Monday, November 2, 2015

مستقل مزاجی کامیابی کی کنجی

کسی بھی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کوئی شخص اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ضروری سمجھتا ہے۔ زندگی میں کامیابی کی قیمت ہمیشہ جہد مسلسل و مستقل مزاجی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر کسی انسان کو سفر کر کے ہزاروں میل دور منزل تک پہنچنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل قدم اٹھاتا جائے، اگر وہ قدم نہیں اٹھاتا یا راستے میں تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے تو کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ چین کے عظیم قائد ماﺅزے تنگ نے تاریخ ساز لانگ مارچ کا آغاز کرتے ہوئے ”انقلابیوں“ سے کہا تھا: ”ہزاروں میل کا فاصلہ ایک قدم آگے بڑھنے سے کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔“ بہت سے لوگ کسی کامیاب انسان کو دیکھ کر اس جیسا بننے کی بات کرتے ہیں، لیکن اس کی طرح جدوجہد نہیں کرتے۔ اس کے موجودہ مقام و مرتبہ پر رشک تو کرتے ہیں، لیکن اس مقام کے پیچھے طویل عرصے کی جدوجہد پر نظر نہیں ڈالتے۔ ہر کامیاب شخص ایک طویل محنت و جدوجہد کرنے کے بعد ہی اس مقام تک پہنچتا ہے، جو مقام ہمیں نظر آرہا ہوتا ہے، اس مقام تک پہنچنے کے لیے یقیناً ہمیں بھی اسی تسلسل کے ساتھ محنت کرنا ہوگی جس تسلسل کے ساتھ کسی بھی کامیاب شخص نے محنت کی۔

کسی بھی کام کو اس کے مطلوبہ نتائج تک پہنچانے کے لیے انسان میں صرف شوق اور ہمت کا ہونا ہی ضروری نہیں، بلکہ تسلسل کے ساتھ محنت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر کامیابی کا ملنا محال ہے۔ جو لوگ کسی کام کو تسلسل کے ساتھ کرتے رہتے ہیں، وہ اپنی کشتی کو ایک دن ضرور ساحل پر پہنچا کر رہتے ہیں اور جو ہمت ہار جائیں تو ان کی کشتی ہمیشہ بھنور میں پھنسی رہتی ہے۔ کسی صاحب خرد و دانش کا قول ہے: ”کسی کام کو کرنے سے پہلے سوبار سوچو کہ یہ کام ٹھیک ہے یا نہیں۔ جب تمہارا ذہن اس کام کے کرنے کا فیصلہ دے دے تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کرلو اور دم اس وقت لو جب اسے پورا کرچکو۔ اس بات سے نہ گھبراﺅ کہ راستے میں مشکلات آئیں گی۔ اپنی منزل کی طرف نگاہ کر کے آگے بڑھتے چلے جاﺅ۔ انشاءاللہ کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے گی۔“ بہت سے لوگ کسی کام کا آغاز کرتے وقت بہت جوش و خروش دکھاتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ یہ جوش و خروش مدہم ہوتا جاتا ہے اور پھر ایک دن وہ ہمت ہار جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے مقصد کو پانے کا دم تو بھرتے ہیں، لیکن راستے میں ہی ان کے ارادے دم توڑ جاتے ہیں اور وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ جب کہ بہت سے لوگ کھلی آنکھوں سے بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان کی تعبیر بھی پالیتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو محنت اور مستقل مزاجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں اور پھر جہد مسلسل اور مستقل مزاجی کامیابی کو ان کے قدموں میں لے آتی ہے۔

