Friday, November 18, 2016

اپنے آپ کو کامیاب سٹوری بنائیے — قاسم علی شاہ

یہ سوال ہماری ابتدائی زندگی میں نہیں اٹھایا جاتا ہے کہ اصل میں ہمیں کرنا کیا ہے ۔ مثال کے طور ہر جب میں نے یہ سوچا کہ مجھے کرنا کیا ہے تو مجھے بعد میں ایم ایس سی سائیکولوجی اور ہیومن ریسورس کرنا پڑا۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس سوال کو کیری کیجیے ، کیری کا مطلب یہ ہے کہ اس سوال کو سنبھال کر رکھنا ہے کہ اصل میں مجھے کرنا کیا ہے۔ہم لوگوں میں سے بالخصوص وہ لوگ جن میں تڑپ ہے لگن ہے اور بے سبب آنسو ہیں اور جن کی زندگی اضطراب میں گزر رہی ہے وہ زیادہ ترقی کر سکتا ہے۔
یہ ساری علامات ہیں کہ ایسے شخص میں کچھ کرنے کی ایک آگ ہے ۔ یہ ساری علامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ قدرت نے اس سے کچھ کام لینا ہے۔ اس سے اگلی بات یہ ہے کہ کام کرنا کیا ہے اس سوال کو بھی کیری کیجیے کہ اگر آپ دل سے اس سوال کو اٹھاتے ہیں تو نیچر اس کا جواب دیتی ہے یعنی قدرت اس سوال کا ضرور جواب دے گی۔ اس بارے میں دو تین کتابیں بہت مشہور ہیں” الکیمسٹ” ناول ہے اور پچھلے سال ایک کتاب آئی ہے اس کا نام ہے ‘”دی ہیرو”یہ ر ہونڈا بائرن کی کتاب ہے اوراسے دارالشعورنے شائع کیا ہے اس میں بیان کیا گیا ہے کہ دنیا کے جتنے بڑے آدمی ہیں انہیں قدرت نے وقت سے پہلے اشارے دینے شروع کر دئیے تھے کہ تم یہ کام کرو تو ایکسل کر جائوگے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس پر کان دھرتا ہے اور کون فیصلہ کرتا ہے اور جرات کر کے آگے نکل جاتا ہے یہ اس شخص پر منحصر ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قدرت ہمیں کچھ کہہ رہی ہوتی ہے اور ہم سن نہیں رہے ہوتے۔ ہم اپنی والدہ ، والد ، دوستوں اور اس بیج کو سن رہے ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہم پڑھتے ہیں اپنی منگیتر کو سن رہے ہوتے ہیں لیکن اللہ کو نہیں سن رہے ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم جرات کا مظاہرہ نہیں کرتے تو بعد میں وہ چیز زندگی کا پچھتاوا بن جاتی ہے۔
میری عادتوں میں ایک اچھی عادت یہ ہے کہ میں انٹرویو بہت دیتا ہوں اور میں ریڈیو کے ایک چینل پر انٹرویو کرتا ہوں پاکستان میں ایسے لوگوں پر جو زیرو سے ہیرو تک گئے ہیں جیسے کہ آئی ٹی کے شعبہ میں سلیم غوری صاحب ایسے تمام مہمان میں نے بلا کر دیکھے ہیں جن میں اطمینان اور جذبہ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جرات کا مظاہرہ کیا ہے ۔
سلیم غوری صاحب نے مجھے بتایا کہ میں سٹی بینک میں ٹاپ کی جاب کر رہا تھا اور ساتھ میں اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار بھی کر رہا تھا آسٹریلیا میں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میرے باس نے مجھے کہا کہ یا تم یہ بڑی سی جاب کر لو جس میں گھر گاڑی بنگلہ سب کچھ مل رہا ہے یا یہ چھوٹا سا کاروبار کر لو جس میں سے کچھ بھی نہیں مل رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ میں نے ایک کامیاب کہانی بننا ہے مجھے پیسے نہیں کمانےاور میں نے ریزائن کر دیا۔ گھر جا کر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ گھر خالی کر دو اور گاڑی چھوڑ دو ہم نے کوئی بڑا کام کرنا ہے کہ نوکری کے لیےمیں پیدا نہیں ہوا۔
یعنی جب انسان جرات کا مظاہرہ کرے تو اپنے قدم اٹھا لیتا ہے لیکن اگر جرات ہی نہ ہو اور اتنا پریشر بلٹ کیا ہو اور میرا یہ فقرہ یاد رکھیے گا کبھی یہ مت بتائیں کہ میں کیا کر رہا ہوں بلکہ پہلے کر کے دکھائیں کہ میں نے کیا ،کیا ہے۔
ایسی بے شمار کہانیاں میری زندگی میں آئی ہیں جن لوگوں سے میں ملا ہوں اور میرے لیپ ٹاپ میں بے شمار آڈیو ویڈیوز پڑی ہوئی ہیں جو لوگ اندھے تھے اور کامیاب ہوئے ہیں جو بہرے تھے کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس کوئی وسائل نہیں تھے اور وہ کامیاب ہوئے ہیں ۔
