Monday, November 2, 2015

اسم اعظم٣ (جادو سے حِفاظت) مُشکلات سے نِجات

محترم قارئین السلامُ علیکم ۔
آج مسلمان دُنیا میں پریشان حال ہیں کوئی معاشی مسائل میں گرفتار ہے تو کوئی گھریلو مسائل کا شکار ہے کوئی بیمار ہے۔ تو کسی پہ قرض کا بار ہے اقوام عالم میں ہم جو کل تک حُکمرانی کا تاج پہنے ہوئے تھے آج اُنہی اقوام میں ہماری پستی اور کمزوری کا یہ حال ہے کہ (ایک اخباری رپورٹ کے مُطابق امریکہ میں) ہمارے لئے علیحدہ سے ایسی اسکرینگ مشین لگوائی جارہی ہیں جس سے گزرتے ہوئے ہم برہنہ دَکھائی دیں گے اور وجہ صاف ہے کل تک ہمیں جو تاجِ سُلطانی عطا ہوا تھا تو رَبّْ عزوجل کی فرمانبرداری کی وجہ سے اور آج جو ذلت ہمارا مُقدر ہوئی ہے تو فقط ہماری بڑھتی ہوئی نافرمانیوں کی وجہ سے۔ قُرآنِ مجید فُرقانِ حمید میں اللہ رَبُّ العالمین ارشاد فرماتا ہے۔

وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا

ترجمہ کنزالایمان سورہ طہ آیت نمر ۱۲۴ 

اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگانی ہے

آئیے ہم سب مِل کو اللہ عزوجل کے ذکر کی ایسی دُھوم مچائیں کہ ہم سے ہمارا کریم رَبّ راضی ہوجائے

لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظالمین(سورہ انبیاء آیت نمبر۸ )

علامہ ابن جریر طبری (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی مشہور زمانہ تفسیر میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اِرشاد فرمایا

:”اسم اللہ الاعظم الذی اذا دعی بہ اجاب و اذا سئل بہ اعظے دعوۃ یونس بن متّی”۔

ترجمہ:اللہ تعالیٰ کا وہ اسمِ اعظم کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے تو وہ قبول فرمائے اور جب اس کے ذریعہ سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے وہ حضرت یونس بن متّٰی علیہ السلام کی دعا ہے ۔

حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ تعالیٰ عنہُ)اِرشاد فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا “یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!یہ حضرت یونس علیہ السلام کے لئے ہی خاص تھی یا تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے ؟”۔
آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اِرشاد فرمایا :” جسکا مفہوم ہے٬ یہ دُعا صرف حضرت یونس علیہ السلام کیلئے مخصوص نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے”۔

کیا تو نے قران نہیں پڑھا کہ 
فاستجبنا لہ ونجیناہ من الغم و کذلک ننجی المومنین

ترجمہ:ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی ۔ اور ان کو غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں۔
پس جو بھی اس دعا کو پڑھے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا قبولیت کا وعدہ ہو چکا۔

علامہ ابن جریر (رحمۃ اللہ علیہ)اِرشاد فرماتے ہیں کہ اس دعا میں اسم اعظم ہے اور اس کے ذریعہ جو دعا کی جائے گی وہ قبول کی جائے گی اور جو خواہش ہوگی وہ پوری کی جائے گی۔

محترم قارئین جب کوئی مسلمان روحانی علاج کے سلسلے میں میرے پاس آتا ہے اور جب مجھے یہ بتاتا ہے کہ میں ہر جگہ علاج کی خاطر گیا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا لوگوں نے خوب مجھ سے پیسے بٹورے اور چکر لگوا لگوا کر پریشان الگ کیا تو مجھے انتہائی دُکھ ہوتا ہے کہ کس طرح جعلی عامل حضرات لوگوں سے کھیل رہے ہیں۔ لیکن مجھے حیرت تب ہوتی ہے جب کسی اچھے خاصے پڑھے لکھے فرد کو سمجھانا مُشکل ہوجاتا ہے کہ بھائی آپکے ساتھ کوئی روحانی مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں تو میں آپ کو مرض کیا بتاؤں؟ لیکن مجھ سے اسرار کیا جاتا ہے کہ آپ اچھی طرح سے پھر چیک کریں جبکہ مجھے سمجھانا مُشکل ہو جاتا ہے کہ بھائی آپ صرف آزمائش میں مبتلا ہیں آپ اسم اعظم پڑھیں کہ احادیث مُبارکہ میں آیا ہے کہ اس کے پڑھنے سے بڑی سے بڑی مُصیبت ٹل جاتی ہے آپ بھی اِس اسم اعظم ( لا الٰہ الا انت سُبحنک انی کنتُ من الظلمین) کا ورد کریں۔ گھر پہ آیت کریمہ کا ورد کروائیں اپنے لئے خود بھی دُعا کریں مدرسے میں حُفاظ بچوں سے بھی ورد بھی کروائیں اور دُعا بھی۔ اور اپنے دوست احباب سے بھی دُعا کی استدعا کریں کہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ایک مسلمان کی اسکے دوسرے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں مانگی ہوئی دُعا رَد نہیں ہوتی خوب صدقہ اور خیرات کریں کہ صدقہ بھی رد ٔ بلا ہے۔ 

اور مجھے غصہ تب آتا ہے جب کوئی مسلمان یہ بتائے کہ میں تو ہندو جوگیوں یا جادوگروں سے بھی علاج کرواچُکا ہوں تب اپنے غصے کو پی کر اُنہیں سمجھانا پڑتا ہے کہ بھائی قرآن مجید کے ہوتے ہوئے تمہیں کیا سوجھی کہ جوگیوں اور جادوگروں کے پاس جانے کی حاجت پیش آئی کیا تم نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ نہیں پڑھا۔ 

