Monday, November 2, 2015

غیر مسلم کا اعتراض مسلمان کا جواب(لازمی پڑھیں)

کل ہی کی بات ہے ہمارے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ غیر مسلم افراد مسلمانوں کو ایک ظالم قوم سمجھتے ہیں اُن کے بقول مسلمان جانور کو جب زبح کرتے ہیں تو لٹا کر گردن پر چھری پھیرتے ہیں اور تڑپا تڑپا کر مارتے ہیں اور ہم لوگ ایسا نہیں کرتے ہم جانور کو مشین کے زریعے ایک ہی دفعہ میں سر الگ کر دیتے ہیں یا پھر جانور کے سر پر زور سے ہتھوڑا مارتے ہیں جانور وہیں مر جاتا ہے لیکن ہم تڑپا تڑپا کر نہیں مارتے۔سوال تو ہمارے قارئین نے سمجھ لیا ہو گا اب ذرا کھرا جواب بھی مسلمانوں کی طرٖ ف سے ملاحظہ فرمائیں:
۱) پہلی بات تو یہ جو طریقہ جانور کو زبح کرنے کا آپ کے پاس ہے شریعت محمدی ؐ میں اس کو جھٹکے کا گوشت کہتے ہیں جو کہ حرام ہے جانتے ہیں کیوں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ جانور کو جھٹکا مار کر ایک دم مار دیتے ہیں تو اُس کے دل کی دھڑکن رک جاتی ہے اور دل کا کام ہے خون کو Circulate کرنا بس جیسے ہی دل بند ہوتا ہے جانور مر جاتا ہے لیکن رگوں میں خون باقی رہ جاتا ہے جو انسان کو مختلف بیماریوں میں مبتلاء کر دیتا ہے اور کیوں کہ اﷲ اپنی مخلوق سے ۷۰ ماؤں سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے وہ نہیں چاہتا کہ ہم اس طرح کا گوشت کھا کر تڑپ تڑپ کر مختلف بیماریوں سے مریں اس لئے اﷲ نے ایسے گوشت کو حرام قرار دے دیا ہے۔
۲)اور دوسری بات جو آپ نہیں جانتے شاید وہ یہ کہ ہم مسلمان جب جانور کو زبح کرتے ہیں تو تیز چھری سے جانور کو زبح کیا جاتا ہے تا کہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو اور چار رگوں کو اس لئے کاٹا جاتا ہے کیوں کہ ان چار رگوں میں سے ایک رگ وہ ہے جو جانور کو درد کا احساس دلاتی ہے ہم سب سے پہلے اُسی رگ کو کاٹتے ہیں تا کہ جانور کو درد کی شدت کا احساس نہ ہو ،اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر درد والی رگ کو کاٹ دیا جاتا ہے تو پھر جانور تڑپتا کیوں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کے رگوں سے جب خون نکلتا ہے تو جسم کی رگیں کھچنے لگتی ہیں جس کی شدت کی وجہ سے جانور تڑپتا ہے۔
۳)جو مسلمان اﷲ کو ایسے مانتا ہے جیسے رسول ؐ نے حکم دیا ہے وہ کبھی بھی ظالم نہیں ہو سکتا ،قربانی ہم نہیں کرتے ہمیں اﷲ کے محبوب نبی نے حکم دیا ہے کہ قربانی کروا ور قربانی کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے بس جیسے رسول ؐ نے بتایا ہے ویسے ہی ہم کرتے ہیں ،اور شریعت محمدی ؐ میں آپ کو کہیں کسی بھی مسئلے میں ظلم نظر نہیں آئے گا کیوں کہ اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے ۔

محرم الحرام کی فضیلت اور آج کے مسلمان

محرم اسلامی کلینڈر کے مطابق پہلا مہینہ ہے۔یکم محرم کو نئے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔اس مہینے کی بھی بہت زیادہ فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔یوں تو سارامہینہ ہی عظمتوں والا ہے مگر دس محرم جسے یوم عاشورہ بھی کہتے ہیں اس کی کچھ زیادہ ہی فضیلت بیان کی گئی ہے۔یوم عاشورہ کا مطلب ہے(دسواں دن)۔آپ صل الله علیہہ وسلم خود بھی اس دن روزے کا اہتمام فرماتے۔اور اس دن روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت بیان کی۔
دس محرم کو دوسرے دنوں پرفضیلت حاصل ہے۔

اس دن الله تعالی نے آسمانوں زمینوں سمندروں اور پہاڑوں کو پیدا کیا۔حضرت آدم علیہہ اسلام اسی دن پیدا ہوئے اور انکی توبہ بھی اسی دن قبول ہوئی۔حضرت ابراہیم علیہہ اسلام اور حضرت عیسی علیہہ اسلام کی پیدائیش بھی اسی دن ہوئی۔اور حضرت موسی علیہہ اسلام کی قوم کو فرعون سے نجات بھی اسی دن ملی۔حضرت داؤد علیہہ اسلام کی توبہ بھی اسی دن قبول ہوئی۔حضرت ایوب کی تکلیف دور ہوئی۔اسی دن آسمان سے پہلی بارش برسی۔لوح و قلم بھی اسی دن وجود میں آئے اور عاشورہ کے دن ہی قیامت برپا ہوگی۔
آپ صل علیہہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس دن اپنا دستر خواں وسیع کرتا ہے الله تعالی پورا سال اسکے رزق میں کشادگی فرماتے ہیں۔

نواسہ رسول صل علیہ وسلم کو اسی دن شہادت کے رتبے سے سرفراز فرمایا۔بےشک الله نے یہ دن حضرت امام حسین علیہہ اسلام کی شہادت کے لئے مختص کیا۔حضرت امام حسین علیہہ اسلام نے اسلام کی خاطر خود کو قربان کر دیا۔اور اسلام کو زندہ رکھا۔
“قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے۔
“اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد

قربانی کا سلسلہ تو شروع سے ہی چلتا آیا ہے۔کبھی حضرت ابراہیم علیہہ اسلام سے انکے بیٹے کی قربانی اور کبھی حضرت حسین علیہہ اسلام کی قربانی اسلام دین کو بہت سی قربانیوں نے سینچا ہے۔حضرت امام حسین اور انکے خاندان پر بے جا جبر اور نا انصافیاں کی گئیں ۔ مگر انہوں نے صبر کا دامن نہ چھوڑا اور اسلام کی رسی کو مضبوتی سے تھامے رکھا۔

آج دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں ۔کوئی بھی مظلوم مسلمانوں کی خاطر آواز اٹھانے والا نہیں۔ ہر کوئی دو دن کے احتجاج کے بعد صحیح اور غلط بھول کر اپنے کاموں مصروف ہو جاتا ہے۔اپنے مظلوم بھائیوںکا کوئی خیر خواہ نہیں۔
“اخوت اسکو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
“تو ہندوستاں کا ہر پیروجواں بے تاب ہو جائے۔

ہم سب اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ہمارے اندر اخوت نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ہے کوئی مائی کا لال؟جو اپنے مسلمان بہن بھا ئیوں کے لئے ڈٹ جائے اور غلط کو غلط تسلیم کرے۔
“جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو۔
ڈٹ جاؤ حسین کےانکار کی طرح۔

آج بھی اس دور میں بھی بڑے یزید ہیں۔جنک ہمیں حضرت حسین علیہہ اسلام کی طرح مقابلہ کرنا ہوگا تبھی اسلام سرخرو ہوگا۔حضرت امام حسین نے ہمیں صبر امن اور سچائی کا پیغام دیا۔محرم رمضان ایسے مہینے کچھ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ہمیں انکی اہمیت کو سمجھنا چاہئے۔اور ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ ہماری سمت درست ہے یا غلط۔۔ہم سب کو الله کے حضور محرم کے بابرکت مہینے میں حاضر ہو کے معا فی مانگنی چاہیے۔اور باقی ماندہ زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عہد کرنا چاہئیے۔حضرت امام حسین علیہہ اسلام کو یاد رکھ کے راہ حق کے لئے قربانی سے دریغ نہ کریں۔
الله ہمارا حامئ وناصر ہو۔

