Monday, November 2, 2015

انٹرنیٹ انسانیت کا دُشمن یا دوست؟

اِن دِنوں انٹر نیٹ کے ذریعہ کسی بھی پیغام کو Forward کرنے کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے، چاہے ہم اس پیغام کو پڑھنے کی تکلیف گوارہ کریں یا نہیں، اور اسی طرح اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت بھی سمجھیں یا نہیں کہ Email صحیح معلومات پر مشتمل ہے یا جھوٹ کے پلندوں پر۔ البتہ اس کو Forward کرنے میں انتہائی عجلت سے کام لیا جاتا ہے۔ جبکہ ایمیل ہمارے پاس Forward کرنے کے لئے نہیں بلکہ اصل میں پڑھنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ 

کسی شخص یا کسی گروپ پر غلط معلومات پر مشتمل اِی میل کو Forward کرنا ہمارے لئے جائز نہیں ہے ، خاص کر اگر وہ اِی میل دینی معلومات پر مشتمل ہو، کیونکہ اس سے غلط معلومات دوسروں تک پہنچے گی۔ مثال کے طور پر حال ہی میں ایک اِی میل بعض احباب کے پاس پہنچی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ۵ نام کسی بھی ۱۱ مسلمانوں کو بھیج دیں تو ہماری بڑی سے بڑی پریشانی حل ہوجائے گی۔ ۔۔۔ ۔ اسی طرح بعض احباب کے پاس اِی میل پہنچی ہے کہ فلاں اِی میل اگر اتنے احباب کو بھیج دیں تو اس سے آپ کے فلاں فلاں مسائل حل ہوجائیں گے، ورنہ مسائل اور زیادہ پیدا ہوں گے۔۔۔۔۔ غرض یہ ہے کہ اس طرح کی اِی میلز کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ عموماً جھوٹ اور فریب پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ بعض احباب لاعلمی میں اس طرح کی اِی میلز دوسروں کو Forwardکردیتے ہیں۔

علوم نبوت کے ساتھ دنیاوی علوم کو بھی حاصل کرنے کی اسلام نے ترغیب دی ہے، جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ وحی کی ابتداء اقراء یعنی پڑھنے کے لفظ سے شروع ہوئی۔ نیز نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِےْضَۃٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَۃٍ (ابن ماجہ) ۔ ہر مسلمان مردوعورت کے لئے علم کا حاصل کرنا ضروری ہے۔
موجودہ زمانہ میں تعلیم وتعلم کے لئے انٹرنیٹ کا بھی استعمال کیا جارہا ہے، یہ بھی اﷲ کی ایک نعمت ہے بشرطیکہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ مگر بعض حضرات کچھ اِی میلز کی چمک دمک دیکھ کر اس کو پڑھے بغیریا تحقیق کئے بغیر دوسروں کو Forwardکردیتے ہیں۔ آج کل انٹرنیٹ پر بے شمار گروپ بھی بنے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے اِی میلز کو ایک مرتبہ Forward کرنے سے ہزاروں حضرات کو پیغام پہنچ جاتا ہے۔ اب اگر غلط معلومات پر مشتمل کوئی اِی میل Forward کی گئی تو وہ غلط معلومات لوگوں میں رائج ہوتی جائیں گی، جس کا گناہ ہر اس شخص پر ہوگا جو اس کا ذریعہ بن رہا ہے۔ لہذا تحقیق کئے بغیرکوئی بھی اِی میل خاص کر دینی معلومات سے متعلق Forward کرنا گناہ ہے، جیساکہ رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا: کَفَی بِالْمَرْءِ کَذِباً اَن ےُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ (مسلم) آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بلا تحقیق بیان کرے۔ ایک دوسری حدیث میں آپ ا نے ارشاد فرمایا: مَنْ حَدَّثَ عَنِّی حَدِےْثاً وَہُوَ ےُرَی اَنَّہُ کَذِبٌ، فَہُوَ اَحَدُ الْکَاذِبِےْنَ (مسلم) جس نے میری طرف منسوب کرکے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی حدیث بیان کی تو وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے۔