کیا تم نے ہاروت ماروت کا واقعہ نہیں پڑھا کیا تم نے خواجہ خواجگان معین الدین چشتی (رحمتہ اللہ علیہ) کا واقعہ نہیں سُنا کہ کس طرح اُن کی جوتی نے زمانے کے سب سے بڑے جادوگر کا سر نیچا کیا تھا کس طرح کوئی مسلمان جوگی یا جادوگر کے پاس استمداد کے لئے جاسکتا ہے کہ جادو سیکھنا۔ جادو کرنا۔ جادو کروانا۔ جادو پر اعتقاد رکھنا سب حرام اور جہنم میں لیجانے والے کام ہیں اکثر سننے میں آیا ہے جادوگر اس طرح کے کُفریہ کلمات پڑھنے کے لئے دیتے ہیں کہ اُنکے پڑھنے سے کفر لازم آتا ہے حالانکہ پڑھنے والے کو خبر بھی نہیں ہوتی ۔ کیا ہمارے پاس قُرانِ مجید جیسی عظیم دولت موجود نہیں ؟ کیا ہمارے پیارے آقا مَدنی مُصطٰفےٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قُرآنِ پاک کی تشریح ہمارے لئے نہیں فرمائی؟ کیا ہمیں نہیں بتایا گیا کہ دُعا مومن کا ہتھیار ہے ۔

(جادُو سے حِفاظت)
جو مُسلمان ہر نماز کے بعد یا کم از کم روزانہ کسی ایک نماز کے بعد سات مرتبہ اپنے سینے پر( یا مُمیت) پڑھ کر دَم کرے وہ ہمیشہ جادو سے محفوظ رہے گا۔ یہ عمل میرا آزمودہ بھی ہے۔

مُحترم قارئین کرام قُرآنِ مجید فُرقانِ حمید میں جہاں اِنسانوں کے لئے مُکمل ضابِطہ حیات ہے وہیں یہ مومن کا زبردست ہتھیار بھی ہے کیا آپ کو معلوم ہے جیسے انسان شریر جنات اور شیاطین سے ڈرتا ہے ویسے ہی شیاطین اور جنات بھی انسانوں بالخصوص مسلمانوں سے ڈرتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس کلام الہی کی ڈھال بھی ہے اور دو دھاری تلوار بھی اور شیاطین اور خبیث جنات تب تک کسی مُسلمان پر حملہ نہیں کرتے جب تک کہ اُنہیں یقین نہ ہوجائے کہ سامنے والے کو نہ ہی اپنے ہتھیار کا علم ہے اور نہ ہی چَلانے کا طریقہ معلوم ہے۔ میں آپ کو اپنا ایک واقعہ سُناتا ہوں جو کہ مُجھے اسلام آباد میں پیش آیا ہوا یوں کہ جب میں پہلی مرتبہ ایک مذہبی جماعت کے ساتھ تبلیغ دین کی نیت سے ایک ماہ کے مدنی قافلے کی صورت میں اسلام آباد پہنچا یہ اُنیس سو چھیانوے کا واقعہ ہے تو میرا معمول تھا کہ رات ۱۱ بجے اپنے قافلہ کے امیر سے اجازت لیکر ٹیلیفون کرنے کے لئے پی سی او جاتا تھا اور اپنے گھر والوں سے بات کرنے کے بعد تقریباً رات ۱۲ بجے تک واپس مسجد میں آجاتا کال کرنے کیلئے مُجھے کافی دور جانا پڑتا تھا اور درمیان میں کُچھ سُنسان علاقہ پڑتا تھا اور ایک نالہ جو (شائد) نکاسی بارش کے لئے بنایا گیا تھا ۔ ایک دِن میں اور میرے ساتھ ایک بڑی عمر کے ساتھی جو قافلے میں ہمارے ساتھ ہی آئے ہوئے تھے فون کال کر کے واپس آرہے تھے نالہ آنے سے قبل تیز آواز میں گانا گانے کی نِسوانی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی میرے ساتھی نے مجھ سے کہا اقبال بھائی رات کے اس پہر کون اِس ویران جگہ پر گانا گا رہا ہے حیرت مجھے بھی تھی کہ واقعی اتنی رات کو کون گانا گارہا ہے لیکن ہم نے گانے سے دھیان ہٹا کر مسجد کی جانب پیش قدمی جاری رکھی لیکن جب ہم اُس نالے کے قریب پُہنچے تو میری حیرت کی اِنتہا نہ رہی جب میں نے اُس نالے میں چند خَواتین کو رقص کرتے دیکھا وہی خواتین رقص کیساتھ ساتھ گانا بھی گارہی تھیں اور سب سے زیادہ حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ اُن کے قَد ۲۰ فُٹ سے زیادہ تھےاور دُوسری حیرت کی بات یہ تھی کہ مُجھے اُن سے ذرا بھی خُوف محسوس نہ ہُوا

میرے ساتھ جو ساتھی تھے وہ خُوف سے اُس وقت اپنی آواز کھوچُکے تھے اور بار بار میرے دامن کو کھیچ کر وہاں سے بھاگنے کا اِشارہ کر رہے تھے میں نے اُن سے کہا آپ اپنے خُوف پر قابو رکھیں اگر اِنہیں ذرا بھی اِحساس ہوگیا کہ ہم اِن سے ڈر رہے ہیں تو پھر یہاں سے سلامت نِکلنا مُشکل ہوجائے گا میں نے وہاں بُلند آواز سے یا غُوثِ اعظم دستگیر کا نعرہ بُلند کیا اور فوراً ہی وہ مَخلوق ہمارے سامنے سے غائب ہوگئی میرے اُن ساتھی کو تیز بُخار چَڑھ گیا جو دوسرے یا تیسرے دِن تک رہا اور آج بھی جب کبھی اُن سے مُلاقات ہوتی ہے تو وہ اُس ذکر سے ہی کتراتے ہیں میں نے جب واپس آنے کے بعد اپنے روحانی اُستاد سے اِس واقعہ کا تذکرہ کیا تو اُنہوں نے مجھے بتایا کہ دراصل وہ قومِ جِنّات سے تھیں اگر اُس وقت تم اُنکے قد دیکھ کر ڈر جاتے تو وہ تُمہیں شکار کر لیتیں لیکن تُمہاری بے خُوفی سے وہ خُوفزدہ ہوگئیں بے شک اللہ عزوجل نے اِنسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور دوسری مخلوقات کو اپنا مُطیع بنانے کی صلاحیت صرف اِنسان کو بَخشی گئی ہے لیکن اکثر اِنسان اپنے مرتبے سے بے خبر ہوتے ہیں۔

