدہ کے ترازو پر رکھا جاءے گا تو بات نہیں بن سکے گی۔ اس معاملے کو یوں بھی لیا جا سکتا ہے کہ یہ خوشحال ہوں گے تو ان کی قوت خرید بڑھے گی۔ قوت خرید بڑھنے سے تاجر حضرات کے کھیسے بھریں گے۔
جو بچے ٹیکنیکل کاموں کی طرف چلے جاتے ہیں اپنی فطری ذہانت کے بل بوتے پر حیرت ناک کام سرانجام دیتے ہیں لیکن ان کی ذہانت گوشہ ء گمنامی کا شکار رہتی ہے۔ ان کی کوئ حوصلہ افزائ نہیں ہو پاتی۔ اس کے دو نتیجے برآمد ہوتے ہیں
:اول۔ بھوک و پیاس اور حالات کی تنگی ترسی برداشت کرتے کرتے مر کھپ جاتے ہیں۔
دوم۔ مجبورا غربت اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی ذہانت سے غیر والایتوں کے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔
ٹی وی کی خبروں کے مظابق ایک صاحب نے پانی سے گاڑی چلا دی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائ کرنے کی بجاءے مذاق اڑایا جا رہا ہے اسے فراڈ کہا جا رہا ہے اور یہ بڑے ہی دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ آخر اس میں فراڑ والی کیا بات ہے۔ فراڈ قرار دینے والے جواب دیں بجلی کس سے بنتی رہی ہے۔ ریلوے کے بڑے کالے انجن کس سے چلتے تھے بھاپ سے اور بھاپ کس سے بنتی ہے پانی سے۔ اگر اس نے محنت کرکے اور بھیجے کا استعمال کرکے ایسی کٹ بنا لی ہے جو پانی سے نکلتی بھاپ کو انرجی میں کنورٹ کرکے گاڑی چلا دی ہے یا اس کٹ کے ذریعے بجلی حاصل کرکے گاڑی چلا دی ہے تو مجھے تو اس میں فراڈ والی کوئ بات نظر نہیں آتی۔
کہا گیا ہے یونیورسٹی کے پروفیسروں سے حق سچ کی مہر ثبت کراءیں گے۔ اگر وہ اتنے لاءق پتر ہوتے تو بہت پہلے یہی چیز تیار کر چکے ہوتے۔ یونیورسٹی کے پروفیسروں کے پاس اتنا وقت کہاں ہے۔ ان بےچاروں کو تو جوان کڑیوں سے ٹھرک جھاڑنے سے فرصت نہیں۔ اسکول ماسڑ اور کالج کے پروفیسر نہ ہوں تو ایجوکیشن کا منشی کدہ تعلیم کو کب کا دریا برد کر چکا ہوں۔ سروے کروا دیکھیں
تحقیق و تلاش کا سارا کام کالج کے پروفیسر نے ہی کیا ہے۔ ڈگری کے لالچ کے بغیر یہ لوگ کام کر رہے ہیں حالانکہ انھیں اس مغز ماری کے حوالہ سےکبھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔
کیا پانی سورس آف انرجی نہیں ہے۔ اگر ہے تو حوصلہ شکنی کے کیا معنی لیے جاءیں۔ اس سے کمشن کے گلچھرے ختم ہو جاءیں گے۔ پڑول اور گیس کی قیمتوں میں ہر دوسرے روز اضافے کی موجیں ختم ہو جاءیں گی۔ یقینا عیش وعشرت کی دنیا میں بھونچال آجاءے گا۔ پانی ہر قسم کی گیس ہوا بھاپ ریت کچرا دھوپ گوبر دھواں جانوروں کا پیشاب ہڈیاں وغیرہ انرجی کا ذریعہ ہیں۔ ان چیزوں سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر قدیر زندہ ہیں ان سے دریافت کر لیں۔ دراصل تڑپنے پھڑکنے کا نظارہ کرنے والوں کے یہ وارہ کی چیزیں نہیں ہیں۔ لوگوں کو اذیت دے کر انھیں مزا آتا ہے۔
 آپ کو یہاں کا بابا آدم ہی نرالہ نظر آءے گا۔ پہلی سے انگریزی کی تعلیم شروع کر دی ہے۔ اتنی مشکل کتابیں ہیں کہ دسویں پاس بھی انھیں پڑھ نہیں سکتا ہے۔ اس حوالہ سے انگریز کی ٹی سی تو ہو جاءے گی لیکن نسل کا بیڑا غرق ہو جاءے گا۔ کیا ان کو اباما کی کرسی پر بیٹھانا ہے؟
