""خدا کے واسطےمجھے تبدیلی ںہیں چائیے""
مجھے وہ پرانا پاکستان چائیے
جہاں محبت بستی تھی۔
جہاں محلے میں ایک گھر میں ٹی وی ہوا کرتا تھا اور اتوار کو پورا محلہ اس گھر میں جا کر فلم دیکھا کرتا تھا۔
جہاں محلے کا فریج سارے محلے کے مہمانوں کو ٹھنڈا پانی مہیا کیا کرتا تھا۔
جہاں محلے کی ایک گاڑی پورے محلے کی ایمبولینس بھی ہوا کرتی تھی۔
جہاں کسی بھی بزرگ کے سامنے چھوٹے پان یا سگریٹ استعمال نہیں کیا کرتے تھے۔
جہاں نوجوان بس میں کسی بوڑھے کو کھڑا دیکھ کر جگہ دے دیا کرتے تھے۔
جہاں بیرون ملک جانے والے کسی جوان کو پورا محلہ ائیر پورٹ چھوڑنے جایا کرتا تھا۔
جہاں کسی کے گھر زیادہ مہمان آ جاتے تو پڑوسی اپنا کمرہ پیش کر دیتے تھے۔
جہاں اسلام کے نام پر قتل نہیں ہوا کرتے تھے۔
جہاں اسلام کے نام پر دہشتگردی نہیں ہوا کرتی تھی۔
جہاں اسلام کے نام پر خود کش حملے نہیں ہوا کرتے تھے۔
جہاں ایک دوسرے کو کافر نہیں کہا جاتا تھا۔
خدا کےلئے مجھے میرا پاکستان واپس کر دو، مجھے تبدیلی نہیں چائیے۔
مجھے تبدیل نہیں ہونا
خدا کےلئے۔
Latest News & Updates | Latest Pakistani Showbiz News | Latest News regarding Pakistani Legends & Celebrities, Latest Dramas and Actors.
Friday, October 11, 2013
جمہوریت تشکیل پاکستان اور جمہور کی خواہش
اس میں کوئ شک نہیں كہ پاكستان اسلام كے نام پر بنا تھا یہ الگ بات ہے كہ بنانے والوں كی نیت پاكستان كا مطلب كیا لا الہ الا اللہ كے نعرے كوحقیقت كے طورپر استعمال كرنا تھا یا مسلمانوں كے جذبات كو اپنے گندے ذاتی مقاصد كے لئے استعمال كرنا تھا لیكن غریب بھولے بھالے مسلمان اس سے مراد یہ ہی لے رہے تھے كہ ساری جدوجہد اسلام كے سنہری نظام كے لئے كی جا رہی ہے ۔ملك بن جانے كے بعد لاكھوں شھدا كے خون سے غداری كركے جس طرح اسلام، اسلامی اقدار اور انسانیت كا خون كیا گیا۔ اقتدار كی ہوس اور پیسے كے لالچ میں مسلمان نے مسلمان بھائی كا بے دریغ استحصال كیا اور نوبت یہاں تك پہنچ گئی كہ وطن عزیز دو لخت ہو گیا ۔ بھائی بھائی كے خون كا پیاسا ہو گیا یہ ظاہر كرتا ہے كہ شروع ہی سے ان كی نیت نیك نہیں تھی ۔ آج صورت حال یہ ہے كہ ٱج دنیا میں پاكستان كا مقام دیكھ كر درد مند دل خون كے آنسو روتا ہے ۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو كر
اور ہم خوار ہوئے تارك قران ہو كر
