Pakistani siasat sisasi wabastagi say shaksiat pasandi tak ka safar


پاکستانی سیاست سیاسی وابستگی سے شخصیت پسندی تک کا سفر 
(Pakistani siasat  sisasi wabastagi say shaksiat pasandi tak ka safar)

سیاست سیاسی لوگ کرتے ہیں یا پھر ایسا کہا جائے تو زیادہ اچھا ہے کہ سیاست عام آدمی کا خیال نہیں رکھتی لیکن جو خود سیاسی ہو جاتا ہے وہ عام آدمی کو استعمال ضرور کرتا ہے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے کہیں پر اپنی پارٹی کا نام ہی عام آدمی پارٹی رکھ لیا جاتا ہے اور کہیں پر پیپلز پارٹی رکھ لیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ عام آدمی کے جذبات سے کھیلنے کے لیے ہوتا ہے کیونکہ ایک عام آدمی سیاسی ہو یا نہ ہو ایک سیاسی آدمی کو سیاست میں جمع رہنے کے لیے عام آدمی کے ووٹ کی ضرورت ضرور ہوتی ہے

بچپن سے سیاست کے لفظ کو کبھی بھی مثبت انداز میں نہیں سنا یا سن بھی لیا تو دو دوست جب ایک دوسرے سے ناراض ہوتے تو ایک دوسرے سے کہتے کہ بھائی، تو نے میرے ساتھ سیاست کی یا پھر تُو اتنا سیاسی نہ بن۔ باتیں ہلکے پھلکے انداز میں ہو جاتی تھیں، لیکن بچپن سے ایک چیز دیکھی کہ کسی محلے میں اگر کوئی سیاست میں حصہ لے رہا ہے تو وہ کوئی غریب آدمی یا اچھا آدمی نہیں ہوتا تھا۔

یا تو وہ محلے کا سب سے امیر آدمی ہوتا تھا یا پھر اس کا تعلق کوئی اچھے لوگوں سے نہ ہوتا تھا۔ وہ بندہ سیاسی بن جاتا تھا اور عام آدمی کا تعلق اُس سیاسی آدمی سے رہتا تھا۔ یا تو اُس کو اُس سے مالی طور پر کوئی فائدہ چاہیے ہوتا تھا یا جسمانی طور پر عام آدمی سیاسی آدمی سے تعلق رکھتا تھا تاکہ محلے میں وہ بتا سکے کہ اُس کا تعلق مالک صاحب سے ہے یا بٹ صاحب سے ہے۔ اسے عام آدمی کی زبان میں سیاسی وابستگی بھی کہا جاتا تھا۔

سیاسی وابستگی کوئی خاص بات نہیں، ہر ملک میں ہوتی ہے۔ کوئی بھی عام آدمی کسی نہ کسی پارٹی کے ساتھ ہوتا ہے یا اسے ووٹ دیتا ہے۔ ہمارے ملک کی بات کریں یا اور بھی ممالک میں ایسا ہوتا ہوگا، لیکن جب ہم اپنے ملک کی بات کریں تو یہاں سیاسی وابستگی سے آگے بھی سیاسی لوگوں نے لوگوں کو اپنی تیز زبان سے اور اپنی باتوں سے متاثر کیا ہے۔

 اور لوگ وقت کے ساتھ ساتھ ان سیاسی لوگوں کی باتوں سے اتنے متاثر ہو جاتے ہیں کہ بات سیاسی وابستگی سے شخصیت پرستی تک پہنچ جاتی ہے۔ اور ایسی کیفیت کے بعد لوگ اپنے لیڈر کے بارے میں کچھ بھی سننا اپنی لیڈر کی توہین سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اور ایسی کیفیت یعنی شخصیت پرستی کی کیفیت تک پہنچنے کے بعد باقی سب دوسرے لیڈرز صفر ہو جاتے ہیں اور آپ کی اپنی شخصیت ہیرو بن جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایسا کم لیڈرز کے ساتھ ہوا ہے لیکن ہوا ضرور ہے۔ کچھ لیڈرز سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی بھی تھے لیکن کچھ نے مذہب کا استعمال کر کے اپنی سیاست اور ووٹ بینک کو چمکایا اور کچھ نے کچھ ایسا بیاینیہ عوام کے سامنے یا ایسے کہا جائے کہ اپنے بھولے ووٹرز کے سامنے پیش کیا کہ وہ شخص ایک سیاسی لیڈر سے عوام کے دل میں اپنی جگہ بنا گیا۔ وہ کہتے ہیں نہ، درست وقت پر درست فیصلہ بہت اہم ہوتا ہے یا پھر ایسے کہا جائے کہ درست بال کو پک کر چھکا مارنے والے کو ہی یاد رکھا جاتا ہے۔

میں تو یہ کہتا ہوں کوئی بھی سیاسی لیڈر اُس وقت تک ووٹ ہی نہیں لے سکتا جب تک وہ زبان کا میٹھا اور اُس کو زبان کا صحیح استعمال کرنا آتا ہو۔ کب کیا اور کب کہا کیا بولنا ہے یہ ایک سیاسی لیڈر کا کمال ہوتا ہے۔ اب بات سیاسی وابستگی سے شخصیت پرستی تک کب اور کیوں پہنچتی ہے۔ میری بات تو یہ ہے کہ میرے خیال سے اُس لیڈر کی پرسنالٹی، اُس کا اپنی زبان پر عبور، اُس کی قسمت کا صحیح وقت پر اُس کا ساتھ دینا، اور سب سے بڑھ کر

اس نے جو بیانیہ سیٹ کیا ہے وہ عوام کے دل اور دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ میں کسی بھی لیڈر کا نام نہیں لیتا لیکن ہمارے ملک میں کئی لیڈرز نے روٹی، کپڑا اور مکان کا بیانیہ دیا اور کسی نے نیا پاکستان کا بیانیہ دیا۔ شعلہ بیانی کے ساتھ ساتھ کئی لیڈرز نے اسلامی ٹچ بھی دیا۔ ہماری ایسی بھولی عوام کے لیے جو ہمیشہ سے دین کے نام پر کٹنے اور مرنے کے لیے تیار رہتی ہے، اسلامی ٹچ بھی ہماری ایسی قوم کا کمزور نقطہ ہے۔ بہرحال جو بھی نیا لیڈر یا پرانا لیڈر آتا ہے اور چاہے وہ لیڈر وردی میں ہو، پھر سب کی سنو، لیکن سب سے اہم ہے جس لیڈر سے مرضی محبت کرو، لیکن اپنے لیڈر کی محبت سے اوپر پاکستان کی محبت کو رکھو کیونکہ یاد رکھو پاکستان ہے تو ہم بھی ہیں اور ہماری پہچان بھی ہے۔

 پاکستان زندہ باد
 پاکستان پائند آباد

Post a Comment

Previous Post Next Post