Friday, October 11, 2013

بنیادی حقوق اور مفاد عامہ


 بڑے آدمی کی سوچ بڑی۔ مارکونی نے سوچا ریڈیو ایجاد کر مارا۔ ریڈیو ہی وہ بنیادی ایجاد ہے جس کے نتیجہ میں ٹی وی‘ واءرلس‘ بڑے بڑے ریڈار‘ انٹرنیٹ وغیرہ وجود پذیر ہوءے۔ یہ سوچ ہی کا کمال ہے کہ نئ نئ چیزیں آج دیکھنے اور استعمال کرنے کو مل رہی ہیں۔ سوچ کے نتیجہ میں بڑی بڑی الجھی گتھیاں سلجھ جاتی ہیں اور سلجھی گتھیاں الجھ جاتی ہیں۔ گویا سوچ کے نتیجہ میں بہت کچھ ہاتھ لگتا ہے اور بہت کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اب یہ سوچ پر انحصار کرتا ہے کہ کچھ ہاتھ سے جاتا ہے یا کچھ ہاتھ میں آتا ہے۔ شاءد ہی کوئ ہو گا جو ہاتھ سے جانے کا قاءل ہو۔ تقدیرا ہاتھ سے کچھ زیادہ ہی نکل جاءے تو یہ الگ بات ہے۔ نقصان کی صورت میں شخص اسے پورا کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات اس کی نوبت نہیں آتی‘ نقصان ہوتے ہی انسان الله کو پیارا ہو جاتا ہے۔ اس کے پچھلےعرصہ دراز تک اس کی نااہلی کے قصے سناتے رہتے ہیں۔ گویا وہ بعد از مرگ بھی لوگوں میں زندہ رہتا ہے۔ نقصان ہونے کے بعد اتفاقا زندہ بچ جاتا ہے اس کے اپنے اور قبر تک ساتھ دینے کا وعدہ کرنے والے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور اس کی وہ وہ خرابیاں نشر کرتے ہیں جن کا اس کو خود علم نہیں ہوتا۔ ماسٹر صاحب آنکھیں بند کءے دھوپ میں کرسی بچھا کر تشریف رکھتے تھے۔ بیگم نے بازار سے کچن کی کوئ اہم اور فوری ضرورت کی چیز لانے کو کہا۔ برہم اور تلخ ہوکر بولے دیکھتی نہیں ہو کہ میں مصروف ہوں۔ لامحالہ بیگم کو حیرانی ہونا تھی۔ اس نے ماسٹر صاحب سے زیادہ برہم اور تلخ ہو کر کہا کیا مصروفیت ہے میں تو تمہیں فارغ بیٹھا دیکھ رہی ہوں۔ بظاہر وہ غلط بھی نہیں تھی۔ میں سوچ رہا ہوں۔ کوئ بھی ماسٹر صاحب
کے اس کام کو کام نہیں مانے گا حالانکہ سوچنے سے بڑھ کر کوئ اور کام نہیں ہو سکتا۔ میں پچھلے کئ دن سے علیل پڑا ہوں اور تکلیف میں ہر اگلے دن اضافہ ہی ہوا۔ بیگم دن میں دو سے زیادہ مرتبہ چیک اپ کرانے اور دوا لانے کے لیے کہتی ہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ میں سوچ رہا ہوں تو اسے بڑا تاؤ آتا ہے اور کہتی ہے تم ساری عمر نکمے اور تساہل پسند رہے ہو۔ ہر روز ٹی وی دیکھتی ہے اور یہ کام اس کی شروع سے پہلی اور لازمی ترجیع رہا ہے۔ اس کے باوجود چیک اپ کرانے اور دوا لانے کے لیے فرمان جاری کرتی ہے۔ لگتا ہے وہ خبریں نہیں سنتی۔ اگر اسے خبریں سننے کا اتفاق ہوا ہو تو چیک اپ کرانے اور دوا لانے کا کبھی بھی نہ کہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اس کے دماغ میں یہ سچائ چل رہی ہو کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا مویا سوا لاکھ کا۔ ہو سکتا ہے دوا کھانے کے فورا بعد چل بسوں ۔اس طرح وہ ٹکے جو میں گرہ خود میں رکھتا ہوں اس کے اپنے ہوں گے بلکہ بیوہ الاؤنس بھی اس کی جیب میں ہو گا۔ میرے حقوق پورا کرنے کے حوالہ احسان جتانے کی صعوبت سے مکت ہو جاءے گی۔