شکریہ بیٹا آپ نے توجہ فرمائ۔ الله آپ کو شاد و شاداب رکھے۔ حصول پاکستان کے لیے جو شہید ہوءے بےگھر ہوءے بچوں کی شہادت بیماری بےکسی بےبسی عورتوں کی عزت کی پامالی وغیرہ کا صدمہ برداشت کیا ان کے ایک ایک دکھ ایک ایک صدمے ایک ایک پریشانی کو ہزاروں نہیں لاکھوں سلام۔ ہم کیا دے سکتے ہیں الله کے پاس ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ وہ انگریز اور اس کے بدنیت خودغرض ناہنجار اور منافق گماشتوں کی چال کو نہ سمجھ سکے۔ بیڑا غرق اور جہنم ٹھکانہ ہو پیٹو مورخ کا جس نے انہیں نبوت کے درجے سے دو چار انچ ہی نیچے رکھا ہے۔ اصل ہیروز تاریخ کا حصہ نہ بن سکے۔ پاکستان کی تشکیل کے دو حوالے/ دو کاز ٹھہرتے ہیں ایک مسلمانان ہند کا دوسرا گورا دوست اہل سیاست کا۔ گورا دوست اہل سیاست کل بھی غالب تھے آج بھی غالب ہیں۔ کل برطانیہ کے آج وہ امریکہ کے گماشتے ہیں۔ امریکہ امداد لوگوں کے نام پر دیتا ہے لیکن ہڑپ یہ کر جاتے ہیں۔ ملکی اور عوامی خون پی لینے کے بعد بھی ان کی ہوس کم نہیں ہوئ۔ وہ برطانیہ میڈ وامپاءر تھے یہ امریکہ میڈ وامپاءر ہیں۔ انصاف کل پرسوں ہی آزاد ہوا ہے وگرنہ یہ بھی ان وامپاءز کے دانت قریب رہا ہے۔
جمہوریت بھی تو امریکی لنکنیان ہے۔ اس کا بنیادی نعرہ تو دیکھیں
عوام کی حکومت
عوام کےلیے
عوام کے ذریعے
حالانکہ حکومت تو صرف اور صرف الله کی ہے۔ الله کی حکومت تو قرآن و سنت کے حوالہ سے قاءم ہو سکتی ہے۔ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اس جموریت نے کہاں تک عوام کی حکومت قاءم کی ہے۔ عوام تو روڑا کوڑا بھی نہیں رہے جو فصلوں کے کام ہی آ سکیں۔ غور کر لیں کماتےعوام ہیں ملک عوام کا ہے وساءل عوام کے ہیں۔ یہ عوام بد نصیب نہیں ہیں الله نے انہیں اس خطہ کے حوالہ سے بہت کچھ عطا کیا ہے لیکن لوٹ وہ رہے ہیں جن کا پہلے خدا برطانیہ تھا اب امریکہ ہے۔ وکیل قاتل کا بھی ہے مقتول کا بھی۔ قاتل کیوں نہیں تسلیم کرتا کہ میں قاتل ہوں۔ تقوی اور پریزگاری طاغوتی نظام ہا میسر نہیں کر سکتے یہ قرآن اور سنت ہی سے دل وجان میں جگہ پا سکتا ہے۔ امریکی خدا کے پیرو لوٹ مار کے بعد پاکستان جو ان کا ملک ہی نہیں‘ فرار ہوتے رہے ہیں' ہوتے رہیں گے ۔یہی آج کا کڑوا سچ ہے۔ جمہوریت کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں۔ کس پارلیمنٹ کی بات کرتے ہیں اس نے عوام کے لیے کب کبھی کوئ قانون بنایا ہے وہ تو اپنے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے کام کرتی آئ ہے اور یہی کچھ کرتی رہے گی۔ خدا انسان اور عوام دشمن قوتوں کو جمہوری پارلیمنٹ استثناء کی لعنت سے نوازتی رہے گی۔ بھری محفل تو دور کی بات‘ کوئ تنہائ میں بھی سوال کرنے کی جرات نہ کر سکے گا۔ مقتدرہ قوت شدادی و نمرودی شکتیوں سے سرفراز رہے گی۔ اس کے کیے اور کہے کو آءینی حق کا درجہ حاصل رہے گا۔ بزرگوں نے جس کاز کے لیے خون دیا تھا وہ موجودہ انداز واطوار سے حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اہل سیاست نے جن مقاصد کے لیے عوام کے خون سے ہولی کھیلی تھی وہ اس میں روز اول سے کامیاب ہیں۔ عوام اگر اپنے ابا واجداد کے مقاصد سے دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں ایک بار پھر آگ و خون کا دریا عبور کرنا ہو گا اگر نہیں تو موجودہ حالات پر گزرا کریں۔
