Friday, November 16, 2012

وزیر صاحب یہی وقت ہے

 
 
 
اسلام علیکم ایک خبر آپ کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں۔پنجاب کے وزیر اعلی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ ملک کے لئے اپنے اثاثے بیچ دیں گے۔ پتہ نہیں ان کے خیال میں ملک پر اس سے مشکل وقت کب آئے گا۔ اس وقت ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ لوگ حالات سے تنگ آ کر خود کشیاں کر رہے ہیں ۔اور ایک اور خبر تھی کہ کچھ لوگ بھوک سے تنگ آ کر اپنی اولادیں تک فروخت کرنا چاھتے ہیں۔میری وزیر موصوف سے درخواست ہے کہ یہی وقت ہے کہ پاکستان کے عوام اور ملک بہت مشکل میں ہیں ۔آپ نے تو اندرون اور بیرون ملک بہت کچھ اکٹھا کیا ہوا ہے اور ملک اس وقت ایک پہاڑ جیسے قرضے کے نیچے دبا ہوا ہے۔صرف آپ نہیں ملک کے سب لیڈر حضرات کو سوچنا چاھیے اور وقت آپ کے ہاتھ میں ہے ۔اگر مشرق وسطی جیسے حالات پیدا ہو گے تو یہ اقتدار اور اثاثے ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔

زمیں تھک گئی ہے لہو پیتے پیتے

Name:  zameen thak gayee.jpg
Views: 128
Size:  94.1 KB

America k Sath dosti......

 

٭ ٭ ٭ثوبيا كى كهانى ٭ ٭ ٭

Name:  s1.gif
Views: 1229
Size:  74.1 KB

Name:  s2.gif
Views: 1223
Size:  90.0 KB

16 Qadyanio Nay Islam Qabool Kar Liya.

 

سچ جو بولنا مشکل ہے

   