اسم اعظم٣ (جادو سے حِفاظت) مُشکلات سے نِجات

محترم قارئین السلامُ علیکم ۔
آج مسلمان دُنیا میں پریشان حال ہیں کوئی معاشی مسائل میں گرفتار ہے تو کوئی گھریلو مسائل کا شکار ہے کوئی بیمار ہے۔ تو کسی پہ قرض کا بار ہے اقوام عالم میں ہم جو کل تک حُکمرانی کا تاج پہنے ہوئے تھے آج اُنہی اقوام میں ہماری پستی اور کمزوری کا یہ حال ہے کہ (ایک اخباری رپورٹ کے مُطابق امریکہ میں) ہمارے لئے علیحدہ سے ایسی اسکرینگ مشین لگوائی جارہی ہیں جس سے گزرتے ہوئے ہم برہنہ دَکھائی دیں گے اور وجہ صاف ہے کل تک ہمیں جو تاجِ سُلطانی عطا ہوا تھا تو رَبّْ عزوجل کی فرمانبرداری کی وجہ سے اور آج جو ذلت ہمارا مُقدر ہوئی ہے تو فقط ہماری بڑھتی ہوئی نافرمانیوں کی وجہ سے۔ قُرآنِ مجید فُرقانِ حمید میں اللہ رَبُّ العالمین ارشاد فرماتا ہے۔

وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا

ترجمہ کنزالایمان سورہ طہ آیت نمر ۱۲۴ 

اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگانی ہے

آئیے ہم سب مِل کو اللہ عزوجل کے ذکر کی ایسی دُھوم مچائیں کہ ہم سے ہمارا کریم رَبّ راضی ہوجائے

لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظالمین(سورہ انبیاء آیت نمبر۸ )

علامہ ابن جریر طبری (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی مشہور زمانہ تفسیر میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اِرشاد فرمایا

:”اسم اللہ الاعظم الذی اذا دعی بہ اجاب و اذا سئل بہ اعظے دعوۃ یونس بن متّی”۔

ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا وہ اسمِ اعظم کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے تو وہ قبول فرمائے اور جب اس کے ذریعہ سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے وہ حضرت یونس بن متّٰی علیہ السلام کی دعا ہے ۔

حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ تعالیٰ عنہُ)اِرشاد فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا “یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!یہ حضرت یونس علیہ السلام کے لئے ہی خاص تھی یا تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے ؟”۔
آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اِرشاد فرمایا :” جسکا مفہوم ہے٬ یہ دُعا صرف حضرت یونس علیہ السلام کیلئے مخصوص نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے”۔

کیا تو نے قران نہیں پڑھا کہ 
فاستجبنا لہ ونجیناہ من الغم و کذلک ننجی المومنین

ترجمہ:ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی ۔ اور ان کو غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں۔
پس جو بھی اس دعا کو پڑھے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا قبولیت کا وعدہ ہو چکا۔

علامہ ابن جریر (رحمۃ اللہ علیہ)اِرشاد فرماتے ہیں کہ اس دعا میں اسم اعظم ہے اور اس کے ذریعہ جو دعا کی جائے گی وہ قبول کی جائے گی اور جو خواہش ہوگی وہ پوری کی جائے گی۔

محترم قارئین جب کوئی مسلمان روحانی علاج کے سلسلے میں میرے پاس آتا ہے اور جب مجھے یہ بتاتا ہے کہ میں ہر جگہ علاج کی خاطر گیا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا لوگوں نے خوب مجھ سے پیسے بٹورے اور چکر لگوا لگوا کر پریشان الگ کیا تو مجھے انتہائی دُکھ ہوتا ہے کہ کس طرح جعلی عامل حضرات لوگوں سے کھیل رہے ہیں۔ لیکن مجھے حیرت تب ہوتی ہے جب کسی اچھے خاصے پڑھے لکھے فرد کو سمجھانا مُشکل ہوجاتا ہے کہ بھائی آپکے ساتھ کوئی روحانی مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں تو میں آپ کو مرض کیا بتاؤں؟ لیکن مجھ سے اسرار کیا جاتا ہے کہ آپ اچھی طرح سے پھر چیک کریں جبکہ مجھے سمجھانا مُشکل ہو جاتا ہے کہ بھائی آپ صرف آزمائش میں مبتلا ہیں آپ اسم اعظم پڑھیں کہ احادیث مُبارکہ میں آیا ہے کہ اس کے پڑھنے سے بڑی سے بڑی مُصیبت ٹل جاتی ہے آپ بھی اِس اسم اعظم ( لا الٰہ الا انت سُبحنک انی کنتُ من الظلمین) کا ورد کریں۔ گھر پہ آیت کریمہ کا ورد کروائیں اپنے لئے خود بھی دُعا کریں مدرسے میں حُفاظ بچوں سے بھی ورد بھی کروائیں اور دُعا بھی۔ اور اپنے دوست احباب سے بھی دُعا کی استدعا کریں کہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ایک مسلمان کی اسکے دوسرے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں مانگی ہوئی دُعا رَد نہیں ہوتی خوب صدقہ اور خیرات کریں کہ صدقہ بھی رد ٔ بلا ہے۔ 