 
یہ معلوم ہو گیا ہے کہ آدم خور ادویات کونسی کمپنی تیار کر رہی ہے۔ اس کا مالک ریکارڈ میں ہو گا۔ ادویات اوکے کرنے والے سلیمانی دیس سے نہیں آءے ہوں گے۔ ادویات تیار کرنے کا جس دفتر سے پروانہ جاری ہوا ہو گا کوئ انڈر گراؤنڈ کا نہیں ہو گا۔ تمام کچھ معلوم ہونے کے باوجود بقول ڈیپٹی ڈایکٹر ایف آئ اے فلاں فلاں فلاں عمل سے گزرنے کے بعد ایف آئ آر درج ہو گی۔ چاہے اس وقت تک ذمہ داران فرار ہو جاءیں۔ اتنا کچھ سامنے آ جانے اور اتنے وساءل رکھنے کے باوجود سوچنے کو پہلا سوال لازمی کا درجہ دیا جا رہا ہے تو ماسٹر صاحب اور میرے سوچنے کو احمقانہ فعل کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ شاءد یہاں بھی ماڑے اور تگڑے کا رولا ہے۔
 
ماڑے اور تگڑے کا حوالہ گفتگو میں آ گیا ہے تو اس پر مجھے ایک حکایت یاد آ گئ۔ ایک تگڑے کے ہاں ایک ماڑا ملازمت کے لیے چلا گیا۔ انٹرویو میں کامیابی کے بعد اسےایک لاکھ روپیہ ماہانہ پر ملازم رکھ لیا گیا۔ ملازم مضبوط اعصاب کا مالک تھا‘ دل کے دورے سے بچ گیا۔ اس نے مالک سے پوچھا مجھے کام کیا کرنا ہو گا؟ مالک نے مالکانہ انداز میں کہا کام ایسا مشکل نہیں بس تمہیں اتنا سوچنا ہے کہ تمہاری تنخواہ کا اک لاکھ اور تمہیں ملازمت رکھنے کے حوالہ سے مجھے دو لاکھ روپیہ کیسے حاصل ہو سکے گا۔ اب ڈیوٹی پر جاؤ‘ وقت برباد نہ کرو۔ ہمارے ہاں کے طاقتور لوگ وقت کی بڑی قدر کرتے ہیں اور سوچنے کو کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں۔ لوگ کبھی بجلی کبھی گیس کبھی معالجہ کبھی پیٹرول اور پتا نہیں کیا کچھ سوچتے سوچتے ملک عدم کی راہ لیے ہیں۔ اگر سوچ ان کی موت کا سبب نہیں بنتی تو بیماری آ پکڑتی ہے۔ معالجہ نہ میسر آنے کے باوجود نہیں مرتے تو ان کے شدت پسند ہونے میں کوئ گنجاءش نہیں رہ جاتی۔ اتنا سخت جان کوئ شدت پسند ہی سکتا ہے۔ ایسا شہری بھلا کس کام کا جو اپنا ایک لاکھ اور سرکار کے دو یا اس سے زیادہ حاصل کرنے کی سوچ سوچنے میں ناکام رہتا ہے۔
 
کسی بڑے کے حوالہ سے کاروائ کے معاملہ میں بنیادی حقوق اور عوامی مفاد یک جا نہ ہوں تو کاروائ ممکن ہی نہیں ہوتی۔ نہ بابا مرے اور نہ بیع کی بانٹ ہو۔ بنیادی حقوق کا مجروع ہونا شخصی معاملہ ہے۔ اس سےعوامی مفاد وابستہ نہیں ہوتا اورناہی ہو سکتا ہے۔ یہ معاملہ کس مجمع کے حوالہ سے تو درست ہو سکتا ہے لیکن کسی باقاءدہ سماج کے حوالہ سے درست قرار نہیں پا سکتا۔ باقاءدہ سماج میں ایک شخص کا مفاد پورے سماج سے پیوست ہوتا ہے۔ آج صرف ایک معاملہ ایسا رہ گیا ہے جو بنیادی حقوق اور عوامی مفاد سے کوئ تعلق نہیں رکھتا۔ وہ معاملہ دھنوانوں سے ٹیکس کی وصولی یا ان کی طرف سے رضاکارانہ اداءگی ہے۔
 