ملک ریاض پر ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب اس کی بیٹی بیمار ہو گئی اور اسے گھر کے برتن بیچنے پڑے اور ایک وہ وقت بھی آیا کہ اس نے کہا اب بہت ہو گئی اور اس نے اپنی سمت بدل لی کہاں وہ گھروں کے رنگ کے ٹھیکے لیتا تھا اور کہاں اب کا ملک ریاض۔
ہمارے اساتذہ مارکیٹ کو نہیں جانتے یہ انکا قصور نہیں ہے میں اساتذہ کو ڈی گریڈ نہیں کر رہا لیکن مارکیٹ میں وہ شخص کامیاب ہے جو اپنی فیلڈ میں بلا کا ماہر ہو یا کمبی نیشن ڈگری میں ہو۔ کئی انجینئر ایسے ہیں جنہوں نے ایم بی اے ساتھ کیا وہ جلدی آگے نکل جاتے ہیں وجہ یہ ہے کہ انہیں پروڈکشن سے نکال کر ایڈ منسٹریشن کی سیٹ پر بٹھا دیا جاتا ہے اور وہ آگے نکل جاتے ہیں۔
میرا ایک اسٹوڈنٹ ہے جوانجنیئر ہے اور ہنڈا پلانٹ پر انٹرویو کے بعد اس کی سیلکشن ہوئی تو انٹرویو کرنے والے نے بعد میں پوچھا کہ تمہیں مارکیٹ کا اندازہ کہاں سے ہوا اور اسٹیفن آر کوے کو تم کیسے جانتے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ میرے استاد نے ایف ایس سی کے دوران مجھے بتا دی تھیں۔
جب آپ کی بنیاد میں علم ہو ، کارپوریٹ مارکیٹ ہو بزنس ہو ساری چیزیں آپ کے سامنے پڑی ہوئی ہوں تو آپ کا عمل کچھ اور ہو گا۔ انٹرن شپ ہمارے ہاں برڈن سمجھی جاتی ہے کیونکہ یہ یونیورسٹی کی طرف سے فارمیلیٹی کے طور پر لی جاتی ہے ۔ میں نے بہت کم لوگ ایسے دیکھے ہیں جنہوں نے اپنی انٹرن شپ کو انجوائے کیا ہے۔ انہوں نے پریکٹیکل کو انجوئے کیا اور سسٹم کو سمجھا۔ ہمیں پندرہ سولہ سال سٹڈی کے دوران کتابیں پڑھنے کی اتنی عادت پڑ جاتی ہے کہ ہمیں اگر یہ کہا جائے سلفیورک ایسڈ اتنے ٹن بنانا ہے تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ صرف کاپی پر بنا دیا جائے عملا کچھ نہ کرنا پڑے۔
جب آپ فیلڈ میں جاتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتاہے کہ پروفیشنل رویہ کیا ہے؟ اس وقت جتنی ٹاپ کی کمپنیاں اور ٹاپ کے گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ میں جوڈیشری میں ججز کو پڑھا رہا ہوں اور بیورو کریٹس کو پڑھا رہا ہوں اور کارپوریٹ سیکٹر میں ڈیسکون اور کتنے اداروں کو پڑھا رہا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہر جگہ پر پروفیشنل ایٹی ٹیوڈ پڑھایا جا رہا ہے۔ ایتھکس ، مارل اور کیمیونیکشن سکل اس لئے پڑھا رہے ہیں کیونکہ انجنیئ گونگا ہوتا ہے۔ اس کے اندر لیڈر شپ کوالٹی نہیں ہوتی اسے ٹیم بنا کر ٹاسک پورا کرنا نہیں آتا۔ اسے کتابوں میں پڑھنا آتا ہے لیکن عملی طور پر انسانوں سے ڈیل کرنا نہیں آتا۔
لہذا میرا مشورہ یہ ہے کہ محض انجینئر ہونا کافی نہیں ہے اس کے ساتھ ضروری ہے کہ اپنی سکلز بہتر کیجیے ۔ جب آپ سکلز بہتر کرتے ہیں تو پھر آپ ایکسل یعنی ترقی کرنے لگ پڑتے ہیں۔
میں اپنی مثال دیتا ہوں کہ جب میں یو ای ٹی میں پڑھتا تھا تو ہمارا وژن یہ تھا کہ پندرہ یا بیس ہزار کی سیلری کی جاب لگ جائے یہ ہمارا میکسمم وژن تھا۔ دو ہزار تین کا میں پاس آوٹ ہوں اور میرا جونیر آ کر مجھے یہ کہہ رہا ہے کہ میں سوا لا کھ روپے تنخواہ لے رہا ہوں تو میرے لیے بڑی ناکامی کی بات ہے۔ لیکن اگر مجھے آ کر کوئی کہے کہ میری بارہ لاکھ روپے تنخواہ ہے تو میں اس کو درست کہوں گا لیکن معذرت کے ساتھ مجھے ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا۔

No comments:

Post a Comment

Popular Pakistani Celebrities Who Dated In The Past

  Popular Pakistani Celebrities Who Dated In The Past Hamza Ali Abbasi and Saba Qamar Saba Qamar’s “I love you” post on Hamza Ali Abbasi’s p...