اسی طرح میٹرک میں حساب میں پاس ہونا کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ کیا آرٹس کے بچوں نے آڑھت یا کسی بنیک میں اکاؤنٹنٹ بننا ہے۔ جغرافیہ جو بڑی لازمی چیز ہے لایعنی سا ہو گیا ہے۔ انگریزی اور حساب لازمی قرار دے کر کھیسے تو بھرے جا سکتے ہیں لیکن نوجوان نسل کو ناکارہ کیا جا رہا ہے۔ ان دونوں مضموں کو آپشنل ہونا چاہیے۔ جو پڑھے گا شوق سے پڑھے گا اور قوم وملک کے لیے کار آمد ثابت ہو گا۔
آخر میں قارءین سے گزارش ہے کہ وہ اس ذہین شخص کی زندگی کی دعا مانگیں کیونکہ جو گرہ کا دشمن ہوا ہے اس کے پاسے باخیریت نہیں رہے۔

اکڑی گردن اور تَنا سینہ۔یہ کیسا مجرم ہے ؟...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین

عراق کے شمالی حصے میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک مشہور شہر موصل آباد ہے، پُرانے وقتوں میں بڑے بڑے تجارتی قافلے موصل شہر سے ہوکر گزرا کرتے تھے، اُن دنوں شام بھی عراق ہی کا حصہ کہلاتا تھا یا یوں کہہ لیجئے کہ عراق شام میں شامل تھا کیونکہ ابھی تک سرحدوں کا تعین نہیں کیا گیا تھا لہٰذااِن دونوں حصوں میں رہنے والے افراد آزادانہ اور بلاروک ٹوک ایک دوسرے کے علاقوں میں چلے جاتے تھے اور اِسی سبب موصل اور حلب تجارت کے بڑے مراکز کے طور پر معروف تھے…یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حلب میں مویشیوں کی بین الاقوامی منڈیاں لگا کرتی تھیں اور دنیا بھر سے مویشیوں کی تجارت کرنے والے اپنے مویشیوں کے ساتھ حلب میں جمع ہوتے تھے جہاں بہترین سودے پایہٴ تکمیل تک پہنچتے تھے…چنانچہ موصل کے ایک مشہور تاجر نے حلب کا رُخ کیا،وہیں ایک سرائے میں قیام کیا ،اپنے مویشی فروخت کئے اور واپس اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گیا … لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ حلب کے رئیس کا ایک بگڑا ہوا چراغ اُس کے سامانِ سکون کو آگ لگانے کے درپے ہے…یہ نوجوان کافی دیر سے تاجر کے پیچھے لگا ہوا تھا اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا تاکہ اُسے لوٹ کر اپنے جنون، وحشی پن اور احساسِ برتری کو اطمینان دلا سکے …اور پھر اُسے موقع مل ہی گیا…تاجر، آبادی سے دور نکل کر ایک درخت کے نیچے کچھ دیر سستانے کے لئے جیسے ہی رُکا،نوجوان نے اُس پر دھاوا بول دیا،اُسے زمین پر گرانے کے بعد دودھاری خنجر اُس کی گردن پر رکھا اور مطالبہ کیا کہ ”تیرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ میرے حوالے کردے“…بے چارے تاجر نے بہت شور مچایا، ماہی بے آب کی طرح تڑپا، مدد کے لئے آوازیں دیں مگر ویرانہ بھلا کسی کی کیا مدد کر سکتا ہے ، ویرانے تو خود آبادی کے منتظر رہتے ہیں لہٰذا مرتا کیا نہ کرتا اُس نے اپنا سارا مال سینے پر چڑھے”شوقیہ لٹیرے “کے حوالے کردیا اور اُس سے التجا کی کہ اب وہ اُسے چھوڑ دے … مگر…نوجوان کے دماغ پر قابض ابلیس کچھ الگ ہی تانے بانے بننے میں مصروف تھا، اُس