Wednesday, December 26, 2012

لاہوت لامکاں ۔ ایک سحر انگیز مقام

























عمران خان، میاں صاحب اور ڈاکٹرعامر لیاقت...طلوع…ارشاد احمد عارف



کراچی سے اسلام آباد جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 308 کے مسافروں کے ساتھ ایئرپورٹ پر جو ہوا پاکستان کے عوام عرصہ دراز سے اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ ریاست کی دیکھ بھال پر مامور نااہل، کام چور، حرام خور اور عوام دشمن حکمرانوں کی لاپروائی، بے نیازی اور بے حسی کے سبب انجن خراب، مسافروں کادم گھٹ رہا ہے، آکسیجن کی کمی کے باوجود پینے کا پانی ناپید اور دروازے بند، بہت سے قریب المرگ مگر ریاست کے کاک پٹ پر قابض کپتان اور سینئر عملے کادعویٰ ہے کہ کچھ برا نہیں، سب ٹھیک ہے اورخرابی کی بات کرنے والے لاعلم، حاسد اورجمہوریت کے دشمن ہیں۔

میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے شیخ سعدی کاوہ تعویذ گھول کر پی رکھا ہے جوانہوں نے اپنے اوراپنے گدھے کی شب بسری کے لئے جگہ فراہم کرنے والے کسان کو دردِ زہ میں مبتلا بیوی کے لئے دیا تھاتاکہ وہ زچگی کے مراحل سے بحسن وخوبی عہدہ برا ہوسکے۔ تعویذ میں لکھا تھا ”مرا و خرِ مرا جا باید، زنِ دہقان زاید کہ نہ زاید (مجھے کہ میرے گدھے کو جگہ چاہئے میری بلا سے دیہاتی کی بیوی بچہ جنے نہ جنے) ہمارے ہر نوع اورنسل کے حکمرانوں کو اعلیٰ ایوانوں میں قدم جمانے، عرصہ اقتدار میں عیش و عشرت، نمودونمائش اور لوٹ کھسوٹ کاموقع ملنا چاہئے ان کی بلا سے قوم غربت و افلاس، بدامنی ا وربیروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرے،بھوک سے مرے، قاتل، ڈکیت،بھتہ خور، اغوابرائے تاوان کے مجرم، ٹارگٹ کلر ان کا رشتہ ٴ حیات منقطع کریں، انہیں پرواہ نہیں۔

کراچی کے حالات پر ان دنوں سب سے زیادہ تشویش ظاہر کی جارہی ہے کیونکہ کراچی کی بدامنی کے اثرات پورے ملک کی معیشت، سلامتی اور سیاست پر مرتب ہو رہے ہیں۔ کراچی اور بلوچستان کی صورتحال کی خرابی کے بہانے الیکشن کے طویل عرصہ تک التوا کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے اورایوان صدر کے علاوہ حکمرانوں سے قربت کے دعویدار بعض تجزیہ کاراس ضمن میں پیش پیش ہیں۔ کیا سچ ہے اور کیاجھوٹ کوئی نہیں جانتا؟ سرمایہ کاری کاعمل جامد، لوگ اپنے مستقبل سے مایوس اور نوجوان نسل آمادہٴ بغاوت ہے۔ مگرحکمران مطمئن ہیں کہ ہم نے پانچ سال پورے کرلئے۔ قوم کو اور کیاچاہئے؟ پانچ سال اور دے تو بتائیں گے کہ ہم مزید کیاکرسکتے ہیں۔

کراچی میں قیام امن کی مختلف تجاویز سامنے آرہی ہیں عمران خان اور میاں نوازشریف سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ صدر اور حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں فوجی کارروائی کا مطالبہ کررہی ہیں جبکہ سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے جزوی مارشل لا کا شوشہ چھوڑا ہے حالانکہ 12مئی 2007 کو بدترین بدامنی اور لاقانونیت پر سنگدل حکمران پھولے نہ سمایا تھا۔ گزشتہ روزدانشوروں سے تبادلہ خیال کیا۔ ایک محفل میں جیو گروپ کے مقبول اینکرپرسن مذہبی پروگرام کے ذریعے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے نوجوان دانشور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے کسی قسم کی فوجی کاررروائی اور مصنوعی قیادت ابھارنے کے عمل کوکراچی کے ساتھ زیادتی قراردیاکہ اس طرح حالات خراب کرنے والے ٹولے کو مظلومیت کا لبادہ اوڑھنے میں مدد ملے گی۔

