Saturday, August 29, 2015

مادہ پرستی یا محبت؟


ایک طوائف نے اپنی نائیکہ سے دریافت کیا تھا "خانم محبت کیا ہوتی ہے؟" خانم نے متنفر انداز میں گردن کو ایک تلخ سا جھٹکا دیا اور زہر خند مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا "ہونہہ مفت کی عیاشی"
کسی سائیں سے کسی میرے جیسے جاہل نے محبت کے بارے میں دریافت کیا تھا بولا اپنی ذات کی نفی کر دینا کسی اور ذات کےلیے۔ سائیں بولا ذات کی نفی سے مراد خود کشی نہیں ہے ذات کی نفی سے مراد اپنے معیارات، ترجیحات، احساسات، جذبات، خیالات اور تقاضوں کو کسی دوسری ذات پر فوقیت اور برتری نا دینا ہے۔ 
دونوں کے جوابات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بات یہ دراصل اتنی سی ہے ہماری سوچ پر گرد و پیش کے حالات و واقعات اثر انداز ہوتے ہیں، پھر وہ سوچ ہمارے نظریات بناتی ہے، وہ نظریات ہمارے اعمال و اقوال پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اور یہی اعمال و اقوال روزمرہ زندگی کا حصہ بنتے ہیں۔ اور یوں یہ روز روز گزرتی زندگی عمر بنتی ہے۔ اور یوں انسان عمر سے تجربے اخذ کرتا ہے اور گرد و بیش کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ جس کی جو سوچ ہو، جو اعمال ہوں اور جو گردوپیش ہو وہ اسی کے مطابق نتائج اخذ کرتا ہے۔
اس میں انسان کبھی تو اپنی محسوسات کو مجموعی انسانی رویہ سمجھتا ہے اور کبھی وہ مجموعی معاشرتی ریووں کو مجموعی انسانی رویہ سمجھنے لگتا ہے۔ ایک مادہ پرست انسان کو محبت کارو بارِ جنس کے سوا کچھ نظر نہیں آتی۔ کیوں کہ انسانیت پر یقین کا نعرہ تو لگاتا ہے مگر انسانیت اس کے نزدیک مادہ پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یعنی مادہ پرستوں کے ہاں محبت انسان مادی تقاضوں کو پورا کرنے کےلیے کرتا ہے نا کہ آفاقی و الہامی احساسات کے تابع ہو کر۔ گویا ان کے نزدیک حیوانیت اور محبت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یعنی کہ انسان مکمل حیوان بن جاۓ محبت کے نام پر۔
میرا مقصد محبت کی وکالت کرنا نہیں ہے میں خود اس بات کا قائل ہوں کہ اخلاص اور سادگی جنسِ نا پید بن چکے ہیں اور مادیت جیت چکی ہے مگر انسانیت ہار چکی ہے۔ آج کی نام نہاد محبت دھوکے جھوٹ اور منافقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بلکہ وہی مادی ضروریات کے تقاضے ہیں جن کا رونا میں اوپر رو چکا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود میں انسانیت، اچھائی، بے غرضی اور بے لوث ہونے پر یقین رکھتا ہوں۔ میں انسان کی عظمت پر یقین رکھتا ہوں۔ میں مطلب پرستی کو محبت کا نام دیے جانے کا مخالف ہوں۔ اور اس بات کا مخالف ہوں کہ زہر کی بوتل پر شہد کا سٹیکر لگا کر بیچا جاۓ۔ اور اس بات کا مخالف ہوں کہ لوگ اس زہر کا شکار ہو کر بھی شہد کی افادیت سے انکار کریں۔ زہر خود پیئں اور قصور شہد کا گنیں۔
مطلب پورا کرنے کےلیے مقاصد پر محبت کا پینٹ چڑھانے کا مخالف ہوں۔ اور سب سے بڑھ کر منافقت کا مخالف ہوں کہ لوگ مادی ضرورتوں کی تکمیل کو محبت کا نام دیتے ہیں۔ صاف کیوں نہیں کہتے ہیں کہ ہم جنس کا کاروبار کرتے ہیں۔ 
شائد اس لیے کہ انسان کی فطرت میں آج بھی کہیں کہیں برائی سے نفرت چھپی ہے۔ انسان آج بھی انسانیت اور اس کی عظمبت کا تھوڑا بہت قائل ہے۔ انسان آج بھی اس بات کا قائل ہے کہ ازلی اور آفاقی مقدس جذبات پر چند لمحوں کی مادی ضرورتوں کو فوقیت دےکر لطیف احساسات کو آلودہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ بے غرضوں اور صدا کے بے نیازوں کی دنیا میں غرض سے بڑی آلودگی کوئی نہیں ہے۔ اور محبت کے معاملے میں غرض گناہِ کبیرہ کے مترادف ہے۔اب ہنسو سب مل کے جو مادیت پرستی کو ایمان سمجھتے ہیں۔
صلیبِ وقت پہ میں نے پکارا تھا محبت کو 
میری آواز جس نے بھی سنی ہو گی ہنسا ہو گا
ہمارے شوق کے آسودہ و خُوشحال ہونے تک
تمھارے عارض و گیسُو کا سودا ہو چکا ہو گا
دلیلوں سے دوا کا کام لینا سخت مُشکل ہے
مگر اس غم کی خاطر یہ ہُنر بھی سیکھنا ہو گا

No comments:

Post a Comment