کی درندگی کی پیاس اُس وقت تک نہیں بجھ سکتی تھی جب تک کہ وہ تاجر کو ذبح نہ کر دیتا، تاجر نے بہتیرے ہاتھ جوڑے، رویا، اپنے بیوی بچوں کا واسطہ دیا، منت سماجت کی، گھر پہنچ کر اور مال دینے کا وعدہ کیا لیکن ظالم نے کچھ دیر تلک اُس کی بے بسی کے مزے لینے کے بعد بالآخر اُس کے گلے پر خنجر رکھ دیا…تاجر نے آخری مرتبہ چاروں اطراف نگاہ دوڑائی لیکن منظر ساکت تھاکہ گویا تماشے کے انتظار میں ہو،البتہ اُس کی بے چین نگاہوں نے اُسی درخت کی ایک شاخ پر کہ جہاں وہ سستانے لیٹا تھا دوکبوتروں کو دیکھ لیا اور اپنے گلے پر خنجر کی جاں لیوا دھار کے ساتھ یہ آخری الفاظ ادا کئے کہ”اے کبوترو! گواہ رہنا“۔
نوجوان اُسے قتل کرنے کے بعد اُس کے سینے سے اُٹھا اور مُردہ جسم کو لات مارتے ہوئے کہنے لگا”اے کبوترو! گواہ رہنا“اور پھر دیر تک قہقہے لگاتا رہا…وہ بار بار کہتا کہ ”اے کبوترو! گواہ رہنا“ اور ہنس ہنس کر دہرا ہو جاتا کہ جیسے مرنے والے نے جاتے جاتے اُسے کوئی لطیفہ سنا دیا ہو…دوسری جانب تاجر کے اہلِ خانہ، رشتے دار اور دوست احباب اُس کے یوں اچانک گم ہوجانے سے حد درجہ پریشان ہوگئے،موصل میں اُس کے دوستوں نے باقاعدہ ایک مہم چلائی کہ کسی طور اُس کا سراغ مل سکے اور اِسی مہم کے نتیجے میں اُنہیں یہ معلوم ہوگیا کہ موصل کے قریب اور حلب سے دور ایک ویرانے میں کسی نامعلوم شخص نے بڑی بے رحمی سے تاجر کو قتل کر کے اُس کا سارا مال اسباب لوٹ لیا تھا اور بعد میں اُسی راستے سے گزرنے والے بعض مسافروں نے لاوارث نعش دیکھ کر اُسے وہیں دفنا دیا تھا…دوستوں اور رشتے داروں نے یہ روح فرسا خبر سننے کے بعد قاتل کی گرفتاری کے لئے زمین آسمان ایک کردیا،حاکم شہر کو خط لکھے،قاضی سے نوٹس لینے کی اپیل کی، کوتوالانِ موصل و حلب سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی درخواستیں کیں مگر سب بے سود!…وقت گزرتا رہا اور گزرتا ہی چلا گیا، کئی برس بیت گئے،حاکم بدل گئے، والی گزر گئے، قاضی ملک عدم سدھار گئے اور دوست احباب بھی صبر کر کے بیٹھ گئے…آہستہ آہستہ سب اِس سانحے کو بھول گئے البتہ ایک شخص آج تک اِس واردات کو نہیں بھولا تھا اور وہ یقینا وہی قاتل تھا جس نے اُس مظلوم تاجر کا لہو بہایا تھا…وہ جب بھی کبوتر یا اُن کے جوڑے کو دیکھتا اُسے مقتول کے آخری الفاظ یاد آجاتے کہ ”اے کبوترو! گواہ رہنا“۔ایک دن اُس کے باپ نے دعوت کا اہتمام کیا، باپ چونکہ امیر کبیر اور اثرورسوخ والا تھا اِسی سبب شہر کے جانے مانے افراد،اعلیٰ حکام، رئیس، امراء، وزراء اور تجار بڑی تعداد میں شریک ہوئے…دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے چنے ہوئے تھے، بگڑے ہوئے رئیس زادے نے ایک طبق سے ڈھکن اُٹھایا تو بھنے ہوئے کبوتروں نے اُس کی نظروں کا استقبال کیا،آنِ واحد میں درخت،اُس پر بیٹھے دوکبوتر اور تاجر کی لاش ایک منظر کی طرح اُس کے سامنے گھومنے لگے ،نہ جانے اُسے کیا ہوا کہ اُس نے یکدم ہذیانی انداز میں ایک بلند قہقہہ لگایا جس نے محفل کو اُس کی طرف متوجہ کر دیا…لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے کہ اِسے اچانک کیا ہو گیا ہے ؟