اِن دِنوں انٹر نیٹ کے ذریعہ کسی بھی پیغام کو Forward کرنے کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے، چاہے ہم اس پیغام کو پڑھنے کی تکلیف گوارہ کریں یا نہیں، اور اسی طرح اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت بھی سمجھیں یا نہیں کہ Email صحیح معلومات پر مشتمل ہے یا جھوٹ کے پلندوں پر۔ البتہ اس کو Forward کرنے میں انتہائی عجلت سے کام لیا جاتا ہے۔ جبکہ ایمیل ہمارے پاس Forward کرنے کے لئے نہیں بلکہ اصل میں پڑھنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔
کسی شخص یا کسی گروپ پر غلط معلومات پر مشتمل اِی میل کو Forward کرنا ہمارے لئے جائز نہیں ہے ، خاص کر اگر وہ اِی میل دینی معلومات پر مشتمل ہو، کیونکہ اس سے غلط معلومات دوسروں تک پہنچے گی۔ مثال کے طور پر حال ہی میں ایک اِی میل بعض احباب کے پاس پہنچی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ۵ نام کسی بھی ۱۱ مسلمانوں کو بھیج دیں تو ہماری بڑی سے بڑی پریشانی حل ہوجائے گی۔ ۔۔۔ ۔ اسی طرح بعض احباب کے پاس اِی میل پہنچی ہے کہ فلاں اِی میل اگر اتنے احباب کو بھیج دیں تو اس سے آپ کے فلاں فلاں مسائل حل ہوجائیں گے، ورنہ مسائل اور زیادہ پیدا ہوں گے۔۔۔۔۔ غرض یہ ہے کہ اس طرح کی اِی میلز کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ عموماً جھوٹ اور فریب پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ بعض احباب لاعلمی میں اس طرح کی اِی میلز دوسروں کو Forwardکردیتے ہیں۔
علوم نبوت کے ساتھ دنیاوی علوم کو بھی حاصل کرنے کی اسلام نے ترغیب دی ہے، جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ وحی کی ابتداء اقراء یعنی پڑھنے کے لفظ سے شروع ہوئی۔ نیز نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِےْضَۃٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَۃٍ (ابن ماجہ) ۔ ہر مسلمان مردوعورت کے لئے علم کا حاصل کرنا ضروری ہے۔
موجودہ زمانہ میں تعلیم وتعلم کے لئے انٹرنیٹ کا بھی استعمال کیا جارہا ہے، یہ بھی اﷲ کی ایک نعمت ہے بشرطیکہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ مگر بعض حضرات کچھ اِی میلز کی چمک دمک دیکھ کر اس کو پڑھے بغیریا تحقیق کئے بغیر دوسروں کو Forwardکردیتے ہیں۔ آج کل انٹرنیٹ پر بے شمار گروپ بھی بنے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے اِی میلز کو ایک مرتبہ Forward کرنے سے ہزاروں حضرات کو پیغام پہنچ جاتا ہے۔ اب اگر غلط معلومات پر مشتمل کوئی اِی میل Forward کی گئی تو وہ غلط معلومات لوگوں میں رائج ہوتی جائیں گی، جس کا گناہ ہر اس شخص پر ہوگا جو اس کا ذریعہ بن رہا ہے۔ لہذا تحقیق کئے بغیرکوئی بھی اِی میل خاص کر دینی معلومات سے متعلق Forward کرنا گناہ ہے، جیساکہ رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا: کَفَی بِالْمَرْءِ کَذِباً اَن ےُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ (مسلم) آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بلا تحقیق بیان کرے۔ ایک دوسری حدیث میں آپ ا نے ارشاد فرمایا: مَنْ حَدَّثَ عَنِّی حَدِےْثاً وَہُوَ ےُرَی اَنَّہُ کَذِبٌ، فَہُوَ اَحَدُ الْکَاذِبِےْنَ (مسلم) جس نے میری طرف منسوب کرکے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی حدیث بیان کی تو وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے۔
یاد رکھیں کہ انسان کے منہ سے جو بات بھی نکلتی ہے یا وہ لکھتا ہے تو وہ بات اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ (سورہ ق ۱۸) انسان منہ سے جو لفظ بھی نکالتا ہے، اس کے پاس نگہان (فرشتے اسے لکھنے کے لئے) تیاررہتے ہیں۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ غلط خبروں کے شائع ہونے کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا ہے، مثال کے طور پر غزوۂ احد کے موقع پر آپ اکے قتل ہونے کی غلط خبر اڑادی گئی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی، جس کا نتیجہ تاریخی کتابوں میں موجود ہے۔ ۔۔۔ اسی طرح غزوۂ بنو مصطلق کے موقع پر منافقین نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگاکر غلط خبرپھیلائی تھی جس سے نبی اکرم ا کی ِشخصیت بھی متأثر ہوئی تھی۔ ابتداء میں یہ خبر منافقین نے اڑائی تھی لیکن بعد میں کچھ سچے مسلمان بھی اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس میں شامل ہوگئے تھے۔۔۔۔ آخر میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں حضرت عائشہ ؓ کی برأت نازل فرمائی۔۔۔۔ اور اس واقعہ میں اﷲ تعالیٰ نے جھوٹی خبر پھیلانے والوں کی مذمت کی جنہوں نے ایسی غلط خبر کو رائج کیاکہ جس کے ذریعہ حضرت عائشہ ؓ کے دامن عفت وعزت کو داغ دار کرنے کی مذموم کوشش کی گئی تھی، ارشاد باری ہے: لِکُلِّ امْرِیءٍ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (سورہ النور ۱۱) ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصہ کو سر انجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہے۔
