Thursday, May 4, 2023

کوئٹہ: 80 سالہ بزرگ نے تن تنہا پہاڑ کاٹ کر واکنگ ٹریک بنا دیا

 

کوئٹہ: 80 سالہ بزرگ نے تن تنہا پہاڑ کاٹ کر واکنگ ٹریک بنا دیا



کوئٹہ میں ایک بزرگ شہری نے تین سال کی محنت سے کوہِ مردار پر کئی کلومیٹر کا ایک طویل واکنگ ٹریک بنایا ہے۔ یاور علی اس بڑھاپے میں آرام کرنے کی بجائے روزانہ کئی گھنٹے راستہ بنانے اور صفائی پر کیوں لگاتے ہیں؟ جانیے زین الدین احمد کی اس ویڈیو رپورٹ میں

4 مئی یوم شہادت - بہادری و جرات کا استعارہ۔ ٹیپوسلطان ❤❤


 4 مئی یوم شہادت

بہادری و جرات کا استعارہ۔ ٹیپوسلطان ❤
ٹیپوسلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ ٹیپو سلطان کی پیدائش کے دن کے حوالے سے کئی تاریخیں بیان کی جاتی ہیں۔ لیکن زیادہ ترجیح 19ذوالحجہ گیارہ سو باسٹھ بمطابق بیس نومبر سترہ سو پچاس کو دی جاتی ہے۔ ان کے والد حیدرعلی نے میسور ‘ حیدرآباد (دکن) کے علاوہ دوردراز علاقوں کے استاد اور جید علماء سے انہیں تعلیم دلوائی۔ اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ عربی‘ فارسی‘ انگریزی‘ فرانسیسی تامل اور اردو پر عبور حاصل تھا۔ 19جون 1767 کو انگریزوں کے خلاف جو پہلی جنگ لڑی تو ٹیپو سلطان کی بہادری دیکھتے ہوئے نظام دکن نے فتح علی کو خان بہادر کا خطاب دیا۔ برصغیر کے حالات ایسے تھے کہ ٹیپو سلطان کی تمام عمر جنگوں ہی میں گزری۔ اپنے والد سے ورثے میں وہ تمام اوصاف پائے جو ایک جرنیل‘ سیاستدان اور بہترین ناظم کے لئے ضروری تھے۔
1775سے 1779 تک والد کے ہمراہ اینگلو‘ مرہٹہ جنگوں میں حصہ لیتے رہے۔ کئی مرتبہ انگریزوں کی چالیں ناکام بنا دیں۔ ٹیپوسلطان اپنے والد حیدرعلی کی وفات کے بعد میسور کے حکمران بنے۔انگریز اور مرہٹے ٹیپوسلطان کی مہارت‘ سیاست اور بہادری سے خوف کھاتے تھے۔ ٹیپو سلطان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کو دیکھتے ہوئے فرانس‘ ترکی اور افغانستان سے دفاعی معاہدے کئے۔ 1790 میں لڑی جانے والی جنگ میں برطانوی فوج نے ٹیپو سلطان کی فوجی دفاعی قوت سے خائف ہو کر والیء حیدرآباد دکن نظام دکن اور مرہٹوں کو اپنے ساتھ ملا کر جنگ لڑی۔ اس جنگ میں جنرل میڈیکوز کو شکست ہوئی تو گورنر جنرل کارنوالس نے دوسرا محاذ سرنگاپٹم میں کھول دیا۔
مجبوراً سلطان کو دارالخلافہ بچانے کے لئے صلح کا معاہدہ کرنا پڑا۔ جس میں تین کروڑ بطور تاوان جنگ اور اپنی آدھی ریاست انگریزوں کے حوالے کرنی پڑی۔ صلح کے بعد تباہ شدہ فوجی سازوسامان کی دوبارہ مرمت کروائی اور فوج کو ازسرنو ترتیب دیا اور اپنے ایجاد کردہ ہتھیاروں سے فوج کو منظم کیا تو انگریزوں نے اسے صلح کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے میسور کی چوتھی جنگ کا آغاز کر دیا جو 1798میں لڑی گئی اور بعض روایات کے مطابق یہ جنگ 1799میں لارڈ ولزلی کے حکم پر لڑی گئی۔ اس جنگ میں بھی انگریزوں نے لالچ دے کر نظام دکن اور مرہٹوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اتحادی افواج نے قلعے کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ 4مئی 1799بمطابق 29ذوالحجہ 1213کو جب شیر میسور دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا تو اسے اطلاع ملی کہ اس کے اعلیٰ افسران میر صادق علی اور میر غلام علی نے غداری کی ہے۔ تاریخ میں عموماً غلام علی کا نام نہیں آتا۔ میر صادق کا نام زیادہ مشہور ہے۔
وجہ یہ کہ وہ ٹیپو سلطان کا قریبی رشتے دار تھا۔ سلطان نے کھانا چھوڑ دیا‘ تلوار ہاتھ میں اٹھائی اور کہا۔ ہم بھی آ رہے ہیں۔ کسی نے جنگ سے فرار اختیار کرنے اور شکست تسلیم کرنے کو کہا۔ حالات ایسے تھے کہ ٹیپو سلطان کو
علم ہو چکا تھا کہ قلعے میں اتحادی افواج آ چکی ہیں۔ اب فتح کا کوئی امکان نہیں رہا۔ تبھی انہوں نے وہ جملہ کہا جو تاریخ میں رقم ہو گیا اور اردو زبان کا ایک محاروہ بن گیا۔ جب بھی بہادری کی مثال دی جاتی ہے تو وہی جملہ دہرایا جاتا ہے۔ یعنی ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔‘‘ٹیپوسلطان نے قیدی بننے کی بجائے آزادی سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے کو ترجیح دی۔ 4مئی 1799 کا وہ دن ہے کہ اس کے بعد تمام ہندوستان پر قبضہ کرنے میں انگریزوں کو کوئی دشواری نہ ہوئی کہ ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ٹیپوسلطان جام شہادت نوش کر چکا تھا۔ جب لارڈ ولزلی نے ٹیپو سلطان کی شہادت کی خبر سنی تو بے اختیار پکار اٹھا۔
’’اب ہندوستان ھمارا ھے۔‘‘


Tipu Sultan (Sultan Fateh Ali Sahab Tipu; 1 December 1751 – 4 May 1799), commonly referred to as the Tiger of Mysore,[3] was the Indian Muslim ruler of the Kingdom of Mysore based in South India. He was a pioneer of rocket artillery. He introduced a number of administrative innovations during his rule, including a new coinage system and calendar,[8] and a new land revenue system, which initiated the growth of the Mysore silk industry.[9] He expanded the iron-cased Mysorean rockets and commissioned the military manual Fathul Mujahidin. He deployed the rockets against advances of British forces and their allies during the Anglo-Mysore Wars, including the Battle of Pollilur and Siege of Srirangapatna.



منقول

شنگریلا زمین پر جنت کا ٹکڑا اور اس ٹکڑے پر میرا رپورٹ #shangrilaresort #HUMNewsPakistan #abidshigri #ShangrilaPakistan #HumNews #Shigar #GB #tourism #shangrilahotel #viralreels #SkarduValley


Skardu is a city located in Gilgit−Baltistan, Pakistan. Skardu serves as the capital of Skardu District and the Baltistan Division. It is situated at an elevation of nearly 2,500 metres (8,202 feet) in the Skardu Valley, at the confluence of the Indus and Shigar Rivers. The city is an important gateway to the eight-thousanders of the nearby Karakoram mountain range. The Indus River running through the region separates the Karakoram from the Ladakh Range.




شنگریلا زمین پر جنت کا ٹکڑا اور اس ٹکڑے پر میرا رپورٹ



https://fb.watch/kji-4hDrbO/

کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی دو قبریں ہیں؟

 کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی دو قبریں ہیں؟

یہ بات تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ مفکرِ پاکستان، شاعرِ مشرق، علامہ محمد اقبال (رح) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور اُن کی آخری آرام گاہ لاہور میں ہے۔ اُن کا مزار بادشاہی مسجد اور قلعہ لاہور کے درمیان حضوری باغ میں واقع ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ نے وہاں حاضری بھی دی ہو۔ لیکن کیا آپ کو یہ بھی پتا ہے کہ علامہ صاحب کی ایک قبر ترکی میں بھی واقع ہے؟
اگر نہیں پتا تو پھر سنیے! حضرت علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ کا جسد تو لاہور ہی میں دفن ہے، لیکن ترکی کے شہر قونیہ میں بھی اُن کی ایک علامتی قبر موجود ہے۔ حضرت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے نواح میں ایک علامتی قبر پر علامہ صاحب کی تختی لگی ہے.
قونیہ آج بھی ترکی کا سب سے زیادہ مذہبی شہر ہے بلکہ اسے ملک میں "اسلام کا قلعہ” کہا جاتا ہے۔
حضرت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ 13 ویں صدی کے ایک عظیم صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ آپ کا پورا نام جلال الدین محمد رومی تھا۔ آپ موجودہ افغانستان کے علاقے بلخ میں پیدا ہوئے لیکن منگولوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کی وجہ سے اُن کے والد نے مغرب کی طرف ہجرت کی جہاں مولانا نے بالآخر قونیہ شہر کو اپنا ٹھکانا بنایا۔ آج اسی شہر میں مولانا رومی کا مزار مرکزِ نگاہ ہے۔ مولانا کا شعری مجموعہ "مثنوی" اِس وقت مقدس آسمانی کتابوں کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر سے لوگ ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں، نواح میں اُن کے شاگردوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ انہی قبروں میں سے ایک کے کتبے پر علامہ صاحب کا نام بھی لکھا ہے۔
تختی پر لکھا ہے، "یہ مقام پاکستان کے قومی شاعر اور دانشور محمد اقبال کو دیا گیا ہے۔"
یہ علامتی قبر دراصل ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا جلال الدین رومی کے رُوحانی تعلق کو بیان کرتی ہے۔ یہ تعلق کتنا گہرا تھا؟ اس کا اندازہ اقبال کی شاعری میں بار بار ہوتا ہے۔
"بالِ جبریل" کی نظم ہے 'پیر و مُرید' جس میں مولانا کو "پیرِ رومی" کہا گیا ہے اور اقبال نے خود کو "مریدِ ہندی" قرار دیا ہے۔
شاید یہ علم ہی ہے جو زمان و مکان کی پابندیاں توڑ دیتا ہے، ورنہ کہاں تیرہویں صدی کے اوائل میں پیدا ہونے والے رومی اور کہاں 19 ویں صدی کے آخر میں پیدا ہونے والے اقبال، دونوں میں 670 سال کا فاصلہ تھا لیکن علم کی دنیا میں یہ صدیوں کا فاصلہ بھی کوئی معنی نہیں رکھتا اور ان حدود کو یہاں تک توڑ دیتا ہے کہ آج ہمیں اقبال رومی کے مزار کے سائے تلے بھی نظر آتے ہیں۔
مصر کی ایک مشہور علمی شخصیت تھے عبدالوہاب عزام، انہوں نے ایک بار کہا تھا "اگر جلال الدین رومی اِس زمانے میں جی اٹھیں تو وہ محمد اقبال ہی ہوں گے۔ ساتویں صدی کے جلال اور چودھویں صدی کے اقبال کو ایک ہی سمجھنا چاہیے۔"
"بالِ جبریل" کی ایک نظم میں علامہ اقبال مولانا رومی کے حوالے سے کہتے ہیں:
ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار
اک بحرِ پر آشوب و پر اسرار ہے رومی
تُو بھی ہے اسی قافلۂ شوق میں اقبال
جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رومی
اس عصر کو بھی اس نے دیا ہے کوئی پیغام؟
کہتے ہیں چراغِ رہِ احرار ہے رومی
پاکستان سے بہت سارے سیاح اور عقیدت مند ترکی کے شہر قونیہ جاتے ہیں اور مولانا رومی کے مزار کے بعد علامہ اقبال کی اس علامتی قبر پر بھی حاضری دیتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے ان مقبولان کے درجات مزید بلند فرمائے اور ہمیں ان کی تعلیمات سے استفادہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


Wednesday, May 3, 2023

Qudsia Ali Simplest Actress on Vacations with Beautiful Western Dressing Style #fabulouspakistan

 Qudsia Ali Simplest Actress on Vacations with Beautiful Western Dressing Style


A well-known Pakistani actress named Qudsia Ali has won many fans over with her distinct personality and performing prowess. The actress has been documenting her vacation on social media while she is currently away. Her images and films show a carefree way of living that is both motivating and refreshing.












Actress Qudsia Ali is not like other actresses. She is renowned for living life outside the box and defying accepted social mores in Pakistan. She is a cultural icon in the entertainment industry and beyond due to her fearless and courageous nature.