Monday, May 8, 2023

Biggest release of this year Super Punjabi is releasing Worldwide on 12th May 2023.


فلم سپر پنجابی پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریلیز کیلئے تیار   


Biggest release of this year Super Punjabi is releasing Worldwide on 12th May 2023.

The film will be released on 860+ Screens Worldwide in more than 17 countries. Written & Directed By: Abu Aleeha Produced By: Iftikhar Thakur & Safdar Malik.

مقامی انگریزی اخبار کے مطابق فلم کے پروڈیوسر افتخار ٹھاکر نے بتایا ہے کہ فلم کا دنیا بھر کے 860 اسکرینز پر پرمیئر کیا جائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ فلم باکس آفس پر دھوم مچا دےے گی۔

فلم کی کاسٹ میں محسن عباس، صائمہ بلوچ، ثنا، سلیم البیلا، قیصر پیا اور افتخار ٹھاکر شامل ہیں، فلم کے ہدایت کار ابو علیحہ اور پروڈیوسر افتخار ٹھاکر ہیں۔

فلم کے ٹریلر اور گانوں کی لانچنگ تقریب مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں فنکار برادری نے فلم کو سراہا اور فلمسازوں کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

نامور ہدایت کار شہزاد رفیق نے اس موقع پرکہا کہ یہ ایک تفریحی فلم ہے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ فلم باکس آفس پر دھوم مچائے گی۔

عرفان خان کی آخری فلم مرحوم کی تیسری برسی پر ریلیز کرنیکا اعلان

ڈان اخبار کے مطابق فلم کے رائٹر ناصر ادیب نے آنے والی فلم کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا، کامیڈٰن آصف اقبال نے کہا کہ امید ہے کہ افتخار ٹھاکر مستقبل میں بھی مزید فلمیں بنائیں گے۔

بچے تو بچے ہوتے ہیں - دوستانہ ماحول ہی مناسب ہے

 


بچے تو بچے ہوتے ہیں انہیں جیسا ماحول ملتا ہے، اس میں ان کی شخصیت ڈھل جاتی ہے۔ بچوں کی کردار سازی اور ان کی نفسیات کے حوالے سے ماحول بہت گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ جس طرح تعلیم و تربیت انسانی روح کی بہت اہم غذائیں ہیں، اسی طرح ماحول بھی انسان کی نشوونما میں اہمیت کا حامل ہے۔

بچوں کی کردار سازی میں والدین کی تربیت اور انہیں مہیا کیا جانے والا ماحول سب سے زیادہ اہم کردار کرتا ہے۔ صاحب اولاد ہونے کی خواہش تو ہر والدین کرتے ہیں، لیکن بچوں کی کردار سازی کے سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔

والدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تربیت انسان سازی کا ہنر اور انسان کی پہچان ہی اس کی تربیت سے جھلکتی ہے۔ تربیت کا اصل مقصد انسان کی اچھائیوں کو ابھارنا اور اجاگر کرنا ہے۔ انسان کی تربیت میں ماحول کے کردار کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو بچوں کی کردار سازی کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیات پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔


بچوں کی نفسیات سے مراد بچوں کی فطرتیں ہیں، جو ان میں پیدائشی طور پر پائی جاتی ہیں، یہ فطرتیں قدرت کی عکاس ہوتی ہیں جنھیں تبدیل کرنے کے بہ جائے صحیح سمت دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور بچوں کی صحیح سمت میں تربیت کے لیے ان کی نفسیات کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے اولین شرط والدین کا اپنے بچوں سے قربت ہے اور اس قربت میں دوستانہ رویہ اور بے پناہ لگاؤ بھی ہو تو بچوں کی نفسیات کو سمجھنے میں والدین اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کر سکتے ہیں۔ والدین کا دوستانہ رویہ اور شفقت کا برتاؤ بچوں کی کردار سازی اور ان کی نفسیات پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کا ذہن کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے، بچہ جس جیسا ماحول پرورش پاتا ہے وہ اسی ماحول کا اثر قبول کرتا ہے۔ والدین جیسا ماحول بچے کو مہیا کرتے ہیں، وہ اسی ماحول کے مثبت منفی اثرات اپنے اندر پیدا کرتا ہے، جو اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

بچے اپنے ماحول میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو جو کرتا دیکھتے ہیں وہ بھی وہی طور طریقے اپنالیتے ہیں اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی شخصیت پر ماحول کا کتنا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ والدین کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ یہ ضرور دیکھیں کہ ان کے بچے کن لوگوں کے ساتھ میل جول رکھے ہوئے ہیں۔

بچوں کی کردار سازی میں جہاں ماحول اثر انداز ہوتا ہے وہیں والدین کا رویہ بھی اپنا گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ بچوں کی ابتدائی عمر ہر لحاظ سے خوب پھلنے پھولنے کی ہوتی ہے اس عمر میں بچوں کی نقل و حرکت پہ کڑی نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ دوستانہ رویہ بھی ضروری ہے۔ ایک سنہری کہاوت ہے کہ گھر میں بچوں کے اچھے دوست بن جائیں، تو بچے باہر کی بری دوستی سے بچ جاتے ہیں۔

سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کو گھر میں اچھا دوستانہ ماحول مہیا کریں، تاکہ آپ کے بچے بری صحبت اور ہر برائی سے دور رہیں۔ صرف وقت کی کمی اور بچوں سے دوستانہ تعلق کا نہ ہونا ہی وہ واحد مسئلہ ہے کہ بچے والدین سے اپنی بات کہتے ہوئے جھجھک اور ڈر محسوس کرتے ہیں اور اگر وہ اپنا مسئلہ والدین کو بتائیں تو اکثر والدین توجہ ہی نہیں دیتے۔ یوں بچے اپنے والدین سے دوری محسوس کرتے ہیں اور مسائل کا شکار رہتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ بچوں کو مکمل آزادی کسی صورت نہیں دینی چاہیے۔ والدین کا رعب بھی قائم رہنا چاہیے، مگر صرف اتنا جتنا ضروری ہے بلاوجہ کا رعب اور غصہ بچوں کو والدین سے دور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ والدین ہی بچوں کے سب سے اچھے اور گہرے دوست ہوتے ہیں۔ والد کا دوستانہ رویہ بیٹے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ بیٹا اپنی ہر بات اور اپنا ہر مسئلہ اپنے والد سے کر سکتا ہے۔

یوں اسے اپنا مسئلہ حل کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ والد اس کا مسئلہ جان کر اپنے بیٹے کو مناسب مشورہ دے کر اس کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں بلکہ باپ کو اپنی بیٹی کے ساتھ بھی اتنا دوستانہ رویہ اپنانا چاہیے کہ وہ بھی اپنے مسائل اپنے باپ سے کہہ سکے یعنی باپ کو اپنے بچوں کا دوست ہونا چاہیے۔

اسی طرح ایک ماں کو اپنی بیٹی کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بیٹیاں اپنے مسائل صرف اپنی ماں سے بہ آسانی کہہ سکے اس میں اسے کسی قسم کی کوئی جھجک نہ ہو۔ بچیاں جب بڑی ہونے لگتی ہیں، تو انھیں سب سے زیادہ اپنی ماں کی قربت اور دوستی کی ضرورت ہوتی ہے۔

ماں اور باپ دونوں کو بچوں کا دوست اور ہم درد ہونا چاہیے، تاکہ بچے بلاخوف ہر بات بتا سکیں۔ والدین چاہیے جتنا بھی دن بھر مصروف ہوں رات کو لازمی طور پر بچوں کو کچھ وقت دیں۔ ان سے دن بھر کی تمام مصروفیات کے بارے میں معلوم کریں۔ ان سے تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اس طرح بچوں کو والدین کی قربت کا احساس ہوگا اور وہ یہ جان سکیں گے کہ ان کے والدین ان کی کس قدر پروا کرتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔

گھر کا دوستانہ ماحول مہیا کرنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ یہ بات ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کس قسم کا ماحول اور کس قسم کی تعلیم اپنے بچوں کو دیتے ہیں۔ ابتدائی عمر سے لے کر انھیں شعور آجانے تک یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بچوں کو ایک اچھا ماحول دیں اور ان کی اچھی تربیت کریں، سب سے بڑھ کر والدین کی محبت بچوں کے لیے بچوں کی تعلیم و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

والدین اگر اپنے بچوں کے ساتھ جس شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آئیں گے، تبھی بچے بھی اسی طرح کی شفقت اور محبت اپنے اندر پیدا کر پائیں گے۔ وہ بچے انتہائی خوش قسمت ہوتے ہیں کہ جن کو گھر کا ماحول اچھا اور والدین کی محبت و شفقت سے بھرپور ملتا ہے اور یہ بچوں کی کردار سازی اور کام یاب زندگی کا اہم ضامن ہے۔

بچوں کو ایک اچھا انسان بنانے میں گھر کا ماحول سب سے اہم ترین عنصر ہے، جو بچے کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے ایک بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی اپنے والدین پر انحصار کرتا جو اس کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔

والدین ہی بچوں کے پہلے معلم ہوتے ہیں اور ان کے لیے رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ والدین ہی تو ہوتے ہیں جو بچوں کی ضروریات کا خیال رکھتے اور ان کو ہر اچھی بری بات بتاتے ہیں تاکہ بچے بڑے ہوکر معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو سکیں۔ بچوں کی کردار سازی میں بھی والدین ہی اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں اور انھیں ایک اعلیٰ ساز گار ماحول بھی والدین ہی مہیا کرتے ہیں جو ان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

والدین اگر یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کتنے کام یاب ہیں اور انھوں نے اپنے بچوں کی تربیت میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے تو اس کا اندازہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی کردار سازی کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں اگر بچے اخلاقی طور پر اچھے اور اچھے کردار کے حامل ہیں، تو یہ والدین کی اعلیٰ کام یابی ہے۔

ورنہ دوسری صورت میں ناکامی ان کا مقدر ہے، لہٰذا دوستانہ ماحول فراہم کرنا والدین کی اہم ترین ذمہ داری ہے، تاکہ بچے ایک اچھے ماحول میں پرورش پاسکیں اور بڑے ہو کر بااعتماد فرد بن کر خاندان اور معاشرے کے کام آسکیں۔


ویران اوردورترین جزیرے پر پرندے گننے کا معاوضہ ایک کروڑ روپے

 


دنیا کے بعید ترین اور ویران جزیرے پر پرندہ شماری کرنے والے کو 45000 کینیڈیائی ڈالر کی رقم دی جائے گی۔ فوٹو: فائل


  لندن: محکمہ جنگلات برطانیہ کو ایک ایسے رضاکار کی تلاش ہے جو دنیا کے بعید ترین اور آبادی سے بالکل پاک جزیرے پر کچھ وقت گزارسکے اور اس کے بدلے 45000 کینیڈا ڈالر کی رقم دی جائے گی جو پاکستانی روپوں میں 95 کروڑ روپے سے کچھ زائد بنتی ہے۔

برطانیہ کی رائل سوسائٹی برائے طیران (آرایس پی بی) ایک ایسے سائنس گریجویٹ کی تلاش میں ہے جو دوردراز اور ویران جزیرے ’گاف آئی لینڈ‘ میں جاکر پرندوں کو دیکھ سکے اور انہیں شمار کرسکے۔  دوسری شرط یہ ہے کہ پرندوں کو شمار کرنے والے تجربہ کار شخص کو ترجیح دی جائے گی۔


گاف آئی لینڈ اس وقت بھی برطانیہ کے زیرِ انتظام ہے جو جنوبی ایٹلانٹک میں واقع ہے اور افریقہ سے بھی 2400 کلومیٹر دور ہے۔ اس جزیرے پر کسی قسم کی کوئی باقاعدہ آبادی نہیں البتہ صرف سات افراد موجود ہیں جو اپنے اپنے لحاظ سے تحقیق کررہے ہیں۔ لیکن یہاں لگ بھگ 80 لاکھ سے زائد پرندے موجود ہیں۔

تاہم یہاں موسمیاتی شدت اور ناکافی سہولیات کی وجہ سے بہت طویل عرصے تک رکنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہر کو جزیرے پر خیمہ زن ہونے کے لیے خطیر رقم دی جارہی ہے۔

مسجد نبوی کے پاکستانی نژاد امام شیخ محمد بن خلیل انتقال کرگئے

 


امام مسجد نبوی شیخ محمد بن خلیل القاری کا تعلق مظفر آباد آزاد کشمیر سے تھا؛ فوٹو: فائل


مدینہ منورہ: مسجد نبوی میں تراویح پڑھانے والے امام شیخ محمد بن خلیل القاری اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے ان کی نماز جنازہ مسجد نبوی میں ادا کی جائے گی۔ 

عرب میڈیا کے مطابق شیخ محمد بن خلیل القاری  مسجد قبا مدینہ منورہ کے امام تھے اور مسجد نبوی میں تراویح کی امامت کی سعادت بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔ وہ آج مدینہ منورہ میں انتقال کرگئے۔


شیخ محمد بن خلیل القاری کا تعلق مظفر آباد آزاد کشمیر سے تھا۔ ان کی نماز جنازہ مسجد نبوی میں ادا کی جائے گی اور تدفن بھی مدینے میں ہی ہوگی۔ سعودی حکام نے قاری محمد بن خلیل کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مغفرت کی دعا کی ہے۔

شیخ محمد بن خلیل القاری کے والد شیخ خلیل القاری بھی سعودی عرب کے معروف قاریوں میں سے ایک تھے اور ان کے کئی شاگرد سعودی عرب کی مقدس مساجد میں امام کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔



آسٹریلوی شہری نے ایک گھنٹے میں سب سے زیادہ پُش اَپس کا عالمی ریکارڈ بنا دیا #fabulouspakistan

 


فوٹو: گنیز ورلڈ ریکارڈ

آسٹریلوی شہری نے ایک گھنٹے میں سب سے زیادہ پُش اَپس کا عالمی ریکارڈ بنا دیا۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ لوکاس ہیمکے نے ایک گھنٹے میں 3 ہزار 206 پُش اَپس لگا کر گنیز ورلڈ ریکارڈز کی کتاب میں اپنا نام درج کروا لیا۔

انہوں نے گزشتہ سال نومبر میں یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا تاہم اب انہیں گنیز ورلڈ ریکارڈز کی جانب سے باضابطہ طور پرایک گھنٹے میں سب سے زیادہ پُش اَپس لگانے کے اعزاز سے نوازا گیاہے۔ 

آسٹریلوی شہری نے ایک منٹ میں اوسطً 53 پُش اَپس لگائے، اس سے قبل ایک گھنٹے میں سب سے زیادہ پُش اَپس کا ریکارڈ بھی ایک آسٹریلوی شہری کے پاس تھا۔

  2022 میں ڈینیئل اسکالی نے ایک گھنٹے میں 3 ہزار 182پُش اَپس لگا کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا۔