لیکن وہ تھا کہ بس ہنسے جارہا تھا، یکایک اُس کی ہنسی رکی اور ایک غیر مرئی قوت نے اُس کی زبان کھلوادی، اُس نے بھنے ہوئے کبوتروں کی طرف اشارہ کیا اور بڑے فخر سے اپنے ہاتھوں کئے گئے ایک بے بس کے قتل کا قصہ سنانے لگا، محفل میں موجود افراد پھٹی آنکھوں اور متعجب سماعتوں سے اُس کے اعترافِ جرم کے گواہ بن گئے…جیسے ہی وہ قصہ سنا کرتھما تو اُسے ایک جھٹکا لگا جیسے کسی نے اُس سے کہا ہو کہ ”بے وقوف! یہ تُو نے کیا کرڈالا! جس قصے کو لوگ بھول چکے تھے،فائلیں بند ہوگئی تھیں، واقعہ دَب گیا تھا تُو نے اپنی بَک بَک سے سب کو اِس راز میں شریک کرلیا“…مگر اب ہو بھی کیا سکتا تھا،الفاظ تو ادائیگی سے پہلے انسان کے غلام ہوتے ہیں ،ادا ہونے کے بعد تو انسان اُن کا غلام بنتاہے چنانچہ کچھ ہی دیر میں حلب میں یہ واقعہ زبان زدِ عام تھا، قاضی القضاة کو بھی اِس ”اعتراف“ کی اطلاع مل گئی اور اُس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حاکم کو حکم دیا کہ مظلوم تاجر کے قاتل کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے…مقدمہ چلا…دعوت میں شریک لوگوں کو گواہی کے لئے بلوایا گیا، انکار کی جرأت کسی میں نہ تھی…حلب کا حاکم کہتا تھا کہ ”میں گواہ ہوں“…قاضی نے کہا ”میں نے بھی گواہی دی“…پولیس کا چیف بولا ”میں بھی گواہی دیتا ہوں“ اور سب لوگوں نے کہا کہ ”ہم بھی گواہ ہیں“…جس کے بعد اُسے پھانسی کا حکم سنا دیا گیا…سزا سے ایک دن پہلے مجرم سے اُس کی بیوی نے الوداعی ملاقات کی اور اُس سے پوچھا ”اِتنے برسوں سے تم نے اِس جرم کو چھپا کر رکھا پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ تم نے خود ہی اِس راز کو سب کے سامنے منکشف کردیا“اُس نے تاسف سے جواب دیا”سب سے بڑے صاحبِ ارادہ نے میرے اِرادے کو توڑ دیا اور مجھے سچ کہنے پر مجبور کردیا“…دوسرے دن صبح سویرے جب اُسے کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالا گیا تو اُ س نے چلاکر یہ آخری الفاظ کہے کہ ”وہ الفاظ میرے نہیں تھے،اُن کبوتروں کے تھے جو دعوت کے دن طبق میں میرے سامنے بھنے پڑے تھے“…الفاظ ادا ہوتے ہی رسّا کھنچا اور قاتل تختے پر جھول گیا،لوگوں نے سکھ کا سانس لیا،انصاف کے کلیجے کو ٹھنڈ پہنچی اور وقت کو اپنے گزرجانے کا احساسِ شرمندگی جاتا رہا…اُس لمحے لوگوں نے ایک اور منظر دیکھا کہ پھانسی کے رسّے سے لٹکے ہوئے قاتل کے سر پر دو کبوتر بے حِس و حرکت بیٹھے ہوئے تھے،اللہ اکبر کے نعرے بَلند ہوئے اور سب نے ایک آواز ہوکر کہا کہ ”اِن کبوتروں نے بھی گواہی دے دی“۔
بس فرق صر ف اِتنا ہے کہ مجرم سزا سننے کے بعد کمرہٴ عدالت سے اکڑے ہوئے سینے اور تَنی ہوئی گردن کے ساتھ باہر نہیں نکلا تھا،اُس نے بکتر بند گاڑی کو لاتیں نہیں ماری تھیں،انصاف کے رخسار پر تھوکنے کی جرأت نہیں کی تھی کیونکہ وہ ”زبردست صاحبِ ارادہ“ کی طاقت دیکھ چکا تھا،شاہ زیب کے قاتلوں نے ابھی دیکھی نہیں ہے لیکن قسم رب کی بہت جلد دیکھ لیں گے!!