Monday, February 28, 2011

خودکشی اور شہادت

خودکشی اور شہادت

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ـ


کئی بار سوچا مقتول بلکہ شہید فہیم کی بیوی کی خودکشی پر لکھوں مگر ہمت نہیں پڑتی تھی۔ میں مولوی صاحبان سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ ان کی عزت میرے دل میں ہے۔ جس خوف میں شوق بھی ہو تو وہ بزدل نہیں ہوتی۔ کچھ باتیں ملامتی ہوتی ہیں کچھ علامتی ہوتی ہیں مگر یہ لوگ سلامتی کے سارے معانی نہیں جانتے۔ میرے خیال میں جسے کوئی امریکی اہلکار قتل کر دے تو وہ خود بخود شہید کے مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے۔ میں بھٹو دوست ہونے کے باوجود جنرل ضیا کے لئے بے قراری سی محسوس کرتا ہوں۔ شہید کی بیوی کو بیوہ نہیں کہنا چاہئے۔ زندہ آدمی کی بیوی کو بیوہ نہیں کہا جاتا زندگی کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک آدمی کئی زندگیاں جیتا ہے۔ فہیم کی بیوی نے تو اپنی جان اپنے شوہر کے لئے قربان کر دی ۔ قربانی کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ شمائلہ ایک بہادر خاتون تھی اس نے بے حس معاشرے میں زندہ رہنے سے انکار کر دیا۔ ایک بے انصاف معاشرے میں زندہ رہنا بھی جرم ہے اور ظالمانہ معاشرے میں ظلم ہے۔ جرم اور ظلم ہمارے ہاں عام ہو گئے ہیں۔خدا کی قسم شمائلہ کے پاس طاقت ہوتی تو وہ ظالموں ، حاکموں کو مزا چکھا دیتی۔ اس نے اپنے آپ کے ساتھ جو واردات کی۔ اس کی طرف سے یہ کارروائی قاتلوں اور قاتلوں کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ نہ ہو سکتی تھی۔ اس نے کچھ دن انتظار کیا ہماری پولیس اور انتظامیہ ظالموں کا ساتھ دیتی ہے۔ وہ مظلوم کی ساتھی نہیں۔ شمائلہ ”خون کا بدلہ خون“ کی آرزو کے ساتھ مر گئی۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ امریکہ کے غلام اس کے شوہر کے قاتل کو چھوڑ دیں گے۔ اور وہ یہ منظر نہ دیکھ سکتی تھی۔ اس نے احتجاج کیا یہ آنکھیں کھول دینے والا ردعمل ہے۔ خودکشی حرام ہے۔ یہ زندہ رہ جانے والوںکے لئے ایک پیغام ہے۔ مگر زندہ لوگ شمائلہ کا پیغام بھی سنیں۔ ....

عشق کے دردمند کا طرز کلام اور ہے
تیرا پیام اور ہے میرا پیام اور ہے

فہیم کے ساتھ اس کا رشتہ محبت کا تھا۔ اور محبت کے لئے بیان دینے والا حرام موت نہیں مرتا۔ پاکستان میں ہر آدمی نے شمائلہ کی جرات کو سلام کیا ہے۔ خودکشی حرام ہے مگر کبھی اس موت پر حیرانی ہوتی ہے اور حیرانی حرام نہیں ہے۔ کون ہے جو اپنے ہاتھ کی انگلی پر بھی زخم کرنے دیتا ہے۔ موت سے بچنے کے لئے لوگ کیا کیا کرتے ہیں۔ دوسروں کو موت کی نیند سلا دینے والے زندہ رہنے کی طلب میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ریمنڈ کو موت سے بچانے کے لئے پورا امریکہ اور صدر اوباما بے تاب ہیں۔ فہیم اور فیضان کو ریمنڈ نے قتل کیا۔ عبادالرحمان بھی اسی کی وجہ سے قتل ہوا اور فہیم کی بیوی کا قاتل بھی ریمنڈ ہے اور یہ پورا نظام ہے یہ حکومت ہے اور معاشرہ ہے۔ نجانے کیوں میرا دل اسے خودکشی کہنے کو نہیں مانتا۔ یہ خود کشی بھی ہے تو پھر بھی یہ خودکشی نہیں۔ خودکشی بھی خاص حالات میں شہادت ہو سکتی ہے۔ آدمی اپنے اندر بھی شہید ہوتا ہے۔ خودکشی کرنے والا بے حسی کی انتہاﺅں کو چھو کر یہ عمل کرتا ہے۔ یہ عشق کی بے حسی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ احتجاج کی سب سے بڑی شکل ہے۔ شمائلہ کے دل میں اپنے شوہر کی محبت اس طرح گھل گئی تھی کہ اس نے اپنی بے اختیاریوں کو بے قراریوں میں بدل لیا تھا۔ بے اختیاریاں اختیار کی ایک شکل بن جایا کرتی ہیں۔ پنجابی کا یہ مصرعہ کس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ ....ع
مینوں لگ گئی بے اختیاری

مجھے جنرل نیازی یاد آتا ہے۔ میں اسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا موجب نہیں سمجھتا۔ مگر یہ بات مجھے تڑپاتی ہے کہ اس نے دشمن جرنیل کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے۔ یہ بھی مجبوری تھی جس کے سامنے وہ بے بس ہو گیا۔ تو بے بسی کا اظہار یہ بھی تھا کہ جو پستول اس نے پلٹن میدان میں خالی کیا۔ وہ اپنے سر میں مار کر خالی کرتا اور ہتھیار نہ ڈالتا۔ اس طرح ہمارے دل میں نامعلوم بے قراریوں سے بھر جاتے۔ وہ میدان جنگ میں نہ مر سکا تو پلٹن میدان میں مر جاتا۔ دشمن کے ہاتھوں اس کی موت نہ لکھی تھی تو وہ خود اپنا قاتل بن جاتا۔ خدا کی قسم میں اس خودکشی کو شہادت کہتا جو ہمیں تاریخی اور عالمی رسوائی سے بچا لیتی۔ اس طرح مرنا تو حرام نہیں ساری قوم اسے سلام کرتی اور یہ گارڈ آف آنر سے زیادہ بیش بہا ہے۔

میں خودکشی کے حق میں نہیں مگر اس طرح کی خودکشی میرے اندر زندہ رہنے کی تڑپ بیدار کرتی ہے۔ مارو یا مر جاﺅ۔ اگر شمائلہ ریمنڈ کو موت دے سکتی یا اسے اپنے حکمرانوں پر اعتبار ہوتا کہ وہ اسے موت کی سزا دیں گے تو وہ کبھی خودکشی نہ کرتی۔ اس کے بعد تو ہمارے بے حس حکمرانوں کو بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے بعد فیضان شہید کی بیوی زہرا نے بھی رانا ثنااللہ کو دھمکی دی ہے کہ تم لوگ وطن کے بیٹوں کے خون کا کب تک سودا کرو گے۔ میں بھی خودکشی کر لوں گی۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ دھمکی رانا صاحب کو کیوں دی گئی۔ کیا یہ لوگ اب بھی اپنے پیاروں کے خون کا سودا کریں گے۔ فہیم، فیضان اور عباد کے لواحقین کے ناک میں دم آ گیا ہے کہ تم ڈالر لے لو اور ریمنڈ کو معاف کر دو۔ امریکی ڈالروں پر پلنے والے سمجھتے ہیں کہ سچے رشتے اتنے کچے ہوتے ہیں۔ دولت اور حکومت کے لئے اپنا سب کچھ بیچ دینے والے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ہیں۔ مائیں، بہنیں اور بیویاں اپنوں کے خون کی چھینٹوں کی دکان نہیں لگایا کرتیں۔ اپنی بیوی کا خط پڑھ کر رونے والا قاتل ریمنڈ فہیم کی بیوی شمائلہ کی خودکشی پر تو نہ رویا تھا۔ پاکستانیوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مارنے والے امریکی پاکستانیوں کو انسان بھی نہیں سمجھتے۔ غلام بھی تو انسان ہوتے ہیں؟

چودھری شجاعت اور چودھری پرویزالہی نے دونوں تینوں گھروں کی کفالت کا اعلان کیا ہے۔ ان کی طرف سے چودھری ظہیرالدین نے دکھی لوگوں کے پاس جا کے ایک ایک لاکھ روپے کا چیک پیش کیا۔ پاکستان کے مخیر اور غیرت مند لوگ صابر شاکر لواحقین کی اتنی مدد کریں کہ ہمارے حکمران حیران رہ جائیں اور امریکی پریشان ہو جائیں۔ میرے ایک خوبصورت اور دوست دار کزن محمود نیازی نے خودکشی کی تو میں نے ایک شعر کہا تھا جس کے لئے غور کرنے کی گزارش ہے۔ ....
تو جو قاتل ہے تو مقتول کہوں میں کس کو
تو جو گلچیں ہے تو پھر پھول کہوں میں کس کو

No comments:

Post a Comment