Friday, October 11, 2013

جمہوریت تشکیل پاکستان اور جمہور کی خواہش


اس میں کوئ شک نہیں كہ پاكستان اسلام كے نام پر بنا تھا یہ الگ بات ہے كہ بنانے والوں كی نیت پاكستان كا مطلب كیا لا الہ الا اللہ كے نعرے كوحقیقت كے طورپر استعمال كرنا تھا یا مسلمانوں كے جذبات كو اپنے گندے ذاتی مقاصد كے لئے استعمال كرنا تھا لیكن غریب بھولے بھالے مسلمان اس سے مراد یہ ہی لے رہے تھے كہ ساری جدوجہد اسلام كے سنہری نظام كے لئے كی جا رہی ہے ۔ملك بن جانے كے بعد لاكھوں شھدا كے خون سے غداری كركے جس طرح اسلام، اسلامی اقدار اور انسانیت كا خون كیا گیا۔ اقتدار كی ہوس اور پیسے كے لالچ میں مسلمان نے مسلمان بھائی كا بے دریغ استحصال كیا اور نوبت یہاں تك پہنچ گئی كہ وطن عزیز دو لخت ہو گیا ۔ بھائی بھائی كے خون كا پیاسا ہو گیا یہ ظاہر كرتا ہے كہ شروع ہی سے ان كی نیت نیك نہیں تھی ۔ آج صورت حال یہ ہے كہ ٱج دنیا میں پاكستان كا مقام دیكھ كر درد مند دل خون كے آنسو روتا ہے ۔ 
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو كر 
اور ہم خوار ہوئے تارك قران ہو كر

شکریہ بیٹا آپ نے توجہ فرمائ۔ الله آپ کو شاد و شاداب رکھے۔ حصول پاکستان کے لیے جو شہید ہوءے بےگھر ہوءے بچوں کی شہادت بیماری بےکسی بےبسی عورتوں کی عزت کی پامالی وغیرہ کا صدمہ برداشت کیا ان کے ایک ایک دکھ ایک ایک صدمے ایک ایک پریشانی کو ہزاروں نہیں لاکھوں سلام۔ ہم کیا دے سکتے ہیں الله کے پاس ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ وہ انگریز اور اس کے بدنیت خودغرض ناہنجار اور منافق گماشتوں کی چال کو نہ سمجھ سکے۔ بیڑا غرق اور جہنم ٹھکانہ ہو پیٹو مورخ کا جس نے انہیں نبوت کے درجے سے دو چار انچ ہی نیچے رکھا ہے۔ اصل ہیروز تاریخ کا حصہ نہ بن سکے۔ پاکستان کی تشکیل کے دو حوالے/ دو کاز ٹھہرتے ہیں ایک مسلمانان ہند کا دوسرا گورا دوست اہل سیاست کا۔ گورا دوست اہل سیاست کل بھی غالب تھے آج بھی غالب ہیں۔ کل برطانیہ کے آج وہ امریکہ کے گماشتے ہیں۔ امریکہ امداد لوگوں کے نام پر دیتا ہے لیکن ہڑپ یہ کر جاتے ہیں۔ ملکی اور عوامی خون پی لینے کے بعد بھی ان کی ہوس کم نہیں ہوئ۔ وہ برطانیہ میڈ وامپاءر تھے یہ امریکہ میڈ وامپاءر ہیں۔ انصاف کل پرسوں ہی آزاد ہوا ہے وگرنہ یہ بھی ان وامپاءز کے دانت قریب رہا ہے۔ 

جمہوریت بھی تو امریکی لنکنیان ہے۔ اس کا بنیادی نعرہ تو دیکھیں

عوام کی حکومت
عوام کےلیے
عوام کے ذریعے

حالانکہ حکومت تو صرف اور صرف الله کی ہے۔ الله کی حکومت تو قرآن و سنت کے حوالہ سے قاءم ہو سکتی ہے۔ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اس جموریت نے کہاں تک عوام کی حکومت قاءم کی ہے۔ عوام تو روڑا کوڑا بھی نہیں رہے جو فصلوں کے کام ہی آ سکیں۔ غور کر لیں کماتےعوام ہیں ملک عوام کا ہے وساءل عوام کے ہیں۔ یہ عوام بد نصیب نہیں ہیں الله نے انہیں اس خطہ کے حوالہ سے بہت کچھ عطا کیا ہے لیکن لوٹ وہ رہے ہیں جن کا پہلے خدا برطانیہ تھا اب امریکہ ہے۔ وکیل قاتل کا بھی ہے مقتول کا بھی۔ قاتل کیوں نہیں تسلیم کرتا کہ میں قاتل ہوں۔ تقوی اور پریزگاری طاغوتی نظام ہا میسر نہیں کر سکتے یہ قرآن اور سنت ہی سے دل وجان میں جگہ پا سکتا ہے۔ امریکی خدا کے پیرو لوٹ مار کے بعد پاکستان جو ان کا ملک ہی نہیں‘ فرار ہوتے رہے ہیں' ہوتے رہیں گے ۔یہی آج کا کڑوا سچ ہے۔ جمہوریت کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں۔ کس پارلیمنٹ کی بات کرتے ہیں اس نے عوام کے لیے کب کبھی کوئ قانون بنایا ہے وہ تو اپنے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے کام کرتی آئ ہے اور یہی کچھ کرتی رہے گی۔ خدا انسان اور عوام دشمن قوتوں کو جمہوری پارلیمنٹ استثناء کی لعنت سے نوازتی رہے گی۔ بھری محفل تو دور کی بات‘ کوئ تنہائ میں بھی سوال کرنے کی جرات نہ کر سکے گا۔ مقتدرہ قوت شدادی و نمرودی شکتیوں سے سرفراز رہے گی۔ اس کے کیے اور کہے کو آءینی حق کا درجہ حاصل رہے گا۔ بزرگوں نے جس کاز کے لیے خون دیا تھا وہ موجودہ انداز واطوار سے حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اہل سیاست نے جن مقاصد کے لیے عوام کے خون سے ہولی کھیلی تھی وہ اس میں روز اول سے کامیاب ہیں۔ عوام اگر اپنے ابا واجداد کے مقاصد سے دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں ایک بار پھر آگ و خون کا دریا عبور کرنا ہو گا اگر نہیں تو موجودہ حالات پر گزرا کریں۔


باہوش بے ہوش‘ ملک دوست ملک دشمن‘ دیس بھگت غدار‘ ایماندار بے ایمان‘ امانت دار امانت خور‘ شریف بدمعاش کے ووٹ کی قیمت برابر ہے۔ بے جیبا باجیبا‘ دونوں الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں لیکن بےجیبا تو سیکورٹی فیس بھی ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اگر وہ بھی لوٹ مار ہیرا پھیری کو دھرم رکھتا تو بے جیبا نہ ہوتا۔ الیکشن لاکھوں کا نہیں‘ کروڑوں کا کھیل ہے۔ پیسے والے شرفاء شمار ہوتے ہیں لہذا یہ شرفاء کا شوق سمجھا جاتا ہے۔ بے جیبا اس سے دور رہتا ہے۔ وہ چار پانچ لمبی عمروں میں بھی دھنوان نہیں ہو سکتا۔ اگر اس کے باپ دادا بلکہ دادا پردادا غداری کرتے اور گورا حضور کے تلولے چاٹتے زیر ناف مردانہ آلات سہلاتے تو آج شرفا کی صف میں سر تان کر کھڑے ہوتے۔ اسٹیج پر کھڑے ہو کر لمبی لمبی چھوڑتے۔ منہ سے بھوک کا ناٹک کرتے لیکن تھلا اٹھا کر براءلر کی بو چھوڑتے۔ گویا یہ کھیل صرف اور صرف شرفا کا ہے۔ یہ شرفا خادم نہیں حاکم ہوتے ہیں۔۔

پڑھے لکھے اور اہل دانش کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ تو الیکشن ڈیوٹی پر پھاہے لگے ہوتے ہیں۔ انہیں الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہوتا ہاں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ حق ڈبے اور تھیلا اٹھائ کی نذر ہو جاتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آج تک بالا و زیرین عدالتوں کے ججز اساتذہ۔ معالجین‘ پولیس‘ رینجرز فوج کے بالا اور زیرین اہل کاروں اور منشی ہاؤس کے بڑے چھوٹے ملازمین کے ووٹ ڈالنے کا تناسب کیا رہا ہے؟ یقینا وہ اس ملک کے شہری ہوتے ہیں یا انہیں بھی شہری سمجھا جاتا ہے۔ درس گاہیں مقدس ہوتی ہیں انہیں شرفاء کے چناؤ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ناصرف معالج الیکشن ڈیوٹی پر بندھے ہوتے ہیں معالج گاہیں بھی اس طاغوتی عمل کا حصہ بنا لی جاتی ہیں۔ یہ فراڈ گویا انسانی زندگی سے بڑھ کر ضروری ہوتا ہے۔ 

کوئ سوال کرے آج تک کاسٹ ہونے والے ووٹس کا کیا تناسب رہا۔ جیتنے والے نے اپنے حلقہ کے کل ووٹس میں سے کتنے ووٹس حاصل کیے۔ اگر کوئ پوری ایمانداری سے حقاءق سامنے لے آءے تو اس لنکن ساختہ جمہوریت کی قلعی کھل کر سامنے آجاءے گی۔ میں کوئ نجومی نہیں اور ناہی علم جعفر سے میرا کبھی علاقہ رہا ہے طہارتی عمل کے باوجود کچھ نہیں ہو سکے گا۔ جمہور نے پاکستان کی تخلیق قرآن وسنت کی عمل داری سمجھا تھا۔ جمہوریت یہی ہو گی کہ عوام کی اس دیرانہ خواہش کو عملی شکل دے دی جاءے یا پھر جمہوریت کے نام نہاد نعرے کو شرفا کا چونچلا سمجھا جاءے۔

Aamir Liaquat Hussain Column "Had Guzarnay kay Bad Fahad ki Darkhast" published in Daily Jang Newspaper