یاد رکھیں کہ انسان کے منہ سے جو بات بھی نکلتی ہے یا وہ لکھتا ہے تو وہ بات اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ (سورہ ق ۱۸) انسان منہ سے جو لفظ بھی نکالتا ہے، اس کے پاس نگہان (فرشتے اسے لکھنے کے لئے) تیاررہتے ہیں۔

اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ غلط خبروں کے شائع ہونے کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا ہے، مثال کے طور پر غزوۂ احد کے موقع پر آپ اکے قتل ہونے کی غلط خبر اڑادی گئی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی، جس کا نتیجہ تاریخی کتابوں میں موجود ہے۔ ۔۔۔ اسی طرح غزوۂ بنو مصطلق کے موقع پر منافقین نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگاکر غلط خبرپھیلائی تھی جس سے نبی اکرم ا کی ِشخصیت بھی متأثر ہوئی تھی۔ ابتداء میں یہ خبر منافقین نے اڑائی تھی لیکن بعد میں کچھ سچے مسلمان بھی اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس میں شامل ہوگئے تھے۔۔۔۔ آخر میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں حضرت عائشہ ؓ کی برأت نازل فرمائی۔۔۔۔ اور اس واقعہ میں اﷲ تعالیٰ نے جھوٹی خبر پھیلانے والوں کی مذمت کی جنہوں نے ایسی غلط خبر کو رائج کیاکہ جس کے ذریعہ حضرت عائشہ ؓ کے دامن عفت وعزت کو داغ دار کرنے کی مذموم کوشش کی گئی تھی، ارشاد باری ہے: لِکُلِّ امْرِیءٍ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (سورہ النور ۱۱) ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصہ کو سر انجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہے۔

آج کل مغربی ممالک کی بعض Websites اسلام سے متعلق مختلف موضوعات پر Referendum کراتی رہتی ہیں۔ ان Referendum میں بعض ہمارے بھائی کافی جذبات سے شریک ہوتے ہیں، اور اپنی صلاحیتوں کا ایک حصہ اس میں لگا دیتے ہیں۔ میرے عزیز دوستو! عموماً اس طرح کی تمام Websites اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے ہی استعمال کی جاتی ہیں، ان پر کوئی توجہ نہیں دینی چاہئے ، جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ےَا اَےُّہَا الَّذِےْنَ آمَنُوا اِنْ جَاءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاءٍ فَتَبَےَّنُوا اَنْ تُصِےْبُوا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِےْنَ (سورہ الحجرات ۶) اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذاء پہنچادو، پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ۔ نیز اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ (سورہ النور ۱۹) جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے خواہاں رہتے ہیں ، ان کے لئے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے۔ 
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے 
جتنا ہی دباؤ گے اتنا ہی وہ ابھرے گا

خلاصہ کلام:چونکہ انٹرنیٹ بھی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ، اس کو ہمیں اپنے شخصی وتجارتی مراسلات کے ساتھ‘ زیادہ سے زیادہ دین اسلام کی تبلیغ اور علوم نبوت کو پھیلانے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ لہذا اگر صحیح دینی معلومات پر مشتمل کوئی اِی میل مستند ذرائع سے آپ تک پہونچے تو آپ اس اِی میل کو پڑھیں بھی، نیز دوست واحباب اور گروپ کو بھی Forward کریں تاکہ اسلام اور اس کے تمام علوم کی ذیادہ سے ذیادہ اشاعت ہوسکے۔ لیکن اگر آپ کے پاس اِی میل غیرمعتبر ذرائع سے پہنچے تو اس اِی میل کو بغیر تحقیق کئے Forward نہ کریں۔