خواتین کا جلسہ یا میوزیکل پروگرام؟

گزشتہ اتوارکو متحدہ قومی موومنٹ نے خواتین کی طاقت کا مظاہرہ کیا اور مزار قائد کے پاس ایک بڑے جلسہ کا اہتمام کیا جس میں قائد تحریک جناب الطاف حسین کے دعوے کے مطابق 10 لاکھ خواتین نے شرکت کی۔ بلاشبہ صرف خواتین کا اتنا بڑا اجتماع پہلے دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ہی ماوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کا اتنے بڑے پیمانے پر رقص کرنے اور تھرکنے کا منظرنظرسے گزرا۔ لیکن شاید یہی لبرل کلچرہے۔ خود متحدہ کے قائد بھی مختلف فلمی گانے گاکرخواتین کو محظوظ کرتے رہے۔ جناب بابرغوری ڈھولک بجاتے رہے۔ ہرایک نے اپنے اپنے فن کا کھل کر مظاہرہ کیا۔ محترمہ نسرین جلیل جیسی شائستہ اور باوقارخاتون بھی رقص کناں تھیں۔ ایسا لگ رہاتھا جیسے یہ کوئی سنجیدہ پروگرام نہیں میوزیکل پروگرام ہے۔ اوریہ سب کچھ ربیع الاول کے مقدس مہینے میں ہوا۔ مغرب کی اذان پربھی الطاف حسین کا خطاب نہیں رکا‘ خواتین نے سرڈھانپ کر اذان کے احترام کا مظاہرہ کیا اورمنتظررہیں کہ شاید ان کے قائد بھی اپنا گانا اورتقریرروک دیں۔ اتنا احترام تو پیپلزپارٹی کی لبرل رہنما محترمہ بے نظیرنے بھی وزیراعظم ہوتے ہوئے کرلیاتھا اور ”اذان بج رہاہے“ کہہ کر اپنی تقریرروک دی تھی۔ ایسا لگتاہے متحدہ قومی موومنٹ یہ ”بالی ووڈ“ کلچر پورے ملک پر مسلط کرنے چلی ہے‘ کراچی میں تو اس کا مظاہرہ سب ہی نے دیکھ لیاہے۔ حیرت تو ہمیں اپنی عزت مآب خواتین پرہے۔ ان کو علم تھا کہ یہ ناچ‘ گانا کیمروں کے ذریعے تمام ٹی وی چینلزپردکھایاجارہاہے۔ اب ایسے میں اسلام کے احکامات کا کیا ذکرکیاجائے کہ وہ خود بھی واقف ہوں گی۔ لیکن اب متحدہ کے قائد کی نام نہاد فکر اور فلسفہ بہت سے لوگوں کا مذہب اور عقیدہ بن چکاہے۔ جب ایسا ہوجائے تو پھرکوئی معقول بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ زمانہ جاہلیت میں خواتین اپنی نمائش کیاکرتی تھیں اور اسی کو روکنے کے لیے بادی برحق کے ذریعہ احکامات نازل کیے گئے تھے کہ خواتین اپنی نمائش کرنے کے بجائے گھروں میں ٹک کربیٹھی رہیں۔ عورت کو برابری کے حقوق دینے اور مرد کے مساوی سمجھنے کا نعرہ مغرب کے مرد نے لگایا تھا محض عورت کو بے وقوف بنانے اور حقوق کے نام پر اس سے کارخانوں اور دفاترمیںکام لینے کے لیے۔ اب مغرب کی عورت بچے بھی پال رہی ہے اورگھرکے باہرکام بھی کررہی ہے۔ یہی کچھ پاکستان میں بھی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ”بااختیارعورت‘ مضبوط پاکستان“ کا گمراہ کن نعرہ لگایاجارہاہے۔ الطاف حسین کہتے ہیں کہ ہرشعبہ میں خواتین کو بااختیار بنایاجائے گا‘ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں گی اور انہیں مردوں کے برابرحقوق ملیں گے۔ خواتین 52 فیصد ہیں انہیں کم ازکم 50 فیصد حصہ دیاجائے۔ اس سے لگتاہے کہ وہ جائداد میں بھی خواتین کے نصف حصے کے قائل ہیں۔ ممکن ہے کہ انہوں نے وراثت کے اسلامی قوانین نہ پڑھے ہوں اور صرف برطانوی قانون ہی نظرمیں ہو‘ ایسا ہے تو بہترہوگا کہ اورکچھ نہیں تو قرآن کریم کا ترجمہ ہی پڑھ لیں۔ لیکن اس میں تو مرد کو عورت پر”قوام“ بھی بنایاگیا ہے اور کہیں نہیں کہاگیا کہ عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرے اور عورت کو بااختیار بنانے ہی سے ایک مسلم ملک مضبوط ہوسکتاہے۔ لیکن یہ باتیں لبرلزکی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ پھر اس ”کلچر“ میں جو ہلّہ گلّہ ہے اس کی اپنی دلکشی ہے۔ ایسے میں یہ کون یاد رکھتاہے کہ مسلمان عورتوں اور مردوں سے اسلام کیا تقاضہ کرتاہے۔ قوم ابھی تو ویلنٹائن ڈے مناکربیٹھی ہے۔ بہرحال جناب الطاف حسین کو داد دینی چاہیے کہ جس عورت کو گھرمیں بیٹھنے کی ہدایت کی گئی اسے وہ میدان میں لے آئے۔ محترم نے اپنے کارنامے بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ ”خیبرپختونخوا میں ایک معصوم بچی کو کوڑے مارنے کے خلاف ایم کیو ایم نے احتجاجی ریلی نکالی“ ۔یقیناً ایسا ہی ہوا لیکن کیا ان تک ابھی یہ حقیقت نہیں پہنچی کہ سوات میں ایک بچی کو کوڑے مارنا محض ایک ڈراما تھا اور اس ڈرامے کو اسٹیج کرنے والی خاتون ملک سے فرارہوچکی ہیں۔ الطاف حسین کوچاہیے تھا کہ اس انکشاف کے بعد ایک اور ریلی نکالتے اورجعلی وڈیو پھیلانے والوں کے خلاف سزاکا مطالبہ کرتے لیکن انہیں تو اب تک حقائق کا علم ہی نہیں ہوا ورنہ وہ مذکورہ ریلی کو اپنے کارناموں میں شمارنہ کرتے۔ ویسے تو انہوں نے اور بھی کئی ریلیاں نکالی ہیں۔ جناب الطاف حسین نے مظلوم بلوچ عوام کے لیے آواز بلندکی ہے۔ یہ وقت کا تقاضہ ہے لیکن جناب الطاف حسین کو یاد ہوگاکہ انہوں نے بلوچستان کے مسئلہ پر 24 گھنٹے کے اندر اندر حکومتوں سے نکلنے کا اعلان کیا تھا کئی برس گزرنے کے بعد یہ 24 گھنٹے پورے نہیں ہوئے۔ پاکستان میں خواتین کے ساتھ جو زیادتیاں ہورہی ہیں وہ بے شک تشویشناک ہیں لیکن اس کی وجہ لاقانونیت ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ جیسی بڑی جماعت کو چاہیے کہ جہاں بھی کسی مظلوم عورت پرظلم ہو وہ اس کی اعانت کرے‘ اسے قانونی مدد فراہم کرے اور ظالم کو کیفرکردارتک پہنچائے۔ صرف تقریریں کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ عملیت پسندی کی فکر اور فلسفہ کا عملاً اطلاق بھی ہونا چاہیے۔ بلوچستان کی ڈاکٹرشازیہ اور ان کے شوہرکو بیرون ملک بھجوایا‘ بہت اچھا کیا لیکن کیا اس خاتون سے زیادتی کرنے والوں کوبھی سزادلوائی جبکہ متحدہ تو اس وقت بھی جنرل پرویزکی حکومت میں تھی۔ یہ توعملیت پسندی نہیں ہے۔ اب یہ فیصلہ خود مسلمان خواتین کو کرناچاہیے کہ کیا انہیں اسلامی قوانین قبول ہیں‘ خدیجہ ؓ‘ عائشہؓ اورفاطمہؓ کی تقلیدکرنی ہے یا نام نہاد فکروفلسفہ اور لبرل ازم کی اطاعت کرنی ہے۔ پاکستان کی مسلمان عورت مردوں سے زیادہ دین دارہوتی ہے اوراگر وہی جھانسے میں آگئی تو نئی نسل محض گانے بجانے اور تھرکنے ‘مٹکنے کی شیدائی ہوگی۔ مسلمان دشمن چاہتے بھی یہی ہیں کہ یہ عالمی ایجنڈا ہے