اور مجھے غصہ تب آتا ہے جب کوئی مسلمان یہ بتائے کہ میں تو ہندو جوگیوں یا جادوگروں سے بھی علاج کرواچُکا ہوں تب اپنے غصے کو پی کر اُنہیں سمجھانا پڑتا ہے کہ بھائی قرآن مجید کے ہوتے ہوئے تمہیں کیا سوجھی کہ جوگیوں اور جادوگروں کے پاس جانے کی حاجت پیش آئی کیا تم نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ نہیں پڑھا۔ 

کیا تم نے ہاروت ماروت کا واقعہ نہیں پڑھا کیا تم نے خواجہ خواجگان معین الدین چشتی (رحمتہ اللہ علیہ) کا واقعہ نہیں سُنا کہ کس طرح اُن کی جوتی نے زمانے کے سب سے بڑے جادوگر کا سر نیچا کیا تھا کس طرح کوئی مسلمان جوگی یا جادوگر کے پاس استمداد کے لئے جاسکتا ہے کہ جادو سیکھنا۔ جادو کرنا۔ جادو کروانا۔ جادو پر اعتقاد رکھنا سب حرام اور جہنم میں لیجانے والے کام ہیں اکثر سننے میں آیا ہے جادوگر اس طرح کے کُفریہ کلمات پڑھنے کے لئے دیتے ہیں کہ اُنکے پڑھنے سے کفر لازم آتا ہے حالانکہ پڑھنے والے کو خبر بھی نہیں ہوتی ۔ کیا ہمارے پاس قُرانِ مجید جیسی عظیم دولت موجود نہیں ؟ کیا ہمارے پیارے آقا مَدنی مُصطٰفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قُرآنِ پاک کی تشریح ہمارے لئے نہیں فرمائی؟ کیا ہمیں نہیں بتایا گیا کہ دُعا مومن کا ہتھیار ہے ۔

(جادُو سے حِفاظت)
جو مُسلمان ہر نماز کے بعد یا کم از کم روزانہ کسی ایک نماز کے بعد سات مرتبہ اپنے سینے پر( یا مُمیت) پڑھ کر دَم کرے وہ ہمیشہ جادو سے محفوظ رہے گا۔ یہ عمل میرا آزمودہ بھی ہے۔