آج کل مغربی ممالک کی بعض Websites اسلام سے متعلق مختلف موضوعات پر Referendum کراتی رہتی ہیں۔ ان Referendum میں بعض ہمارے بھائی کافی جذبات سے شریک ہوتے ہیں، اور اپنی صلاحیتوں کا ایک حصہ اس میں لگا دیتے ہیں۔ میرے عزیز دوستو! عموماً اس طرح کی تمام Websites اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے ہی استعمال کی جاتی ہیں، ان پر کوئی توجہ نہیں دینی چاہئے ، جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ےَا اَےُّہَا الَّذِےْنَ آمَنُوا اِنْ جَاءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاءٍ فَتَبَےَّنُوا اَنْ تُصِےْبُوا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِےْنَ (سورہ الحجرات ۶) اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذاء پہنچادو، پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ۔ نیز اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ (سورہ النور ۱۹) جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے خواہاں رہتے ہیں ، ان کے لئے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
جتنا ہی دباؤ گے اتنا ہی وہ ابھرے گا
خلاصہ کلام:چونکہ انٹرنیٹ بھی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ، اس کو ہمیں اپنے شخصی وتجارتی مراسلات کے ساتھ‘ زیادہ سے زیادہ دین اسلام کی تبلیغ اور علوم نبوت کو پھیلانے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ لہذا اگر صحیح دینی معلومات پر مشتمل کوئی اِی میل مستند ذرائع سے آپ تک پہونچے تو آپ اس اِی میل کو پڑھیں بھی، نیز دوست واحباب اور گروپ کو بھی Forward کریں تاکہ اسلام اور اس کے تمام علوم کی ذیادہ سے ذیادہ اشاعت ہوسکے۔ لیکن اگر آپ کے پاس اِی میل غیرمعتبر ذرائع سے پہنچے تو اس اِی میل کو بغیر تحقیق کئے Forward نہ کریں۔
کسی شخص یا کسی گروپ پر غلط معلومات پر مشتمل اِی میل کو Forward کرنا ہمارے لئے جائز نہیں ہے ، خاص کر اگر وہ اِی میل دینی معلومات پر مشتمل ہو، کیونکہ اس سے غلط معلومات دوسروں تک پہنچے گی۔ مثال کے طور پر حال ہی میں ایک اِی میل بعض احباب کے پاس پہنچی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ۵ نام کسی بھی ۱۱ مسلمانوں کو بھیج دیں تو ہماری بڑی سے بڑی پریشانی حل ہوجائے گی۔ ۔۔۔ ۔ اسی طرح بعض احباب کے پاس اِی میل پہنچی ہے کہ فلاں اِی میل اگر اتنے احباب کو بھیج دیں تو اس سے آپ کے فلاں فلاں مسائل حل ہوجائیں گے، ورنہ مسائل اور زیادہ پیدا ہوں گے۔۔۔۔۔ غرض یہ ہے کہ اس طرح کی اِی میلز کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ عموماً جھوٹ اور فریب پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ بعض احباب لاعلمی میں اس طرح کی اِی میلز دوسروں کو Forwardکردیتے ہیں۔
علوم نبوت کے ساتھ دنیاوی علوم کو بھی حاصل کرنے کی اسلام نے ترغیب دی ہے، جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ وحی کی ابتداء اقراء یعنی پڑھنے کے لفظ سے شروع ہوئی۔ نیز نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِےْضَۃٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَۃٍ (ابن ماجہ) ۔ ہر مسلمان مردوعورت کے لئے علم کا حاصل کرنا ضروری ہے۔