مُحترم قارئین حسب سابق آپ کمنٹس باکس کے ذریعے اپنے لئے اسم اعظم حاصل کرسکتے ہیں اور دیگر روحانی رہنمائی کے لئے فیس بک پر مجھے میسج بھی کرسکتے ہیں اسم اعظم یا کسی بھی قسم کی رہنمائی کی کوئی دُنیاوی فِیس نہیں ہے مُجھے فقط آپ سب کی دُعا درکار ہے باقی اللہ نے اپنے سوھنے محبوب (صلی اللہ علیہ وسلم)کے صدقے میں دُنیا کی ہر نعمت عطا کی ہے الحمدُللہ عزوجل
فیس بُک ایڈریس نوٹ فرمالیں
http://www.facebook.com/ishratiqbal.warsi

اب آخر میں جادو اور اُس کی مذمت کا احوال قُرآنِ مجید سے پڑھتے ہیں

اور اس کے پیرو ہوئے جو شیطان پڑھا کرتے تھے سلطنتِ سلیمان کے زمانہ میں (۰) اور سلیمان نے کفر نہ کیا (الف) ہاں شیطان کافر ہوئے (ب)لوگوں کو جادو سکھاتے ہیں اور وہ (جادو) جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اترا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو نری آزمائش ہیں تو اپنا ایمان نہ کھو (ج) تو ان سے سیکھتے وہ جس سے جدائی ڈالیں مرد اور اس کی عورت میں اور اس سے ضرر نہیں پہنچا سکتے کسی کو مگر خدا کے حکم سے (د) اور وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان دے گا نفع نہ دے گا اور بیشک ضرور انہیں معلوم ہے کہ جس نے یہ سودا لیا آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں اور بیشک کیا بری چیز ہے وہ جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچیں کسی طرح انہیں علم ہوتا 
سورہ البقرہ آیت نمبر102

شان نُزول : حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں بنی اسرائیل جادو سیکھنے میں مشغول ہوئے تو آپ نے ان کو اس سے روکا اور ان کی کتابیں لے کر اپنی کرسی کے نیچے دفن کردیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد شیاطین نے وہ کتابیں نکلوا کر لوگوں سے کہا کہ سلیمان علیہ السلام اسی کے زور سے سلطنت کرتے تھے بنی اسرائیل کے صلحاء و علماء نے تو اس کا انکار کیا لیکن ان کے جہال جادو کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا علم بتاکر اس کے سیکھنے پر ٹوٹ پڑے ۔ انبیاء کی کتابیں چھوڑ دیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام پر ملامت شروع کی سید عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک اسی حال پر رہے اللہ تعالیٰ نے حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی برا ت میں یہ آیت نازل فرمائی۔

(الف)
کیونکہ وہ نبی ہیں اور انبیاء کفر سے قطعاً معصوم ہوتے ہیں ان کی طرف سحر کی نسبت باطل وغلط ہے کیونکہ سحر کا کفریات سے خالی ہونا نادر ہے۔

(ب)
جنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر جادوگری کی جھوٹی تہمت لگائی۔

(ج)
یعنی جادو سیکھ کر اور اس پر عمل و اعتقاد کر کے اور اس کو مباح جان کر کافر نہ بن یہ جادو فرماں بردار و نافرمان کے درمیان امتیاز و آزمائش کے لئے نازل ہوا جو اس کو سیکھ کر اس پر عمل کرے کافر ہوجائے گا بشرطیکہ اس جادو میں منافی ایمان کلمات و افعال ہوں جو اس سے بچے نہ سیکھے یا سیکھے اور اس پر عمل نہ کرے اور اس کے کفریات کا معتقد نہ ہو وہ مومن رہے گا یہی امام ابومنصور ما تریدی کا قول ہے مسئلہ جو سحر کفر ہے اس کا عامل اگر مرد ہو قتل کردیا جائے گا مسئلہ: جو سحر کفر نہیں مگر اس سے جانیں ہلاک کی جاتی ہیں اس کا عامل قطاَّع طریق کے حکم میں ہے مردہو یا عورت 

مسئلہ :جادوگر کی توبہ قبول ہے (مدارک)

(د)
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا مؤثر حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور تاثیر اسباب تحت مشیت ہے۔

(جاری ہے۔ انشاَ اللہ عزوجل )

راہِ عشق رسولﷺ کے شھیدغازی علم دین ؒ کے وکیل قائداعظمؒ اور لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