مُحترم قارئین کرام قُرآنِ مجید فُرقانِ حمید میں جہاں اِنسانوں کے لئے مُکمل ضابِطہ حیات ہے وہیں یہ مومن کا زبردست ہتھیار بھی ہے کیا آپ کو معلوم ہے جیسے انسان شریر جنات اور شیاطین سے ڈرتا ہے ویسے ہی شیاطین اور جنات بھی انسانوں بالخصوص مسلمانوں سے ڈرتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس کلام الہی کی ڈھال بھی ہے اور دو دھاری تلوار بھی اور شیاطین اور خبیث جنات تب تک کسی مُسلمان پر حملہ نہیں کرتے جب تک کہ اُنہیں یقین نہ ہوجائے کہ سامنے والے کو نہ ہی اپنے ہتھیار کا علم ہے اور نہ ہی چَلانے کا طریقہ معلوم ہے۔ میں آپ کو اپنا ایک واقعہ سُناتا ہوں جو کہ مُجھے اسلام آباد میں پیش آیا ہوا یوں کہ جب میں پہلی مرتبہ ایک مذہبی جماعت کے ساتھ تبلیغ دین کی نیت سے ایک ماہ کے مدنی قافلے کی صورت میں اسلام آباد پہنچا یہ اُنیس سو چھیانوے کا واقعہ ہے تو میرا معمول تھا کہ رات ۱۱ بجے اپنے قافلہ کے امیر سے اجازت لیکر ٹیلیفون کرنے کے لئے پی سی او جاتا تھا اور اپنے گھر والوں سے بات کرنے کے بعد تقریباً رات ۱۲ بجے تک واپس مسجد میں آجاتا کال کرنے کیلئے مُجھے کافی دور جانا پڑتا تھا اور درمیان میں کُچھ سُنسان علاقہ پڑتا تھا اور ایک نالہ جو (شائد) نکاسی بارش کے لئے بنایا گیا تھا ۔ ایک دِن میں اور میرے ساتھ ایک بڑی عمر کے ساتھی جو قافلے میں ہمارے ساتھ ہی آئے ہوئے تھے فون کال کر کے واپس آرہے تھے نالہ آنے سے قبل تیز آواز میں گانا گانے کی نِسوانی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی میرے ساتھی نے مجھ سے کہا اقبال بھائی رات کے اس پہر کون اِس ویران جگہ پر گانا گا رہا ہے حیرت مجھے بھی تھی کہ واقعی اتنی رات کو کون گانا گارہا ہے لیکن ہم نے گانے سے دھیان ہٹا کر مسجد کی جانب پیش قدمی جاری رکھی لیکن جب ہم اُس نالے کے قریب پُہنچے تو میری حیرت کی اِنتہا نہ رہی جب میں نے اُس نالے میں چند خَواتین کو رقص کرتے دیکھا وہی خواتین رقص کیساتھ ساتھ گانا بھی گارہی تھیں اور سب سے زیادہ حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ اُن کے قَد ۲۰ فُٹ سے زیادہ تھےاور دُوسری حیرت کی بات یہ تھی کہ مُجھے اُن سے ذرا بھی خُوف محسوس نہ ہُوا

میرے ساتھ جو ساتھی تھے وہ خُوف سے اُس وقت اپنی آواز کھوچُکے تھے اور بار بار میرے دامن کو کھیچ کر وہاں سے بھاگنے کا اِشارہ کر رہے تھے میں نے اُن سے کہا آپ اپنے خُوف پر قابو رکھیں اگر اِنہیں ذرا بھی اِحساس ہوگیا کہ ہم اِن سے ڈر رہے ہیں تو پھر یہاں سے سلامت نِکلنا مُشکل ہوجائے گا میں نے وہاں بُلند آواز سے یا غُوثِ اعظم دستگیر کا نعرہ بُلند کیا اور فوراً ہی وہ مَخلوق ہمارے سامنے سے غائب ہوگئی میرے اُن ساتھی کو تیز بُخار چَڑھ گیا جو دوسرے یا تیسرے دِن تک رہا اور آج بھی جب کبھی اُن سے مُلاقات ہوتی ہے تو وہ اُس ذکر سے ہی کتراتے ہیں میں نے جب واپس آنے کے بعد اپنے روحانی اُستاد سے اِس واقعہ کا تذکرہ کیا تو اُنہوں نے مجھے بتایا کہ دراصل وہ قومِ جِنّات سے تھیں اگر اُس وقت تم اُنکے قد دیکھ کر ڈر جاتے تو وہ تُمہیں شکار کر لیتیں لیکن تُمہاری بے خُوفی سے وہ خُوفزدہ ہوگئیں بے شک اللہ عزوجل نے اِنسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور دوسری مخلوقات کو اپنا مُطیع بنانے کی صلاحیت صرف اِنسان کو بَخشی گئی ہے لیکن اکثر اِنسان اپنے مرتبے سے بے خبر ہوتے ہیں۔