ان کی رائے تھی کہ عسکریت پسندوں ، بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے علاوہ ان کے سیاسی سرپرستوں سے خوفزدہ کراچی کے عوام کو قومی قیادت کی طرح تحفظ کا احساس فراہم کئے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں۔ میاں نوازشریف، عمران خان، سید منور حسن، ایک ڈیڑھ ماہ کراچی میں ڈیرہ ڈالیں۔ مقامی قیادت کو فعال کریں۔ عوام بالخصوص حالات کے ستائے عوام سے براہ راست رابطہ کریں اور یہ یقین دہانی کرائیں کہ عام انتخابات میں آزادی سے حق رائے دہی استعمال کرنے کی صورت میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کوکوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا۔ ہمارے کارکنوں کی یہ کھیپ اورریاستی مشینری آپ کا تحفظ کرے گی۔ میاں نوازشریف بہتر پوزیشن میں ہیں کہ کراچی کے نوجوان اپنے بزرگوں کی جماعت مسلم لیگ میں آسودگی محسوس کریں گے۔ جبکہ ماضی کے بوجھ سے آزاد عمران خان کاجلسہ شاندار تھا اور نوجوان نسل ان پر فریفتہ ہے مگردونوں کو مقامی قیادت کی سوچ تبدیل کرنی ہوگی جو اب تک ڈلیور نہیں کرسکی۔ سید منور حسن کے لئے پیغام واحد ہے تاہم پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے خلاف بننے والا کسی قسم کا اتحاد نقصان دہ ہوگا۔ منفی پروپیگنڈے کا سبب اور ایجنسیوں کی کارروائی قرارپائے گا البتہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ مفید ہوگی اور بریلوی مکتب ِ فکر کا تعاون ثمر آور۔ دانشور عامر لیاقت کے تجزیے سے متفق تھے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے ایم کیو ایم کے گھاٹ کا پانی پیاہے۔ کراچی کیا پاکستان بھر میں مقبول ہیں گزشتہ روز سنٹرل کالج کی تقریب میں نوجوان نسل ان پر جس طرح صدقے واری جارہی تھی وہ چشم کشا تھا۔ اگر میاں نواز شریف اور عمران خان میں سے کوئی ان کے حقیقت پسندانہ تجزیئے، عوامی مقبولیت اور سامعین کومسحور کرنے کی خداداد نعمت سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلے توکراچی اور پاکستان کے نوجوان جھوم اٹھیں گے اور 2012 کے انتخابات تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ مگرکیا دونوں لیڈران کرام کے مقامی ساتھی اتنا ویژن اور ظرف رکھتے ہیں؟

پی کے 308کے کپتان کومسافروں کی فکرتھی اورجہازکی خرابی کا احساس اس لئے وہ ٹیک آف کے بجائے جہازکو واپس لے آیا مگرموجودہ انسان دشمن اور عوام بیزار نظام کے علمبرداروں ، محافظوں کامعاملہ مختلف ہے انہیں تو ساون کے اندھے کی طرح ہرطرف ہراہی ہرا نظر آتا ہے اور وہ اس بات پر خوش ہیں کہ غربت، بیروزگاری، بدامنی، قانون شکنی، بدانتظامی اور لوٹ کھسوٹ کے باوجود ریاست پاکستان سٹیٹس کو کے ساتھ قدم بقدم چلی جارہی ہے۔ کٹھارا بسوں کے عقبی حصے میں لکھے اس فرسودہ بے وزن شعر کی طرح نہ انجن کی خوبی، نہ کمال ڈرائیورچلی جارہی ہے خدا کے سہارے مگر تابکے؟ہم کب تک انگوروں کی بیلیں کیکر پر چڑھا کر ہر گچھے کو چھلنی کرتے رہیں گے۔
Irshad Ahmad Arif Column About Imran khan,Mian Nawaz Sharif and Dr Aamir Liaquat Hussain in Daily Jang Newspaper

http://www.facebook.com/aamirliaquat...pehchan?ref=hl
Official Website of Dr Aamir Liaquat Hussain

