Wednesday, November 1, 2017

ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ #fabulouspakistan



جناب اشفاق احمد نے فرمایا:
ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻝ ﮐﺮ رﻭﮈ ﭘﺮ ﭼﻼ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ کہﺍﯾﮏ ﺑﺎبا ﻧﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭨﮩﻨﯽ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﺭﮔﮍ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ:
ﻟﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ- ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﻧﮧ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺩﻭ، ﺟﻮ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺷﮑﺮ ﮐﺮﻭ ‘ ﺟﻮ ﭼﮭﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،
ﺟﻮ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﻭ، ﺟﻮ
ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎؤ- ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﺑﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎؤ ﮔﮯ، ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺟﻤﻊ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،
ﮨﺠﻮﻡ ﺳﮯ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﺮﻭ،
ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺑﻨﺎﺋﻮ،
ﺟﺴﮯ ﺧﺪﺍ ﮈﮬﯿﻞ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺣﺘﺴﺎﺏ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ،
ﺑﻼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺳﭻ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ،
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﻮ،
ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺗﻮ ﭼﭗ ﺭﮨﻮ،
ﻟﻮﮒ ﻟﺬﺕ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﺬﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺑﺮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ،
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺧﻮﺷﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﯿﺮ ﭘﺮ ﻧﮑﻞ ﺟﺎؤ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻥ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺑﮭﯽ،
ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ،
ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ،
ﺩﻭﻟﺖ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺭﮎ ﺟﺎؤ ﮔﮯ،
ﭼﻮﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﭼﻮﺭ ﮨﻮ ﺟﺎؤ ﮔﮯ،
ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺟﮓ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ،
ﻭﮦ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺍﮌ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ،
ﺳﺎﺩﮬﻮؤﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺎ ﺳﺎﺩﮬﻮ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ،
ﺗﻢ ﺟﺐ ﻋﺰﯾﺰﻭﮞ، ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ، ﺍﻭﻻﺩ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﮍﻧﮯ ﻟﮕﻮ
ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﻟﻮ ﺍللہ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﮯ،
ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﺣﻢ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﻮ ﺗﻮ ﺳﻤﺠھ ﻟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺧﺎﻟﻖ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﮯ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﺎﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ-