بل گیٹس کے گھر سے متعلق چند ناقابلِ یقین حقائق

بل گیٹس بلاشبہ دنیا کے سب سے امیر ترین شخص ہیں- فوربس کے مطابق بل گیٹس کے اثاثوں کی مالیت 79.2 بلین ڈالر ہے- ایسی امیر ترین شخصیت کی رہائش گاہ بھی یقیناً پرتعیش ہوگی اور اس میں موجود سہولیات کسی صورت دلچسپی سے خالی نہ ہوں گی- بل گیٹس کی رہائش گاہ کو “ Xanadu 2.0” کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ ایک انتہائی حیرت انگیز گھر ہے- آج کے آرٹیکل میں ہم آپ کو اس گھر سے منسلک چند عجیب و غریب حقائق کے بارے میں بتائیں گے- 
 
بل گیٹس کے گھر کا زیادہ تر حصہ درختوں اور ہریالی سے گھرا ہوا ہے- 1.5 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا یہ گھر درختوں کے درمیان ہونے کی وجہ سے انتہائی زبردست معلوم ہوتا ہے- 
 
اس گھر میں موجود گیسٹ ہاؤس 1900 اسکوائر فٹ کے رقبے پر ہے اور یہ اس پراپرٹی کی سب سے پہلی مکمل ہونے والی عمارت بھی ہے جو 1992 میں مکمل ہوئی-
 
اس گھر میں ورزش کے حوالے سے ہر قسم کی جدید سہولت موجود ہے- بل گیٹس کے اس پرتعیش گھر میں آپ کو جم٬ کئی سوئمنگ پول٬ سٹیم روم کے علاوہ زیرِ زمین میوزک سسٹم بھی نصب ہے-
 
اس پرتعیش گھر میں تقریباً 24 باتھ روم ہیں جبکہ 6 باورچی خانے بھی تعمیر کیے گئے ہیں- یہ باورچی خانے گھر کے مختلف حصوں میں تعمیر ہیں-
 
بل گیٹس نے یہ گھر 1988 میں 2 ملین ڈالر میں خریدا تھا جس کی 7 سال بعد ہی مالیت 63 ملین ڈالر ہوچکی تھی- تاہم سال 2012 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ گھر اس وقت 123.54 ملین ڈالر کی قیمت کو پہنچ چکا تھا-
 
بل گیٹس وہ امیر ترین شخصیت ہیں جنہوں نے گھر میں چمگاڈروں کے غار کے طرز پر ایک غار بھی تعمیر کر رکھی ہے- اس غار میں 3 گیراج بھی ہیں جن میں 23 گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں- اس کے علاوہ اس غار میں زیرِ زمین ایک خفیہ اسٹرکچر بھی موجود ہے جس میں باآسانی 10 گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ موجود ہے-
 
یہ گھر آب و ہوا کو کنٹرول کرنے والے جدید سسٹم سے آراستہ ہے- گھر میں آنے والے ہر مہمان کو ایک مائیکرو چپ دی جاتی ہے جس کی مدد سے وہ موسمیاتی ماحول کو کنٹرول کر سکتا ہے- 
 
بل گیٹس کو خفیہ ٹیکنالوجی بہت پسند ہے اور اسی وجہ سے اس گھر کے کمروں کی دیواریں خفیہ اسپیکروں سے آراستہ ہیں- ان اسپیکر سے ہلکی ہلکی گانوں کی آواز آتی رہتی ہے جنہیں مہمان اپنی مرضی کے مطابق تبدیل بھی کرسکتا ہے-
 
اس گھر کی سب سے خاص بات یہاں کی لائبریری ہے- 2100 اسکوائر فٹ کے رقبے پر پھیلی اس لائبریری میں متعدد قدیم کتابیں موجود ہیں- 

شاہ رخ خان کی نصف سنچری: دس دلچسپ باتیں

بالی وڈ کے سپر سٹار شاہ رخ خان دو نومبر سنہ 2015 کو 50 سال کے ہو گئے ہیں اور اس موقعے پر بالی وڈ کی فلمی برادری نے انھیں مبارکباد دی ہے۔ اور انھیں ’انرجیٹک‘ (پرجوش) اور ’انسپائرنگ‘ (تحریک دینے والے) جیسے القاب سے یاد کیا ہے۔ ان کے فلمی سفر سے تو بہت سے لوگ واقف ہیں یہاں شاہ رخ کے بارے میں دس ایسی باتیں پیش کی جا رہی ہیں جو دلچسپی سے خالی نہیں ہوں گی۔1۔ شاہ رخ آج بالی ووڈ کے سب سے مہنگے اداکاروں میں شامل ہیں لیکن انھیں اپنی فلم ’کبھی ہاں کبھی نہ‘ کے لیے صرف 25 ہزار روپے ہی ملے تھے۔ اتنا ہی نہیں اس فلم کے لیے شاہ رخ نے ممبئی کے سنیما ہال کے باہر فلم کے ٹکٹ بھی فروخت کیے تھے۔ Image copyright NEW FILM ADDICTS Image caption شاہ رخ کو فوجی سیریئل کے اشتہار سے شہرت ملی 2۔ شاہ رخ خان کی پہلی کمائی صرف 50 روپے تھی جو انھیں گلوکار پنکج ادھاس کے ایک کنسرٹ میں کام کرنے کے دوران ملی تھی۔3۔ تھیئٹر کے اپنے ابتدائی دنوں میں شاہ رخ بھارتی دارالحکومت دہلی کے دریا گنج علاقے میں ایک ریستوران بھی چلایا کرتے تھے۔ Image copyright RED CHILLIES Image caption کاجول کے ساتھ ان کی جوڑی کو زبردست پزیرائی ملی 4۔ شاہ رخ کے والد نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا۔ انھوں نے بہت سے کاروبار چلانے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ ان میں دہلی کے ’نیشنل سکول آف ڈراما‘ میں چائے کی دکان بھی شامل تھی۔5۔ شاہ رخ جب صرف 15 سال کے تھے تب ان کے والد نہیں رہے اور جب وہ 25 سال کے تھے تب ان کی ماں گزر گئیں۔ اپنی ماں کی موت کے بعد وہ فلموں میں آئے۔ Image caption شاہ رخ خان کو مختلف کھیلوں میں دلچسپی رہی ہے 6۔ شاہ رخ کا نام پہلے عبد الرحمٰن رکھا گیا تھا پھر ان کے والد نے اسے بدل کر شاہ رخ خان رکھ دیا۔7۔ شاہ رخ نے بالی وڈ میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی یکے بعد دیگرے پانچ فلمیں سائن کی تھیں۔ Image caption انھیں دنیا بھر میں ان کی اداکاری کے اعتراف میں بہت سے ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا جا چکا ہے 8۔ کیا شاہ رخ خان توہم پرست ہیں؟ آپ کو شاید یقین نہ ہو لیکن شاہ رخ کی تمام گاڑیوں کے نمبر 555 ہیں۔ اتنا ہی نہیں ان کے ذاتی موبائل نمبر میں بھی 555 آتا ہے۔9۔ شاہ رخ کو کھیل کود سے بھی بہت دلچسپی رہی ہے اور اپنے کالج کے زمانے میں وہ کئی بار فٹبال اور ہاکی کے مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں۔10۔ شاہ رخ خان اور کرن جوہر کی پہلی ملاقات ایک ٹی وی شو کے آڈیشن کے دوران ہوئی تھی جہاں شاہ رخ نے اس سیریل میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

دہی کے چونکا دینے والے فوائد ابھی پڑھیں

ہم میں سے کون ہے جو بیکٹیریا کے نام سے ہی خوفزدہ نہیں ہوتا اور اس سے بچاؤ کی تدبیر نہیں کرتا لیکن دہی ایسا Probiotice ہے جو صحت کے کئی مسائل حل کردیتا ہے۔ غیر صحت بخش غذائیں٬ کم پانی کا استعمال ہر وقت تشویش یا انتشار کی کیفیت میں رہنا یا کسی طویل بیماری کے بعد نظام ہاضمہ کا بُری طرح متاثر ہونا ایسی کیفیتیں اور رویے ہیں جن سے لوگ اکثر و بیشتر متاثر ہوتے ہیں لیکن ان مسائل پر توجہ نہیں دیتے-
 

جس وقت کسی بیماری کے علاج کے طور پر اینٹی بایوٹکس استعمال کرنا ناگزیر ہوجائے تو عموماً منہ خشک ہونے اور رنگت کے زرد پڑجانے کی شکایت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور پھلوں کے عرقیات یا سادہ پانی کا استعمال بڑھا دیتے ہیں۔ 

یہ محتاط رویہ ایسا غلط نہیں ہوتا تاہم اگر وہ اپنی غذا میں دہی کا استعمال شامل کرلیں تو چند دنوں میں حیرت انگیز تبدیلی محسوس کریں گے۔ بیشتر بیماریاں معدے کے افعال بگڑنے سے ہوتی ہیں۔ کم کھانا یا ضرورت سے زیادہ کھالینا دونوں روئیے معدے پر گرانی کا باعث بنتے ہیں۔

ہماری غذا خاص کر کھانوں میں دہی کا استعمال ہوتا ہے۔ مشرقی لوگ رائتے اور چٹنیوں میں دہی شامل کرتے ہیں یا میٹھے دہی سے کھانے کا اختتام کرتے ہیں۔ اس شکل میں یہ معدے میں اچھے اور بُرے بیکٹیریا کا ایک توازن قائم کرتا ہے۔
 

اگر ہم کئی روز تک کسی بھی شکل میں دہی نہیں کھاتے تو اس کا مطلب ہے کہ صحت خراب کرنے والے بیکٹیریا اپنے قدم جمالیں گے۔ اینٹی بایوٹکس کے مضر صحت اثرات اچھے بیکٹیریا کو مار دیتے ہیں‘ اسی وجہ سے چہرے اور پورے جسم کی ہئیت اور رنگت متاثر ہوتی ہے۔ 

مختلف تیزابی ردعمل معدے میں سرائیت کرجانے کی صورت میں نئی شکایات پیدا ہوتی ہیں جن میں قبض‘ اسہال یا دستوں کی بیماری یا قے کی صورت میں بدنظمی جیسے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

جسم کا مدافعتی نظام درست کرنے کیلئے دہی کا استعمال بڑھا دینا چاہیے۔ معدے میں تیزابیت کے خاتمے اور ٹھنڈک کے احساس کیلئے دہی نہایت اکسیر پروبایوٹکس ہے۔ ڈائریا کا خاتمہ کرتا ہے اور دودھ یا دیگر غذاؤں سے پیدا ہونے والی حساسیت کا خاتمہ کرتا ہے۔ عام طور پر اسہال کی صورت میں دہی کو بطور دوا استعمال کریں تو چونکانے والے نتائج سامنے آتے ہیں یہ توانائی کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔
 

جلدی امراض اور دہی کا استعمال
ماں بننے والی خواتین غذائی عادتوں کی تبدیلی کے باعث حساسیت کا شکار ہوسکتی ہیں۔ نوعمر بچے بدہضمی کا شکار ہوسکتے ہیں‘ اسی طرح مختلف گرم تاثیر والی یا مقوی غذاؤں کے استعمال کے بعد الرجی کی شکایت دہی کھانے سے دور ہوسکتی ہے۔ 

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ بیرونی علاج کے طور پر ادویات کا استعمال جاری رکھنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن اگر غذائی علاج میں محتاط رویہ اپنالیا جائے یعنی دہی کا استعمال جاری رکھا جائے تو تکلیف سے بہت جلد چھٹکارا مل سکتا ہے۔

بچوں میں جلدی خارش‘ چھوٹے چھوٹے دانے نکلنے اور Atopic Eczemaسے نجات کیلئے دہی کا استعمال بڑھا لینا چاہیے۔
 