 عشق کے تقاضے کو جو سمجھ جاتا ہے وہ خالق کے ساتھ اپنے رشتے کو بھی سمجھ جاتا ہے اُسے یہ ادراک ہو جاتا ہے کہ اُس کا تعلق جس خالق کے ساتھ ہے وہی خالق امیدِ صبح ہے۔ خالق اور بندئے کے تعلق کو بام عوج پہنچانے والی عظیم ہستی جناب سرکار دوجہاں نبی پاکﷺ کی ہے۔نبی پاکﷺ کی عزت شان و شان وکتکا ہر محاذ پر دفاع کرنا ہم سب کا فرض ہے اِس لیے کہ اﷲ پاک خود نبی پاکﷺ کی ہستی کی عزت و حرمت کا دفاع کرنے ولا ہے۔برصغیر پاک وہندمیں رونماء ہونے والے واقعے کی یاد کیسی بھلائی جاسکتی ہے کہ جب نبی پاکﷺ کا عاشق پھانسی پر جھول گیا اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ رب کی ذات اور رب کے محبوب ﷺ کی ذات سے وابستہ ہونے وا کوئی بھی شخص کیسے مر سکتا ہے۔دیکھ لیجیے راہ عشق رسولﷺ میں جو بھی شھید ہوا وہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ امر ہونا اِس لیے بھی ٹھرجاتا ہے کہ شھید نے گواہی جو دینا ہوتی ہے اپنے عشق کی ۔اپنے محبوب کی حرمت کی ۔ نبی پاک ﷺ کی ناموس پر قربان ہونے والے عظیم مجاہد جناب غازی علم دین شھید کی یاد اس طرح زخموں پر مرہم رکھتی ہے جیسے صحرا میں نخلستان۔ تاریخ عالم اُن مبارک ساعتوں کو کیسے فراموش کر سکتی ہے جو مبارک لمحات غازی علم دین نے گستاخِ رسول ﷺ کو جہنم رسید کرنے کے بعد اور تختہ دار پر چڑھنے سے پہلے گزارے۔ محبت کے انداز اور تقاضے عقل و ادراک کے محتاج نہیں ہوتے ۔ عشق کبھی بھی کسی دنیاوی تقاضے کا پابند بھی نہیں ہوتا۔ عشق رسول ﷺ کی ایمان افروز روشنی مومن کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ محبت رسول ﷺ کی لذت سے مومن کی آشنائی ہر کس وناکس سے اُسے ماورا کرتی ہے۔غازی علم دین شھید کو کہنے کو تو پھانسی دے دی گی۔ لیکن وہ پھانسی حیات جاودانی کا ایسا مشروب غازی صاحبؒ کو پلا گئی کہ پھر اُسکے بعد غازی صاحب ایسی روشن راہوں کے مسافر بن گئے کہ جناب محمد رسول اﷲﷺ کے پروانوں کے لیے ہمیشہ کے لیے امید اور آگہی کا روشن مینار بن گئے۔ جس دور میں جناب غازی علم دین شھیدؒ کو یہ مقام میسر آیا اُس وقت انگریز کا راج اور ہندووں کی مکاری عروج پر تھی مسلمان اقلیت میں ہونے کی بناء پر پسے ہوئے تھے۔ ان حالات میں علم دینؒ کو بقول اقبالؒ دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب شے ہے یہ لذتِ آشنائی۔ لذت آشنائی پھر چونکہ چنانچہ کے چکروں میں نہیں آتی وہ تو اطیواﷲ واطیوالرسول کی اسیر ہو جاتی ہے۔وہ لوگ جو اُس دور میں رہ رہے تھے اُن کے لیے واقعی یہ بہت بڑا کارنامہ تھا اور اُس دور کے دانشوروں علماء اساتذہ ہر شعبہ زندگی کے افراد نے جناب غازی علم دین شھید ؒ کی قسمت پر رشک کیا ۔میانوالی جیل میں غازی صاحبؒ کو پھانسی دے کر نبیﷺ کے عاشقوں کو ایک نئی جلو نے اپنے حصار میں لے لیا اور عشق ومستی کا قافلہ نہایت کھٹن اور مسائل کے ہوتے ہوئے بھی غازی صاحبؒ کی شہادت پر رب پاک کے حضور سر بسجود ہوا۔ عشق تو نام ہی آقا کریمﷺ کی ذات میں خود کو گم کرنے کا ہے اور یوں نبی پاکﷺ کی عزت وناموس کی خاطر خود کو امر کرنا ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ لاہور خوش قسمت ہے کہ داتا علیٰ ہجویری کی نگری میں ایک عظیم عاشق ِ رسولﷺجسے غازی علم دین شھید کہتے ہیں نبی پاک ﷺ کی شان پرقربان ہوا اور امر ہوگیاآج جب اس عظیم شخص کو اپنے پیارے نبی پاک ﷺ پر قربان ہوئے اسی سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن غازی علم دین شھید ؒ کا نام اِس طرح لیا جاتا ہے جس طرح کسی بھی زندہ شخص کا نام لینا چاہیے ہوتا ہے جبکہ وہ ہستی بھی عاشقِ رسولﷺ ہو۔ ایسا کیوں نہ ہو رب پاک واشگاف الفاظ میں اپنی کتاب قران پاک میں فرماتا ہے کہ جو اﷲ کہ راہ میں مارا جاتا ہے وہ زندہ ہے تمھیں اِس باات کا شعور نہیں، حتیٰ کہ شھید کو اﷲ پاک کے ہاں سے رزق بھی ملتا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ شھید چونکہ زندہ ہے اِس لیے اُس کو مردہ کہنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے تاریخ عالم نے بہت سے نیک بندوں کو اپنے رب پاک کی راہ میں جان دیتے دیکھا ہے حغرت عمار ابن یاسر کے والدین سے محمد مصطفےﷺ کے غلاموں کی شہادتوں کا شروع ہونے والا سفر جاری و ساری ہے اور غازی علم دین شھید اسلام کے وہ عظیم پیروکار ہیں جن پر اُمتِ مسلمہ کو فخر ہے۔ عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا عشق انسان کو انسانیت کے اعلیٰ وارفع مقام پر لا کھڑا کرتا ہے۔ حغرت بلالؓ حغرت اویس قرنیؓ کے راستے پر چلتے ہو ئے غازی علم دین شھید نے وہ مقام حاصل کیا کہ جس کے متعلق شاعرِ مشرق حکیم الامُت حضر ت علامہ اقبال ؒ پکار اُ ٹھے کہ ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا اور ہم دیکھتے رہ گے۔ یقیناً حضرت اقبال جیسی شخصیت کی جانب سے غازی علم دین شھید کو بہت زبردست خراج ِ تحسین ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں جب اِس کیس کی اپیل کی سماعت ہوئی تو لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا اس کے مطابق، علم دین بنام ایمپرر اے آ ٰئی آر 1930 لاہور 157کریمنل اپیل نمبر 562 آف 129۔قاتل 19 یا20 سال کا ہے ۔ اور اپنے مذہب کے بانی کے خلا ف کہے جانے والے اور کیے جانے والے فعل پر ناراض ہے ۔ علم دین جو کہ ایک تر کھان ہے اور سریاں والا بازار لاہور شہر کا رہائشی ہے جس نے 6اپریل1929 کو راج پال کو قتل کیا اور اِسکو دفعہ 302 کے تحت سزائے موت دی گئی۔ علم دین کی طرف سے اپیل کی گی اور سیکشن 374 سی آر پی سی کے تحت عدالت کے سامنے ہے۔ مرنے ولا ایک ہندو تھا جو کہ کتب فروش تھا اور ہسپتال روڈ پر اُسکی دکان تھی۔ کچھ عرصہ پہلے اُس نے مسلما نو ں کے مذہب کے بانی کے خلاف ایک پمفلٹ چھاپ کر مسلمانوں کو دُکھ پہنچایا تھا ؒراج پال کو دفعہ ایک سو تریپن ائے جو کہ پبلی کیشن کے متعلق ہے کہ مطابق جنوری 1927 کو قصور وار ٹھرایا گیا تاہم مئی 1927 میں ہائی کورٹ نے اُس کی سزا کو معطل کردیا۔ چھ اپریل 1929 کو راج پال پر دن دو بجے قاتلانہ حملہ کیا گیا راج پال کو آٹھ زخم آئے زخموں کی نوعیت سے لگتا ہے کہ راج پال نے خود کو بچانے کی کوشش کی ، راج پال کے ہاتھ پر چار زخم لگے تھے۔ اُس کے سر کے بلکل اوپر ایک زخم لگا جس سے اُسکے سر کی ہڈی کریک ہوئی ۔ اُس کی چھاتی پر بھی ایک گہرا زخم آیا۔PW-8 جو کہ آتما رام ہے اُس سے اپیل کندہ علم دین نے چھ اپریل کی صبح ایک چاقو خریدا علم دین راج پال کی دکان پر دن دو بجے پہنچاراج پال برآمدہ سے باہر گدی پر بیٹھا خطوط لکھ رہا تھا کہ اس پر علم دین نے حملہ کر دیا اس واقعہ کے چشم دید گواہ ناتھ PW-2ور بھگت رام (pw-3)جو کہ راج پال کے ملازم تھے۔ان میں سے گواہ (pw-2)بر آمدے کے اندر بیٹھا تھا اور (pw-3)گواہ برآمدے کے باہر شیلف میں کتابوں کو ترتیب دے رہا تھا۔انھوں نے الاارم بجایا کتابیں علم دین پر پھینکیں۔کر دناتھ اور بھگت رام جن کے ساتھ باہر سے نانک چاند(pw-1) اور پارمانانند مل گئے اور انھوں علم دین کا پیچھا کیاودیا راتھن جوکہ علم دین کو اپنے دفترکے دروازے سے دیکھ رہا تھا نے دوسرے لوگوں کی مددسے علم دین شہید کو پکڑ لیا۔علم دین باربار وانچی آواز میں شور مچانے لگا کہ وہ نہ تو چور ہے نہ ہی ڈاکو بلکہ اس نے تو نبی پاک ﷺ کا بدلہ لیا ہے۔علم دین کو مقتول کی دوکان پر لے جایا گیا اور پولیس کو بلایا گیا اور پولیس نے علم دین کو پکڑ لیا اور تفتیش کے دوران کردناتھ نے جو بیان اس کے مطابق جب علم دین کو پکڑا گیا۔اُس نے نہ تو کوئی مزاحمت اور نہ ہی اُس نے اپنے کسی ساتھی کا نام بتایا علم دین کے بیان پر آتمارام کی دکان کو تلاش کیا گیااور 9 اپریل کو آتما رام نے علم دین کو شناخت پریڈ میں شناخت کرلیا یہ شناخت پریڈ مجسٹریٹ کی زیر نگرانی ہوئی اور علم دین کو اُسی شخص کے طور پر پہچان لیا جس کو اُس نے چاقو فروخت کیا تھا جوکہ راچبال کی دکان سے ملا اس میں کوئی شک نہیں کہ آتمارام نے اس طرح کے چاقو اور لوگوں کو بھی فروخت کیے ہوں گئے۔ اسی طرح کے دو چاقو اُس نے بطور ثبوت عدالت پیش کیے آتمارام نے بتایا کہ اُس نے یہ چاقو ایک میڈیکل سٹور سے نیلامی میں خریدے تھے مسٹر جناح نے پراسیکیوشن کی کہانی پر مختلف groundsپر attackکیا انھوں نے اسی بات پر زور دیا کردی ناتھ قابل اعتما د گواہ نہیں ہے کیونکہ1) (وہ مقتول کا ملازم تھاپس وہ اس لیے intrested تھا2) (اُس نے ایف آئی آر میں نہیں بتایاکہ (a) کہ بھگت رام اُس کے ساتھ تھا ) (b اور علم دین نے یہ کہا کہ انھوں پیغمبرا سلامﷺ کابدلہ لیا ۔کیونکہ بھگت رام بھی راج پال کا ملازم تھا اس لیے وہintrestedکی صف میں ہے بیانات کی صحت پر اعتراض لگائے گئے جوکہ پولیس کو دئیے گئے تھے جس کے سبب آتمارام کاپتہ چلا اور آتمارام کی وجہ سے علم دین کی شناخت ہوئی اور آتمارام نے چاقوکی فروخت کی بابت بیان دیامسٹر جناحؒ نے اُس کو جھوٹا قرار دیا ۔جج صاحب نے شہادتوں کو ڈسکس کرنے کے بعدیہ قرار دیا کہ جرم ثابت ہو گیا ہے علم دین کی عمر کم ہے وہ19 یا20 سال کاہے اور اُس کا یہ ایکٹ اپنے مذہب کے بانی کی وجہ سے ہے جیساکہ عامر بنام امپیرر کیس میں تھا اس بناء پر کہ کیونکہ قاتل کی عُمرکم ہے اور وہ 19یا20سال کا ہے یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ اُسے قانون کے مطابق سزانہ دی جائے ۔ مسٹر جناحؒ کی یہ Reason کے قاتل کی عُمر تھوڑی ہے اور اُس کو کپیٹل سزانہ دی جائے ۔ اور اُسے جان بوجھ کر کسی کو قتل کرنے کی سزانہ دی جائے ۔ میں اپیل کو ڈ سمس کرتا ہوں اور سزائے موت کی توثیق کرتا ہوں ۔یہ فیصلہ ہے جو لاہور ہائی کورٹ نے لکھا اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غازی علم دین شہید صاحب نے یہ بات کہی کہ اُنھوں نے راج پال کو قتل نہیں کیا۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا غازی صاحب نے راج پال کو کسی شے کے لالچ میں قتل کیا۔ اُنھوں نے تو یہاں تک کہہ د یا کہ جب لوگوں نے اُن کو راج پال کو جہنم رسید کرنے پر پکڑا تو انھوں نے کہا کہ نہ تو میں چور ہو اور نہ ہی ڈاکو میں نے تو یہ سب اپنے نبی پاک ﷺ کی عزت کی خاطر کیاہے ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر غازی صاحب مصلحت کا شکار ہو جاتے تو جرم سے انکار کردئے اور اپنی جان بخشی کروالیتے۔یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی الہامی مذہب کے پیروکاروں کو کیا صرف آزادی رائے کے اظہار کے نام پر دکھ پہنچایا جاسکتا ہے۔ دین اسلام کے مطابق تمام انبیاء اکرام کی عزت و ناموس کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن نبی پاک ﷺ کے خلاف آئے روز مغربی ممالک کے نام نہاد آزادی رائے کے پرستاوروں کی جانب سے گستاخی کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کا امتحان لیا جاتا ہے۔ ایسے میں پاکستان میں 295C کا قانون اِس بات کی دلیل ہے کہ اگر کسی بھی شخص پر انبیاء اکرام کی گستاخی کا الزام لگتا ہے تو قانون کے مطابق کاروائی کی جائے اور انصاف کے تما م تر تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ نہ کہ عوام خود انصاف کریں انصاف کرنا عدالتوں کا کام ہے۔ آج تک توہین رسالت کے قانون کے تحت کسی بھی غیر مسلم کوپاکستان میں سزا نہیں دی گئی۔ آخری الہامی کتاب قران مجید نے صاحب قران جناب نبی پاک ﷺ کی عزت وحرمت کے متعلق واضع احکامات دیئے ہیں۔اقبالؒ کے مطابق مسلمان کے اندر روح محمدﷺ ہے اور جب روح محمد مومن کے اندر ہے تو پھر کوئی بھی مومن کسی بد بخت کی جانب سے نبی پاک ﷺ کی شان اقدس میں کیسے گستاخی برداشت کرسکتا ہے۔ اگر غازی علم دین شھید ؒ کے دور میں بھی توہین رسالت کا قانون ہوتا تو پھر کسی راج پال کو ایسا کرنے کی جُرات نہ ہوتی۔ جناب غازی علم دین شھید نے اپنی زندگی قربان کرکے اپنے آقاﷺ کی شفاعت حاصل کرلی۔ حضرت قائد اعظمؒ جیسی عظیم ہستی جناب غازی صاحبؒ کی وکالت کرنے کے لیے لاہور پہنچی۔ لیکن شھادت کا جام پینے کے لیے بیقرار غازی صاحبؒ اپنے آقا کریم ﷺ کے نام پر فدا ہوگے۔ اِس لیے جو نام نہاد لبرل فاشسٹ یہ شور مچاتے ہیں کہ 295C قانون کو ختم کیا جائے تو اِن کو یہ نظر نہیں آتا کہ اِسی قانون کی وجہ سے تو عدالت کو انصاف کرنے کا موقع ملتا ہے ورنہ ہر مسلمان غازی علم دین شھید ہی تو ہے۔بقول جناب مولانا رومیؒ ، ملتِ عشق از ہمہ ملت جُدا است ، عاشقاں را مذہب و ملتِ خدا ست، یعنی عشق والوں کا مسلک سب سے جُدا ہوتا ہے، عاشقوں کا مسلک اور مذہب صرف خُدا ہوتا ہے۔ ممتازی قادری والے معاملے میں سپریم کورٹ کے واقعہ نے بھی غازی علم دین شھیدؒ کے کیس کی یاد تازہ کر دی ہے۔

