Friday, November 18, 2016

کامیابی اور خوشی کی چابی — قاسم علی شاہ

مولاناجلال الدین رومی رحمہ اللہ کو علامہ اقبال اپنا استاد اور اپنا مرشد مانتے تھے ، آپ لوگ ضرور ان کے نام سے واقف ہوں گے ان کی ایک بڑی مشہور کتاب ہے” مثنوی مولاناروم” ۔ مثنوی مولانا روم میں ایک واقعہ لکھا ہے آج کے لیکچر کی ابتدا اسی واقعہ سے کرتا ہوں۔واقعہ کچھ یوںہے کہ:
ایک عالم دین تھے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے حدیث، فقہ ،سنت سب کچھ پڑھا ہوا تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے دریا کے پار جانا تھا اور دریا پار کرنے کے لئے ایک ہی ذریعہ تھا یعنی کشتی کا استعمال ۔ اس عالم باعمل نے یہ کیا کہ کشتی میں بیٹھ گئے کشتی میں ملاح موجود نہیں تھا بلکہ اس کا بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس بچہ کی عمر بارہ تیرہ سال تھی۔ اس بچے نے چپو چلانے شروع کئے اور کشتی دریا میں چلنا شروع ہو گئی۔
راستے میں مولانا رومی نے اس بچے سے پوچھا کہ تم نے کتنی تعلیم حاصل کی ہے یا کیا کچھ پڑھا لکھا ہوا ہے۔ اس بچے نے جواب دیا کہ میں تو کچھ پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ اس پر عالم دین نےافسوس کااظہار کیا اور بچے سے کہا کہ تم نے اپنی آدھی زندگی ضائع کر دی ہے نہ کچھ پڑھا نہ لکھا۔ اتنی دیر میں کشتی دریا میں تھوڑا سا آگے چلی گئی آگے پانی میں بھنور تھا اوراس بھنور میں کشتی نے ہچکولے کھانے شروع کر دئیے۔ اب ملاح کے بچے نے چپو چلانے چھوڑ دیئے اور عالم کی طرف دیکھا اور ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں تیرنا آتا ہے۔ عالم نے جواب دیا کہ نہیں۔ تو اس پر بچے نے کہا کہ تمہاری ساری زندگی غرق ہو گئی اور یہ کہہ کر بچے نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔
ہم لوگ بچپن سے کھانا بولنا چلنا اور سب کچھ سیکھ لیتے ہیں اور ایک کام اگر ہم نہیں سیکھتے تو وہ ہے خوش ہونا جو ہم نہیں سیکھتے۔ ہماری تمام ڈگریاں مکمل ہوتی ہیں لیکن ہم خوش ہونا نہیں جانتے۔ میں ایک صاحب کو ملنے گیا ان کے حالات بہت ہی برے معاشی بدحالی اور مجھے لگا کہ ان کے بڑے بوڑھے ہیروشیما یا ناگا ساقی سے تعلق رکھتے ہیں میں تھوڑا سا آگے بڑھا گھر کے باہر ان کی نیم پلیٹ پڑھی ان کی نیم پلیٹ کے نیچے ان کی ڈگریوں کی فہرست لکھی ہوئی تھی انہوں نے انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی۔ میں نے دل میں سوچا ایسی انگلینڈ کی پی ایچ ڈی کی ڈگری کا کیا فائدہ اگر انسان نے پریشان ہی رہنا ہے تو۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں بچپن سے سیاپے سارے سکھائے جاتے ہیں سارے مسائل ہمارے ذہن پر سوار کر دئیے جاتے ہیں۔ ہمیں خوش ہونا جینا سکھایا ہی نہیں جاتا۔ میرا ایک تھیسز ہے اور میں اس کا ذکر یہاں کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ آج کا موضوع خوشی اور مینٹل ہیلتھ سے متعلق ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے جسم میں ایک امیون یعنی مدافعت کا ایک نظام ہوتا ہے یعنی اگر باہر سے ہمارے جسم پر اگر جراثیم حملہ کرتے ہیں تو ہمارا امیونزم سسٹم ان جراثیم کی مدافعت کرتا ہے۔ امیونزم سسٹم ان جراثیم کو ہرا دیتا ہے اور ہمارے جسم کی صحت اور سلامتی کو برقرار رکھتا ہے۔ اسی طرح ہمارے مائنڈ کا ایمون سسٹم بھی مدافعت پیدا کرتا ہے یعنی اگر کوئی خیال، سوچ ، یقین غلط قسم کا دماغ میں داخل ہو جائے تو مائینڈ کا ایمون سسٹم دخل اندازی کر کے آپ کے ذہن کو نارمل رکھتا ہے اور آپ نارمل لائف گزارتےہیں۔
ہماری ایجوکیشن، ہمارا گھریلو نظام، ہمارا سماج ہمیں جینا نہیں سکھاتے، ہمیں خوش ہونا یا خوش رہنا نہیں سکھاتے۔ ایک تاریخ میں بہت بڑے استاداور صوفی بزرگ ہیں جن کا نام علی بن عثمان الہجویری ہے اور ان کی کتاب کانام “کشف المحجوب”ہے ان کا ایک جملہ بہت ہی قابل غور ہے” وہ فرماتے ہیں کہ برتن سے نکلتاوہی ہے جو کچھ اس میں ڈالا گیا ہے”
حضور والا یہ بات بہت سمجھنے کی ہے کہ اگر ایک بندے کے پاس زندگی جینے کی نہیں ہے تو وہ کسی دوسرے کو کیا زندگی جینا سکھائے گا۔ اگر ایک بندے کے پاس خود خوشی نہیں ہے تو وہ دوسرے کو کیا خوشی دے گا۔ اگر ایک بندے کے پاس اطمنان اور سکون نہیں ہے تو وہ دوسرے کو اطمنان اور سکون کیا دے گا؟ اور اگر کسی شخص کے پاس خود موٹیویشن نہیں ہے تو وہ خود کسی کو کیا موٹی ویٹ کرے گا؟
خوشی کے حوالے سے ہمارے ساتھ مسئلہ اور چیلنج کیا ہے۔ ایک تصویر ہے جس میں ایک بندہ کھڑا ہے اور اس کے سامنے اس کے اہداف یعنی گولز ہیں اور راستے میں اس کے دوست رشتے دار اور دیگر ملنے والے ڈنڈے لے کر کھڑے ہیں اور اس کو مارنے پر تلےہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ تجھے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔گویا آپ کے ہاتھ میںخواب ہیں اور راستے کا ہر بندہ آپ کی مخالف میں کھڑا ہے کہ اس کو آگے نہیں بڑھنے دینا۔
آج میں سوچتاہوں کہ ہم کتنے بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں دنیا کو بدلنے کے، زمانے کو بدلنے کے اور آخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم آخری عمر میں یہ سوچتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں بدل سکے کیونکہ ہم خود کو نہیں بدل سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس الزام تھے ،شکوے تھے، ہمارے پاس شکایتیں تھیں۔
ہم سمجھتے تھے کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں ، ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، ہمارے پاس کتابیں نہیں ہیں، ہمارے پاس لوگ نہیں ہیں۔ یہ ساری چیزیں ہماری مزاحمت میں کھڑی ہیں اور ہمارا ہدف یعنی گول ہمارے سامنے ہے یعنی خوش ہونا۔ ساری زندگی گزر گئی لیکن ہم خوش ہی نہ ہو سکے چونکہ ہم نے خوش ہونا سیکھا ہی نہیں تھا۔ یہ جو اتنی رکاوٹیں ہیں یعنی وہ لوگ جو آپ کے راستے کی رکاوٹ بنیں ہیں انہیں اگر ایک نام دیا جائے تو وہ کیا ہوگا؟ ان لوگوں کو ” سیاپا “کہتے ہیں اور بے وجہ کے خیال کا نام بھیڑیا رکھ دیں۔ یعنی وہ بندہ جو آپ کو آگے نہیں بڑھنے دے رہا وہ سیاپا ہے اور وہ خیال جو ہمارے راستے کی رکاوٹ یعنی شیر کے راستے کی رکاوٹ بن گیا ہے وہ بھیڑیا ہے ۔
