Friday, January 21, 2011

پاجامہ تو بچائیے

ذرا سمندر پر بھی توجہ دیں


وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی



بھارت کی ساحلی پٹی ساڑھے سات ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ اس میں سے چھبیس فیصد کو سمندر آہستہ آہستہ نگل رہا ہے۔ مشرقی ساحل پر اڑیسہ اور تامل ناڈو کے متعدد علاقوں میں گزشتہ سو برس کے دوران سمندر بارہ کلومیٹر تک اندر گھس چکا ہے۔جبکہ مغربی ریاست کیرالہ میں سمندر چھ میٹر سالانہ کے حساب سے زمین کو پیچھے دھکیل رہا ہے۔ ریاست گوا کے ایک سو پانچ کلومیٹر طویل ساحل میں سے دس فیصد کو سمندر چاٹ چاٹ کر اب گوا کے گورنر کی رہائش گاہ کے پچھواڑے تک پہنچ گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ اگلے بیس برس میں یہاں کا سفید ریت والا وہ ساحل غائب ہوجائے گا جس کی کشش ہر سال پچیس لاکھ سیاحوں کو کھینچتی ہے۔
پاکستان کی ساحلی پٹی ایک ہزار پچاس کلومیٹر طویل ہے۔ جس میں کراچی سے کچھ کے درمیان صوبہ سندھ کے دو اضلاع ٹھٹہ اور بدین بدترین سمندری غنڈہ گردی کا شکار ہیں۔ ہر سال سمندر لگ بھگ پچاس ہزار ایکڑ زمین کھا رہا ہے۔ ٹھٹہ کی ایک تحصیل کھارو چھان کا آدھا حصہ سمندر ہضم کرچکا ہے۔اس بحری جارحیت کی دو موٹی موٹی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔
اول یہ کہ اس خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سبب سمندری سطح میں ایک اعشاریہ ایک ملی میٹر سالانہ کا اضافہ ہورہا ہے۔ شائد اسی لیے پاکستان دنیا کے ان دس ممالک کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔

دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ٹھٹہ اور بدین دریائے سندھ کے ڈیلٹا پر آباد ہیں۔ یہ دنیا کا چھٹا بڑا دریائی ڈیلٹا ہے۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے دریا خشک ہوجاتا ہے۔ سمندر کی بدمعاشی سے بچنے کے لیے سالانہ دس ملین ایکڑ فٹ دریائی پانی اس ڈیلٹا سے گزرنا ضروری ہے۔ لیکن گزشتہ پچیس برس کے دوران یہاں سے اوسطاً سالانہ پونے ایک ملین ایکڑ فٹ پانی ہی گزر پارہا ہے۔چنانچہ سمندر اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ڈیلٹا پر چڑھ دوڑا ہے۔
مگر اسلام آباد ہو کہ دلی کے پالیسی ساز، وہ کسی اور دنیا میں ہی مگن ہیں۔ انہیں احساس ہی نہیں کہ جس ایک سو پینتیس کلومیٹر لمبی اور بتیس کلومیٹر چوڑی کشمیر وادی کے لیے وہ پچھلے تریسٹھ برس سے ہر سطح پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں، اس کے برابر کا رقبہ اسی عرصے میں سمندر برد ہوچکا ہے۔اور کشمیر وادی کی آبادی سے چار گنا آبادی اس سمندر گردی کے سبب بھیک مانگنے کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔

چھہتر کلومیٹر طویل اور پانچ کلومیٹر چوڑے سیاچن گلیشیئر پر لگ بھگ چھ ہزار فوجی ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گزشتہ چھبیس برس سے کھڑے ہیں۔ ان تک پانچ روپے کی روٹی پہنچانے پر پچانوے روپے خرچ ہورہے ہیں۔ یہ مہم جویانہ عیاشی اس حقیقت کے باوجود جاری ہے کہ جس گلیشیئر کو حاصل کرنے کے لیے اب تک چار ہزار کے لگ بھگ فوجی سردی اور گولی کی غذا بن چکے ہیں وہ گلیشیئر بھی اگلے پچیس تیس برس میں شرم سے پانی پانی ہوکر غائب ہوجائے گا۔

دونوں ممالک اپنی مٹی کا ایک ایک انچ مقدس سمجھتے ہیں۔ ہر صبح بھارت ماتا کی سوگند یا پاک سرزمین کی قسم کھاتے ہیں۔ اور سمندر ہے کہ ان سربہ گریبانوں کا پاجامہ کھینچے لیے جارہا ہے۔

No comments:

Post a Comment