بیماری اور اس کا علاج و عیادت کے فضائل

سرور کائنات ﷺ کی سنت اور آپ کا اسوہ یہ ہے کہ جب آدمی بیمار ہو،صحت خراب ہو تو علاج کرایا جائے۔اس لئے جوشخص علاج کراتا ہے وہ سنت پر عمل کرتا ہے اور جو نہیں کراتا وہ سنت کو ترک کرتا ہے۔علاج نہ کراناکسی فضیلت کا باعث ہوتا تو یقینا آپ ﷺ اس سے احتراز فرماتے۔

’’ بیماری ‘‘گناہوں سے پاکی کا ذریعہ ہے : حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس مسلمان کو جو کوئی تکلیف پہنچتی ہے حتیٰ کہ اگر اس کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس تکلیف کے بدلے کوئی نا کوئی گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کا درجہ بلند فرماتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے ’’ الحمی من فیح جھنم ‘‘یہ بخار جہنم کی گرمی کا حصہ ہے(بخاری شریف باب صفۃ النار) علمائے کرام نے اس حدیث پاک کی مختلف تشریحات کی ہیں بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ یعنی جہنم میں جو گرمی برداشت کرنی پڑتی ہے اس کے بدلے میں اﷲ نے یہ گرمی دے دی تاکہ اس بخار کی وجہ سے وہ گناہ دنیا ہی کے اندر دھل جائے اور معاف ہو جائے۔اﷲ کے نبی ﷺ جب مریض کی عیادت فرماتے تو فرماتے ’’ لاباس طھورانشاء اﷲ‘‘ یعنی کوئی غم نہ کرو یہ بخار تمہارے گناہوں سے پاکی کا سبب اور ذریعہ بن جائے گا۔

