کل کی بات ہے بیغم بلا فل سٹپ بولے چلی جا رہی تھی اور میں اس کے حضور کھوگو بنے بیٹھا تھا۔ میں جانتا تھا ایک لفظ بھی میرے منہ سے نکلا تو دو چار گھنٹے بنے۔ مجھے ہمیشہ چپ کی چادر میں ہی پناہ ملی ہے۔ شوہر حضرات کو اکثر یہ جملہ سننے کو ملا ہو گا
تم نے ساری عمر کیاہی کیا ہے‘ کون سے تم نے میرے ماتھے پر ٹیکے سجا دیے ہیں"یہ جملہ پہلے بھی کوترسو بار سن چکا تھا۔ میں سقراط کا زہر سمجھ کر پی جاتا تھا۔ کل مجھے تاؤ آ گیا۔ کمال ہے وہ ساری عمر میں اس عرصہ کو بھی شمار کر رہی تھی جو میرے کنوار پن کا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں مجھے ابھی اور کتنا جینا ہے۔ ساری عمر میں تو یہ دونوں زمانے بھی آتے ہیں۔ جی میں آیا اس حوالہ سے بات کروں لیکن مجھے اس کے اس جملے نکمے تو ہو ہی اوپر سے حکایتں کرتے ہو کے تصور نے لرزا کر رکھ دیا۔ مجھے غصہ بڑا تھا جو میں ہر حال میں نکالنا چاہتا تھا۔ میں نے بڑی کڑک دار آواز جو کمرے کی دہلیز بھی پار نہ کر سکی‘ میں کہا کیوں خوامخواہ مغز چاٹ رہی ہو۔ اس کا جواب میری سوچ سے بھی بڑھ کر نکلا۔ کہنے لگی میں اپنے منہ سے بول رہی ہوں اس میں تمہارا کیا جاتا ہے۔ اس کی بات میں حد درجہ کی معقولیت تھی۔ ورزش تو اس کے دماغ اور منہ جس میں زبان اور جبڑے بھی شامل ہیں‘ ہو رہی۔ ہاں البتہ میرے کانوں کو زحمت ضرور تھی۔ دماغ کا خرچہ تب ہوتا جب میں اس کے کہے کو کوئ اہمیت دے رہا ہوتا۔ روز کی چخ چخ کو اہمیت دینا حماقت سے زیادہ نہیں۔غصہ میں آ کر ڈھیٹ اور چکنا گھڑا تک کہہ جاتی ہے۔ میں دونوں کانوں سے کام لیتا ہوں یعنی ایک کان سے سنتا ہوں دوسرے کان سے نکال دیتا ہوں اور بس۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری لڑائ یک طرفہ رہتی ہے۔ معروف مقولہ ہے کہ رعایا ملک کے قدموں پر قدم رکھتی ہے۔ میں بھی اس ذیل میں حاکم کے قدموں پر قدم رکھنے والا ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنے گھر کے افراد کی پوری دیانتداری سے خدمت کرتا ہوں۔ چوک اسی معاملہ میں ہوتی ہے جو میری پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔ گھر والے یقین نہیں کرتے۔ ہر گھر والی اپنے شوہر کو اوباما کا سالا سمجھتی ہے جو ہر کچھ اس کی دسترس میں ہے۔ بہر طور دسترس سے باہر کام کے لیے مجھے دونوں کانوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ حکومت میں موجود لوگ دونوں کانوں سے کام نہیں لیتے۔ وہ کانوں میں روئ ٹھونس لیتے ہیں۔ لوگ جب سڑکوں پرآتے ہیں تو نظر آنے کے مطابق یہ سازش اور بغاوت کے مترادف ہوتا ہے اس لیے وہ اس رولے رپے کے لیے ڈنڈے کا استعمال فرض عین سمجھتے ہیں۔ لوگ اتنا بولتے اور لکھتے ہیں لیکن ان کی چال میں رائ بھر فرق نہیں آتا۔ رہ گئ تاریخ کی بات تو مورخ ان کا ہتھ بدھا گولا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں پیٹو مورخ جسے میں مورکھ کہتا ہوں‘ انہیں نبی سے دو چار انچ ہئ نیچے رہنے دے گا۔ لہذا آتے وقت سے کیا ڈرنا۔ رعایا اور حکومت ریاست کے دو اہم رکن ہیں۔ رعایا حکومت کو ٹیکس دیتی ہے اگر نہیں ادا کرتی تو حکومت کو خوب خوب وصولنا آتا ہے۔ ٹیکس کے عوضانے میں حکومت رعایا کو سہولتیں جن میں تعلیم اورعلاج معالجے کی سہولتیں شامل ہیں‘ فراہم کرتی ہے یہی نہیں انہیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکس وصولنا یاد رہتا ہے لیکن سہولتیں فراہم کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ میں ہر ابے یا شوہر کی پیروی میں مسیتے جا کر قسم کھانے کو تیار ہوں کہ گھر والوں سے ٹیڈی پیسہ ٹیکس وصول نہیں کرتا۔ اپنی مزدوری سے روٹی کپڑا مکان تعلیم علاج معالجہ وغیرہ دستیاب کرتا ہوں اس کے باوجود ڈھیٹ ایسے ثقیل کلمات سنتا ہوں۔ سن کر ہاتھ نہیں کھنچتا۔ میں یہ سب کرنا اپنا فرض جانتا ہوں۔  
کل مجھے ایک پراءویٹ میسج موصول ہوا جس میں کراچی کی حالت زار کا تذکرہ تھا۔ پراءویٹ میسج پڑھ کر میرے ہاتھ پاؤں سے جان نکل گئ۔ پراءویٹ میسج میں ایک موثر اور منظم پارٹی کا ذکر تھا۔ لکھا تھا کہ ہر طبقہ کی عورت آبرو سے محروم ہو رہی ہے اور کوئ پوچھنے یا سننے والا موجود نہیں۔ ریاست کے اختیارات بے انتہا ہوتے ہیں۔ ریاست اپنے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہے۔ ادارے اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر ادارے کچھ بھی نہیں کرتے تو ان کے ہونے کا کوئ جواز نہیں بنتا۔ جب جنگل کا قانون چلنا ہے تو انھیں چلتا کرنا چاہیے اور ان پر اٹھنے والی خطیر رقم ہاؤسز اور اس کے مکینوں کی بہتری کے لیے خرچ ہونی چاہیے۔ ایک خیال یہ ہے کہ ادارے اپنے اور ہاؤسز کے لیے کماتے ہیں لہذا انہیں ختم کرنا ہاؤسز اور اس کے مکینوں کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف ہے۔ اس مخصوص گروہ یا ارٹی کو نکیل ڈالنا ہاوسز سے مرحومی کے مترادف ہے۔ گویا ان عنصر کو کھلی چھٹی دینا سیاسی مجبوری ہے۔ مجبوری کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ جن عورتوں کی عزت برباد ہوتی ہے کون سی ان کی اپنی ماءیں بہنیں ہوتی ہیں۔ دوسرا عورت کے ساتھ شادی کے بعد بھی یہی کچھ ہوتا ہے بلاشادی ہو رہا ہے تو کون سی قیامت ثوٹ رہی ہے۔ بس تھوڑا سا بے غیرت ہونے کی ضرورت ہے۔ بے غیرتی بھی کیسی۔ یہ ترقی پسندی کی علامت ہے۔ بہت سے علاقے موجود ہیں جہاں باپ کا تصور ہی نہیں۔ ان کے ہاں کوئ رولا نہیں تو ہمارے ہاں قدامت پسندی سے کام لیا جا رہا۔ ہمیں ہاؤسز کی سیاسی مجبوری دیکھتے ہوءے بے غیرت ہو جانا چاہیے۔عوام کا رولا اور بے بس سسکیاں قطعی ناجاءز اور باؤسز کے خلاف کھلی سازش ہے۔
گھر کی کرسی میرے پاس ہے رولے رپے کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا میری مالی مجبوری ہے۔ غنڈہ عناصر کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا ہاؤسز کی سیاسی مجبوری ہے۔ اس کا اس سے بہتر اور کوئ حل نہیں کہ بیغم بولتی رہے اور میں کام سے کام رکھوں۔ اس کے بولنے سے اس کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔ بےعزتی کرکےاس کی انا کو تسکین ملتی ہے اور وہ خود کو ونر سمجھتی ہے جبکہ میں اپنا پرنالہ آنے والی جگہ پر رکھتا ہوں۔ رولا ڈالنے اور برداشت کرنے سے بدامنی پیدا نہیں ہوتی بلکہ توازن کا رستہ ہموار ہوتا ہے۔