باہوش بے ہوش‘ ملک دوست ملک دشمن‘ دیس بھگت غدار‘ ایماندار بے ایمان‘ امانت دار امانت خور‘ شریف بدمعاش کے ووٹ کی قیمت برابر ہے۔ بے جیبا باجیبا‘ دونوں الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں لیکن بےجیبا تو سیکورٹی فیس بھی ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اگر وہ بھی لوٹ مار ہیرا پھیری کو دھرم رکھتا تو بے جیبا نہ ہوتا۔ الیکشن لاکھوں کا نہیں‘ کروڑوں کا کھیل ہے۔ پیسے والے شرفاء شمار ہوتے ہیں لہذا یہ شرفاء کا شوق سمجھا جاتا ہے۔ بے جیبا اس سے دور رہتا ہے۔ وہ چار پانچ لمبی عمروں میں بھی دھنوان نہیں ہو سکتا۔ اگر اس کے باپ دادا بلکہ دادا پردادا غداری کرتے اور گورا حضور کے تلولے چاٹتے زیر ناف مردانہ آلات سہلاتے تو آج شرفا کی صف میں سر تان کر کھڑے ہوتے۔ اسٹیج پر کھڑے ہو کر لمبی لمبی چھوڑتے۔ منہ سے بھوک کا ناٹک کرتے لیکن تھلا اٹھا کر براءلر کی بو چھوڑتے۔ گویا یہ کھیل صرف اور صرف شرفا کا ہے۔ یہ شرفا خادم نہیں حاکم ہوتے ہیں۔۔
پڑھے لکھے اور اہل دانش کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ تو الیکشن ڈیوٹی پر پھاہے لگے ہوتے ہیں۔ انہیں الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہوتا ہاں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ حق ڈبے اور تھیلا اٹھائ کی نذر ہو جاتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آج تک بالا و زیرین عدالتوں کے ججز اساتذہ۔ معالجین‘ پولیس‘ رینجرز فوج کے بالا اور زیرین اہل کاروں اور منشی ہاؤس کے بڑے چھوٹے ملازمین کے ووٹ ڈالنے کا تناسب کیا رہا ہے؟ یقینا وہ اس ملک کے شہری ہوتے ہیں یا انہیں بھی شہری سمجھا جاتا ہے۔ درس گاہیں مقدس ہوتی ہیں انہیں شرفاء کے چناؤ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ناصرف معالج الیکشن ڈیوٹی پر بندھے ہوتے ہیں معالج گاہیں بھی اس طاغوتی عمل کا حصہ بنا لی جاتی ہیں۔ یہ فراڈ گویا انسانی زندگی سے بڑھ کر ضروری ہوتا ہے۔
کوئ سوال کرے آج تک کاسٹ ہونے والے ووٹس کا کیا تناسب رہا۔ جیتنے والے نے اپنے حلقہ کے کل ووٹس میں سے کتنے ووٹس حاصل کیے۔ اگر کوئ پوری ایمانداری سے حقاءق سامنے لے آءے تو اس لنکن ساختہ جمہوریت کی قلعی کھل کر سامنے آجاءے گی۔ میں کوئ نجومی نہیں اور ناہی علم جعفر سے میرا کبھی علاقہ رہا ہے طہارتی عمل کے باوجود کچھ نہیں ہو سکے گا۔ جمہور نے پاکستان کی تخلیق قرآن وسنت کی عمل داری سمجھا تھا۔ جمہوریت یہی ہو گی کہ عوام کی اس دیرانہ خواہش کو عملی شکل دے دی جاءے یا پھر جمہوریت کے نام نہاد نعرے کو شرفا کا چونچلا سمجھا جاءے۔