بیماری اور اس کا علاج : پارہ 7؍ رکوع 7؍سورہ انعام آیت نمبر 16؍ وَ اِنْ یَمْسَکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَاکَاشِفَ لَہٗ اِلَّا ھُوْ ط وَ اِنْ یَمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیءٍ قَدِیْر، وَھُوَ الْقَاہِرُ فَوْ قَ عِبَادِہٖ ط وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْخبِیر۔اگر تجھے اﷲ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سواکوئی دور کرنے والا نہیں ۔اگر تجھے بھلائی آرام پہنچائے تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے اور وہی غالب ہے اپنے بندوں پر اور حکمت والا جاننے والا ہے(ترجمہ کنز الایمان)حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ کے رسول نے فرمایا اﷲ نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے اور بیماری سے زیادہ قوت (شفاء)دوا میں رکھی ہے۔اس سے علاج کی اہمیت اور افادیت سامنے آتی ہے آپ ﷺ نے علاج کروایا اور لوگوں کو بکثرت دوائیں و علاج بتائے۔اس کی وجہ سے اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کی طبی معلومات اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ لوگ اکثر علاج پوچھنے آتے تھے اور تعجب کرتے تھے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے مختلف امراض کی دوائیں اور ان کے علاج بتائے۔صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ اجمعین کو علاج کا مشورہ دیا اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا ۔علاج کو توکل کے منافی سمجھنا بھی صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ توکل یہ نہیں ہے کہ آدمی اسباب و وسائل کو اختیار نہ کرے ۔ بلکہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو اصل اعتماد اسباب و وسائل پر نہیں بلکہ اﷲ کی ذات پر ہو۔وسائل کو اختیار کئے بغیر جو توکل کیا جائے وہ توکل غلط قسم کا توکل ہوگا۔بیماری میں توکل یہ ہے کہ آدمی دوا علاج کرنے کے باوجود اﷲ پر بھروسہ رکھے اور مرض اور شفاء سب کو رب کی جانب سے سمجھے۔

رحمت کاملہ کا سایہ : ٭حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جس بندے پر میں نے ایک بیماری نازل کی اور اس پر اس نے صبر کیا اور لوگوں سے اس کا شکوہ شکایت نہیں کی ۔اب اگر میں اس کو صحت دونگا تو اس سے بہتر گوشت و پوشت اس کو دونگا۔٭حضرت وہب بن منبہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ نے حضرت عزیر علیہ السلام پر وحی بھیجی اگر تجھ پر کوئی بلانازل ہو تومیری مخلوق کے پاس شکایت سے بچنا۔اور میرے ساتھ ایسا معاملہ کر جیسا کہ میں تیرے ساتھ کرتا ہوں کیوں کہ جس طرح میں تیری شکایت فرشتوں کے سامنے نہیں کرتا اس وقت جب تیرے برے اعمال میرے سامنے آتے ہیں ایسے ہی تجھے مناسب ہے کہ جب تجھ پر کوئی مصیبت و بلا و بیماری آئے تو میری شکایت سے پرہیز کیا کرو۔کیونکہ شکوہ شکایت سے تیرا دشمن خوش ہوگااور دوست غمگین ہوگا۔

بیماری پر صبر اور اس پر انعام : وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْن۔اﷲ صبر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے(ترجمہ)۔ جو شخص عبادت الٰہی پر صبر کرتا ہے اور ہر وقت عبادت میں مصروف رہتا ہے اسے قیامت کے دن اﷲ 300؍ایسے درجات عطا فرمائے گا جن میں ہر درجہ کا فاصلہ زمین و آسمان کے برابر یعنی دوری ہوگی۔جو اﷲ کی حرام کی ہوئی چیزوں پر صبر کرے گا اسے 600؍درجات بلندی عطا فرمائے گا جن میں ہر درجہ کا فاصلہآسمان تا ساتویں آسمان کے برابر ہوگااور جو مصائب و بیماری پر صبر کرتا ہے اسے 700؍ درجات عطا ہونگے ہر درجہ کا فاصلہ تحت الثریٰ سے عرش علیٰ کے برابر ہوگا(مکاشفۃ القلوب جلد اول صفحہ 50)۔ حدیث پاک میں ہے جو شخص رات بھر بیمار رہا اور صبر کر کے اﷲ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوا(اور بیماری کا ہو ہلہ نہ کیا) تو وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے گاجیسے کے اپنی پیدائش کے وقت تھااس لئے جب تم بیمار ہو جاؤ تو عافیت کی تمنا کرو۔

بیماری اوررنج و غم گناہوں کو مٹا دیتے ہیں: حضرت علامہ ضحاک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں جو شخص 40؍ راتوں میں ایک رات بھی گرفتار رنج و الم نہ ہوا اﷲ تعالیٰ کے یہاں اس کے لئے کوئی خیر اور بھلائی نہیں۔
جھوٹے بیمار کا عذاب:حدیث پاک میں ہے لا تمارضوفتمرّضوفتموفتدخلو النار جھوٹا بیمار مت بنوکہ حقیقت میں بیمار بن جاؤگے اور مر جاؤگے تو جہنم میں جاؤگے(ترجمہ)۔خدا سے ہمیشہ ڈرو کہ جھوٹا بیمار بننے سے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حقیقت میں بیمار کر دے اور عاقبت خراب ہونے کا خوف الگ سے دامن گیر ہو (حوالہ الملفوظ حصہ چہارم صفحہ 35، خطبات محرم صفحہ 539)۔