ﺑﺎﺑﮯ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯽ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﮭﺘﺮﯼ ﮐﮭﻮﻟﯽ،
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
ﺟﺎؤ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﯾﮧ ﭼﮭﺘﺮﯼ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﺗﮏ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ، ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌﻧﺎ، ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﯾﻨﺎ،
ﯾﮧ ﺍللہ ﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﮨﮯ، اللہ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﻮ ﺗﻨﮩﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﺎ، ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌﺗﯽ ﮨﮯ-
ﺍﻭﺭ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺟﻮ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﮕﺮﺟﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ، ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍللہ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﮨﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻼ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ- ﺗﻢ ﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ، ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﻣﯿلہ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ-
ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ
- اشفاق احمد

Friday, November 18, 2016

عمران خان اور روایتی سیاست — محمد عباس شاد

کبھی ہماری سیاست مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان تقسیم ہوتی تھی اور باقی قوتین انہیں دو قوتوں کے ساتھ اپنے معاملات طے کرتی تھیں لیکن جب سے عمران خان نے اپنے آپ کو منوایا ہے تب سے وہ ہماری سیاست اور صحافت کی خاصی توجہ حاصل کئے رہتے ہیں ۔ان پر کئی حوالے سے بہت کچھ کہا جاتا ہے۔کسی کے ہاں تو وہ کلی طور پر رد کردیئے جاتے ہیں اورکہیں ان کو پاکستان کے سارے مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے۔ہمارے ہاں چونکہ وابستگیاں عقل وشعور سے زیادہ جذباتی طورپر قائم کی جاتی ہیں تو اسی لیے ہمارے ہاں اعتدال سے زیادہ انتہاپسندی موجود رہتی ہے۔
اب جب کہ دو نومبر آنے کو ہے اور عمران خان اسلام آباد کو بند کرنے جارہے ہیں تو اس موقع پر عمران خان کے بارے میں دونوں پہلووں پر بات کیوں نہ کرلی جائے کہ ان کی طرز سیاست میں کیا مثبت ہے اور کیا منفی ہے۔ہمارے وہ دوست جو عمران خان سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اور وہ لوگ جو حکومت وقت کے چوکھٹے میں فٹ ہیں وہ یہ بات یاد رکھیں کہ عمران خان پر تنقید کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ نواز شریف بہترین حکمرانی کررہے ہیں اور نوازحکومت پر تنقید کا بھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ عمران خان موجودہ حکومت کا بہترین متبادل ہیں۔بلکہ پاکستانی سیاست کو اس کے معروضی حقائق کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور قوم کے سامنے حقائق بیان ہونے چاہئیں کیونکہ اب قوم کسی بھی خوش فہمی اور تجربے کی متحمل نہیں ہے۔
شریف خاندان کا طرز حکمرانی ایسا ہے کہ وہ سیاست کے ہر کھلاڑی کو اپنے ساتھ شریک کرلیتے ہیں اور اچھے کاروباری کی طرح اپنے پارٹنر کے مفادات اور حصے کو تسلی بخش طریقے سے حلیف کی جھولی میں ڈالتے ہیں ۔ مشرف کے مارشل لاء کے بعد ان کے اس رویے میں اور زیادہ سنجیدگی اور پختگی آئی ہے اور انہوں نے پپلز پارٹی سمیت بہت سی پارٹیوں کو اپنا پارٹنر بنالیا اور یہ ساری پارٹیاں جمہوریت کے نام پر اپنی اپنی باریاں لگانے لگیں اور طرفہ تماشہ یہ کہ مذہبی پارٹیوں نے بھی اس گنگا سے فیض یاب ہونے کے گر سیکھ لیے۔
اور وہ بھی نظریات کی دھوپ سے تنگ آکر اقتدارکے سائے تلے سستانے کو ہی اسلام کی خدمت سمجھ لیتے ہیں اور اقتدارکا شجرسایہ دارنوازشریف کا ہو یا زرداری کا اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پرت۔
ا پہلے پہل تو نظریاتی کارکن جماعتوں کے اندر ہنگامے کھڑے کردیتے تھے کہ بدنام زمانہ جماعتوں سے اتحاد ہماری کاز کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوتا کارکنوں کے اخلاص کو حالات کی سنگینی بتاکر راضی برضا رہنے کا فلسفہ سمجھایا جاتا ہے کہ ہم اگر اسمبلی میں نہ ہوں گے تو وہاں کوئی اور ہوگا لہذا یہ وقت کی ضرورت اور دینی حمیت کا تقاضا ہے کہ ہمیں اقتدارکے ایوانوں میں موجود رہ کر اسلام کے خلاف ہونے والی سارشوں پر نظر رکھنی ہے۔
لہذا یوں یہاں اقتدارکا پہیہ گھومتا رہتا ہے اور عوام امیدوں کے سراب میں زندہ رہتے ہیں۔اس صورتحال نے سیاست دانوں کا ایک ایسا مافیا جنم دیا ہے جسے عوام اور ملک سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔وہ صرف پاکستان میں آکر الیکشن لڑتے ہیں جیت جائیں تو اقتدار کے لیے رہ جاتے ہیں نہیں تو بیرون ملک جاکر اپنے کاروبار کووقت دیتے ہیں ۔
گویا ان کا تعلق اس ملک سے صرف اقتدار اور حکمرانی کا رہ گیا ہے اور بس ۔ بددل ہوتے عوام نے جب دیکھا کہ اس سکوت کو عمران خان توڑ سکتاہے تووہ جوق درجوق اس کی طرف لپکے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک کاررواں بن گیا ۔ جن لوگوں کی نظر اس ملک میں پارٹیاں بننے کی تاریخ پر ہے وہ جانتے ہیں کہ ان دیکھی قوتیں کس طرح نئی بننے والی پارٹیوں کو آکوپائے کرلیتی ہیں ۔عمران خان نے جیسے ہی سر نکالنا شروع کیا تووہ سارے لیڈر جو دوسری پارٹیوں میں پچھلی صفوں میں کھڑے تھے وہ یہاں آکر کارکنوں کو کہنیاں مارتے ہوئے پہلی صفوں میں آ بیٹھے اور عمران خان کو بھی شریف فیملی کی اندھی دولت کے مقابل ایسے پہلوان چاہئیں تھے جو ان کا مقابلہ کرسکیں الیکشن میں موٹر سائیکلیں دے کر ووٹ توڑ سکیں سو ایک پوری رجیم جوساری زندگی اسی سیاسی کلچر کا حصہ رہی اور سرمایہ دارانہ ،جاگیردارانہ بیوروکریٹک اور فیوڈل نفسیات کے ساتھ عمران خان کے ساتھ آشریک ہوئی۔ عمران خان پارٹی میں ایسا کوئی میکنزم نہ بنا سکے جس کی بدولت وہ اس زنگ آلود قیادت سے جماعت کو بچھاسکتے۔
کیا عمران خان اسی نظام کی تیارشدہ بیساکھیوں کے ذریعے اقتدار کے ایوان میں پہنچ کر قوم کے مسئلے حل کرسکیں گے یا وہ بھی مذہبی جماعتوں والا نظریہ ضرورت اپنا کر کارکنوں کو اگر ہم نہیں تو کوئی اور ہوگا کے فلسفے کے ذریعے مطمئن کئے رکھیں گے۔ ہماراخیال ہے کہ عمران خان پاکستان کی روایتی سیاست میں کوئی ڈراڑ ڈاالنے سے پہلے ہی اس کا شکار ہوچکے ہیں ۔ قوم کا مسئلہ اقتدار کی تبدیلی نہیں بلکہ مسائل کے حل کا کوئی جوہری طریقہ ہے جس سے قوم موجودہ دلدل سے نکل سکے۔

جھنگ کا قبرستان شہیداں — ثریا منظور

جھنگ سے ملتان کی جانب جائیں تو راستے میں مہلوآنہ موڑ سے چند کلو میٹرکے فاصلے پر ایک تاریخی قبرستان ہے ۔ پرانے وقتوں میں اس علاقے کا نام پیرڈولی مشہور تھا جسے 1857 کے جنگ آزادی کے شہدا کی نسبت سے اب قبرستان شہیداں کے نام سے پکارا جاتاہے۔
تاریخ دان بلال زبیری اپنی کتاب “تاریخ جھنگ” میں لکھتے ہیں کہ یہاں ایک بزرگ رہا کرتے تھے جو آمد و رفت کے لِیے ڈولی کا استعمال کرتے تھے اسی نسبت سے اس علاقے کا نام پیر ڈولی رکھ دیا گیالیکن جھنگ کے جانباز سپوتوںنےآزادی کی راہ میں اپنا خون بہا کر اس کا نام تبدیل کر دیا۔
ان کے مطابق یہ اس وقت کی بات ہے جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کے بعدعلاقے کو کنٹرول کرنے کے لئے کرنل لارنس کو لاہور کا چیف کمشنر مقرر کیااور اس کی زیر نگرانی دو چھاونیاں ملتان اور گوگیرہ ساہیوال میں قائم کیں۔ملتان میں کمشنر ایڈورڈ جب کہ گوگیرہ ساہیوال میں چھاونی کا انچارچ کمشنربرکلے تھا۔دس مئی 1857 کو میرٹھ بھارت کی رجمنٹ کےستاسی ہندو، مسلم اور سکھ سپاہیوں نے انگریزوں کے دئیے ہوئے کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکا کردیا اور انگریزوں کے خلاف بغاوت کردی۔
اس بغاوت کی خبر جب ملتان پہنچی تو انگریز فوج کی پلاٹون نمبر باسٹھ اورانہتر نے بھی گوروں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔پلاٹون نمبر انہتر سے علم بغاوت بلند کرنے والے ایک سپاہی راجہ ناہرہ نےاپنے گیارہ ساتھیوں کے ہمراہ دریائےچناب کے کنارے ڈیرے ڈال لِے اور ایک نئے لشکر کی تشکیل کرنے لگے۔باقی سپاہیوں میں سے کچھ رائے احمد خاں کھرل سے جا ملے ، کچھ بہالپور میںراجپوتانہ تحریک کا حصہ بنے اور کچھ سپاہیوں نے جھنگ سے پینتیس کلومیٹردور حویلی بہادر شاہ کے پیر سید احمد شاہ گیلانی کے پاس پناہ لی جو بعدمیں راجہ ناہرہ کے لشکر کا حصہ بنے۔
اس واقعہ کے بعد چیف کمشنر لاہور نے ملتان اور گوگیرہ کے تمام ہندوستانی سپاہیوں سے اسلحہ واپس لینے کے احکامات جاری کر دئیے جس نے بغاوت کو مزیدہوا دی اور سپاہی راجہ ناہرہ کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ اس تحریک کا ساتھ جھنگ کی ہندو مسلم اور سکھ تمام برادریوں نے مل کرساتھ دیا جبکہ مقامی سادات اور کچھ سیال قبائل نے بھی راجہ ناہرہ کی آواز پر لبیک کہا جنہیں پیر احمد شاہ گیلانی باغی سپاہیوں کے ساتھ مل کرڈولی پیر کے علاقے میں تربیت دینے لگے۔
اسی دوران راجہ ناہرہ دریائے چناب میں کشتی پر سفر کرتے ہوئے جا رہے تھےکہ انگریز فوج نے مخبری ہونے پر حملہ کر دیا ۔ اس حملہ میں راجہ کے کچھ ساتھی ہلاک ہو گئے جبکہ خود راجہ اور بقیہ ساتھیوں کو گرفتار کر کے جھنگ کے قلعہ اب اس جگہ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول قائم ہے میں قید کر دیا اوربعد ازاں تمام لوگوں کو پھانسی دے دی گئی۔
تاہم پیر احمد شاہ گیلانی نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھی جبکہ انگریز سرکارنے مجاہدین کے خلاف فیصلہ کن معرکے کی ٹھان لی۔پیر احمد شاہ گیلانی کو جب اطلاع ملی کہ انگریز فوجی حویلی بہادر شاہ پر چڑھائی کے لئےآ رہے ہیں تو انہوں نے ایک ہزار مجاہدین کے لشکر کے ساتھ پیر ڈولی کےمقام پر پڑاو کیا۔
یہ مجاہدین کلہاڑیوں اور لاٹھیوں جیسے روایتی ہتھِیاروں سے لیس تھے جبکہ اطلاع ملنے پر ڈپٹی کمشنر جھنگ بھی سو سپاہیوں کے ہمراہ یہاں پہنچا۔انگریزوں اور مجاہدین کے مابین شدید جنگ ہوئی جس میں ستاون انگریز سپاہی مارے گئے تاہم اسلحہ آتشیں نہ ہونے کے باعث سینکڑوں مجاہدین شہید ہوئےاور ان کی لاشیں ایک ماہ تک اسی میدان میں پڑی رہیں۔
اس لڑائی کے بعد علاقہ مکین خوف اور انتقامی کاروائی کے ڈر سے اپنا گھربار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ایک ماہ بعد جب انگریز سرکار نے مقامی افراد کے ساتھ امن کا اعلان کیا تولوگوں نے واپس آ کر اسی مقام پر ایک بڑا گڑھا کھودا اور مجاہدین کو ایک مشترکہ قبر میں دفنا دیا گیا ۔
بعد ازاں اس اجتماعی قبر کی وجہ سے اس جگہ کا نام قبرستاں شہیداں رکھ دیاگیا جو آج بھی سرکاری کاغذات میںاسی نام سے درج ہے۔
تاریخ میں اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ پیر احمد شاہ گیلانی اس واقعہ میںشہید ہوئے یا کسی اور جگہ فرار ہو گئے لیکن وہ آج بھی راجہ ناہرہ اور
رائے احمد خاں کھرل کی طرح انگریزوں کے باغی سپاہیوں کے نام سے جانے جاتےہیں۔

اپنی سوچ کے بہت جلد بدلنے کے منفی اثرات سے اگاہ رہیں۔ زوہیب یاسر

      زیادہ سے زیادہ ذہنی سکون کے حصول کے لیے ایک طاقتور تکنیک یہ ہے کہ ہم اس بات سے آگاہ رہیں کہ ہماری غیر محفوظ اور منفی سوچ کتنی جلدی کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب آپ اپنی ایسی سوچوں میں الجھے ہوتے ہیں تو آپ کس قدر پریشان ہوتے ہیں؟اور ان سوچوں کو دبانے کے لیے آپ جتنا زیادہ ان میں گم ہوتے ہیں دراصل یہ احساسات اتنے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ایک خیال سے دوسرا خیال جنم لیتا ہے دوسرے سے تیسرا اور یہ سلسلہ طویل ہی ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک مخصوص مقام پر آکر آپ کی برداشت کی حد بھی ختم ہونے لگتی ہے۔
                مثال کے طور آدھی رات کو آپ کی آنکھ کھلتی ہے اور آپ کو یاد آتا ہے کہ آپ نے کل ایک فون کال کرنی ہے اور یہ سوچ کر آپ کو تھوڑی راحت ہوتی ہے کہ آپ کو وقت پر یاد آگیا۔لیکن اس کے بعد آپ اگلی صبح کرنے والے دیگر کاموں کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔آپ آئندہ صبح اپنے باس سے ہونے والی گفتگو کی ایک ریہرسل کرتے ہیں اور مزید پریشان ہوجاتے ہیں۔پھر جلد ہی آپ خود سے یہ کہتے ہیں کہ میں بہت زیادہ مصروف ہوں،مجھے روزانہ کوئی پچاس آدمیوں کو فون کرنا ہوتے ہیں،اتنی مصروف زندگی بھلا کس کی ہو سکتی ہے؟بہت سے لوگوں کے لیے منفی خیالات کے ان حملوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔درحقیقت،مجھے میرے کلائنٹس نے بتایا ہے کہ ان کی بہت سی راتیں اوردن ایسے ہی خیالات کی ریہرسل کرنے میں برباد ہوتے ہیں۔اس امر کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسے معاملات اور پریشانیوں کے نتیجے میں ذہنی طور پر پُرسکون رہنا ایک ناممکن کام ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ آپ کے منفی خیالات جب تحریک پکڑتے ہیں تو اس سے پہلے یہ سوچا جائے کہ آپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔آپ جتنا جلدی اپنے ذہن میں پلنے والے ان منفی خیالات کو قابو کرتے ہیں،اتنا ہی جلد آپ کو سکون کی دولت بھی نصیب ہوتی ہے۔ہماری یہاں بیان کی گئی مثال میں آپ کی منفی سوچ اس وقت شروع ہوئی جب آپ نے اگل صبح کیے جانے والے کاموں کو سوچا۔پھر آپ شعوری طورپر اس سوچ سے چمٹے رہنے کے بجائے خود سے کہتے ہیں کہ واﺅ!!! میں پھر وہی ہوں اور آپ اس صورت حال کو وہیں ختم کر دیتے ہیں۔آپ اپنے خیالات کی گاڑی کو اسٹیشن چھوڑے سے پہلے ہی روک لیتے ہیں۔پھر آپ اس بات پر اپنی توجہ کو مرکوز کرسکتے ہیں،منفی معنوں میں نہیں،بلکہ مثبت معنوں میں کہ شکر ہے مجھے اتنے لوگوں سے فون کر کے معاملات طے کرنے ہیں۔اگر یہ آدھی رات کا وقت ہے تو آپ اسے کاغذ پر لکھیں اور پھر سو جائیں۔ایسی صورت حال کے پیش نظر آپ پہلے سے ہی اپنے بیڈ پرایک کاغذ اور قلم بھی رکھ سکتے ہیں۔
                آپ بلاشبہ ایک بہت مصروف شخص ہو سکتے ہیں۔لیکن یاد رکھیے کہ ان باتوں سے اپنے دماغ کو بھرنے سے آپ اپنی پریشانیوں اور تلخیوں میں اضافہ ہی کرتے ہیں نہ کہ آپ انہیں کم کرتے ہیں۔آئندہ کبھی آپ کو ایسی صورتحال درپیش ہو تو آپ اس مشق کو استعمال میں لائیں۔آپ واقعی حیران ہوں گے کہ یہ کتنی کارآمد ہے۔

اپنے آپ کو کامیاب سٹوری بنائیے — قاسم علی شاہ

یہ سوال ہماری ابتدائی زندگی میں نہیں اٹھایا جاتا ہے کہ اصل میں ہمیں کرنا کیا ہے ۔ مثال کے طور ہر جب میں نے یہ سوچا کہ مجھے کرنا کیا ہے تو مجھے بعد میں ایم ایس سی سائیکولوجی اور ہیومن ریسورس کرنا پڑا۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس سوال کو کیری کیجیے ، کیری کا مطلب یہ ہے کہ اس سوال کو سنبھال کر رکھنا ہے کہ اصل میں مجھے کرنا کیا ہے۔ہم لوگوں میں سے بالخصوص وہ لوگ جن میں تڑپ ہے لگن ہے اور بے سبب آنسو ہیں اور جن کی زندگی اضطراب میں گزر رہی ہے وہ زیادہ ترقی کر سکتا ہے۔
یہ ساری علامات ہیں کہ ایسے شخص میں کچھ کرنے کی ایک آگ ہے ۔ یہ ساری علامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ قدرت نے اس سے کچھ کام لینا ہے۔ اس سے اگلی بات یہ ہے کہ کام کرنا کیا ہے اس سوال کو بھی کیری کیجیے کہ اگر آپ دل سے اس سوال کو اٹھاتے ہیں تو نیچر اس کا جواب دیتی ہے یعنی قدرت اس سوال کا ضرور جواب دے گی۔ اس بارے میں دو تین کتابیں بہت مشہور ہیں” الکیمسٹ” ناول ہے اور پچھلے سال ایک کتاب آئی ہے اس کا نام ہے ‘”دی ہیرو”یہ ر ہونڈا بائرن کی کتاب ہے اوراسے دارالشعورنے شائع کیا ہے اس میں بیان کیا گیا ہے کہ دنیا کے جتنے بڑے آدمی ہیں انہیں قدرت نے وقت سے پہلے اشارے دینے شروع کر دئیے تھے کہ تم یہ کام کرو تو ایکسل کر جائوگے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس پر کان دھرتا ہے اور کون فیصلہ کرتا ہے اور جرات کر کے آگے نکل جاتا ہے یہ اس شخص پر منحصر ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قدرت ہمیں کچھ کہہ رہی ہوتی ہے اور ہم سن نہیں رہے ہوتے۔ ہم اپنی والدہ ، والد ، دوستوں اور اس بیج کو سن رہے ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہم پڑھتے ہیں اپنی منگیتر کو سن رہے ہوتے ہیں لیکن اللہ کو نہیں سن رہے ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم جرات کا مظاہرہ نہیں کرتے تو بعد میں وہ چیز زندگی کا پچھتاوا بن جاتی ہے۔
میری عادتوں میں ایک اچھی عادت یہ ہے کہ میں انٹرویو بہت دیتا ہوں اور میں ریڈیو کے ایک چینل پر انٹرویو کرتا ہوں پاکستان میں ایسے لوگوں پر جو زیرو سے ہیرو تک گئے ہیں جیسے کہ آئی ٹی کے شعبہ میں سلیم غوری صاحب ایسے تمام مہمان میں نے بلا کر دیکھے ہیں جن میں اطمینان اور جذبہ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جرات کا مظاہرہ کیا ہے ۔
سلیم غوری صاحب نے مجھے بتایا کہ میں سٹی بینک میں ٹاپ کی جاب کر رہا تھا اور ساتھ میں اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار بھی کر رہا تھا آسٹریلیا میں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میرے باس نے مجھے کہا کہ یا تم یہ بڑی سی جاب کر لو جس میں گھر گاڑی بنگلہ سب کچھ مل رہا ہے یا یہ چھوٹا سا کاروبار کر لو جس میں سے کچھ بھی نہیں مل رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ میں نے ایک کامیاب کہانی بننا ہے مجھے پیسے نہیں کمانےاور میں نے ریزائن کر دیا۔ گھر جا کر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ گھر خالی کر دو اور گاڑی چھوڑ دو ہم نے کوئی بڑا کام کرنا ہے کہ نوکری کے لیےمیں پیدا نہیں ہوا۔
یعنی جب انسان جرات کا مظاہرہ کرے تو اپنے قدم اٹھا لیتا ہے لیکن اگر جرات ہی نہ ہو اور اتنا پریشر بلٹ کیا ہو اور میرا یہ فقرہ یاد رکھیے گا کبھی یہ مت بتائیں کہ میں کیا کر رہا ہوں بلکہ پہلے کر کے دکھائیں کہ میں نے کیا ،کیا ہے۔