Aamir Liaquat Hussain Column "Had Guzarnay kay Bad Fahad ki Darkhast" published in Daily Jang Newspaper
حد گزرنے کے بعد فہدکی درخواست!...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
وہ آٹھویں جماعت کا ایک کم سن طالب علم ہے ،اُس کی آنکھوں نے ابھی مسرتوں کے دل خوش کن نظاروں کو اوجِ شباب پر نہیں دیکھا ہے ،وہ عمر کے زینے کی جس سیڑھی پر اِس وقت کھڑاہے وہاں سے اونچائی بہت دور ہے،ایک طویل اور تھکادینے والا سفر اُسکے انتظار میں ہے سچ تو یہ ہے کہ اُسے زندگی کے معنیٰ بھی صحیح طرح نہیں معلوم بس گھر سے اسکول جانا ،ہمجولیوں میں گھل مل کر علم حاصل کرنا،پھر کچھ خواہشیں،کچھ فرمائشیں اورمعصوم شرارتیں گھر آکر اماں، ابا سے لاڈ کرنا، بہن بھائیوں سے ناز نخرے اُٹھوانا اِس کے سوا زیست کے اور دوسرے رنگوں سے اِس کی پہچان ہی کہاں ہوئی ہے ؟ٹی وی،پی ایس پی،ویڈیو گیمز اور کبھی کبھار گھر والوں کے ساتھ کسی تفریحی مقام کی سیریا فلم دیکھنے کیلئے چلے جانا،یہی اِس کی کل کائنات ہے یہ دیگر بچوں کی طرح روٹھتا بھی ہے اور منائے جانے پر مان بھی جاتا ہے ، سب کی طرح اِس کی آرزو بھی یہی ہے کہ دن امن وچین میں گزریں اور راتیں خوش حالی میں بسر ہوں، دوسری کونپلوں کی طرح اِسے بھی یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ شام تک اُس کے ابا جان سلامت گھر آجائیں گے نا!کوئی ٹارگٹ کِلر، لٹیرا، بھتہ خور، دہشت گرد اور اغواکار اُن کا شکار تو نہیں کرے گا نا!کیونکہ اُسے بھی اپنے ابا سے بہت پیار ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ابا کی ڈانٹ سے اُسے کوئی محروم نہ کرے وہ ایک ایسے حساس دل کا مالک ہے جس میں احساس کی نہ ختم ہونے والی کانیں ہیں، اِتنی سی عمر میں دوسروں کی فکر اور اُن کے دکھوں کے خیال نے اُسے وقت سے پہلے ہی بوڑھا کردیا ہے اب اُسے کھلونوں کی نہیں بلکہ کھلے ہوئے چہروں کی ضرورت ہے ،انعام کی نہیں،امان کی چاہ ہے وہ واقعی ”بچپن کی ضد “ یعنی ”بڑھاپا“ بن چکا ہے ،منتخب اراکین اسمبلی سے بہتر سوچتاہے ،وزراء سے زیادہ محبِ وطن ہے اور افواجِ پاکستان سے بڑھ کر قربانی کا جذبہ رکھتاہے۔
یہ ہے کون؟ آٹھویں جماعت کا ایک ایسا ہونہار طالبعلم جس نے اپنے تئیں تو ایوانِ اقتدار کے درودیوار ہلا دیئے ہیں لیکن کیا کیجئے کہ وہاں کے مکین فطری طور پر زلزلوں کے پشتی عادی ہیں، وہ تو پوری قوم کو ہی ”آفٹر شاکس“ قرار دیتے ہوئے احتجاج و چیخ پکار پر کان دھرنا تو درکنار،نظر بھر کے دیکھنا بھی اپنی شان کے برخلاف سمجھتے ہیں ایسے میں پریس کلب کے باہر ایک بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود فہد امجد کی بھوک پیاس سے اُنہیں کیا لینا دینا؟