بہت سے لوگ ایک اچھا لکھاری بننے اور بڑے کالم نگاروں کی طرح مقبولیت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، لیکن دو چار تحریریں مسترد ہونے کے بعد ہی ہمت ہار جاتے ہیں اور لکھنا چھوڑ دیتے ہیں، حالانکہ لکھنا لکھنے سے آتا ہے اور تحریر میں نکھار مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک اچھا لکھاری بننے کے لیے مستقل مزاجی سے پڑھنا اور لکھنا ضروری ہے۔ بہت سے طالب علم تعلیم حاصل کرنا شروع کرتے ہیں، چند دن تک شوق سے پڑھتے ہیں، لیکن چند دن کے بعد ہی وہ اپنی تعلیم سے اکتا کر کسی اور وادی میں اترجاتے ہیں اور انجام کار امتحان میں ناکامی کا داغ لگ جاتا ہے۔ اس کے برعکس کتنے ہی طالب علموں کو اگرچہ تعلیم کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہوتا، لیکن چونکہ ان کی محنت میں تسلسل ہوتا ہے اور وہ پورا سال پڑھتے رہتے ہیں، اس لیے کامیابی بھی ان کے قدموں کی دھول بنتی ہے۔ کامیابی کا راز ہمت اور شوق کے ساتھ مسلسل محنت میں پوشیدہ ہے۔ پانی کا دھارا بھی اگر مسلسل پتھر پر گرتا رہے تو اس میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔ عظیم محدث حافظ خطیب بغدادی لکھتے ہیں: ”ایک آدمی کو علم حاصل کرنے کا شوق تھا، لیکن وہ اس میدان میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا، چنانچہ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب علم حاصل نہیں کرے گا۔ اس کا گزر ایک پہاڑ کے پاس سے ہوا، جس کی چوٹی سے پانی ایک چٹان پر مسلسل گررہا تھا اور اس تسلسل نے چٹان میں شگاف پیدا کردیا تھا، طالب علم نے چٹان پر گرتے پانی کو دیکھا اور بولا: ”پانی نے اپنی لطافت کے باوجود مسلسل بہہ کر چٹان کی کثافت میں یہ شگاف پیدا کردیا تو میں کیوں علم حاصل نہیں کرسکتا؟ سو اللہ کی قسم ! میں بھی ضرور علم حاصل کروں گا، پھر وہ علم کی دھن میں لگ گیا اور علم کو حاصل کر لیا۔“ مستقل مزاجی انسان کو منزل تک پہنچاتی ہے۔ جو لوگ مستقل مزاج نہیں ہوتے، وہ منزل نہیں پاسکتے۔ ان کے ارادے بدلتے رہتے ہیں۔ اگرچہ انسانی فطرت میں متبادلات کا عنصر ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے اور ہونا بھی چاہیے، لیکن بعض اوقات باربار متبادل راستے ڈھونڈنا منزل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ تکلیف یا مصیبت میں متبادل راستہ کام آسکتا ہے، لیکن جب منزل طے ہوجائے تو اس کے بعد بار بار متبادل کا سوچنا راہ نجات نہیں۔

یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ قدرت مستقل مزاج اور محنتی انسان پر ضرور مہربان ہوتی ہے۔ مستقل مزاجی وجہد مسلسل کی بدولت بہت سے لوگوں نے اپنے بلند و بالا خوابوں کو حقیقت کردکھایا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنے لوگ عظیم ،ہیر و اور لیڈر بنے ان کی کامیابی کاراز جدوجہد مسلسل اور مستقل مزاجی ہے۔ دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق اورکارنامے یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور محنت کے کرشمے ہیں۔ اگر انسان مسلسل محنت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے۔ مستقل محنت کے ذریعے ہی بڑے بڑے علمائے کرام، سائنسدان، سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد اور قلمکار و ادیب اس مقامِ خاص تک پہنچے، جہاں آج ہم انھیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ آج کا انسان زمین و آسمان، کوہسار و صحرا اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے اور یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔ تمام افراد جو کامیابی کے بلند و بالا زینے تک پہنچے، وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔

دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو ناممکن ہو۔ مستقل محنت اور جہد مسلسل سے ہر نا ممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مستقل محنت کے سامنے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ لغزش پیدا کرسکتے ہیں، نہ ہی دشت و صحرا آج تک اس کا راستہ روک سکے ہیں۔ جب انسان کسی کام کی تکمیل کا عزم مصمم کر لے تو اس کی راہ میں حسد رکاوٹ بنتا ہے، نہ دھوکا آڑے آتا ہے۔ سازش خلل ڈالتی ہے، نہ کوئی اور چیز مانع ہوتی ہے۔ بند راستے، پرخاروادی اور کھڑی رکاوٹیں اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کرسکتیں۔کامیابی حاصل کرنے کے لیے انسان کو ہمیشہ اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھنا چاہیے۔ اگر کسی موڑ پر اس کی محنت اور ہمت کا شیرازہ بکھربھی جائے، تب بھی ناامیدی کے اندھیر ے کو جہدِ مسلسل سے روشن کرتا رہے تو ترقی اور کامیابی اس کے قدم ضرور چومے گی۔