International Media aur Pakistani documentary.

 

موجودہ دور میں انگریزی زبان کی اہمیت

Name:  sachai_01[1][1].gif
Views: 275
Size:  38.7 KB

Name:  sachai_02[1][1].gif
Views: 274
Size:  42.4 KB

Name:  sachai_03[1][1].gif
Views: 273
Size:  10.0 KB

Thursday, November 15, 2012

پاکستان میں انصاف کی صورت حال

 

Mullah Ki Ahmiat or Kirdaar ملا کی اہمیت اور کردار

 

پسند کی شادی! ایک خوشی یا ہمیشہ کا دکھھ

  

عقلمند کون ؟؟؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ
ایک کمپنی ایک زبردست مشین ایجاد کرتی ہے ۔۔۔۔۔ اور اس مشین کے ساتھ ایک کتاب بھی جاری کرتی ہے ۔۔۔جس میں مشین کی دیکھ بھال اور بہتر استعمال کے طریقہ کار کی ہدایات ہوتیں ہیں
پھر یہ کمپنی اپنی مشین ایک ایسی کمپنی کو بھیج دیتی ہے جہاں اس مشین سے اس کمپنی کا نظام چلتا ہے
لیکن جب یہ مشین اس کمپنی میں آجاتی ہے تو اس کمپنی میں موجود چند لوگ کمپنی کی دی گئی ہدایت کو نظر انداز کرکے اپنی اپنی رائے سے اس مشین کو چلانے کے طریقہ کار اور مشین کے اندرونی اور بیرونی نظام میں دخل اندازی کرتے ہیں کہ اس مشین کی بہتری کے لئے فلاں فلاں بٹن دبائیں تو مشین کا فلاں سسٹم کام کرنے لگے گا ۔۔فلاں نٹ کھول دیںتو مشین زیادہ بہتر کام کرے گی ۔۔۔فلاں آئل ڈال دیں تو زیادہ تیز چلے گی وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اور بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ یہ اپنی رائے سے ہدایت دینے والے لوگ اس مشین کے ماہرین میں سے تھے ۔۔۔۔بلکہ یہ لوگ تو مشین کی ابجد سے بھی واقف نہ تھے ۔۔۔یوں سمجھ لیں کہ یہ لوگ اس کمپنی کے مقابلے میں ایسے چھوٹے بچہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے تھے جو بچہ ابھی صحیح سے بولنا بھی نہ سیکھا ہو اور اپنی مادری زبان کے ماہرین کو چیلنج کردے
تو آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ ایک قیمتی مشین میں ایسے لوگوں کی یوں بنا کچھ جانے دخل اندازی سے مشین کی کارکردگی بہتر ہوگی یا مشین کا بیڑہ غرق ہوگا؟؟؟
یقینا جس کی عقل میں ذرہ برابر بھی سوجھ بوجھ ہوگی اُس کا سوائے یہ کہنے کے اور کچھ نہ ہوگا کہ "اس طرح مشین کا ایسا بیڑا غرق ہوگا کہ شاید مشین دوبارہ کام کے قابل بھی نہ رہےلیکن بہت عجیب بات یہ ہے کہ اس دنیا کی بہت بڑی اکثریت دنیا کی سب سے قیمتی مشین کےلئے اسی فارمولے پر عمل پیرا ہے
اور وہ دنیا کی سب سے قیمتی مشین ہے انسان
اور دنیا کی اس سب سے قیمتی مشین کا خالق ہے رب کائنات۔۔۔۔۔جس نے انسان کی تخلیق کی ۔۔۔۔ اور جس نے اس کائنات کی تخلیق کی ۔۔۔۔اور پھر اس اپنے تخلیق کردہ انسان کو اپنے تخلیق کردہ کائنات میں بھیجا ۔۔۔۔ اور پھراس خالق کائنات نے اس مشین کے لئے ہدایات جاری فرمائیں ۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد جب کہ خالق کائنات اور خالق انسان جو نہ صرف کائنات کے مزاج سے بخوبی واقف ہے بلکہ اس کائنات میں رہنے والے انسان کی سوچ سے،اس کی فطرت سے،اس کے مزاج سے حتی کہ انسان کی رگ رگ سے بخوبی واقف ہے کہ اس انسان کی بہتر زندگی کے لئے کیا کیا چیزیں درکار ہیں اور کون سی چیزیں انسان کے لئے نقصان کا باعث بنیں گی اور کون کون سے عوامل اس انسان کے لئے (جسمانی روحانی اور معاشرتی بلکہ ہر اعتبار سے)فائدہ مند ہیں
تو اس کے بعد جب ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ ہم سب کا خالق ایک اللہ ہی ہے
اور جب ہمیں یہ بھی تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ خالق سے بہتر مخلوق کے مسائل کو کوئی نہیں جان سکتا
اور ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ کسی مشین کے ایجاد کرنے والے کی ہدایات کو چھوڑ کر کسی جاہل کی ہدایات پر عمل کرنے سے سوائے مشین کی تباہی اور بربادی کے کچھ حاصل نہیں

تو پھر ہم لوگ اپنی زندگیوں میں ۔۔۔۔۔ اور معاشرے میں ۔۔۔۔۔ اپنے ملک میں ۔۔۔۔۔ خالق کائنات کی دی گئی ہدایات کو چھوڑ کر ناقص انسانی عقل(یعنی مغربی ممالک) کے بنائے گئے نظام (جمہوریت اور برٹش لاء وغیرہ) میں اپنی کامیابیوں کو کیوں ڈھونڈرہے ہیں ؟؟؟
ہم نے کیوں اپنے ملک میں جاہلوں کی عقل سے بنائے نظام کو اپنایا ہوا ہے
کیا ہمیں اتنی تباہی اور بربادی دیکھ کر بھی یہ احساس نہیں ہوتا ہے ہماری اصل غلطی کہاں ہے ؟؟؟
سوچیے اور غور کیجیے
عقلمند کون ہے ؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین