Thursday, February 3, 2011

بجلي کا بحران و حل ~*~ ڈاکٹر عبدالقديرخان

بجلي کا بحران و حل
ڈاکٹر عبدالقديرخان

موجودہ حکمرانوں نے روز نت نئے بحرانات پيدا کرکے عوام کے دماغ سے مہنگائي، بے روز گاري اور لوڈ شيڈنگ کي لعنت کو نکال ديا ہے۔ سيلاب کيا آيا کہ ہر چيز بمعہ عوام کي حِس، غيرت، جان و مال سب کچھ لے گيا۔ حکومت نے پورے ملک اور عوام کو يرغمال بنايا ہوا ہے۔ اين آر او، اٹھارويں ترميم، راشيوں اور چوروں کو اعليٰ عہدوں پر لگانا، اقربا پروري نے عوام کي زندگي حرام کر دي ہے۔ ميں نے سوچا کہ آج چند سطور آپ کي خدمت ميں بجلي کي پيداوار کے حکومتي منصوبوں پر بيش کروں۔
ميں پہلے يہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سياست دان اور حکمراں طبقہ تو ہميشہ مصلحتاً غلط بياني اور جھوٹے وعدہ کرنے کے عادي ہيں ليکن پيشہ ور يعني پروفيشنل طبقہ کو اس لعنت کا شکار نہيں ہونا چاہئے۔ آپ کي توجّہ 23ستمبر کے ڈيلي نيوز ميں پاکستان اٹامک کميشن کے نئے چےئر مين اَنصر پرويز کي ويانا ميں بين الاقوامي ايٹمي ادارہ کي چوّن ويں جنرل کانفرنس ميں کي گئي تقرير کي جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ جناب پرويز نے وہاں اعلان کيا کہ پاکستان اِٹامک کميشن کو حکومت نے يہ ذمّہ داري سپرد کي ہے 2030تک يعني بيس سال ميں 8800 ميگا واٹ ايٹمي بجلي پيدا کرے۔ پہلے تو آپ کو يہ علم ہونا چاہئے کہ کراچي کا ايٹمي پلانٹ 137 ميگاواٹ بجلي پيدا کرنے کے لئے بنا تھا مگر اب پرانے ہونے کي وجہ سے عموماً 80 ميگاواٹ بجلي پيداکرتا ہے اور بار بار بند بھي ہو جاتا ہے۔ چشمہ ميں چين کا ديا ہوا پہلا پلانٹ 300ميگاواٹ بناتا ہے۔
ڈاکٹر پرويز کے بيان کے مطابق چشمہ ميں چين کا مہيا کردہ 300ميگاواٹ 2011 ميں کسي وقت کام کرنا شروع کردے گا۔ خدا کرے يہ پيشگوئي، وعدہ صحيح ثابت ہو۔ مگر ميں اس وقت اُن 8800 ميگاواٹ بجلي پيدا کرنے کے بيان کے بارہ ميں پريشان ہوں۔ اگر 300 ميگاواٹ کے پلانٹ لگائے جائيں تو ہميں کم از کم 29 پلانٹ کي ضرورت پيش آئے گي اور اگر ہم 900 ميگاواٹ کے بڑے پلانٹ لگائيں تو تقريباً دس پلانٹ لگانا پڑينگے۔ اگر آپ معلومات حاصل کريں تو علم ہوگا کہ 300 ميگاواٹ کا پلانٹ سب کچھ ملا کر تقريباً ايک ارب ڈالر ميں تيار ہوتا ہے اور اس کي تياري ميں کم ازکم نو، دس سال لگ جاتے ہيں۔ چشمہ پلانٹ کے اعداد و شمار ہمارے سامنے موجود ہيں۔ اب ميں يہ سمجھنے کي کوشش کر رہا ہوں کہ ہم کسطرح بيس سال ميں29چھوٹے يا دس بڑے پلانٹ لگا سکيں گے اور اتني بڑي رقم کہاں سے آئے گي ۔ ايک اور بڑا مرحلہ يا مسئلہ ان پلانٹس کو ايندھن مہيا کرنے کا ہے جہاں تک ميري معلومات ہيں ابھي ہم اتني مقدار ميں ايندھن بنانے کے قابل نہيں ہيں۔ کہوٹہ ميں موجود سہولتوں کو بہت وسعت دينا ہوگا۔ اس سلسلہ ميں مجھے اٹامک انرجي کميشن کے سابق چےئر مين مرحوم منير احمد خان کا ايک انٹرويو ياد آتا ہے۔ اُنھوں نے 1980ميں جناب الطاف حسن قريشي کو اردو ڈائجسٹ کے لئے يہ انٹرويوديا تھا اور کہا تھا کہ سن دو ہزارتک ہر سال ايک ايٹمي پلانٹ لگايا جائے گا۔ ان کے دور ميں1990 ميں چين سے صرف 300ميگاواٹ کے پلانٹ کا معاہدہ ہوا تھا اور يہ پلانٹ تقريباً دس سال ميں تيار ہوا تھا۔ بہر حال ميري نيک خواہشات اٹامک انرجي کميشن کے ساتھ ہيں کہ اللہ تعاليٰ ان کو اپنے نيک ارادوں ميں کامياب کرے۔ آمين۔ ڈاکٹر اَنصر پرويز کا بين الاقوامي اٹامک ايجنسي کے بورڈ آف گورنر کا سربراہ چنا جانا پاکستان کے لئے باعث عزّت ہے۔
تھرکول پروجيکٹ اور تھر ميں کوئلہ کے ذخائر کے بارہ ميں لاتعداد متضاد دعوے اور بيانات آتے رہے ہيں۔ چار جولائي 2010کے ڈيلي نيوز ميں ہمارے قابل تجزيہ کار ڈاکٹر فرّخ سليم نے ايک مختصر مگر جامع مضمون شائع کيا تھا۔ اس ميں آپ نے بتلايا تھا کہ دعووں کے بر خلاف کہ 185بلين ٹن ذخائر ہيں ہمارے يہاں صرف تين بلين ٹن ذخائر ہيں۔ اس ميں خراب کوالٹي کا لِگنائٹ کوئلہ بھي شامل ہے۔ اس کو لکڑي اور کوئلہ کي درمياني حالت سمجھا جاتا ہے۔ اس کو عموماً خشک کرکے اور پريس کرکے بلاک ميں تبديل کرکے ايندھن کے طور پر استعمال کيا جاتا ہے۔ اس کو کوئلے کي سب سے نچلي کوالٹي تصور کيا جاتا ہے ۔ اس ميں تقريباً 30فيصد کوئلہ کي مقدار ہوتي ہے، نمي کا تناسب زيادہ ہوتا ہے يعني 60 فيصد سے بھي زيادہ اور راکھ کي مقدار 15سے 20فيصد ہو سکتي ہے۔ اس کي کوالٹي پر منحصر ہوتا ہے کہ اس ميں کسقدر انرجي ہوتي ہے اور يہ 10 سے 15ملين برٹش تھرمل يونٹ في ٹن ہوتي ہے۔ اس قسم کے کوئلہ کي بين الاقوامي مارکيٹ ميں کم قيمت ہوتي ہے اور اس وجہ سے زيادہ تجارت نہيں کي جاتي۔ پاکستان اس وقت صرف چار اعشاريہ تين ملين ٹن اس قسم کا کوئلہ تيار کرتا ہے۔ ڈاکٹر فرخ سليم نے مزيد تفصيلاً تمام دعووں کا نقطہ بہ نقطہ جواب ديا ہے اور اس سے يہ بات عياں ہے کہ تھرکول پروجيکٹ ابھي ہمارے لئے چاند مانگنے کي خواہش ہے۔ دنيا ميں سب سے زيادہ لِگنائٹ (تقريباً 180ملين ٹن) جرمني ميں، روس ميں 85ملين ٹن، امريکہ ميں 80ملين ٹن، ترکي ميں 60ملين ٹن، چين ميں 60ملين ٹن، رومانيہ ميں 30ملين ٹن اور شمالي کويا ميں تقريباً 27 ملين ٹن سالانہ پيدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فرخ سليم کے اعداد و شمار سرکاري اعداد شمار کي ترديد کرتے ہيں کہ پاکستان ميں 175بلين ٹن ذخائر موجود ہيں اور اس سے ايک لاکھ ميگاواٹ بجلي پيدا کي جاسکتي ہے۔ ہماري روايت کے مطابق اس قسم کے دعوے عموماً غلط نکلتے ہيں اور دعوے کرنے والے غائب ہوجاتے ہيں اور بے چارہ يہ غريب ملک بُھگتتا رہتا ہے۔ 13اکتوبر کے ڈان ميں دو مضامين شائع ہوئے تھے ايک مشہور صحافي جناب شميم الرحمن صاحب کا تھا جو اُنھوں نے ڈان کي جانب سے منعقدہ کردہ ”پاور جنريشن اينڈ آلٹرنيٹ انرجي سورسز“ کانفرنس کي تفصيلات پر لکھا تھا۔ اس مضمون ميں بہت سي تفصيلات موجود ہيں اور لاتعداد دعوے اور اميديں۔
دوسرا مضمون ايک خط کي شکل ميں جناب اعجاز علي خان نے لکھا ہے۔ خان صاحب تھرکول اور انرجي بورڈ کراچي کے مينجنگ ڈائرکٹر ميں انھوں نے تفصيل سے تھرکول پروجيکٹس کے مختلف پہلوؤں پر روشني ڈالي ہے۔ توقع کے مطابق خان صاحب نے ابتک کئے گئے تمام اقدامات کي تعريف کي ہے اور درست قرار ديا ہے۔ ميں نے تو جو خاص بات نوٹ کي ہے وہ يہ ہے کہ اينگرو پاکستان سے مشترکہ کمپني کے علاوہ اس پرجيکٹ ميں انگلستان کي دو کمپنياں ”اوراکل کول فيلڈ“ اور” کُوگر انرجي“ بھي شامل ہيں۔ يہ بھي کہا گيا ہے ايک بين الاقوامي کمپني (نام ظاہر نہيں کيا) کوئلہ کي قيمت کا تعين کرنے ميں مدد دے گي۔ اسي طرح کينڈا کي ايک فرم ” ايس اين سي لا ويلن يا لاويلاں“ ٹرانسميشن لائن ڈالنے کي قيمت کا تخمينہ لگائے گي۔ مجھے تھوڑي فکر ہے کہ اتنے ”باورچي“ ايک ڈش بنانے ميں لگے ہوئے ہيں اور ان کي ذمّہ داري کون لے گا اور کوارڈينيشن کون کرے گا۔ ميں يہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ مغربي ممالک صرف اس وقت کسي پروجيکٹ ميں رقم لگاتے ہيں جب اُنھيں اس سے تين چار گنا رقم کي واپسي کي اُميد ہو۔ يہاں ان کو کوئي ايسي پُرکشش چيز نظر نہيں آرہي ہے۔
جو اہم بات آپ کو بتانا چاہتا ہوں اور جو عوام کو اب تک نہيں بتائي گئي ہے وہ اس سلسلہ ميں چند سال پيشتر چين کي جانب سے نہايت مخلصانہ پيشکش تھي۔ اس وقت چين ميں ميرے عزيز دوست، سابق سيکرٹري خارجہ ريا ض محمد خان سفير تھے۔ يہ چاليس سال پيشتر بھي جونير افسر کے طور پر چين ميں کام کرچکے تھے اور چيني زبان ميں بھي کچھ مہارت حاصل کرلي تھي۔ يہ تقريباً آٹھ سال پيشتر کي بات ہے کہ اُنھوں نے تھرکول پروجيکٹ کے لئے چيني دوستوں سے رابطہ کيا اور ايک مشہور کمپني شينفا (Shenfa) اسٹيٹ کارپوريشن کو تيار کر ليا کہ وہ اس پروجيکٹ کو ڈيويلپ کرنے کي ذمّہ داري قبول کرليں۔ ان کي دعوت پر پاکستان کا ايک وفد اس وقت کے واپڈا کے چےئر مين کي سربراہي ميں پيکنگ گيا۔ (جاري ہے)