یہ تو خود مدتوں سے ایسے بھوکے پیاسے ہیں کہ عوامی توقعات کی ہانڈی میں کل ہی بجٹ کا کفگیر ڈال کر اپنی اپنی پلیٹیں بھرلینے کے باوجود ہم سے مزید نوالوں کے متمنی ہیں فہد امجد اگلے پانچ برس تک بھی یوں ہی بیٹھا رہے اِن معروفوں اور مصروفوں کو کوئی فرق نہیں پڑتااور پھر فہد امجد کا مطالبہ بھی تو اقتدار کے کلیجے کو جلا بھنا دینے کیلئے کافی ہے کیاضرورت تھی اِس غریب وطن پرست کو ملک کے ”عجیب صدر“ اور ”نویلے وزیراعظم“ سے یہ التجا کرنے کی کہ ”زرداری انکل! اور نواز شریف انکل! میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ نے چاہا تو میری عمر اتنی زیادہ تو ہوگی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جگہ اُن کی سزا میں پوری کر لوں لہٰذا آپ صرف اتنا کر دیجئے کہ اوباما صاحب سے کہہ کر مجھے ڈاکٹر عافیہ کی جگہ بھجوا دیجئے اور اُنہیں بتا دیجئے کہ عافیہ صدیقی کی باقی سزا پوری کرنے کے لئے میں دل سے تیار ہوں نوازشریف انکل! اگر امریکہ کو ڈاکٹر عافیہ کے بدلے میں کوئی قیدی درکار ہے تو آپ پلیز مجھے امریکہ کے حوالے کر کے ڈاکٹر عافیہ کو جلد از جلد پاکستان واپس لانے کا انتظام کیجئے“۔
بھلا بتائیے ہے کوئی تُک؟کن لوگوں سے کیا مانگ بیٹھاہے ہمارا فہدجو قوم کو ملک میں موجود بجلی نہیں دے سکے وہ امریکہ میں مقید عافیہ کہاں سے لائیں گے ؟مگر بچہ بھی کیا کرے بے چارہ انتخابی تقاریر اور وعدوں کو سچ سمجھ بیٹھا، شاید اُسے سارے لیڈر اپنے ٹیچرز کی طرح لگتے ہوں گے اور جب ہی اُس نے سوچ لیا ہوگاکہ پاکستان ایک کلاس روم کی طرح ہے ،عوام اسٹوڈنٹس اور لیڈرز ٹیچرزجس طرح ٹیچرز وہی پڑھاتے اور سمجھاتے ہیں جو کتابوں میں لکھا ہوتا ہے اِسی طرح لیڈرز بھی وہی کہتے ہیں جو وہ ہمارے لئے کرنا چاہتے ہیں…اور اِسی اُمید پر وہ صدر صاحب سے چاند مانگ بیٹھا…ابھی بچہ ہے نا اِسی لئے یہ بات عقل میں نہیں سما سکی کہ اگرخدانخواستہ چاند”اُن“ کی دسترس میں ہوتا تو آسمان میں نہ ہوتا بلکہ سوئس بینک کے کسی اکاؤنٹ میں کبھی پورا ہوتااور کبھی آدھا…لیکن ہوتا محفوظ…کیونکہ اُسے کبھی گرہن نہیں لگتا…فہد ابھی چھوٹا ہے لیکن اُس نے اپنے جذبے کے اظہار سے کئی بڑوں کو لمحے بھر میں چھوٹا کردکھایاکہتے ہیں کہ اسمبلیاں”دردرکھنے والوں“ سے بھری پڑی ہیں مگر افسوس کہ غمِ عوام میں تیزی سے پھیلتے، پھلتے اور پھولتے اراکین میں سے کوئی ایک بھی فہد امجد جیسا نہیں ہے ،وزیراعظم سے لے کر اُن کی کابینہ کے بزرجمہروں تک شاید کسی کو خبر بھی نہیں ہے کہ امریکی جیل میں قید عافیہ صدیقی پر شدیدحملہ ہوا ہے ،وہ زخمی ہیں،کئی گھنٹوں تک بے ہوش رہی ہیں اور یہی تشویشناک اطلاعات سننے کے بعد فہد سے نہ رہا گیا اور اُس نے اپنے دونوں ”انکلز“ سے یہ درخواست کر ڈالی کہ عافیہ کے بدلے اُسے امریکہ بھجوا دیا جائے…اب اُسے کیا معلوم تھا کہ اُن میں سے ایک”انکل“ نے تو پانچ برسوں سے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ لوگوں کے مصائب اور پریشانیوں کو دور کرنا تو کجا اُن سے لمحہ بھر آشنائی بھی حضوروالا پر حرام ہے …”مقدر کے سکندر“ کی طرح اُن کے زیرلب بھی یہی گیت رہتا ہے کہ ”روتے ہوئے آتے ہیں سب، ہنستا ہوا جو جائے گا…وہ مقدر کا سکندر ،جانِ من !