رولا رپا توازن کا ضامن ہے

رولا رپا توازن کا ضامن ہے
 
کل کی بات ہے بیغم بلا فل سٹپ بولے چلی جا رہی تھی اور میں اس کے حضور کھوگو بنے بیٹھا تھا۔ میں جانتا تھا ایک لفظ بھی میرے منہ سے نکلا تو دو چار گھنٹے بنے۔ مجھے ہمیشہ چپ کی چادر میں ہی پناہ ملی ہے۔ شوہر حضرات کو اکثر یہ جملہ سننے کو ملا ہو گا
" تم نے ساری عمر کیاہی کیا ہے‘ کون سے تم نے میرے ماتھے پر ٹیکے سجا دیے ہیں"
یہ جملہ پہلے بھی کوترسو بار سن چکا تھا۔ میں سقراط کا زہر سمجھ کر پی جاتا تھا۔ کل مجھے تاؤ آ گیا۔ کمال ہے وہ ساری عمر میں اس عرصہ کو بھی شمار کر رہی تھی جو میرے کنوار پن کا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں مجھے ابھی اور کتنا جینا ہے۔ ساری عمر میں تو یہ دونوں زمانے بھی آتے ہیں۔ جی میں آیا اس حوالہ سے بات کروں لیکن مجھے اس کے اس جملے نکمے تو ہو ہی اوپر سے حکایتں کرتے ہو کے تصور نے لرزا کر رکھ دیا۔ مجھے غصہ بڑا تھا جو میں ہر حال میں نکالنا چاہتا تھا۔ میں نے بڑی کڑک دار آواز جو کمرے کی دہلیز بھی پار نہ کر سکی‘ میں کہا کیوں خوامخواہ مغز چاٹ رہی ہو۔ اس کا جواب میری سوچ سے بھی بڑھ کر نکلا۔ کہنے لگی میں اپنے منہ سے بول رہی ہوں اس میں تمہارا کیا جاتا ہے۔
اس کی بات میں حد درجہ کی معقولیت تھی۔ ورزش تو اس کے دماغ اور منہ جس میں زبان اور جبڑے بھی شامل ہیں‘ ہو رہی۔ ہاں البتہ میرے کانوں کو زحمت ضرور تھی۔ دماغ کا خرچہ تب ہوتا جب میں اس کے کہے کو کوئ اہمیت دے رہا ہوتا۔ روز کی چخ چخ کو اہمیت دینا حماقت سے زیادہ نہیں۔
غصہ میں آ کر ڈھیٹ اور چکنا گھڑا تک کہہ جاتی ہے۔ میں دونوں کانوں سے کام لیتا ہوں یعنی ایک کان سے سنتا ہوں دوسرے کان سے نکال دیتا ہوں اور بس۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری لڑائ یک طرفہ رہتی ہے۔ معروف مقولہ ہے کہ رعایا ملک کے قدموں پر قدم رکھتی ہے۔ میں بھی اس ذیل میں حاکم کے قدموں پر قدم رکھنے والا ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنے گھر کے افراد کی پوری دیانتداری سے خدمت کرتا ہوں۔ چوک اسی معاملہ میں ہوتی ہے جو میری پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔ گھر والے یقین نہیں کرتے۔ ہر گھر والی اپنے شوہر کو اوباما کا سالا سمجھتی ہے جو ہر کچھ اس کی دسترس میں ہے۔ بہر طور دسترس سے باہر کام کے لیے مجھے دونوں کانوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ حکومت میں موجود لوگ دونوں کانوں سے کام نہیں لیتے۔ وہ کانوں میں روئ ٹھونس لیتے ہیں۔ لوگ جب سڑکوں پرآتے ہیں تو نظر آنے کے مطابق یہ سازش اور بغاوت کے مترادف ہوتا ہے اس لیے وہ اس رولے رپے کے لیے ڈنڈے کا استعمال فرض عین سمجھتے ہیں۔ لوگ اتنا بولتے اور لکھتے ہیں لیکن ان کی چال میں رائ بھر فرق نہیں آتا۔ رہ گئ تاریخ کی بات تو مورخ ان کا ہتھ بدھا گولا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں پیٹو مورخ جسے میں مورکھ کہتا ہوں‘ انہیں نبی سے دو چار انچ ہئ نیچے رہنے دے گا۔ لہذا آتے وقت سے کیا ڈرنا۔
 