گفت و شنيد کے بعد شينفا کے پريزيڈنٹ نے نہايت پرکشش پيشکش کي کہ وہ 5.89 سينٹ في يونٹ کي قيمت پر بجلي پيدا کرکے مہيا کرينگے اور پہلے دو عدد پلانٹ 325 ميگاواٹ پيدا کرنے والے 2009ميں تيار ہوجائينگے اور دو ايسے ہي پلانٹ 2010 ميں تيار ہوجائينگے۔ واپڈا کے وفد نے بے جا بحث و بارگيننگ کي کہ قيمت 5.5 سينٹ في يونٹ سے کم کي جائے ۔ شينفا والے اس ميں مشکلات ديکھ رہے تھے مگر رياض محمد خان کي محنت اور اصرار پر اس پر تيار ہوگئے کہ 5.39سينٹ في يونٹ پر وہ بجلي پيدا کرکے دينگے۔ طے يہ پايا کہ واپڈا کا وفد پاکستان واپس آکر حکومت سے بات چيت کرکے ان کو فيصلہ سے مطلع کر دے گا۔ چےئر مين واپڈا ، رياض محمد خان سے کہتے رہے کہ اتني مہنگي قيمت پر بجلي لے کر وہ سولي پر چڑھنا نہيں چاہتے۔ بہر حال اس کے باوجود کہ شينفا کے پريزيڈنٹ نے کہا کہ ان کے اسٹاف کومناسب تنخواہ دينا بہت ضروري ہے مگر پھر بھي چونکہ پاکستان ہمارا پرانا دوست ہے ہم ہر طرح مدد کرنے کو تيار ہيں۔ ہمارے ملک اور قوم کي بد قسمتي ہے کہ ہم نے ہميشہ ايسے لاتعداد اچھے مواقع ضائع کئے ہيں اور تاريخ سے کچھ نہيں سيکھا۔ اب ہم اس سے چار گنا قيمت پر بجلي لے رہے ہيں اور لوڈ شيڈنگ کي لعنت کا شکار ہيں۔
ميں اس بات سے بھي واقف ہوں کہ ہمارے ملک ميں کوئلے اور ايٹمي پاور پلانٹس کے علاوہ ہميشہ سولر اور ونڈملز سے بجلي پيدا کرنے کي باتيں ہوتي ہيں اور مشورہ ديئے جاتے ہيں اور پھر مسلسل ہائيڈل پاور کے بارہ ميں بھي سنہرے خواب دکھائے جاتے ہيں۔ نہ ہي راجہ پرويز اشرف اور نہ ہي دوسرے حکومتي عہديداروں کے وعدے وفا ہوئے ہيں۔
ديکھئے کسي بھي پروجيکٹ کي کاميابي کے لئے دو باتيں بہت اہم ہيں ايک تو قابل تجربہ کار سربراہ اور اسکي ٹيم اور دوسرے حکومت کي غير مشروط سربراہي۔ پروجيکٹ کے سربراہ کي عقل و فہم، طريقہ کار اور اپنے ساتھيوں کے چناؤ کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ دوئم يہ کہ حکومت اس پروجيکٹ کو نہ صرف قومي سطح پر اپنائے اور جنگي بنيادوں پر اس کي تکميل کا مُصمّم ارادہ کرے۔ اس کے علاوہ اس قسم کے پروجيکٹ کے لئے نہايت تجربہ کار کيميکل انجينئرزکي ضرورت ہے۔ ايسے انجينئرز جن کو انڈسٹري کا وسيع تجربہ ہو۔ في الحال تو ان تمام چيزوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہميں چاہئے تھا کہ ہم چين کو اس پروجيکٹ کي تکميل کا کام سونپتے۔ وہ تجربہ کار ہيں، مخلص ہيں اور نہايت قابل بھروسہ دوست ہيں۔ اب بھي وہي سب سے مناسب پارٹنر رہيں گے۔
Courtesy Jangا

No comments:

Post a Comment