کہلائے گا“اور اِسی کو نسخہ، وظیفہ اور علاج سمجھ کر وہ صرف مسکراتے رہتے ہیں کیونکہ اب تو ویسے بھی ”جانے کی گھڑی“ قریب آگئی ہے …رہے ”دوسرے انکل“تو وہ انتخابات کے بعد سے مسکرانا ہی بھول گئے ہیں،اللہ جانے اُنہیں کون سا غم اندر ہی اندر کھا رہا ہے …خبریں رکھنے اور سنانے والے کہتے ہیں کہ ”عوام کے دکھوں نے اُن سے اُن کی مسکراہٹ چھین لی ہے“ اگر یہ وجہ درست ہے تو پھر تو ڈار جی کو اپنے وزیراعظم کا چہرہ دیکھ کر بجٹ بنانا چاہئے تھا،مجھے لگتاہے کہ بجٹ تقریر لکھتے ہوئے شاید اُن کے سامنے صدر مملکت کی تصویر تھی یاتصورات کی پرچھائیوں میں اُنہی کا مسکراتا چہرہ…جب ہی تو ٹیکسوں کا اِتنا خوبصورت اِتوار بازار سجایا گیا ہے …لوگ خواہ مخواہ اِس فکر میں پریشان رہتے تھے کہ دوپہر اور رات کا کھاناکیسے کھائیں گے ؟اِس بجٹ نے اُنہیں داتا دربار،سیلانی دسترخوان اور دیگر مزارات کا راستہ دکھا دیا ہے جہاں دو وقت کا کھانا مفت ملتا ہے اور عزت سے کھلایا جاتا ہے …لیجئے! میں بھی کہاں نکل گیا…سچ تو یہ ہے کہ کم سن فہد امجد کی یہ قدآور آرزو حب الوطنی کے ٹھیکے داروں کے رخسار پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے …ایک وقت تھا کہ ہمارے حکمرانوں کے بس میں سب کچھ تھا، وہ چاہتے تو عافیہ صدیقی اپنی باقی ماندہ سزا پاکستان میں پوری کرسکتی تھی،وہ چاہتے توریمنڈ ڈیوس کے بدلے میں ہی ہم اُسے واپس لے آتے (میں جانتا ہوں کہ یہ ایک مفروضہ ہے مگر مفروضے ہی فارمولے بنتے ہیں) لیکن اُنہوں نے عصمت صدیقی کو سوائے جھوٹی تسلیوں کے اور کچھ نہیں دیا۔البتہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے فہد امجد کے بس میں جو تھا وہ اُس نے کردکھایا،وہ حاکم ہے نہ وزیر، جرنیل ہے نہ سفیر…صرف ایک عام پاکستانی بچہ ہے اور ایک عام پاکستانی بچے نے دنیا بھر کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ”ہماری عافیہ ہمیں لوٹادو! تم انصاف پسندوں نے اُسے جو سزا سنائی ہے اُسے پورا کرنے کیلئے کسی کا بچہ ہونا بہت ضروری ہے۔ 86برس کی سزا38سال کی عورت کیسے بھگت سکتی ہے؟اِس کے لئے تو 8سال کاایک بچہ چاہئے جس پر شاید یہ اُمید باندھی جاسکتی ہو کہ وہ 51برس تک جی سکے گا“…!!!
Subscribe to:
Posts (Atom)
Top 25 Natural Lakes In Pakistan #mancharlake #banjosalake #pyalalake
پاکستان حیرت انگیز قدرتی اور مصنوعی جھیلوں سے مالا مال ہے۔ یہ جھیلیں اپنے تازہ شفاف پانی، شاندار خوبصورتی اور قدرتی ...