حد گزرنے کے بعد فہدکی درخواست!...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
وہ آٹھویں جماعت کا ایک کم سن طالب علم ہے ،اُس کی آنکھوں نے ابھی مسرتوں کے دل خوش کن نظاروں کو اوجِ شباب پر نہیں دیکھا ہے ،وہ عمر کے زینے کی جس سیڑھی پر اِس وقت کھڑاہے وہاں سے اونچائی بہت دور ہے،ایک طویل اور تھکادینے والا سفر اُسکے انتظار میں ہے سچ تو یہ ہے کہ اُسے زندگی کے معنیٰ بھی صحیح طرح نہیں معلوم بس گھر سے اسکول جانا ،ہمجولیوں میں گھل مل کر علم حاصل کرنا،پھر کچھ خواہشیں،کچھ فرمائشیں اورمعصوم شرارتیں گھر آکر اماں، ابا سے لاڈ کرنا، بہن بھائیوں سے ناز نخرے اُٹھوانا اِس کے سوا زیست کے اور دوسرے رنگوں سے اِس کی پہچان ہی کہاں ہوئی ہے ؟ٹی وی،پی ایس پی،ویڈیو گیمز اور کبھی کبھار گھر والوں کے ساتھ کسی تفریحی مقام کی سیریا فلم دیکھنے کیلئے چلے جانا،یہی اِس کی کل کائنات ہے یہ دیگر بچوں کی طرح روٹھتا بھی ہے اور منائے جانے پر مان بھی جاتا ہے ، سب کی طرح اِس کی آرزو بھی یہی ہے کہ دن امن وچین میں گزریں اور راتیں خوش حالی میں بسر ہوں، دوسری کونپلوں کی طرح اِسے بھی یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ شام تک اُس کے ابا جان سلامت گھر آجائیں گے نا!کوئی ٹارگٹ کِلر، لٹیرا، بھتہ خور، دہشت گرد اور اغواکار اُن کا شکار تو نہیں کرے گا نا!کیونکہ اُسے بھی اپنے ابا سے بہت پیار ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ابا کی ڈانٹ سے اُسے کوئی محروم نہ کرے وہ ایک ایسے حساس دل کا مالک ہے جس میں احساس کی نہ ختم ہونے والی کانیں ہیں، اِتنی سی عمر میں دوسروں کی فکر اور اُن کے دکھوں کے خیال نے اُسے وقت سے پہلے ہی بوڑھا کردیا ہے اب اُسے کھلونوں کی نہیں بلکہ کھلے ہوئے چہروں کی ضرورت ہے ،انعام کی نہیں،امان کی چاہ ہے وہ واقعی ”بچپن کی ضد “ یعنی ”بڑھاپا“ بن چکا ہے ،منتخب اراکین اسمبلی سے بہتر سوچتاہے ،وزراء سے زیادہ محبِ وطن ہے اور افواجِ پاکستان سے بڑھ کر قربانی کا جذبہ رکھتاہے۔
یہ ہے کون؟ آٹھویں جماعت کا ایک ایسا ہونہار طالبعلم جس نے اپنے تئیں تو ایوانِ اقتدار کے درودیوار ہلا دیئے ہیں لیکن کیا کیجئے کہ وہاں کے مکین فطری طور پر زلزلوں کے پشتی عادی ہیں، وہ تو پوری قوم کو ہی ”آفٹر شاکس“ قرار دیتے ہوئے احتجاج و چیخ پکار پر کان دھرنا تو درکنار،نظر بھر کے دیکھنا بھی اپنی شان کے برخلاف سمجھتے ہیں ایسے میں پریس کلب کے باہر ایک بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود فہد امجد کی بھوک پیاس سے اُنہیں کیا لینا دینا؟یہ تو خود مدتوں سے ایسے بھوکے پیاسے ہیں کہ عوامی توقعات کی ہانڈی میں کل ہی بجٹ کا کفگیر ڈال کر اپنی اپنی پلیٹیں بھرلینے کے باوجود ہم سے مزید نوالوں کے متمنی ہیں فہد امجد اگلے پانچ برس تک بھی یوں ہی بیٹھا رہے اِن معروفوں اور مصروفوں کو کوئی فرق نہیں پڑتااور پھر فہد امجد کا مطالبہ بھی تو اقتدار کے کلیجے کو جلا بھنا دینے کیلئے کافی ہے کیاضرورت تھی اِس غریب وطن پرست کو ملک کے ”عجیب صدر“ اور ”نویلے وزیراعظم“ سے یہ التجا کرنے کی کہ ”زرداری انکل! اور نواز شریف انکل! میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ نے چاہا تو میری عمر اتنی زیادہ تو ہوگی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جگہ اُن کی سزا میں پوری کر لوں لہٰذا آپ صرف اتنا کر دیجئے کہ اوباما صاحب سے کہہ کر مجھے ڈاکٹر عافیہ کی جگہ بھجوا دیجئے اور اُنہیں بتا دیجئے کہ عافیہ صدیقی کی باقی سزا پوری کرنے کے لئے میں دل سے تیار ہوں نوازشریف انکل! اگر امریکہ کو ڈاکٹر عافیہ کے بدلے میں کوئی قیدی درکار ہے تو آپ پلیز مجھے امریکہ کے حوالے کر کے ڈاکٹر عافیہ کو جلد از جلد پاکستان واپس لانے کا انتظام کیجئے“۔
بھلا بتائیے ہے کوئی تُک؟کن لوگوں سے کیا مانگ بیٹھاہے ہمارا فہدجو قوم کو ملک میں موجود بجلی نہیں دے سکے وہ امریکہ میں مقید عافیہ کہاں سے لائیں گے ؟مگر بچہ بھی کیا کرے بے چارہ انتخابی تقاریر اور وعدوں کو سچ سمجھ بیٹھا، شاید اُسے سارے لیڈر اپنے ٹیچرز کی طرح لگتے ہوں گے اور جب ہی اُس نے سوچ لیا ہوگاکہ پاکستان ایک کلاس روم کی طرح ہے ،عوام اسٹوڈنٹس اور لیڈرز ٹیچرزجس طرح ٹیچرز وہی پڑھاتے اور سمجھاتے ہیں جو کتابوں میں لکھا ہوتا ہے اِسی طرح لیڈرز بھی وہی کہتے ہیں جو وہ ہمارے لئے کرنا چاہتے ہیں…اور اِسی اُمید پر وہ صدر صاحب سے چاند مانگ بیٹھا…ابھی بچہ ہے نا اِسی لئے یہ بات عقل میں نہیں سما سکی کہ اگرخدانخواستہ چاند”اُن“ کی دسترس میں ہوتا تو آسمان میں نہ ہوتا بلکہ سوئس بینک کے کسی اکاؤنٹ میں کبھی پورا ہوتااور کبھی آدھا…لیکن ہوتا محفوظ…کیونکہ اُسے کبھی گرہن نہیں لگتا…فہد ابھی چھوٹا ہے لیکن اُس نے اپنے جذبے کے اظہار سے کئی بڑوں کو لمحے بھر میں چھوٹا کردکھایاکہتے ہیں کہ اسمبلیاں”دردرکھنے والوں“ سے بھری پڑی ہیں مگر افسوس کہ غمِ عوام میں تیزی سے پھیلتے، پھلتے اور پھولتے اراکین میں سے کوئی ایک بھی فہد امجد جیسا نہیں ہے ،وزیراعظم سے لے کر اُن کی کابینہ کے بزرجمہروں تک شاید کسی کو خبر بھی نہیں ہے کہ امریکی جیل میں قید عافیہ صدیقی پر شدیدحملہ ہوا ہے ،وہ زخمی ہیں،کئی گھنٹوں تک بے ہوش رہی ہیں اور یہی تشویشناک اطلاعات سننے کے بعد فہد سے نہ رہا گیا اور اُس نے اپنے دونوں ”انکلز“ سے یہ درخواست کر ڈالی کہ عافیہ کے بدلے اُسے امریکہ بھجوا دیا جائے…اب اُسے کیا معلوم تھا کہ اُن میں سے ایک”انکل“ نے تو پانچ برسوں سے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ لوگوں کے مصائب اور پریشانیوں کو دور کرنا تو کجا اُن سے لمحہ بھر آشنائی بھی حضوروالا پر حرام ہے …”مقدر کے سکندر“ کی طرح اُن کے زیرلب بھی یہی گیت رہتا ہے کہ ”روتے ہوئے آتے ہیں سب، ہنستا ہوا جو جائے گا…وہ مقدر کا سکندر ،جانِ من !کہلائے گا“اور اِسی کو نسخہ، وظیفہ اور علاج سمجھ کر وہ صرف مسکراتے رہتے ہیں کیونکہ اب تو ویسے بھی ”جانے کی گھڑی“ قریب آگئی ہے …رہے ”دوسرے انکل“تو وہ انتخابات کے بعد سے مسکرانا ہی بھول گئے ہیں،اللہ جانے اُنہیں کون سا غم اندر ہی اندر کھا رہا ہے …خبریں رکھنے اور سنانے والے کہتے ہیں کہ ”عوام کے دکھوں نے اُن سے اُن کی مسکراہٹ چھین لی ہے“ اگر یہ وجہ درست ہے تو پھر تو ڈار جی کو اپنے وزیراعظم کا چہرہ دیکھ کر بجٹ بنانا چاہئے تھا،مجھے لگتاہے کہ بجٹ تقریر لکھتے ہوئے شاید اُن کے سامنے صدر مملکت کی تصویر تھی یاتصورات کی پرچھائیوں میں اُنہی کا مسکراتا چہرہ…جب ہی تو ٹیکسوں کا اِتنا خوبصورت اِتوار بازار سجایا گیا ہے …لوگ خواہ مخواہ اِس فکر میں پریشان رہتے تھے کہ دوپہر اور رات کا کھاناکیسے کھائیں گے ؟اِس بجٹ نے اُنہیں داتا دربار،سیلانی دسترخوان اور دیگر مزارات کا راستہ دکھا دیا ہے جہاں دو وقت کا کھانا مفت ملتا ہے اور عزت سے کھلایا جاتا ہے …لیجئے! میں بھی کہاں نکل گیا…سچ تو یہ ہے کہ کم سن فہد امجد کی یہ قدآور آرزو حب الوطنی کے ٹھیکے داروں کے رخسار پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے …ایک وقت تھا کہ ہمارے حکمرانوں کے بس میں سب کچھ تھا، وہ چاہتے تو عافیہ صدیقی اپنی باقی ماندہ سزا پاکستان میں پوری کرسکتی تھی،وہ چاہتے توریمنڈ ڈیوس کے بدلے میں ہی ہم اُسے واپس لے آتے (میں جانتا ہوں کہ یہ ایک مفروضہ ہے مگر مفروضے ہی فارمولے بنتے ہیں) لیکن اُنہوں نے عصمت صدیقی کو سوائے جھوٹی تسلیوں کے اور کچھ نہیں دیا۔البتہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے فہد امجد کے بس میں جو تھا وہ اُس نے کردکھایا،وہ حاکم ہے نہ وزیر، جرنیل ہے نہ سفیر…صرف ایک عام پاکستانی بچہ ہے اور ایک عام پاکستانی بچے نے دنیا بھر کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ”ہماری عافیہ ہمیں لوٹادو! تم انصاف پسندوں نے اُسے جو سزا سنائی ہے اُسے پورا کرنے کیلئے کسی کا بچہ ہونا بہت ضروری ہے۔ 86برس کی سزا38سال کی عورت کیسے بھگت سکتی ہے؟اِس کے لئے تو 8سال کاایک بچہ چاہئے جس پر شاید یہ اُمید باندھی جاسکتی ہو کہ وہ 51برس تک جی سکے گا“…!!!



آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِ اعظمؒ

آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِ اعظمؒ
بے رنگ ہوئے سرو و سمن قائدِ اعظمؒ

تنظیم و اخوّت ہے نہ اب عزم و یقیں ہے
ہم بھول گئے عہدِ کُہن قائدِ اعظمؒ

گلشن کی تباہی کا سماں پیشِ نظر ہے
اُڑتے ہیں یہاں زاغ و زغن قائدِ اعظمؒ

بخشا تھا جسے تُو نے اُجالوں کا لبادہ
اُس قوم نے اوڑھا ہے کفن قائدِ اعظمؒ

پاکیزہ سیاست نہ امامت رہی باقی
دنیا بھی ہے فن ‘دین بھی فن قائدِ اعظمؒ

’شاہیں کے لیے موت ہے کرگس کی غلامی'
ہے زار و زبوں ارضِ وطن قائدِ اعظمؒ

وہ رنگ دکھائے ہیں نئے شیشہ گروں نے
پردیس بنا اپنا وطن قائدِ اعظمؒ

تو نے ہمیں بخشی تھی جو آزادی کی دولت
ہم نصف لُٹا کر ہیں مگن قائدِ اعظمؒ

یہ زخم بھرے گا تو عدو کے ہی لہو سے
زخمی ہیں عساکر کے بدن قائدِ اعظمؒ

کیا تجھ سے کریں گردشِ افلاک کا شکوہ
کھانے لگی سورج کو کرن قائدِ اعظمؒ

اَشکوں کا تلاطم ہے یہاں میرے چمن میں
اُمڈے ہیں وہاں گنگ و جمن قائدِ اعظمؒ

اصنام پرستوں کے لیے صبحِ مسرّت؟
واصف کے لیے رنج و محن قائدِ اعظمؒ

______________________________

حضرت واصف علی واصف ؒ کے شعری مجموعہ ”شب چراغ“ سے انتخاب

سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں


کل ہی کی بات ہے‘ میں کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ گھروالی چاءے لے کر نازل ہو گئ۔ مجھے سوچ میں ڈوبا میں ڈوبا ہوا دیکھ کر بولی “کیا بات ہے خیر تو ہے‘ کس سوچ میں ڈوبے ہوءےہو؟!"
"
نہیں کوئ ایسی خاص بات نہیں"
"
پھر بھیمجھے اپنی پنشن کے بےبابائ ہونے کے سبب پنشن آڈر میں کیڑا بھرتی کرنے کا تذکرہ اچھا نہ لگا۔ ہر روز ایک ہی راگ سن کر کان پک جاتے ہیں۔ دوسرا اس نے مجھے ہی جھوٹا کرنا تھا۔ جب رشوت اصول اور ضابطہ بن گئ ہو تو حاجی ثناءالله بننے کی کیا ضرورت ہے۔ اصول اور ضابطے سے انکار موت کو ماسی کہنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی کہ اصلاح اور بہتری جو کسی کی معدہ کشی کا سبب بنتی ہو جرم کبیرہ سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ دوسرا میرے اپنے حوالہ ہی سے سہی‘ اصلاح اور بہتری کا ٹھیکہ میں نے کیوں لے رکھا ہے۔ یہ حاکم کا کام ہے‘ وہ کرے نہ کرے‘ مجھے اس سے کیا۔ میرے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھتے ہیں۔ اس میں کسی اور کو ٹانگ زنی کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں تو لوگ اپنا کام ایمانداری تو بہت دور کی بات بددیانتی سے کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لہذا مجھے نہایت فرمانبرداری سے زر رشوت ادا کرکے کام نکلوا لینا چاہیے تھا۔ اب اپنی کرنی کی بھگتوں۔ایک ہی با ت پر ایک ہی انداز سے بےعزاتی کروانا سراسر بدذوقی تھی۔ کم از کم انداز اور ذاءقہ تو بدلا جانا چاہیے۔ ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھا جا سکتا ہے۔ اچانک ایک نئ با ت میرے ذہن میں آئ۔ میں نے اس کے سوال کے جواب میں عرض کیا“ کوئ بہت گڑبڑ میرے اندر چل رہی ہے۔"
"
کیوں کیا ہوا؟"
"
اب عینک سے دھندلا نظر آتا ہے اور بغیرعینک کے تو کچھ نظر آتا ہی نہیں"
"
میں تو پہلے ہی کہتی ہوں تمہارے سر میں دماغ نام کی چیز ہی نہیں"
کیا بکواس کرتی ہو“ میں نے جعلی غصہ دیکھاتے ہوءے کہا۔
"
ہاں ٹھیک کہتی ہوں"
"
خاک ٹھیک کہتی ہو"
"
ارے میں کب کہتی ہوں تمہارے دماغ میں گڑبڑ ہے‘ دماغ ہوگا تو ہی گڑبڑ ہو گی۔"
"
یہ کیا پہلیاں بھجوا رہی ہو‘ صاف صاف کہو"
"
جاؤ جا کرعینک کا نمبر بدلو"
"
میں نے پکا سا منہ بنا کرکہا ارے یہ بات تومیرے ذہن میں ہی نہیں آئ۔ تم جینیس ہو واہ واہ"
"
مروں گی تو تمہاری آنکھیں کھولیں گییہ کہہ کر وہ چلی گئ۔ چاءے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔اس واقعے کے بعد اس کی ذہانت کی دھاک پورے خاندان میں بیٹھ گئ تاہم اصل بات کسی کی سمجھ میں نہ آ سکی۔ نظر مفت میں تو ٹیسٹ نہیں ہوتی اگر ہو بھی جاءے تو رکشے والامیرا پھوپھڑ تو نہیں جو مفت میں دوکانوں پر لے جاتا پھرے گا۔ اگر گرہ میں مال ہوتا تو اپنی گروی پڑی پنشن حاصل نہ کر لیتا۔ میں اصل پریشانی کسی کو بتا کر اس تماشے کا مزا کرکرا نہیں کرنا جاہتا۔ ہاں البتہ اپنی گھروالی کی ذہانت کی بانگیں دیتا پھرتا ہوں۔آج ملک عزیز میں سیاسی تناؤ کی فضا ہے۔ گریب گربا کا اس میں کوئ ہاتھ نہیں اور ناہی وہ اس سے کوئ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھیں صرف بھوک پیاس سے خلاصی کی فکر لاحق ہے جس سے چھٹکارے کی سردست کوئ صورت نظر نہیں آتی۔ سیاسی فضا گرم ہو یا سرد‘ انھیں تو بھوک پیاس میں دن رات کرنا ہیں۔ اس مسلے کو دیکھنے کے لیے کبھی کس عینک کا استمال نہیں کیا گیا۔ اس مسلےکے لیے عینک بنائ یا بنوائ ہی نہیں گئ اورناہی ضرورت محسوس کی گئ ہے۔ ہر کسی کی سوچ اپنی ذات تک محدود رہی ہے لہذا عینک کے نمبر بڑھنے یا گھٹنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ہاں البتہ حصولی اقتدار کے لیے اکھاڑ پچھاڑ ضرور ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے۔پہلےپہل دو تین اخبار اور ریڈیو آگہی کی کل بساط تھی۔ بی بی سی کا شہرا تھا۔ آگہی کی کمی کے باعث اتنی بےچینی نہ تھی۔ حکمران عوام سے اور عوام حکمرانوں سے اور ان کی کار گزاری سے بےخبر تھے۔ بےخبری کے سبب توازن کی صورت موجود تھی۔ آج بےخبری یکطرفہ ہے۔ عوام حکمرانوں سے باخبر ہیں لیکن حکمران عوام سے بے خبر ہیں۔ پہلے وقتوں میں سیاسی ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے‘ کؤئ نہیں جانتا تھا لیکن آج میڈیا کے حوالہ سے معمولی سے معمولی بات گلیوں میں گردش کرنے لگتی ہے۔ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات سیر کی سوا سیر بن جاتی ہے۔بھولے بھالے سیاسی لوگ آج بھی پرانے نمبر کی عینک استمال میں لا رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی عینک کا نمبر بڑھ گیا ہے۔ کمزور گرہ کے لوگ پرانے نمبر کی عینک استمال کریں‘ یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ لوگ تو جھٹ سے نءے نمبر کی عینک خرید سکتے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر کچھ بھی خریدا جا سکتا ہے۔ یہ تو عوام کے تابعدار ہیں اور ان کے درمیان گریب بلکہ مقروض صورت بنا کر جاتے ہیں۔ ان بےچاروں کی گرہ میں ذاتی کیا ہے سب کچھ پرایا ہی تو ہے۔سیاست کا ہنر دیگر تمام ہنروں سے زیادہ مشکل ہے۔ قدم قدم پر مشکلوں اور آزماءشوں کے کانٹے بکھرے رہتے ہیں۔ چاروں اور خطرے کے بادل امڈے رہتے ہیں۔ ایسے میں جان اور ووٹ خوری کے لیے جھوٹ اور لایعنی وعدوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ خود کو اچھا اور دوسروں کو برا کہنا سیای اخلاقیات کی مجبوری ہوتی ہے۔ پیٹ بھر کھا کر بھوک کا ناٹک کرنا پڑتا ہے۔ چاروں یکے ہاتہ میں رکھنے کی سعی کرنا پڑتی ہے۔ گو کہ بےنمبر پتوں کو بھی بطور ٹیشو پیپر رکھنے کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ بےنمبر دکی کی سر اگر اتفاقا یا تقدرا کسی پچھڑے سیاستدار کے ہاتھ لگ جاءے توملال باکمال دیدنی ہوتا ہے۔ داؤ پر قوم اور اس کے اثاثے لگتے ہیں۔ جیت ہوئ تو پرایا مال اپنا ہوتا ہے۔ مات ہوئ تو لفظ داھندلی تسکین بخش روح افزا بن جاتا ہے۔ وہ مظلومیت کی جیتی جاگتی تصویر بن کر سامنے آتے ہیں اور گھر کی کھانا نہیں پڑتی۔سیاستداروں کےاثاثوں کی بات زوروں پر رہی ہے۔ ان کے اثاثوں کی بات کرنا سراسر ظلم ہے‘ زیادتی ہے۔ یہ گریب اور مسکین لوگ ہیں۔ جب تک پاکستان کے سارے کے سارے اثاثے ان کے اپنے نہیں ہو جاتے‘ ان کی گربت ختم نہیں ہو سکتی۔ خوشحال عوام کو ملکی قرضوں کی ادءگی میں زندگی گزارنا ہو گی۔ بات کرنی ہے تو تاجروں اور مہامنشی ہاؤس کے لوگوں کے مقینوں کی جاءے۔ پہلے طبقے کے لوگوں کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ انکم ٹیکس والے ان کے دکھنے والے دانتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ثانی الذکر طبقہ خود محتسب اورہر قسم کے احتساب سے بالاتر ہے۔ آج گریب لوگوں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ بالا طبقے کے خسارے اور قرض کو چکایا جا سکے۔ اس طرح وہ لوگوں کے نجی وساءل کو بھی بخوبی ہاتھ میں کر سکیں گے۔ میری یہ گزارش سیاست کی پرانی عینک کی زد میں نہیں آسکے گی۔ اس لیے سیاسی عینک کا نمبر تبدیل کرنے سے ہی سیاسی دھندلاہٹ ختم ہو سکے گی۔