ٹیکس کی آمدنی کمی کمین عوام کی بھلائ اور بہتری پر صرف نہیں ہوتی ۔ یہ آمدنی کمی کمین عوام کو پھڑکانے‘ اداروں اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے دفترشاہی پر استعمال ہوتی ہے۔ ہاںاتنا ضرور ہے کہ بڑے لوگ اصلی شہریت رکھتے ہیں اور اصل عوام کے درجہ پر فاءز ہوتے ہیں اس حوالہ سے کہا جا سکتا ہے کہ ٹیکسوں کی عدم اداءگی سے بنیادی حقوق اور مفاد عامہ کو نقصان پہنچتا ہے لہذا ان پر قانون اور قانون والوں کی گرفت لازمی ہے۔
 
سوچ ہی کا کمال ہے کہ قانون یک چشما بنایا گیا۔ بڑوں کا کیا چاہے وہ کی بھی سطع کا کیا ہو قانون کے ہاتھوں کی پہنچ سے باہر رہتا ہے۔ قانون ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور انھیں اصلی عوام تسلیم کرتا ہے۔ ان کے علاوہ بنیادی حقوق اور مفاد عامہ ایک جھنڈے تلے جمع نہیں ہوتے بلکہ اس بھیڑ کے پاس جھنڈے کا تصور رہتا ہے۔ جھنڈا اور ڈنڈا سرکار کی ملکیت ہوتا ہے۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو سرکار میں وڈیروں کے کا مے گولے اور گماشتے بھی شامل ہوتے ہیں اور یہ بڑے کام کی چیز ہوتے ہیں کیونکہ آڑے وقتوں میں وڈیروں کا کیا ان کے سر پر رکھ کر اصل ریاستی عوام کے حقوق کی رکشا کرنے کا کام سر انجام پاتا رہتا ہے۔ اگر سوچ کا عمل کمزور پڑتا تو کمی کمین عوام بھی بےسری بھیڑ نہ ہوتے بلکہ عوام ہوتے۔ بنیادی حقوق اور عوامی مفاد کو تقسیم کرو اور حکومت کرو کی صلیب پر مصلوب نہ ہوتے۔ 
 میں سوچ کے حق میں کتنے ہی دلاءل کیوں نہ پیش کر دوں میری گھر والی نہیں مانے گی اور اس کا اصرار ہی رہے گا کہ میں چیک اپ کرا کر دوا ضرور کھاؤں۔ میں چیک اپ کے لءے تیار ہوا ہوں لیکن وہ اسے آدھا سچ مانتی ہے۔ سچ تبھی مکمل ہو گا جب میں دوا کھا کر الله کو پیارا ہو جاؤں گا۔ جب بنیادی حقوق اور مفاد عامہ دو الگ الگ چیزیں ہیں تو چیک اپ اور دوا کو دو الگ چیزیں کیوں نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیا کروں گھر کی عدالت اسے مانے کو تیار ہی نہیں۔ میں اپنی گھر والی کو قاءل نہیں کر سکتا کہ ریاستی قانون مانتا ہے کہ بنیادی حقوق اور مفاد عامہ دو الگ الگ چیزیں ہیں‘ باہر کون میری سنے گا۔ شاءد وہ قانون کو موم کی ناک سمجھتی ہے۔ اتنے لوگ مرے ہیں کس نے پوچھا ہے؟!
میری موت کو کون سنجیدہ لے گا؟!
میری گھروالی کا بنیادی حق ہے کہ وہ مجھے جینے دے یا موت کے حوالے کر دے۔ اگر مجھے سوچنے کا حق ہے تو یہ حق اس کو بھی حاصل ہے۔ الله جانے وہ دن کب آءے گا جب شخصی حق سماجی حق قرار پاءے۔
 

No comments:

Post a Comment

Popular Pakistani Celebrities Who Dated In The Past

  Popular Pakistani Celebrities Who Dated In The Past Hamza Ali Abbasi and Saba Qamar Saba Qamar’s “I love you” post on Hamza Ali Abbasi’s p...