موجودہ زمانہ میں تعلیم وتعلم کے لئے انٹرنیٹ کا بھی استعمال کیا جارہا ہے، یہ بھی اﷲ کی ایک نعمت ہے بشرطیکہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ مگر بعض حضرات کچھ اِی میلز کی چمک دمک دیکھ کر اس کو پڑھے بغیریا تحقیق کئے بغیر دوسروں کو Forwardکردیتے ہیں۔ آج کل انٹرنیٹ پر بے شمار گروپ بھی بنے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے اِی میلز کو ایک مرتبہ Forward کرنے سے ہزاروں حضرات کو پیغام پہنچ جاتا ہے۔ اب اگر غلط معلومات پر مشتمل کوئی اِی میل Forward کی گئی تو وہ غلط معلومات لوگوں میں رائج ہوتی جائیں گی، جس کا گناہ ہر اس شخص پر ہوگا جو اس کا ذریعہ بن رہا ہے۔ لہذا تحقیق کئے بغیرکوئی بھی اِی میل خاص کر دینی معلومات سے متعلق Forward کرنا گناہ ہے، جیساکہ رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا: کَفَی بِالْمَرْءِ کَذِباً اَن ےُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ (مسلم) آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بلا تحقیق بیان کرے۔ ایک دوسری حدیث میں آپ ا نے ارشاد فرمایا: مَنْ حَدَّثَ عَنِّی حَدِےْثاً وَہُوَ ےُرَی اَنَّہُ کَذِبٌ، فَہُوَ اَحَدُ الْکَاذِبِےْنَ (مسلم) جس نے میری طرف منسوب کرکے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی حدیث بیان کی تو وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے۔
یاد رکھیں کہ انسان کے منہ سے جو بات بھی نکلتی ہے یا وہ لکھتا ہے تو وہ بات اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ (سورہ ق ۱۸) انسان منہ سے جو لفظ بھی نکالتا ہے، اس کے پاس نگہان (فرشتے اسے لکھنے کے لئے) تیاررہتے ہیں۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ غلط خبروں کے شائع ہونے کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا ہے، مثال کے طور پر غزوۂ احد کے موقع پر آپ اکے قتل ہونے کی غلط خبر اڑادی گئی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی، جس کا نتیجہ تاریخی کتابوں میں موجود ہے۔ ۔۔۔ اسی طرح غزوۂ بنو مصطلق کے موقع پر منافقین نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگاکر غلط خبرپھیلائی تھی جس سے نبی اکرم ا کی ِشخصیت بھی متأثر ہوئی تھی۔ ابتداء میں یہ خبر منافقین نے اڑائی تھی لیکن بعد میں کچھ سچے مسلمان بھی اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس میں شامل ہوگئے تھے۔۔۔۔ آخر میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں حضرت عائشہ ؓ کی برأت نازل فرمائی۔۔۔۔ اور اس واقعہ میں اﷲ تعالیٰ نے جھوٹی خبر پھیلانے والوں کی مذمت کی جنہوں نے ایسی غلط خبر کو رائج کیاکہ جس کے ذریعہ حضرت عائشہ ؓ کے دامن عفت وعزت کو داغ دار کرنے کی مذموم کوشش کی گئی تھی، ارشاد باری ہے: لِکُلِّ امْرِیءٍ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (سورہ النور ۱۱) ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصہ کو سر انجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہے۔
آج کل مغربی ممالک کی بعض Websites اسلام سے متعلق مختلف موضوعات پر Referendum کراتی رہتی ہیں۔ ان Referendum میں بعض ہمارے بھائی کافی جذبات سے شریک ہوتے ہیں، اور اپنی صلاحیتوں کا ایک حصہ اس میں لگا دیتے ہیں۔ میرے عزیز دوستو! عموماً اس طرح کی تمام Websites اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے ہی استعمال کی جاتی ہیں، ان پر کوئی توجہ نہیں دینی چاہئے ، جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ےَا اَےُّہَا الَّذِےْنَ آمَنُوا اِنْ جَاءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاءٍ فَتَبَےَّنُوا اَنْ تُصِےْبُوا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِےْنَ (سورہ الحجرات ۶) اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذاء پہنچادو، پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ۔ نیز اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ (سورہ النور ۱۹) جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے خواہاں رہتے ہیں ، ان کے لئے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
جتنا ہی دباؤ گے اتنا ہی وہ ابھرے گا
خلاصہ کلام:چونکہ انٹرنیٹ بھی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ، اس کو ہمیں اپنے شخصی وتجارتی مراسلات کے ساتھ‘ زیادہ سے زیادہ دین اسلام کی تبلیغ اور علوم نبوت کو پھیلانے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ لہذا اگر صحیح دینی معلومات پر مشتمل کوئی اِی میل مستند ذرائع سے آپ تک پہونچے تو آپ اس اِی میل کو پڑھیں بھی، نیز دوست واحباب اور گروپ کو بھی Forward کریں تاکہ اسلام اور اس کے تمام علوم کی ذیادہ سے ذیادہ اشاعت ہوسکے۔ لیکن اگر آپ کے پاس اِی میل غیرمعتبر ذرائع سے پہنچے تو اس اِی میل کو بغیر تحقیق کئے Forward نہ کریں۔