معاشرہ محنت اور ذہانت کے تحت ترقی کرتا ہے


میںاس امر کا بار بار اظہار کر چکا ہوں کہ برصغیر کے لوگ بلا کے ذہین اور محنتی ہیں۔ کچھ گربت کے سبب تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور ان کی بچپن ہی سے ذہانت ہوٹلوں کے برتن دھونے میں ضاءع ہو جاتی ہے۔ کچھ سردیوں کی سرد راتوں میں گرم انڈے فروخت کرتے کرتے جوان ہو کر معاشرے کی بےحسی کا ثبوت بن جاتے ہیں۔ بڑی کرسیوں پر برجمان اپنی عیش وعشرت کا سامان بہم کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ انھیں کسی کے دکھ درد اور بھوک پیاس سے کوئ غرض نہیں ہوتی۔ اربوں جمع کرکے بھی مزید کی ہوس ان کا نصیبہ بن جاتی ہے۔
یہ معاشرے کے اپنے بچے ہیں۔ معاشرہ ان کی محنت اور ذہانت کے تحت ترقی کرتا ہے۔ بڑی کرسی والے خود غرض سہی معاشرے کو انھیں ہر حال میں سمبھالا دینا چاہیے۔ اہل ثروت یہ دیکھتے ہیں کہ انھیں اس سے کیا فاءدہ ہو گا۔ انھیں فاءیدہ نہ سہی' دیکھنا یہ ہے کہ ان سے معاشرے کو کیا فاءدہ ہو گا۔ ذہانت کو واپسی ملنے والے فاءدہ کے ترازو پر رکھا جاءے گا تو بات نہیں بن سکے گی۔ اس معاملے کو یوں بھی لیا جا سکتا ہے کہ یہ خوشحال ہوں گے تو ان کی قوت خرید بڑھے گی۔ قوت خرید بڑھنے سے تاجر حضرات کے کھیسے بھریں گے۔
جو بچے ٹیکنیکل کاموں کی طرف چلے جاتے ہیں اپنی فطری ذہانت کے بل بوتے پر حیرت ناک کام سرانجام دیتے ہیں لیکن ان کی ذہانت گوشہ ء گمنامی کا شکار رہتی ہے۔ ان کی کوئ حوصلہ افزائ نہیں ہو پاتی۔ اس کے دو نتیجے برآمد ہوتے ہیں
:اول۔ بھوک و پیاس اور حالات کی تنگی ترسی برداشت کرتے کرتے مر کھپ جاتے ہیں۔
دوم۔ مجبورا غربت اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی ذہانت سے غیر والایتوں کے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔
ٹی وی کی خبروں کے مظابق ایک صاحب نے پانی سے گاڑی چلا دی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائ کرنے کی بجاءے مذاق اڑایا جا رہا ہے اسے فراڈ کہا جا رہا ہے اور یہ بڑے ہی دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ آخر اس میں فراڑ والی کیا بات ہے۔ فراڈ قرار دینے والے جواب دیں بجلی کس سے بنتی رہی ہے۔ ریلوے کے بڑے کالے انجن کس سے چلتے تھے بھاپ سے اور بھاپ کس سے بنتی ہے پانی سے۔ اگر اس نے محنت کرکے اور بھیجے کا استعمال کرکے ایسی کٹ بنا لی ہے جو پانی سے نکلتی بھاپ کو انرجی میں کنورٹ کرکے گاڑی چلا دی ہے یا اس کٹ کے ذریعے بجلی حاصل کرکے گاڑی چلا دی ہے تو مجھے تو اس میں فراڈ والی کوئ بات نظر نہیں آتی۔
کہا گیا ہے یونیورسٹی کے پروفیسروں سے حق سچ کی مہر ثبت کراءیں گے۔ اگر وہ اتنے لاءق پتر ہوتے تو بہت پہلے یہی چیز تیار کر چکے ہوتے۔ یونیورسٹی کے پروفیسروں کے پاس اتنا وقت کہاں ہے۔ ان بےچاروں کو تو جوان کڑیوں سے ٹھرک جھاڑنے سے فرصت نہیں۔ اسکول ماسڑ اور کالج کے پروفیسر نہ ہوں تو ایجوکیشن کا منشی کدہ تعلیم کو کب کا دریا برد کر چکا ہوں۔ سروے کروا دیکھیں
تحقیق و تلاش کا سارا کام کالج کے پروفیسر نے ہی کیا ہے۔ ڈگری کے لالچ کے بغیر یہ لوگ کام کر رہے ہیں حالانکہ انھیں اس مغز ماری کے حوالہ سےکبھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔
کیا پانی سورس آف انرجی نہیں ہے۔ اگر ہے تو حوصلہ شکنی کے کیا معنی لیے جاءیں۔ اس سے کمشن کے گلچھرے ختم ہو جاءیں گے۔ پڑول اور گیس کی قیمتوں میں ہر دوسرے روز اضافے کی موجیں ختم ہو جاءیں گی۔ یقینا عیش وعشرت کی دنیا میں بھونچال آجاءے گا۔ پانی ہر قسم کی گیس ہوا بھاپ ریت کچرا دھوپ گوبر دھواں جانوروں کا پیشاب ہڈیاں وغیرہ انرجی کا ذریعہ ہیں۔ ان چیزوں سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر قدیر زندہ ہیں ان سے دریافت کر لیں۔ دراصل تڑپنے پھڑکنے کا نظارہ کرنے والوں کے یہ وارہ کی چیزیں نہیں ہیں۔ لوگوں کو اذیت دے کر انھیں مزا آتا ہے۔
 آپ کو یہاں کا بابا آدم ہی نرالہ نظر آءے گا۔ پہلی سے انگریزی کی تعلیم شروع کر دی ہے۔ اتنی مشکل کتابیں ہیں کہ دسویں پاس بھی انھیں پڑھ نہیں سکتا ہے۔ اس حوالہ سے انگریز کی ٹی سی تو ہو جاءے گی لیکن نسل کا بیڑا غرق ہو جاءے گا۔ کیا ان کو اباما کی کرسی پر بیٹھانا ہے؟
اسی طرح میٹرک میں حساب میں پاس ہونا کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ کیا آرٹس کے بچوں نے آڑھت یا کسی بنیک میں اکاؤنٹنٹ بننا ہے۔ جغرافیہ جو بڑی لازمی چیز ہے لایعنی سا ہو گیا ہے۔ انگریزی اور حساب لازمی قرار دے کر کھیسے تو بھرے جا سکتے ہیں لیکن نوجوان نسل کو ناکارہ کیا جا رہا ہے۔ ان دونوں مضموں کو آپشنل ہونا چاہیے۔ جو پڑھے گا شوق سے پڑھے گا اور قوم وملک کے لیے کار آمد ثابت ہو گا۔
آخر میں قارءین سے گزارش ہے کہ وہ اس ذہین شخص کی زندگی کی دعا مانگیں کیونکہ جو گرہ کا دشمن ہوا ہے اس کے پاسے باخیریت نہیں رہے۔

اکڑی گردن اور تَنا سینہ۔یہ کیسا مجرم ہے ؟...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین

عراق کے شمالی حصے میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک مشہور شہر موصل آباد ہے، پُرانے وقتوں میں بڑے بڑے تجارتی قافلے موصل شہر سے ہوکر گزرا کرتے تھے، اُن دنوں شام بھی عراق ہی کا حصہ کہلاتا تھا یا یوں کہہ لیجئے کہ عراق شام میں شامل تھا کیونکہ ابھی تک سرحدوں کا تعین نہیں کیا گیا تھا لہٰذااِن دونوں حصوں میں رہنے والے افراد آزادانہ اور بلاروک ٹوک ایک دوسرے کے علاقوں میں چلے جاتے تھے اور اِسی سبب موصل اور حلب تجارت کے بڑے مراکز کے طور پر معروف تھے…یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حلب میں مویشیوں کی بین الاقوامی منڈیاں لگا کرتی تھیں اور دنیا بھر سے مویشیوں کی تجارت کرنے والے اپنے مویشیوں کے ساتھ حلب میں جمع ہوتے تھے جہاں بہترین سودے پایہٴ تکمیل تک پہنچتے تھے…چنانچہ موصل کے ایک مشہور تاجر نے حلب کا رُخ کیا،وہیں ایک سرائے میں قیام کیا ،اپنے مویشی فروخت کئے اور واپس اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گیا … لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ حلب کے رئیس کا ایک بگڑا ہوا چراغ اُس کے سامانِ سکون کو آگ لگانے کے درپے ہے…یہ نوجوان کافی دیر سے تاجر کے پیچھے لگا ہوا تھا اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا تاکہ اُسے لوٹ کر اپنے جنون، وحشی پن اور احساسِ برتری کو اطمینان دلا سکے …اور پھر اُسے موقع مل ہی گیا…تاجر، آبادی سے دور نکل کر ایک درخت کے نیچے کچھ دیر سستانے کے لئے جیسے ہی رُکا،نوجوان نے اُس پر دھاوا بول دیا،اُسے زمین پر گرانے کے بعد دودھاری خنجر اُس کی گردن پر رکھا اور مطالبہ کیا کہ ”تیرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ میرے حوالے کردے“…بے چارے تاجر نے بہت شور مچایا، ماہی بے آب کی طرح تڑپا، مدد کے لئے آوازیں دیں مگر ویرانہ بھلا کسی کی کیا مدد کر سکتا ہے ، ویرانے تو خود آبادی کے منتظر رہتے ہیں لہٰذا مرتا کیا نہ کرتا اُس نے اپنا سارا مال سینے پر چڑھے”شوقیہ لٹیرے “کے حوالے کردیا اور اُس سے التجا کی کہ اب وہ اُسے چھوڑ دے … مگر…نوجوان کے دماغ پر قابض ابلیس کچھ الگ ہی تانے بانے بننے میں مصروف تھا، اُس کی درندگی کی پیاس اُس وقت تک نہیں بجھ سکتی تھی جب تک کہ وہ تاجر کو ذبح نہ کر دیتا، تاجر نے بہتیرے ہاتھ جوڑے، رویا، اپنے بیوی بچوں کا واسطہ دیا، منت سماجت کی، گھر پہنچ کر اور مال دینے کا وعدہ کیا لیکن ظالم نے کچھ دیر تلک اُس کی بے بسی کے مزے لینے کے بعد بالآخر اُس کے گلے پر خنجر رکھ دیا…تاجر نے آخری مرتبہ چاروں اطراف نگاہ دوڑائی لیکن منظر ساکت تھاکہ گویا تماشے کے انتظار میں ہو،البتہ اُس کی بے چین نگاہوں نے اُسی درخت کی ایک شاخ پر کہ جہاں وہ سستانے لیٹا تھا دوکبوتروں کو دیکھ لیا اور اپنے گلے پر خنجر کی جاں لیوا دھار کے ساتھ یہ آخری الفاظ ادا کئے کہ”اے کبوترو! گواہ رہنا“۔
نوجوان اُسے قتل کرنے کے بعد اُس کے سینے سے اُٹھا اور مُردہ جسم کو لات مارتے ہوئے کہنے لگا”اے کبوترو! گواہ رہنا“اور پھر دیر تک قہقہے لگاتا رہا…وہ بار بار کہتا کہ ”اے کبوترو! گواہ رہنا“ اور ہنس ہنس کر دہرا ہو جاتا کہ جیسے مرنے والے نے جاتے جاتے اُسے کوئی لطیفہ سنا دیا ہو…دوسری جانب تاجر کے اہلِ خانہ، رشتے دار اور دوست احباب اُس کے یوں اچانک گم ہوجانے سے حد درجہ پریشان ہوگئے،موصل میں اُس کے دوستوں نے باقاعدہ ایک مہم چلائی کہ کسی طور اُس کا سراغ مل سکے اور اِسی مہم کے نتیجے میں اُنہیں یہ معلوم ہوگیا کہ موصل کے قریب اور حلب سے دور ایک ویرانے میں کسی نامعلوم شخص نے بڑی بے رحمی سے تاجر کو قتل کر کے اُس کا سارا مال اسباب لوٹ لیا تھا اور بعد میں اُسی راستے سے گزرنے والے بعض مسافروں نے لاوارث نعش دیکھ کر اُسے وہیں دفنا دیا تھا…دوستوں اور رشتے داروں نے یہ روح فرسا خبر سننے کے بعد قاتل کی گرفتاری کے لئے زمین آسمان ایک کردیا،حاکم شہر کو خط لکھے،قاضی سے نوٹس لینے کی اپیل کی، کوتوالانِ موصل و حلب سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی درخواستیں کیں مگر سب بے سود!…وقت گزرتا رہا اور گزرتا ہی چلا گیا، کئی برس بیت گئے،حاکم بدل گئے، والی گزر گئے، قاضی ملک عدم سدھار گئے اور دوست احباب بھی صبر کر کے بیٹھ گئے…آہستہ آہستہ سب اِس سانحے کو بھول گئے البتہ ایک شخص آج تک اِس واردات کو نہیں بھولا تھا اور وہ یقینا وہی قاتل تھا جس نے اُس مظلوم تاجر کا لہو بہایا تھا…وہ جب بھی کبوتر یا اُن کے جوڑے کو دیکھتا اُسے مقتول کے آخری الفاظ یاد آجاتے کہ ”اے کبوترو! گواہ رہنا“۔ایک دن اُس کے باپ نے دعوت کا اہتمام کیا، باپ چونکہ امیر کبیر اور اثرورسوخ والا تھا اِسی سبب شہر کے جانے مانے افراد،اعلیٰ حکام، رئیس، امراء، وزراء اور تجار بڑی تعداد میں شریک ہوئے…دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے چنے ہوئے تھے، بگڑے ہوئے رئیس زادے نے ایک طبق سے ڈھکن اُٹھایا تو بھنے ہوئے کبوتروں نے اُس کی نظروں کا استقبال کیا،آنِ واحد میں درخت،اُس پر بیٹھے دوکبوتر اور تاجر کی لاش ایک منظر کی طرح اُس کے سامنے گھومنے لگے ،نہ جانے اُسے کیا ہوا کہ اُس نے یکدم ہذیانی انداز میں ایک بلند قہقہہ لگایا جس نے محفل کو اُس کی طرف متوجہ کر دیا…لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے کہ اِسے اچانک کیا ہو گیا ہے ؟لیکن وہ تھا کہ بس ہنسے جارہا تھا، یکایک اُس کی ہنسی رکی اور ایک غیر مرئی قوت نے اُس کی زبان کھلوادی، اُس نے بھنے ہوئے کبوتروں کی طرف اشارہ کیا اور بڑے فخر سے اپنے ہاتھوں کئے گئے ایک بے بس کے قتل کا قصہ سنانے لگا، محفل میں موجود افراد پھٹی آنکھوں اور متعجب سماعتوں سے اُس کے اعترافِ جرم کے گواہ بن گئے…جیسے ہی وہ قصہ سنا کرتھما تو اُسے ایک جھٹکا لگا جیسے کسی نے اُس سے کہا ہو کہ ”بے وقوف! یہ تُو نے کیا کرڈالا! جس قصے کو لوگ بھول چکے تھے،فائلیں بند ہوگئی تھیں، واقعہ دَب گیا تھا تُو نے اپنی بَک بَک سے سب کو اِس راز میں شریک کرلیا“…مگر اب ہو بھی کیا سکتا تھا،الفاظ تو ادائیگی سے پہلے انسان کے غلام ہوتے ہیں ،ادا ہونے کے بعد تو انسان اُن کا غلام بنتاہے چنانچہ کچھ ہی دیر میں حلب میں یہ واقعہ زبان زدِ عام تھا، قاضی القضاة کو بھی اِس ”اعتراف“ کی اطلاع مل گئی اور اُس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حاکم کو حکم دیا کہ مظلوم تاجر کے قاتل کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے…مقدمہ چلا…دعوت میں شریک لوگوں کو گواہی کے لئے بلوایا گیا، انکار کی جرأت کسی میں نہ تھی…حلب کا حاکم کہتا تھا کہ ”میں گواہ ہوں“…قاضی نے کہا ”میں نے بھی گواہی دی“…پولیس کا چیف بولا ”میں بھی گواہی دیتا ہوں“ اور سب لوگوں نے کہا کہ ”ہم بھی گواہ ہیں“…جس کے بعد اُسے پھانسی کا حکم سنا دیا گیا…سزا سے ایک دن پہلے مجرم سے اُس کی بیوی نے الوداعی ملاقات کی اور اُس سے پوچھا ”اِتنے برسوں سے تم نے اِس جرم کو چھپا کر رکھا پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ تم نے خود ہی اِس راز کو سب کے سامنے منکشف کردیا“اُس نے تاسف سے جواب دیا”سب سے بڑے صاحبِ ارادہ نے میرے اِرادے کو توڑ دیا اور مجھے سچ کہنے پر مجبور کردیا“…دوسرے دن صبح سویرے جب اُسے کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالا گیا تو اُ س نے چلاکر یہ آخری الفاظ کہے کہ ”وہ الفاظ میرے نہیں تھے،اُن کبوتروں کے تھے جو دعوت کے دن طبق میں میرے سامنے بھنے پڑے تھے“…الفاظ ادا ہوتے ہی رسّا کھنچا اور قاتل تختے پر جھول گیا،لوگوں نے سکھ کا سانس لیا،انصاف کے کلیجے کو ٹھنڈ پہنچی اور وقت کو اپنے گزرجانے کا احساسِ شرمندگی جاتا رہا…اُس لمحے لوگوں نے ایک اور منظر دیکھا کہ پھانسی کے رسّے سے لٹکے ہوئے قاتل کے سر پر دو کبوتر بے حِس و حرکت بیٹھے ہوئے تھے،اللہ اکبر کے نعرے بَلند ہوئے اور سب نے ایک آواز ہوکر کہا کہ ”اِن کبوتروں نے بھی گواہی دے دی“۔
بس فرق صر ف اِتنا ہے کہ مجرم سزا سننے کے بعد کمرہٴ عدالت سے اکڑے ہوئے سینے اور تَنی ہوئی گردن کے ساتھ باہر نہیں نکلا تھا،اُس نے بکتر بند گاڑی کو لاتیں نہیں ماری تھیں،انصاف کے رخسار پر تھوکنے کی جرأت نہیں کی تھی کیونکہ وہ ”زبردست صاحبِ ارادہ“ کی طاقت دیکھ چکا تھا،شاہ زیب کے قاتلوں نے ابھی دیکھی نہیں ہے لیکن قسم رب کی بہت جلد دیکھ لیں گے!!

Wednesday, January 9, 2013

Positive Thinking Through Self talk


s you received.

  • Personalizing. When something bad occurs, you automatically blame yourself. For example, you hear that an evening out with friends is canceled and you assume that the change in plans is because no one wanted to be around you.

  • Catastrophizing. You automatically anticipate the worst. You refuse to go out with friends for fear that you'll make a fool of yourself. Or one change in your daily routine leads you to think the entire day will be a disaster.
  
  • Polarizing. You see things only as good or bad, black or white. There is no middle ground. You feel that you have to be perfect or that you're a total failure.