ایسی بے شمار کہانیاں میری زندگی میں آئی ہیں جن لوگوں سے میں ملا ہوں اور میرے لیپ ٹاپ میں بے شمار آڈیو ویڈیوز پڑی ہوئی ہیں جو لوگ اندھے تھے اور کامیاب ہوئے ہیں جو بہرے تھے کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس کوئی وسائل نہیں تھے اور وہ کامیاب ہوئے ہیں ۔
ملک ریاض پر ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب اس کی بیٹی بیمار ہو گئی اور اسے گھر کے برتن بیچنے پڑے اور ایک وہ وقت بھی آیا کہ اس نے کہا اب بہت ہو گئی اور اس نے اپنی سمت بدل لی کہاں وہ گھروں کے رنگ کے ٹھیکے لیتا تھا اور کہاں اب کا ملک ریاض۔
ہمارے اساتذہ مارکیٹ کو نہیں جانتے یہ انکا قصور نہیں ہے میں اساتذہ کو ڈی گریڈ نہیں کر رہا لیکن مارکیٹ میں وہ شخص کامیاب ہے جو اپنی فیلڈ میں بلا کا ماہر ہو یا کمبی نیشن ڈگری میں ہو۔ کئی انجینئر ایسے ہیں جنہوں نے ایم بی اے ساتھ کیا وہ جلدی آگے نکل جاتے ہیں وجہ یہ ہے کہ انہیں پروڈکشن سے نکال کر ایڈ منسٹریشن کی سیٹ پر بٹھا دیا جاتا ہے اور وہ آگے نکل جاتے ہیں۔
میرا ایک اسٹوڈنٹ ہے جوانجنیئر ہے اور ہنڈا پلانٹ پر انٹرویو کے بعد اس کی سیلکشن ہوئی تو انٹرویو کرنے والے نے بعد میں پوچھا کہ تمہیں مارکیٹ کا اندازہ کہاں سے ہوا اور اسٹیفن آر کوے کو تم کیسے جانتے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ میرے استاد نے ایف ایس سی کے دوران مجھے بتا دی تھیں۔
جب آپ کی بنیاد میں علم ہو ، کارپوریٹ مارکیٹ ہو بزنس ہو ساری چیزیں آپ کے سامنے پڑی ہوئی ہوں تو آپ کا عمل کچھ اور ہو گا۔ انٹرن شپ ہمارے ہاں برڈن سمجھی جاتی ہے کیونکہ یہ یونیورسٹی کی طرف سے فارمیلیٹی کے طور پر لی جاتی ہے ۔ میں نے بہت کم لوگ ایسے دیکھے ہیں جنہوں نے اپنی انٹرن شپ کو انجوائے کیا ہے۔ انہوں نے پریکٹیکل کو انجوئے کیا اور سسٹم کو سمجھا۔ ہمیں پندرہ سولہ سال سٹڈی کے دوران کتابیں پڑھنے کی اتنی عادت پڑ جاتی ہے کہ ہمیں اگر یہ کہا جائے سلفیورک ایسڈ اتنے ٹن بنانا ہے تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ صرف کاپی پر بنا دیا جائے عملا کچھ نہ کرنا پڑے۔
جب آپ فیلڈ میں جاتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتاہے کہ پروفیشنل رویہ کیا ہے؟ اس وقت جتنی ٹاپ کی کمپنیاں اور ٹاپ کے گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ میں جوڈیشری میں ججز کو پڑھا رہا ہوں اور بیورو کریٹس کو پڑھا رہا ہوں اور کارپوریٹ سیکٹر میں ڈیسکون اور کتنے اداروں کو پڑھا رہا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہر جگہ پر پروفیشنل ایٹی ٹیوڈ پڑھایا جا رہا ہے۔ ایتھکس ، مارل اور کیمیونیکشن سکل اس لئے پڑھا رہے ہیں کیونکہ انجنیئ گونگا ہوتا ہے۔ اس کے اندر لیڈر شپ کوالٹی نہیں ہوتی اسے ٹیم بنا کر ٹاسک پورا کرنا نہیں آتا۔ اسے کتابوں میں پڑھنا آتا ہے لیکن عملی طور پر انسانوں سے ڈیل کرنا نہیں آتا۔
لہذا میرا مشورہ یہ ہے کہ محض انجینئر ہونا کافی نہیں ہے اس کے ساتھ ضروری ہے کہ اپنی سکلز بہتر کیجیے ۔ جب آپ سکلز بہتر کرتے ہیں تو پھر آپ ایکسل یعنی ترقی کرنے لگ پڑتے ہیں۔
میں اپنی مثال دیتا ہوں کہ جب میں یو ای ٹی میں پڑھتا تھا تو ہمارا وژن یہ تھا کہ پندرہ یا بیس ہزار کی سیلری کی جاب لگ جائے یہ ہمارا میکسمم وژن تھا۔ دو ہزار تین کا میں پاس آوٹ ہوں اور میرا جونیر آ کر مجھے یہ کہہ رہا ہے کہ میں سوا لا کھ روپے تنخواہ لے رہا ہوں تو میرے لیے بڑی ناکامی کی بات ہے۔ لیکن اگر مجھے آ کر کوئی کہے کہ میری بارہ لاکھ روپے تنخواہ ہے تو میں اس کو درست کہوں گا لیکن معذرت کے ساتھ مجھے ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا۔