مُحترم قارئین حسب سابق آپ کمنٹس باکس کے ذریعے اپنے لئے اسم اعظم حاصل کرسکتے ہیں اور دیگر روحانی رہنمائی کے لئے فیس بک پر مجھے میسج بھی کرسکتے ہیں اسم اعظم یا کسی بھی قسم کی رہنمائی کی کوئی دُنیاوی فِیس نہیں ہے مُجھے فقط آپ سب کی دُعا درکار ہے باقی اللہ نے اپنے سوھنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم)کے صدقے میں دُنیا کی ہر نعمت عطا کی ہے الحمدُللہ عزوجل
فیس بُک ایڈریس نوٹ فرمالیں
http://www.facebook.com/ishratiqbal.warsi

اب آخر میں جادو اور اُس کی مذمت کا احوال قُرآنِ مجید سے پڑھتے ہیں

اور اس کے پیرو ہوئے جو شیطان پڑھا کرتے تھے سلطنتِ سلیمان کے زمانہ میں (۰) اور سلیمان نے کفر نہ کیا (الف) ہاں شیطان کافر ہوئے (ب)لوگوں کو جادو سکھاتے ہیں اور وہ (جادو) جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اترا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو نری آزمائش ہیں تو اپنا ایمان نہ کھو (ج) تو ان سے سیکھتے وہ جس سے جدائی ڈالیں مرد اور اس کی عورت میں اور اس سے ضرر نہیں پہنچا سکتے کسی کو مگر خدا کے حکم سے (د) اور وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان دے گا نفع نہ دے گا اور بیشک ضرور انہیں معلوم ہے کہ جس نے یہ سودا لیا آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں اور بیشک کیا بری چیز ہے وہ جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچیں کسی طرح انہیں علم ہوتا 
سورہ البقرہ آیت نمبر102

شان نُزول : حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں بنی اسرائیل جادو سیکھنے میں مشغول ہوئے تو آپ نے ان کو اس سے روکا اور ان کی کتابیں لے کر اپنی کرسی کے نیچے دفن کردیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد شیاطین نے وہ کتابیں نکلوا کر لوگوں سے کہا کہ سلیمان علیہ السلام اسی کے زور سے سلطنت کرتے تھے بنی اسرائیل کے صلحاء و علماء نے تو اس کا انکار کیا لیکن ان کے جہال جادو کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا علم بتاکر اس کے سیکھنے پر ٹوٹ پڑے ۔ انبیاء کی کتابیں چھوڑ دیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام پر ملامت شروع کی سید عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک اسی حال پر رہے اللہ تعالیٰ نے حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی برا ت میں یہ آیت نازل فرمائی۔

(الف)
کیونکہ وہ نبی ہیں اور انبیاء کفر سے قطعاً معصوم ہوتے ہیں ان کی طرف سحر کی نسبت باطل وغلط ہے کیونکہ سحر کا کفریات سے خالی ہونا نادر ہے۔

(ب)
جنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر جادوگری کی جھوٹی تہمت لگائی۔

(ج)
یعنی جادو سیکھ کر اور اس پر عمل و اعتقاد کر کے اور اس کو مباح جان کر کافر نہ بن یہ جادو فرماں بردار و نافرمان کے درمیان امتیاز و آزمائش کے لئے نازل ہوا جو اس کو سیکھ کر اس پر عمل کرے کافر ہوجائے گا بشرطیکہ اس جادو میں منافی ایمان کلمات و افعال ہوں جو اس سے بچے نہ سیکھے یا سیکھے اور اس پر عمل نہ کرے اور اس کے کفریات کا معتقد نہ ہو وہ مومن رہے گا یہی امام ابومنصور ما تریدی کا قول ہے مسئلہ جو سحر کفر ہے اس کا عامل اگر مرد ہو قتل کردیا جائے گا مسئلہ: جو سحر کفر نہیں مگر اس سے جانیں ہلاک کی جاتی ہیں اس کا عامل قطاَّع طریق کے حکم میں ہے مردہو یا عورت 

مسئلہ :جادوگر کی توبہ قبول ہے (مدارک)

(د)
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا مؤثر حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور تاثیر اسباب تحت مشیت ہے۔

(جاری ہے۔ انشاَ اللہ عزوجل )