دنیا کا سب سے بڑا انعام یہ سیاپا لوگ ہوتے ہیں وہ کیسے؟ ہمیں تیار کرنے والے، موٹی ویٹ کرنے والے ہمیں فائر دینے والے اور ہمیں جگانے والے یہی لوگ ہوتے ہیں۔
چار پانچ چیزیں ایسی ہیں جو زندگی میں جگہ جگہ کام آتی ہیں۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ ایک لڑکی صبح نکلتی ہے اس نے ایک جگہ پہنچنا ہوتا ہے وہ لیٹ ہو چکی ہوتی ہے اور ٹرین پر اس نے سفر کرنا ہوتا ہے وہ جب اسٹیشن پر پہنچتی ہے تو اسے پتہ چلتاہے کہ ٹرین تھوڑی سی لیٹ ہے۔ اب ناشتے کا حل یہی ہوتا ہے کہ پاس ٹک شاپ سے وہ بسکٹ کا ایک پیکٹ لے اور کھا لے۔ وہ اس شاپ سے بسکٹ کا ایک پیکٹ لیتی ہے اور اپنے بیگ میں رکھ لیتی ہے۔ بسکٹ کھانے سے پہلے وہ یہ سوچتی ہے کہ میں پانی پی لوں وہ دیکھتی ہے سامنے ایک کولر ہے اور وہ وہاں سے پانی لینے جاتی ہے جب وہ پانی لے کر آتی ہے تو واپس مڑ کر دیکھتی ہے کہ اس کے بیگ کے پاس ایک لڑکا بیٹھا ہوا ہے اور مزےسے اس کے بسکٹ کھا رہا ہے۔ اسے بہت غصہ آتا ہے کہ ایک تو میرے بسکٹ ، اور دوسرا ناشتہ میں نے نہیں کیا ہوا اور کھا یہ رہا ہے۔ جیسے ہی وہ قریب آتی ہے وہ لڑکا کہتا ہے کہ پلیز آپ بیٹھ جائیں۔ اس لڑکی کو اور غصہ آتا ہے۔ جب وہ بیٹھ جاتی ہے تو وہ لڑکا اس کو بسکٹ کھانے کی آفر کرتا ہے وہ ایک بسکٹ کھاتی ہے جبکہ لڑکا دو بسکٹ کھا جاتا ہے۔ جب آخری بسکٹ رہ جاتا ہے تو لڑکا لڑکی کی طرف دیکھتا ہے اور آخری بسکٹ اٹھا لیتا ہے اور اس کے دو برابر حصے کر کے ایک حصہ لڑکی کو دیتا ہے اور ایک خود کھا لیتا ہے اور وہاں سے ہاتھ جاڑھتا ہوا چلا جاتا ہے۔
اب لڑکی دل ہی دل میں اس لڑکے کو برا بھلا کہہ رہی ہوتی ہے اور غصہ میں بیگ اٹھاتی ہے اور چلی جاتی ہے اور ٹرین میں جا کر بیٹھ جاتی ہے۔ ساتھ ہی اسے خیال آتا ہے کہ وہ آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ لے اور حلیہ درست کر لے۔ آئینہ لینے کے لئے وہ بیگ کھولتی ہے تو اندر سے وہ بسکٹ کا پیکٹ نکل آتا ہے۔ تو اس کو خیال آتا ہے کہ کتنا عظیم انسان تھا وہ جو اپنا بسکٹ مجھے کھلاتا رہا اور میں دل ہی دل میں اس کو برا بھلا کہتی رہی۔
دنیا میں سو سچوئیشن ، سو سیاپے ، سو لوگ بالکل عین اسی طرح آتے ہیں لیکن جیسے وہ دکھتے ہیں ویسےوہ ہوتے نہیں ہیں۔ ہم کسی شخص یا کسی چیز کے بارے میں یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اگر یہ شخص یا چیز میری زندگی سے نکل جاتی تو کیا کمال ہو جاتا۔ لیکن یہ یاد رکھیے گا کہ اگر وہ شخص یا چیز آپ کی زندگی سے نکل جائے تو آپ کی تکمیل نہیں ہونی تھی۔ آپ کے اندر ادھورا پن رہ جاتا۔ آپ کی ذات کے اندر ایک خلا رہ جاتا ہے۔ یاد !رکھیے دنیا میں لوگوں کی محرومیاں ہی ان کی طاقت بنتی ہیں۔ آپ کسی بھی بڑے انسان کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ایک عام انسان سے دس گنا بڑے چیلنج اس کی زندگی میں ملیں گے۔ {جاری ہے}

No comments:

Post a Comment