غیر مسلم کا اعتراض مسلمان کا جواب(لازمی پڑھیں)

کل ہی کی بات ہے ہمارے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ غیر مسلم افراد مسلمانوں کو ایک ظالم قوم سمجھتے ہیں اُن کے بقول مسلمان جانور کو جب زبح کرتے ہیں تو لٹا کر گردن پر چھری پھیرتے ہیں اور تڑپا تڑپا کر مارتے ہیں اور ہم لوگ ایسا نہیں کرتے ہم جانور کو مشین کے زریعے ایک ہی دفعہ میں سر الگ کر دیتے ہیں یا پھر جانور کے سر پر زور سے ہتھوڑا مارتے ہیں جانور وہیں مر جاتا ہے لیکن ہم تڑپا تڑپا کر نہیں مارتے۔سوال تو ہمارے قارئین نے سمجھ لیا ہو گا اب ذرا کھرا جواب بھی مسلمانوں کی طرٖ ف سے ملاحظہ فرمائیں:
۱) پہلی بات تو یہ جو طریقہ جانور کو زبح کرنے کا آپ کے پاس ہے شریعت محمدی ؐ میں اس کو جھٹکے کا گوشت کہتے ہیں جو کہ حرام ہے جانتے ہیں کیوں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ جانور کو جھٹکا مار کر ایک دم مار دیتے ہیں تو اُس کے دل کی دھڑکن رک جاتی ہے اور دل کا کام ہے خون کو Circulate کرنا بس جیسے ہی دل بند ہوتا ہے جانور مر جاتا ہے لیکن رگوں میں خون باقی رہ جاتا ہے جو انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلاء کر دیتا ہے اور کیوں کہ اﷲ اپنی مخلوق سے ۷۰ ماؤں سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے وہ نہیں چاہتا کہ ہم اس طرح کا گوشت کھا کر تڑپ تڑپ کر مختلف بیماریوں سے مریں اس لئے اﷲ نے ایسے گوشت کو حرام قرار دے دیا ہے۔
۲)اور دوسری بات جو آپ نہیں جانتے شاید وہ یہ کہ ہم مسلمان جب جانور کو زبح کرتے ہیں تو تیز چھری سے جانور کو زبح کیا جاتا ہے تا کہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو اور چار رگوں کو اس لئے کاٹا جاتا ہے کیوں کہ ان چار رگوں میں سے ایک رگ وہ ہے جو جانور کو درد کا احساس دلاتی ہے ہم سب سے پہلے اُسی رگ کو کاٹتے ہیں تا کہ جانور کو درد کی شدت کا احساس نہ ہو ،اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر درد والی رگ کو کاٹ دیا جاتا ہے تو پھر جانور تڑپتا کیوں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کے رگوں سے جب خون نکلتا ہے تو جسم کی رگیں کھچنے لگتی ہیں جس کی شدت کی وجہ سے جانور تڑپتا ہے۔
۳)جو مسلمان اﷲ کو ایسے مانتا ہے جیسے رسول ؐ نے حکم دیا ہے وہ کبھی بھی ظالم نہیں ہو سکتا ،قربانی ہم نہیں کرتے ہمیں اﷲ کے محبوب نبی نے حکم دیا ہے کہ قربانی کروا ور قربانی کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے بس جیسے رسول ؐ نے بتایا ہے ویسے ہی ہم کرتے ہیں ،اور شریعت محمدی ؐ میں آپ کو کہیں کسی بھی مسئلے میں ظلم نظر نہیں آئے گا کیوں کہ اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے ۔

