عوام نے موجودہ حکمرانوں کو اپنے اوپر حکمرانی کا شرف بخشا تھا! اس امید سے کہ یہ انکی حالتِ زار کو خوشحالی میں بدلیں گے۔ ترقی آئے گی، مہنگائی سے نجات ملے گی اور جلتا ہوا ملک امن کی راہ پر چل پڑے گا۔ خواب تو سہانا تھا مگر تعبیر الٹی نکلی۔ عوام کی حالت بد سے بد تر ہوتی گئی، مہنگائی نے بھوکا مرنے پر مجبور کردیا۔۔ غریب اپنے ہی جگر کے ٹکڑوں کو قتل کرنے لگے۔* خودکشی کرنے لگے۔ ملک میں اُٹھی آگ کی چنگاری شعلہ بن گئی۔ کسی نے سابق وزیرِاعظم عزت ماب سید یوصف رضا گیلانی صاحب سے عوام کی شکستہ حالی کے بارے سوال پوچھا تو موصوف نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ "تو وہ پاکستان چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
*
جن پتھروں کوعطاکی تھیں ہم نے دھڑکنيں
*جب زبان ملی توہم ہی پربرس پڑے
*
اور پھر کس منہ سے کہتے ہیں کے ہم عوام کی عدالت میں جائیں گے؟ کوئی ان سے کہےکہ جاؤ پہلے ایسا چہرہ تراشو جس سے عوام تمہیں پہچان نہ پائے۔ ضمنی انتخابات میںاپنی جیت کو یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ وہ عوام کی عدالت میں سرخرو ہوئے ہیں۔ ارے ہم عوام توغلامی کا فرض نبھارہے ہیں۔ جس تیر نے ہمارا سینہ چاک کیا اُسی تیر پہ مہر لگا کرآتے ہیں۔ کاش تم بھی حاکمیت کا فرض پورا کرنا جان لو۔ غریب کو اس کا حق دینا سیکھ لو۔ شیر جنگل کا بادشاہ اور تیر جنگل کا شکاری۔ پھر میں کیوں نہ کہوں کہ میرے دیس میں جنگل کا قانون ہے؟
*
ابھی بھی وقت ہے کہ غریب عوام کی نظروں میں چھپے سوال پڑھ لو۔ ان کے دلوں میں لگی آگ کی تپش بھانپ لو۔ اس سے پہلے کہ وہ سوال زباں پرآجائیں اور آپکے ایوان ہل جائیں وہ آگ کا لاوا اُبل پڑے اور سب کچھ خاکستر ہو جائے۔