You can learn positive thinking
Instead of giving in to negative self-talk, weed out misconceptions and irrational thinking and then challenge them with rational, positive thoughts. When you do this, your self-talk will gradually become realistic and self-affirming — you engage in positive thinking.
You can learn to turn negative thinking into positive thinking. The process is simple, but it takes time and practice — you are creating a new habit, after all.
Periodically during the day, stop and evaluate what you're thinking. If you find that your thoughts are mainly negative, try to find a way to put a positive spin on them.
Start by following one simple rule: Don't say anything to yourself that you wouldn't say to anyone else. Examples of typical negative self-talk and how you might apply a positive thinking twist include:
Negative self-talk
Positive spin
I've never done it before. It's an opportunity to learn something new.
It's too complicated. I'll tackle it from a different angle.
I don't have the resources. Necessity is the mother of invention.
There's not enough time. Let's re-evaluate some priorities.
There's no way it will work. I can try to make it work.
It's too radical a change. Let's take a chance.
No one bothers to communicate with me. I'll see if I can open the channels of communication.
I'm not going to get any better at this. I'll give it another try.
Practicing positive thinking every day
If you tend to have a negative outlook, don't expect to become an optimist overnight. But with practice, eventually your self-talk will automatically contain less self-criticism and more self-acceptance. You may also become less critical of the world around you.
Practicing positive self-talk will improve your outlook. When your state of mind is generally optimistic, you're able to handle everyday stress in a constructive way. That ability may contribute to the widely observed health benefits of positive thinking.

source: unknown

Want Allah to Forgive You? Forgive Others

By Sheikh Salman al-Oudah

If we want Allah to forgive us, we should be forgiving of others and willing to overlook their wrongs. This is part of what it means to be good to others. Allah describes his believing servants as 

"those who restrain their anger and are pardoning towards people." He then says: "Indeed, Allah loves those who do good." [Noble Quran 3:134]

Indeed, Allah says:

"And let not those of you who possess wealth and abundance swear against giving to the near of kin and the poor and those who have had to emigrate for Allah's sake. They should forgive and forebear. Do you not love that Allah should forgive you? And Allah is Forgiving, Merciful." [Noble Quran 24:22]

Righteous deeds of all kinds bring us closer to Allah, but especially kindness to others. We should show kindness to all creatures as well as to human beings, whether this kindness comes in the form of our personal behavior, our sharing of our wealth, giving assistance with our abilities and our influence, or praying to Allah on their behalf. We need to especially consider the disenfranchised, the widows and orphans, and the poor.

The Prophet (Peace and blessings be upon him) said: There was a merchant who used to extend credit to people. If he found one of his customers to be in straightened means, he would say to his assistants: "Forgive them their debt, perhaps Allah will forgive us." Allah did forgive him. [Sahih Al-Bukhari (2078) and Sahih Muslim (1562)]

Pardon, tolerance, and magnanimity should exemplify the way we treat one another. We should be willing to overlook the faults of others. We should even be willing at times to waive some of our rights. We should not always demand everything that is due to us. All relationships are a matter of give and take.

This applies to everyone we have dealings with. It is the way things should be between the husband and wife, between parents and children, between teachers and students, and between governors and the governed. In each of these relationships, there are clearly defined rights and duties, and we should do our best to fulfill them. However, in every relationship, people fall short at times. Forgiveness, forbearance, and pardon bring harmony and love into our relationships.

Imagine a marriage based solely on accounting for rights and obligations. Would there be any love or mercy in such a marriage, any room for tenderness and affection?

Tolerance and magnanimity, stabilize those relationships and bolster the esteem and human worth that people have for one another. By Allah's grace, these qualities make our dealings more successful, and certainly make our dealings more pleasing to Allah.

Sixty Tips From Quran

1. Respect and Honour All Human Beings irrespective Of Their Religion, Colour, Race, Sex, Language, Status, Property, Birth, Profession / Job And So On [17/70] 

2. Talk Straight, To The Point,
Without Any Ambiguity Or Deception [33/70]

3. Choose Best Words To Speak And Say Them in The Best Possible Way [17/53, 2/83]

4. Do Not Shout. Speak Politely Keeping Your Voice Low. [31/19]

5. Always Speak The Truth. Shun Words That Are Deceitful And Ostentatious [22/30]

6. Do Not Confound Truth With Falsehood[2/42]
7. Say With Your Mouth What is in Your Heart [3/167]

8. Speak in A Civilised Manner in A Language That is Recognised By The Society And is Commonly Used [4/5]

9. When You Voice An Opinion, Be Just, Even if it is Against A Relative [6/152]

10. Do Not Be A Bragging Boaster [31/18]

11. Do Not Talk, Listen Or Do Anything Vain [23/3, 28/55]

12. Do Not Participate in Any Paltry. If You Pass Near A Futile Play, Then Pass By With Dignity [25/72]

13. Do Not Verge Upon Any immodesty Or Lewdness Whether Surreptitious Or Overt [6/151].

14. If, Unintentionally, Any Misconduct Occurs By You, Then Correct Yourself Expeditiously [3/134].

15. Do Not Be Contemptuous Or Arrogant With People [31/18]
16. Do Not Walk Haughtily Or With Conceit [17/37, 31/18]

17. Be Moderate in Thy Pace [31/19]

18. Walk With Humility And Sedateness[25/63]

19. Keep Your Gazes Lowered Devoid Of Any Lecherous Leers And Salacious Stares[24/30-31, 40/19].

20. If You Do Not Have Complete Knowledge About Anything, Better Keep Your Mouth Shut. You Might Think That Speaking About Something Without Full Knowledge is A Trivial Matter. But it Might Have Grave Consequences [24/15-16]

21. When You Hear Something Malicious About Someone, Keep A Favourable View About Him/Her Until You Attain Full Knowledge About The Matter. Consider Others innocent Until They Are Proven Guilty With Solid And Truthful Evidence[24/12-13]

22. Ascertain The Truth of any news, lest you smite someone in ignorance and afterwards repent of what you did [49/6]

23. Do not follow blindly any information of which you have no direct knowledge. (Using your faculties of perception and conception) you must verify it for yourself. In the Court of your Lord, you will be held accountable for your hearing, sight, and the faculty of reasoning [17/36].

24. Never think that you have reached the final stage of knowledge and nobody knows more than yourself. Remember! Above everyone endowed with knowledge is another endowed with more knowledge[12/76]. Even the Prophet [PBUH] Was asked to keep praying,
 "O My Sustainer! Advance me in knowledge." [20:114]

25. The believers are but a single Brotherhood. Live like members of one family, brothers and sisters unto one another [49/10].

26. Do not make mockery of others or ridicule others [49/11]

27. Do not defame others [49/11]

28. Do not insult others by nicknames[49/11]
29. Avoid suspicion and guesswork. Suspicion and guesswork might deplete your communal energy [49/12]
30. Spy not upon one another [49/12]

31. Do not backbite one another [49/12]

32. When you meet each other, offer good wishes and blessings for safety. One who conveys to you a message of safety and security and also when a courteous greeting is offered to you, meet it with a greeting still more courteous or (at least) of equal courtesy [4/86]

33. When you enter your own home or the home of somebody else, compliment the inmates [24/61]

34. Do not enter houses other than your own until you have sought permission; and then greet the inmates and wish them a life of blessing, purity and pleasure [24/27]

35. Treat kindly -Your parents-Relatives-The orphans-And those who have been left alone in the society [4/36]

36. Take care of -The needy,-The disabled-Those whose hard earned income is insufficient to meet their needs-And those whose businesses have stalled -And those who have lost their jobs. [4/36]

37. Treat kindly -Your related neighbours, and unrelated neighbours-Companions by your side in public gatherings, or public transportation. [4/36]

38. Be generous to the needy wayfarer, the homeless son of the street,and the one who reaches you in a destitute condition[4/36]

39. Be nice to people who work under your care. [4/36]
40. Do not follow up what you have given to others to afflict them with reminders of your generosity [2/262].

41. Do not expect a return for your good behaviour, not even thanks [76/9]

42. Cooperate with one another in good deeds and do not cooperate with others in evil and bad matters [5/2]

43. Do no try to impress people on account of self-proclaimed virtues [53/32]

44. You should enjoin right conduct on others but mend your own ways first. Actions speak louder than words. You must first practice good deeds yourself, then preach [2/44]

45. Correct yourself and your families first [before trying to correct others] [66/6]

46. Pardon gracefully if anyone among you who commits a bad deed out of ignorance, and then repents and amends[6/54, 3/134]

47. Divert and sublimate your anger and potentially virulent emotions to creative energy, and become a source of tranquillity and comfort to people [3/134]

48. Call people to the Way of your Lord with wisdom and beautiful exhortation. Reason with them most decently [16/125]

49. Leave to themselves those who do not give any importance to the Divine code and have adopted and consider it as mere play and amusement [6/70]

50. Sit not in the company of those who ridicule Divine Law unless they engage in some other conversation [4/140]

51. Do not be jealous of those who are blessed [4/54]
52. In your collective life, make rooms for others [58/11]

53. When invited to dine, Go at the appointed time. Do not arrive too early to wait for the preparation of meal or linger after eating to engage in bootless babble. Such things may cause inconvenience to the host [33/53]

54. Eat and drink [what is lawful] in moderation [7/31].
55. Do not squander your wealth senselessly [17/26]

56. Fulfil your promises and commitments [17/34]

57. Keep yourself clean, pure [9/108, 4/43, 5/6].

58. Dress-up in agreeable attire and adorn yourself with exquisite character from inside out [7/26]

59. Seek your provision only by fair endeavour [29/17, 2/188]
60. Do not devour the wealth and property of others unjustly, nor bribe the officials or the judges to deprive others of their possessions [2/188]

Thursday, December 27, 2012

Article by Javed Ch - A Must Read


حقیقت اور امید کی جنگ جاری ہے

پاکستان کی فوج آج ایسے نقصان سے دوچار ہے جسے شاید اُس کی تاریخ کے سب سے بڑے غیر جنگی نقصان میں شمار کیا جائے گا۔
سیاچن گلیشیئر کا گیاری سیکٹر، دنیا کے سب سے اونچے میدانِ جنگ کے دل کا کردار ادا کر رہا تھا جہاں آج سِکس ناردرن لائٹ انفنٹری کا صدر دفتر وہاں پر تعینات ایک سو پینتیس افراد کے فوجی اور غیر فوجی عملے سمیت برف کے وسیع تودے تلے دبا ہوا ہے

اتوار کو علاقے کا دورہ کرنے والے ایک دوست کے بقول ’برف کے میدان میں نام و نشان نہیں دکھائی دیتا کہ یہاں ایک بٹالین کا ہیڈکوارٹر تھا۔ امدادی کارروائیوں کے لیے پہنچنے والی بھاری مشینری چیونٹیوں کی طرح دکھائی دیتی ہے‘۔
خیال ہے کہ ایک مربع کلومیٹر چوڑے برفانی تودے کی گہرائی سو فُٹ کے لگ بھگ ہے۔ یعنی اِتنی کھدائی کے بعد ہی فوجی نام و نشان ملنا شروع ہو سکتے ہیں۔
حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو نہ صرف جانی بلکہ دفاعی اعتبار سے بھی پاکستانی فوج کا ناقابلِ تلافی نقصان ہو چکا ہے۔ اگرچہ سیاچن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر ہے لیکن روایتی حریف ہونے کے باعث، دونوں افواج کا سیاچن جیسے یخ بستہ مقام پر بھی چوکنا رہنا ناگزیر ہے۔
گیاری سیکٹر کے دب جانے سے اگلی سرحدی چوکیوں کے راشن پانی اور اسلحے کی ترسیل کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے یا دنیا کی مشکل ترین فوجی سپلائی لائن کا زخم بھرنے کے لیے دوبارہ کتنے جتن کرنا پڑیں گے، اِن سوالوں کے جواب، دفاعی نزاکت کے باعث شاید پاکستانی فوج مستقبل قریب میں نہ دے لیکن ایک سو پینتیس افراد کے لیے اُن کے عزیز و اقارب کے ہاں، حقیقت اور امید کی جنگ جاری ہے کہ حقیقت مان کر صفِ ماتم بچھائی جائے یا امید کی دعا کے لیے صف آراء ہوا جائے۔
میجر ذکاء الحق بھی گیاری سیکٹر میں موجود تھے جب برفانی تودے نے اُن کے ہیڈ کوارٹر کو آ لیا۔ مجھ سمیت، اُن کے تمام دوست اور والدین کسی معجزے کے منتظر ہیں۔
ضلع مظفر گڑھ کے قصبے چوک مُنڈا میں اُن کے زمیندار والد سردار عبدالحق چانڈیہ کے ہاں خیر خبر لینے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے لیکن وہ اِس کشمکش میں ہیں کہ خیر بتائیں یا خبر۔ مجھ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بھی، وہ تازہ صورتحال جاننا چاہتے تھے۔
’پہلے موت کی خبر آئی اور پھر ملتان سے ایک بریگیڈئر صاحب نے آ کر حوصلہ دیا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں۔ دعا کریں‘۔
چوک مُنڈا یا چوک سرور شہید جیسے پسماندہ پاکستانی قصبوں میں بہت کم گھرانے ایسے ہوتے ہیں، جہاں پر آٹھ بھائیوں میں سے ایک افسری کے پھول پہنتا ہے اور اُس کی شخصیت آنے والی نسلوں کے لیے مثال بن جاتی ہے

میجر ذکاء الحق اُن لوگوں میں سے ہیں جو خاندان، قصبے اور معاشرے کی وراثتی اور روایتی حدوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، قابلیت کے بل بوتے پر نیا مقام بناتے ہیں۔


انیس سو ترانوے میں مجھ سے ایک جماعت پیچھے ہونے کے باوجود انہوں نے پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک، کیڈٹ کالج حسن ابدال میں آٹھویں جماعت کے لیے داخلے کا امتحان پاس کیا۔


مظفر گڑھ کے نامور مثالی پبلک سکول میں ٹاٹوں، مٹی کے میدانوں اور درختوں کی چھاؤں تلے، صاف اور میلے کپڑوں سے بے نیاز ہو کر، فارغ التحصیل ہونے کے بعد، کیڈٹ کالج کی فوجی چمک دمک اور نظم و نسق میں جگہ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا جس کا احساس مجھے ذکاء الحق کے ایک سال بعد وہاں پہنچنے پر ہوا۔


وہاں ذکاء الحق مجھ سے سینئر ہو گئے اور چار سال کے دوران، ہر موقع پر میں نے انہیں، روایتی حدیں توڑ کر آگے بڑھتے ہوئے دیکھا۔ زندہ دل شخصیت کے ساتھ ساتھ، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں سے نام بنایا۔
ہاکی، باسکٹ بال، ایتھلیٹکس اور گھُڑ سواری کے علاوہ اُن کی ایک تقریر میرے لیے ناقابلِ فراموش ہے جو انہوں نے ایک مقابلے کے دوران، ٹھیٹ سرائیکی ہونے کے باوجود، خالص انگریزی لہجے میں کی لیکن اپنے دیہی خد و خال کے باعث، انگریز ظاہری پن پر زیادہ یقین رکھنے والے جج صاحبان کو اول پوزیشن کے لیے مرعوب نہ کر سکے۔
بالآخر پاکستان ملٹری اکیڈمی میں انہوں نے بہترین مقرر کا اعزاز حاصل کیا جہاں ایک سو پانچ لانگ کورس میں انہیں دو ہزار دو میں کمیشن ملا۔ سیاچن میں پوسٹ ہونے سے پہلے وہ پاکستان کے فعال محاذ جنوبی وزیرستان میں تعینات رہے اور اقوامِ متحدہ کے مشن پر بیرونِ ملک بھی گئے۔
یہی شخصی یادیں ہیں جو شاید آج امید کا سہارا نہیں چھوڑنے دے رہیں۔ میجر ذکاء الحق کے فیس بُک نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اُن کے دوستوں کو جمع کر دیا ہے۔
فوج نے تو سیاچن جیسے مشکل مقام پر تعیناتی کے لیے اپنے افسر پر جو محنت اور سرمایہ کاری کی ہو گی، لیکن دوست احباب کے فیس بُک پیغامات سے یہی لگ رہا ہے کہ ذکاء جیسا بندہ، سو فٹ گہری برف کے نیچے سے نکل باہر آئے گا

ہر چند منٹ بعد ذکاء کی فیس بُک پروفائل پر کوئی دوست، اُن کے ساتھ اپنی پرانی تصویر شائع کر رہا ہے، کوئی اگلی ظہر پر ساتھ دیکھنا چاہتا ہے تو کوئی اُن کی زندگی کی دعاؤں کا طلبگار ہے۔


سیاچن میں پوسٹِنگ کے بعد اور روانگی سے پہلے میجر ذکاءالحق نے ایک شعر پوسٹ کیا تھا۔
’کھڑے ہیں سرحدِ ایماں پہ، کے ٹو کی طرح
دستِ کفر سے سیاچن کو بچانے کے لیے‘
اور ساتھ ہی انہوں نے لکھا، ’کچھ دن بعد میں وہاں ہوں گا جہاں عاصمہ جہانگیر کو ہونا چاہیے‘۔ پانچ جولائی دو ہزار گیارہ کی اِس پوسٹ پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ شاید اسی لیے میجر ذکاء نے بھی نہیں بتایا کہ عاصمہ جہانگیر کو سیاچن میں کیوں ہونا چاہیے؟
لیکن میجر ذکاء الحق کی فیس بُک پر جس آخری پوسٹ نے میری توجہ کھینچی، وہ ایک ویڈیو ہے جو انہوں نے پچیس فروری کو یو ٹیوب سے لِنک کی۔ ویڈیو میں شہزادی جیسی گڑیا کا کیک بنانے کی ترکیب بتائی گئی ہے۔ ذکاء کی بڑی بیٹی مریم تین سال کی ہے اور بیٹا جہانزیب ایک سال کا ہو گیا ہے۔
فیس بُک کے محبوب قول کے حصے میں میجر ذکاء الحق نے یہ تحریر ہمیشہ کے لیے چھوڑ رکھی ہے۔ ’امید ایک اچھی چیز ہے، شاید بہترین چیز اور اچھی چیز کبھی نہیں مرتی‘۔

پاکستانی فوج بھی آئی پیڈ تیار کرنے لگی

Coulmn of the Day



Top 10 Brain Damaging Habits!! (must share )

1. No Breakfast

People who do not take breakfast are going to have a lower blood sugar level. This leads to an insufficient supply of nutrients to the brain causing brain degeneration.

2. Overeating

It causes hardening of the brain arteries, leading to a decrease in mental power.

3. Smoking

It causes multiple brain shrinkage and may lead to Alzheimer disease.

4. High Sugar Consumption

Too much sugar will interrupt the absorption of proteins and nutrients causing malnutrition and may interfere with brain development.

5. Air Pollution

The brain is the largest oxygen consumer in our body. Inhaling polluted air decreases the supply of oxygen to the brain, bringing about a decrease in brainefficiency .

6 . Sleep Deprivation

Sleep allows our brain to rest. Long term deprivation from sleep will acceleratethe death of brain cells.

7. Head Covered While Sleeping

Sleeping with the head covered increases the concentration of carbon dioxide and decrease concentration of oxygen that may lead to brain damaging effects.

8. Working Your Brain During Illness

Working hard or studying with sickness may lead to a decrease in effectiveness of the brain as well as damage the brain.

9. Lacking in Stimulating Thoughts

Thinking is the best way to train our brain, lacking in brain stimulation thoughts may cause brain shrinkage.

10. Talking Rarely

Intellectual conversations will promote the efficiency of the brain.

یہ شادی نہیں ہو سکتی - عطاْالحق

Wednesday, December 26, 2012

عبدالستار ایدھی


عبدالستار ایدھی

عبدالستار ایدھی المعروف مولانا ایدھی خدمت خلق کے شعبہ میں پاکستان اور دنیا کی جانی مانی شخصیت ہیں، جو پاکستان میں ایدھی فاونڈیشن کے صدر ہیں۔ ایدھی فاونڈیشن کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی بیوی محترمہ بلقیس ایدھی، بلقیس ایدھی فاونڈیشن کی سربراہ ہیں۔ دونوں کو 1986ء میں عوامی خدمات کے شعبہ میں رامون ماگسےسے ایوارڈ (Ramon Magsaysay Award) سے نوازا گیا۔


ابتدائی حالات
مولانا ایدھی 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بنتوا میں پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد کپڑا کے تاجر تھے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کی چھوٹے چھٹوے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب انکی ماں انکو سکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسہ خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے کی زندگی کے لیے کامیابی کی کنجی تھا۔



آغاز
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوۓ۔ 1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی جنہوں نے ان کو طبی امداد کی بنیادات سکھائیں۔ اسکے علاوہ آپ نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔


1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگواۓ اور مفت مدافعتی ادویہ فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوۓ باقی پاکستان نے بھی۔ امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لیے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے سکول کھول لیا، اور یہی ایدھی فاونڈیشن کا آغاز تھا۔


ایدھی فاونڈیشن کی ترقی
آنے والوں سالوں میں ایدھی فاونڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتی گئی۔ فلو کی وبا کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو کافی بڑی رقم کی امداد دی جس سے انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی جس کو وہ خود چلاتے تھے۔ آج ایدھی فاونڈیشن کے پاس 600 سے زیادہ ایمبولینسیں ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ میں امداد کے لیے وہ خود روانہ ہوتے ہیں اور ایدھی فاونڈیشن کی حادثات پر ردعمل میں کی رفتار اور خدمات میونسپل کی خدمات سے کہیں زیادہ تیز اور بہتر ہے۔ ہسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاونڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول کھولے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی مراکز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر بچہ گاڑی کا اہتمام ہے تا کہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا سکے۔ اس بچے کو ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اسکو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔


ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاونڈیشن
فاونڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کی ہے۔ اسلامی دنیا میں ایدھی فاونڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم مدد فراہم کرتی ہے۔ جہاں امداد اور نگرانی ایدھی بزات خود متاثرہ ممالک میں جا کر کرتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ فاونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں سے چند نام افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفت سماٹرا اندامان کے زلزلہ (سونامی) سے متاثرہ ممالک کے ہیں۔


16 اگست 2006ء کو بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی کی جانب سے ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کااعلان کیا گیا۔ جس کے تحت دنیا کے امیریاغریب ہویا دنیا کا کوئی بھی ملک امریکہ، یو کے، اسرائیل، شام، ایران، بھارت، بنگلہ دیش ہوں میں یہ ایمبولینس بطور عطیہ دی جا رہی ہے اورانہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان ایمبولینس کو 5 سال تک استعمال کرنے کے بعد فروخت کرکے اس کی رقم خیراتی کاموں میں استعمال کریں۔


بیگم بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی نے اس موقعہ پر کہا کہ وہ دنیا کاامیر یاغریب ملک ہووہاں مریض مریض ہی ہوتا ہے ایمبولینس کامقصد انسانوں کی جانیں بچانا ہوتا ہے اور ہمیں اس بات کی خوشی ہوگی کہ ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کی ایمبولینسیں دنیا بھرمیں انسانوں کی جانیں بچائیں خواہ وہ لندن، نیویارک، ٹوکیو، تل ابیب، بیروت اوردمشق ہوں انہوں نے کہا کہ انسانیت کی بین الاقوامی خدمت کے حوالے سے ہمارا ایک قدم اورآگے بڑھ رہا ہے۔



جدید میراث
آج پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا میں بھی ایدھی نے ایک غیر خود غرض اور محترم شخص کے طور شہرت پائی ہے۔ شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ سادہ روائتی پاکستانی لباس پہنتے ہیں، جو صرف ایک یا دو انکی میلکیت ہیں، اسکے علاوہ انکی ملکیت کھلے جوتوں کا ایک جوڑا ہے، جسکو وہ سابقہ بیس سال سے استعمال کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایدھی فاونڈیشن کا بجٹ ایک کروڑ کا ہے جس میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کرتے۔ آپ کے بیٹے فیصل بتاتے ہیں، جب افغانستان میں مرکز کا افتتا ح کیا جا رہا تھا تو عملہ نے مہمانوں اور صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں خرید لیں۔ جب ایدھی وہاں آۓ تو وہ اس بات پر سخت خفا ہوۓ، کونکہ انکے خیال میں یہ رقم کسی ضرورت مند کی مدد پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ اس رات آپ کلینک کے فرش پر ایمبولینسوں کے ڈرائیوروں کے ساتھ سوۓ۔


ایدھی فاونڈیشن کا مستقبل
آج ایدھی فاونڈیشن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ایدھی مستقبل کی طرف دیکھتے ہوۓ کہتے ہیں، وہ پاکستان کے ہر 500 کلو میٹر پر ہسپتال تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ گرچہ انکو احترام کے طور پر مولانا کا لقب دیا گیا ہے لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے کبھی کسی مذہبی سکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلوانا پسند کرتے ہیں، کیونکہ انسانیت کی خدمات پر پاکستان میں انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹلریشن سے ڈاکٹری کی اعزازی سند دی گئی ہے۔ وہ اس بات کو بھی سخت ناپسند کرتے ہیں جب لوگ انکی یا انکے کام کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ حکومت یا سابقہ مذہبی جماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی امداد مشروط ہوتی ہے۔ ضیاءالحق اور اطالوی حکومت کی امداد انہوں نے اسی خیال سے واپس کر دی تھی۔


1996ء میں انکی خودنوشت سوانح حیات شائع ہوئی۔


1997ء گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ ایدھی بذات خود بغیر چھٹی کیے طویل ترین عرصہ تک کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں۔ اور ریکارڈ بننے کے بعد بھی ابھی تک انہوں نے چھٹی نہیں لی۔


اعزازات
1988ء لینن امن انعام (Lenin Peace Prize)
1986ء عوامی خدمات میں رامون مگسےسے اعزاز (Ramon Magsaysay Award)
1992ء پال ہیریس فیلو روٹری انٹرنیشنل فاونڈیشن (Paul Harris Fellow Rotary International Foundation)
2000ء انسانیت، امن اور بھائی چارے کا انٹرنیشنل بالزن اعزاز (International Balzan Prize)
مارچ 2005ء عالمی میمن تنظیم کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ اعزاز (Life Time Achievement Award)

ماڈرن خواتین



ماڈرن خواتین مغرب کی تقلید کا شکار ہیں. انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ ان کا اپنا دین ان کوکس بات کی ترغیب دے رہا ہے. وہ اندھادھند مغرب کے جال میں پھنستی جارہی ہیں. الله نے بنیادی طورپرعورت کےاندرحیا ڈال رکھی ہے لیکن شیطان یعنی مغرب کا کمال ہے کہ اس نےعورت کو اسکی حیا بھی بھلادی اور دین کی تعلیمات بھی، سو مسلمان عورت بے پردہ اور بے حیا ہوکر یہ محسوس کرنے لگی ہے کہ وہ بھی آخر ماڈرن بن ہی گئی. اسکی فطری حیا اس کو کچوکے لگاتی ہے لیکن وہ جدیدیت کے خوشنما لباس کو اتارنا پسند نہیں کرتی.



آخرکار اسے بے حیائی جیسے گناہ میں لذّت محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے اور اسی لذّت کے احساس کو پانے کے لئے وہ کپڑے پہن کربھی برہنہ نظر آنے لگتی ہے. جب مردوں کی گندی اور غلیظ نظریں اس کے بے پردہ جسم پر پڑتی ہیں تو وہ لطف کی وادیوں کی سیر کرنے لگتی ہے اور سمجھتی ہے کہ وہ دنیا کی حسین ترین عورت بن گئی ہے حالانکہ وہ صرف بدنظر مردوں کا شکار بنی ہوتی ہے.



ایسے لوگ بدنظری میں اس قدر مہارت حاصل کرلیتے ہیں کہ باپردہ خاتون کے پوشیدہ جسم سے بھی حرام مزے لیتے رہتے ہیں. یہ قرب قیامت کی نشانی ہے.



آج کسی خاتون کو پردے کی ترغیب دی جائے تو کہنے لگتی ہیں کہ اصل پردہ تو دل کا ہوتا ہے دل صاف ہونا چاہیے. اپنا اندر اچھا ہوتو مردوں کی بدنظری اور ہوس کچھ نہیں بگاڑسکتی. یہ بہت احمقانہ جاہلانہ اور بےوقوفانہ بات ہے.اگر دل ہی کو صاف رکھنا کافی ہوتا تو پردے کے بارے میں الله اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتنے واضح احکام اور ان کی تشریح کیوں دیتے؟



تین ہی عورتیں ایسی بات کرسکتی ہیں ایک وہ جو بے پردگی میں لذّت پاتی ہو اور اسے چھپانے کے لئے اپنی نگاہ میں بڑے فلسفے پیش کر رہی ہو. دوسری وہ جو دین کے بارے میں شدید لاعلمی کا شکار ہوں.تیسری وہ جو پردے کرتی ہو لیکن اپنے آپ کو دوسری جدیدیت کی ماری خواتین کے سامنے کم تر محسوس کرتی ہو چناں چھ اس احساس کمتری کو چھپانے کے لئے ایسی احمقانہ باتیں کہتی ہو. یہ تیسری خاتون تو قابل حیرت ہے کہ اپنے دین پر عمل کرکے بھی احساس کمتری کا شکار ہے، کیا اسکو علم معلوم نہیں کہ الله رب العزت نے پردہ کرنے کا حکم دیا ہے؟ کیا اسکو معلوم نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ کرنے کی کتنی تاکید کی ہے؟ اسکو معلوم نہیں کہ اسکا مذہب اسلام کتنا بڑا اور سچا مذہب ہے. پھر وہ اپنے مذہب پر عمل کرنے سے کیوں کتراتی ہے؟ کیا اس لئے کہ لوگ اسکو پینڈو وغیرہ کہیں گے؟ تو ایسی عورت کو جان لینا چاہیے کہ سچائی کو بولنے اور اس پر عمل کرنے میں ہی اصل عظمت ہے.



کچھ خواتین پردہ نہ کرنے کا یہ عذر پیش کرتی ہیں کہ انہیں اس معاملے میں رشتہ داروں کی حمایت حاصل نہیں. اگر آپ کے رشتہ دار آپ کو روز قیامت جنّت میں جانے سے روکیں گے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ یہی کہ آپ ضرور ضرور جنّت میں جا ئیں گی اور ان کی نادان بات کو بلکل بھی نہیں سنیں گے. اس طرح اس دنیا میں بھی آپ کے رشتہ دار آپ کو دین پر عمل کرنے سے روک رہے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ دین اسلام ہی پر عمل کرکے آپ کے الله کی رضا اور خوشی اور جنّت الفردوس میں مقام پائیں گی تو آپ کو ان سے ڈرنے اور جھکنے کی ضرورت نہیں. آپ سکون سے اپنے دین پر عمل کریں. باحیا و باپردہ بننے اور الله رب العزت کی رضا کی مشتاق رہیں اس صورت میں الله رب العزت آپ کی ضرور مدد کریگا. اگر آپ ہرطعنوں کو پیچھے ہٹا کر با پردہ بن کر رہیں.



کچھ خواتین موسم گرما میں دوپٹے اوڑھتی ہیں جبکہ موسم سرما میں موٹی چادریں. نام یہ ہوتا ہے کہ حجاب اوڑھ رہی ہیں. بس ذرا موسم گرما میں گرمی محسوس ہوتی ہے تو بڑا حجاب چھوڑ کر بے پردہ ہوجاتی ہیں یعنی توہین حجاب کی جارہی ہے. ایسی خواتین سے گزارش ہے کہ براہ کرم یہ روش چھوڑدیجیے. مسلمان خاتون برقعے اور چادر میں پریشان نہیں ہوا کرتی ہے. اور پھر بےحیائی کی ٹھنڈک سے پردے کی گرمائش بہتر ہے. الله پاک ہمیں حیا وغیرت جیسی صفات سے مالامال فرمائیں کہ اسی میں ہماری عزت ہے.

پاکستان کے کچھ ریکارڈز


.
.
.
.














































لاہوت لامکاں ۔ ایک سحر انگیز مقام

























Best Travel Destinations in Pakistan You Must Explore in 2025

Best Travel Destinations in Pakistan You Must Explore in 2025     If you're planning your next adventure for 2025, Pakistan should defin...