محرم الحرام کی فضیلت اور آج کے مسلمان

محرم اسلامی کلینڈر کے مطابق پہلا مہینہ ہے۔یکم محرم کو نئے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔اس مہینے کی بھی بہت زیادہ فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔یوں تو سارامہینہ ہی عظمتوں والا ہے مگر دس محرم جسے یوم عاشورہ بھی کہتے ہیں اس کی کچھ زیادہ ہی فضیلت بیان کی گئی ہے۔یوم عاشورہ کا مطلب ہے(دسواں دن)۔آپ صل الله علیہہ وسلم خود بھی اس دن روزے کا اہتمام فرماتے۔اور اس دن روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت بیان کی۔
دس محرم کو دوسرے دنوں پرفضیلت حاصل ہے۔

اس دن الله تعالی نے آسمانوں زمینوں سمندروں اور پہاڑوں کو پیدا کیا۔حضرت آدم علیہہ اسلام اسی دن پیدا ہوئے اور انکی توبہ بھی اسی دن قبول ہوئی۔حضرت ابراہیم علیہہ اسلام اور حضرت عیسی علیہہ اسلام کی پیدائیش بھی اسی دن ہوئی۔اور حضرت موسی علیہہ اسلام کی قوم کو فرعون سے نجات بھی اسی دن ملی۔حضرت داؤد علیہہ اسلام کی توبہ بھی اسی دن قبول ہوئی۔حضرت ایوب کی تکلیف دور ہوئی۔اسی دن آسمان سے پہلی بارش برسی۔لوح و قلم بھی اسی دن وجود میں آئے اور عاشورہ کے دن ہی قیامت برپا ہوگی۔
آپ صل علیہہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس دن اپنا دستر خواں وسیع کرتا ہے الله تعالی پورا سال اسکے رزق میں کشادگی فرماتے ہیں۔

نواسہ رسول صل علیہ وسلم کو اسی دن شہادت کے رتبے سے سرفراز فرمایا۔بےشک الله نے یہ دن حضرت امام حسین علیہہ اسلام کی شہادت کے لئے مختص کیا۔حضرت امام حسین علیہہ اسلام نے اسلام کی خاطر خود کو قربان کر دیا۔اور اسلام کو زندہ رکھا۔
“قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے۔
“اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد

قربانی کا سلسلہ تو شروع سے ہی چلتا آیا ہے۔کبھی حضرت ابراہیم علیہہ اسلام سے انکے بیٹے کی قربانی اور کبھی حضرت حسین علیہہ اسلام کی قربانی اسلام دین کو بہت سی قربانیوں نے سینچا ہے۔حضرت امام حسین اور انکے خاندان پر بے جا جبر اور نا انصافیاں کی گئیں ۔ مگر انہوں نے صبر کا دامن نہ چھوڑا اور اسلام کی رسی کو مضبوتی سے تھامے رکھا۔

آج دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں ۔کوئی بھی مظلوم مسلمانوں کی خاطر آواز اٹھانے والا نہیں۔ ہر کوئی دو دن کے احتجاج کے بعد صحیح اور غلط بھول کر اپنے کاموں مصروف ہو جاتا ہے۔اپنے مظلوم بھائیوںکا کوئی خیر خواہ نہیں۔
“اخوت اسکو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
“تو ہندوستاں کا ہر پیروجواں بے تاب ہو جائے۔

ہم سب اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ہمارے اندر اخوت نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ہے کوئی مائی کا لال؟جو اپنے مسلمان بہن بھا ئیوں کے لئے ڈٹ جائے اور غلط کو غلط تسلیم کرے۔
“جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو۔
ڈٹ جاؤ حسین کےانکار کی طرح۔

آج بھی اس دور میں بھی بڑے یزید ہیں۔جنک ہمیں حضرت حسین علیہہ اسلام کی طرح مقابلہ کرنا ہوگا تبھی اسلام سرخرو ہوگا۔حضرت امام حسین نے ہمیں صبر امن اور سچائی کا پیغام دیا۔محرم رمضان ایسے مہینے کچھ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ہمیں انکی اہمیت کو سمجھنا چاہئے۔اور ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ ہماری سمت درست ہے یا غلط۔۔ہم سب کو الله کے حضور محرم کے بابرکت مہینے میں حاضر ہو کے معا فی مانگنی چاہیے۔اور باقی ماندہ زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عہد کرنا چاہئیے۔حضرت امام حسین علیہہ اسلام کو یاد رکھ کے راہ حق کے لئے قربانی سے دریغ نہ کریں۔
الله ہمارا حامئ وناصر ہو۔