تعزیت کرنا بھی عبادت ہے: مولائے رحیم نے اپنے بندوں پر اپنی رحمت کے دروازے کھول رکھے ہیں جو شخص چاہے اپنے ظرف کے مطابق اس سے فائدے حاصل کر سکتا ہے فرائض و واجبات کی اہمیت سے تو مسلمان ایک حد تک واقف ہیں، لیکن بہت سی باتیں جن کی کوئی اہمیت نہیں سمجھی جاتی ہیں حالانکہ وہ اﷲ کے نزدیک بہت اہم ہوتی ہیں انہی میں سے عیادت (بیمار پُرسی)تعزیت (مصیبت زدہ کی تسلی و دلجوئی)کرنا جن کی بڑی فضیلت اور بڑا ثواب ہے کبھی کسی مصیبت زدہ کی معمولی سی ہمدردی ہمیشہ کے لئے اس کو ہمدردی کرنے والے سے منسلک کر دیتی ہے۔حدیث میں عیادت و تعزیت کے بہت سے فضائل ہیں مسلمانوں کے مسلمانوں پر جو حقوق ہیں ان میں، عیادت اور جنازہ بھی شامل ہے قال رسول اﷲ ﷺ حق المسلم علیٰ المسلم خمس روا سلام و عیادۃ المریض و اتباع الجنائز واجابۃ الدعوۃو تشمیت العاطش (بخاری و مشکوٰۃ) سرور کائنات ﷺ نے فرمایا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینااور بیمار کی عیادت کرنا اور جنازے کے پیچھے چلنااور دعوت کا قبول کرنااور چھینکنے والے کا جواب دینا(جب چھینکنے والا الحمد للّٰہ کہے تو اس کو یرحمک اللّٰہ کہنا)(ترجمہ)۔لوگ ان باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں لیکن قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ان باتوں کی پُرسش فرمائے گا۔حدیث پاک میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گاکہ اے آدمی میں بیمار ہواتو تو نے میری عیادت نہیں کی ،وہ عرض کرے گا اے پروردگا میں تیری عیادت کیسے کرتا، تو تو پروردگار عالم ہے، اﷲ فرمائے گا کہ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تونے اس کی عیادت نہیں کی ۔ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھ کو اس کے نزدیک پاتا۔اے آدمی میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تونے مجھ کو نہیں کھلایا وہ عرض کرے گا کہ میں تجھ کو کیسے کھلاتا تو تو پروردگار عالم ہے اﷲ فرمائے گا کہ کیا تجھ کو علم نہیں کہ میرا فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو نے اس کو نہیں کھلایا،کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب مجھ سے پاتا؟ اے آدمی میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھ کو پانی نہیں پلایا۔وہ عرض کرے گا کہ میرے پروردگا ر میں تجھ کو کیوں کر پانی پلاتا ۔تو تو پروردگار عالم ہے ۔ اﷲ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تو تونے اس کو پانی نہیں پلایا اگر تو اس کو پانی پلاتا تو اس کا ثواب میرے پاس پاتا۔سبحان اﷲ سبحان اﷲ! قربان ہو جائیں پیارے اسلامی بھائیومولائے رحیم کی کرم نوازی پر۔
بیمار پُرسی و تعزیت کے فضائل: جو شخص بیمار کی عیادت کرتا ہے،اگر وہ صبح کو عیادت کرے گا تو صبح سے شام تک فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہیں گے اور اگر شام کو عیادت کرے گا تو شام سے صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہیں گے اور اس کو عیادت کا ثواب جنت میں ایک باغ کی شکل میں ملے گا۔عیادت کی فضیلت و برکت یہ بھی ہے کہ عیادت کرنے والے کوآسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے کہ تیری زندگی اچھی ہوئی اور تیرا چلنا اچھا ہوااور تیرا مقام جنت کے ایک مکان میں ہوگا یعنی عیادت کی برکت سے دنیا اور آخرت میں اچھی زندگی حاصل ہوگی۔ایک مسلمان کی عیادت خود بھی جنت کے باغ کے سیر کے برابر ہے اور اس کا بے انتہاثواب ہے۔

عیادت کا اسلامی طریقہ : جب مریض کی عیادت کو جائے تو اس سے اس طرح سے باتیں کرے کہ اس کی طبیعت میں فرحت و سرور پیدا ہواور مرض کی شدت کے سبب اس کو موت کا خطرہ ہو تو اس کو اپنی دلچسپ باتوں سے دور کرنے کی کوشش کرے اور اس کے مرض کو معمولی بتائے اور کہے کہ آپ جلد اچھے ہو جائیے گا(حدیث)دوسری حدیث پاک میں اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا تم بیمار کے پاس جاؤ،تو اچھی باتیں کر کے اس کے دل سے موت کا خطرہ دور کردو۔بلا شبہ اس سے کوئی چیز دور نہیں ہوگی مریض کا دل خوش ہوگا۔

بیماری پر کفریہ لفظ گناہ ہے،کلمات کفر کی چند مثالیں:(۱) اﷲ نے مجھ کو بیمار کر کے مجھ پر ظلم کیا ہے(معاذ اﷲ)، اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے یہ کلمۂ کفر ہے (حوالہ البحر الرائق،جلد 5؍ صفحہ 209)
(۲)جو شخص مصیبت میں ہو اور بیمار ہو ،یہ کہے اے اﷲ تونے مال لے لیا ،فلاں چیز لے لی،اب کیا کرے گایا اب کیا باقی رہ گیا ہے یا اب جان لے لے گایہ قول کفر ہے(بہار شریعت جلد 9؍ صفحہ 172)۔
(۳)کسی مسکین اور بیمار نے اپنی محتاجی اور بیماری کو دیکھ کر یہ کہا یا اﷲ میں بھی تیرا بندہ ہوں اور میں بیمار ہوں اور تیرا فلاں بندہ عیش و عشرت میں ہے ،آخیر یہ کیا معاملہ ہے کیا یہ ہی تیرا انصاف ہے ایسا کہنا کلمۂ کفر ہے(بہار شریعت جلد 9؍ صفحہ 170)۔
(۴)جو کہے اﷲ نے مجھ مجبور کو بیمار کر کے اور پریشان کیا ہے(معاذ اﷲ) یہ کلمۂ کفر ہے(فتاویٰ عالمگیری جلد 2؍صفحہ260)۔

اﷲ پاک ہم سبھی کو بیماری،عیادت اور تعزیت کے احکام جاننے اور سمجھنے عمل کرنے کی توفیق سے نوازے۔آمین ثم آمین۔