رعایا اور حکومت ریاست کے دو اہم رکن ہیں۔ رعایا حکومت کو ٹیکس دیتی ہے اگر نہیں ادا کرتی تو حکومت کو خوب خوب وصولنا آتا ہے۔ ٹیکس کے عوضانے میں حکومت رعایا کو سہولتیں جن میں تعلیم اورعلاج معالجے کی سہولتیں شامل ہیں‘ فراہم کرتی ہے یہی نہیں انہیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکس وصولنا یاد رہتا ہے لیکن سہولتیں فراہم کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ میں ہر ابے یا شوہر کی پیروی میں مسیتے جا کر قسم کھانے کو تیار ہوں کہ گھر والوں سے ٹیڈی پیسہ ٹیکس وصول نہیں کرتا۔ اپنی مزدوری سے روٹی کپڑا مکان تعلیم علاج معالجہ وغیرہ دستیاب کرتا ہوں اس کے باوجود ڈھیٹ ایسے ثقیل کلمات سنتا ہوں۔ سن کر ہاتھ نہیں کھنچتا۔ میں یہ سب کرنا اپنا فرض جانتا ہوں۔
 
کل مجھے ایک پراءویٹ میسج موصول ہوا جس میں کراچی کی حالت زار کا تذکرہ تھا۔ پراءویٹ میسج پڑھ کر میرے ہاتھ پاؤں سے جان نکل گئ۔ پراءویٹ میسج میں ایک موثر اور منظم پارٹی کا ذکر تھا۔ لکھا تھا کہ ہر طبقہ کی عورت آبرو سے محروم ہو رہی ہے اور کوئ پوچھنے یا سننے والا موجود نہیں۔ ریاست کے اختیارات بے انتہا ہوتے ہیں۔ ریاست اپنے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہے۔ ادارے اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر ادارے کچھ بھی نہیں کرتے تو ان کے ہونے کا کوئ جواز نہیں بنتا۔ جب جنگل کا قانون چلنا ہے تو انھیں چلتا کرنا چاہیے اور ان پر اٹھنے والی خطیر رقم ہاؤسز اور اس کے مکینوں کی بہتری کے لیے خرچ ہونی چاہیے۔ ایک خیال یہ ہے کہ ادارے اپنے اور ہاؤسز کے لیے کماتے ہیں لہذا انہیں ختم کرنا ہاؤسز اور اس کے مکینوں کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف ہے۔ اس مخصوص گروہ یا ارٹی کو نکیل ڈالنا ہاوسز سے مرحومی کے مترادف ہے۔ گویا ان عنصر کو کھلی چھٹی دینا سیاسی مجبوری ہے۔ مجبوری کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ جن عورتوں کی عزت برباد ہوتی ہے کون سی ان کی اپنی ماءیں بہنیں ہوتی ہیں۔ دوسرا عورت کے ساتھ شادی کے بعد بھی یہی کچھ ہوتا ہے بلاشادی ہو رہا ہے تو کون سی قیامت ثوٹ رہی ہے۔ بس تھوڑا سا بے غیرت ہونے کی ضرورت ہے۔ بے غیرتی بھی کیسی۔ یہ ترقی پسندی کی علامت ہے۔ بہت سے علاقے موجود ہیں جہاں باپ کا تصور ہی نہیں۔ ان کے ہاں کوئ رولا نہیں تو ہمارے ہاں قدامت پسندی سے کام لیا جا رہا۔ ہمیں ہاؤسز کی سیاسی مجبوری دیکھتے ہوءے بے غیرت ہو جانا چاہیے۔عوام کا رولا اور بے بس سسکیاں قطعی ناجاءز اور باؤسز کے خلاف کھلی سازش ہے۔
گھر کی کرسی میرے پاس ہے رولے رپے کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا میری مالی مجبوری ہے۔ غنڈہ عناصر کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا ہاؤسز کی سیاسی مجبوری ہے۔ اس کا اس سے بہتر اور کوئ حل نہیں کہ بیغم بولتی رہے اور میں کام سے کام رکھوں۔ اس کے بولنے سے اس کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔ بےعزتی کرکےاس کی انا کو تسکین ملتی ہے اور وہ خود کو ونر سمجھتی ہے جبکہ میں اپنا پرنالہ آنے والی جگہ پر رکھتا ہوں۔ رولا ڈالنے اور برداشت کرنے سے بدامنی پیدا نہیں ہوتی بلکہ توازن کا رستہ ہموار ہوتا ہے۔