دہی چہرہ نکھارنے کا وعدہ پورا کرتا ہے
نوجوان بچیوں کو کیل مہاسوں اور دانوں کے علاوہ چہرے کے دورنگی ہونے کی شکایت ہوسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پچاس فیصد کیسز میں دہی نے ہارمونز کے نظام کو توازن دے کر چہرے کو ان مسائل سے نجات دلادی جس کیلئے ایکنی لوشنز وغیرہ استعمال کیے جاتے رہے تھے تاہم ڈائیٹیشنز کے مطابق دہی کا استعمال روزانہ کرنا بہتر نتائج دیتا ہے۔ 

دہی صاف اور تازہ استعمال کیا جائے تو بہتر ہے۔ کھٹی دہی میں غذائیت کی تاثیر تبدیل ہوجاتی ہے لیکن اگر اسے ماسک یا ابٹن کے طور پر استعمال کرنا چاہیں تو بہتر افادیت رکھتا ہے یا پھر شہد کے ساتھ معتدل کرلیا جائے تو موافق آتا ہے۔

گدھا تو گدھا ہوتا ہے

٭ مردہ گوشت بیچنے پر 8سال قید 5لاکھ جرمانہ ہوگا۔ خبر
اس کا مطلب ہے زندہ اور تازہ گوشت کرنے والوں کو 10سال قید اور10لاکھ جرمانہ ہوگا۔گدھا کھلانے والے قصاب تو اب دہائیاں دیں گے۔وہ تو اس بات کا اصرار کریں گے کہ اس بے ایمانی کے دور میں اتنی ایماندار ی دکھانے والوں کو ان بے ایمان قصابوں سے زیادہ سز ا ملنی چاہیے۔گدھا تو اب ڈی ویلیو ہو گیا ہے۔گدھے کی کھال کے بہانے ظالم کے بچوں نے پاکستانیوں کو گدھا تکہ،گدھا بریانی،گدھا قورمہ،گدھا سری پائے اور گدھا کباب کھلانے کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔یہ تو بھلا ہو عائشہ ممتا ز جیسی نڈر فوڈ انسپکٹر ز کا جنہوں نے ہمیں حلال گوشت کھلانے کا بندوبست شروع کر دیا ہے ورنہ یقین کریں ہم پاکستانی تو گدھے کے گوشت کے شوقین ہو چلے تھے۔جنہوں نے میرے سمیت ہوٹلوں پر کھانا کھایا ہے وہ اب ایک مہینہ بلا ناغہ کدو کریلے کھائیں اور روز اینٹی باؤٹک ادویات استعمال کریں کہیں گدھا خدانخواستہ ہمیں بھی ’’گدھا‘‘ ہی نہ بنا دے۔

٭ عراق سے سبق ملا ، طاقت اور پیسے سے دوسرے ملک میں امن نہیں لا سکتے۔ اوبامہ
شکر ہے امریکہ نے بھی سچ تسلیم کر لیا ہے ورنہ ایسا سچ تسلیم کرنا شاید ناممکنات میں سے تھا۔اسامہ بن لادن کے چکر میں افغانستان تاحال جل رہا ہے۔عراق کو فتح کرنے کے چکر میں نہ صرف صدام کو فارغ کیا بلکہ پورے عراقیوں اور عراق کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔لیبیا میں کرنل قذافی کی خاطر پورے لیبیا کی واٹ لگا دی۔اس کو کہتے ہیں دنیا بھر کی تھانیداری یا پوری دنیا کی بڑی اجارہ داری۔کئی دفعہ گاؤں کا نمبردار بھی پورے گاؤں کو مار کر پچھتاتا ہے کہ اب نمبرداری کس پر کروں گا؟ طاقت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ہر مسئلے کا حل امن اور مذاکرات ہیں۔جو لوگ اور قومیں مذکرات کا رستہ چھوڑ دیتی ہیں وہ ناکام و نامراد رہتی ہیں۔

٭ برطانوی صحافی مظہر محمود پر فرد جرم عائید۔ خبر
کر کٹرمحمد عامر،محمد آصف اور سلمان بٹ کا دھڑن تختہ کرنے والا جھوٹا اور بلیک میلر نکلا۔حقیقت میں یہ بھی ایک بڑا ڈرامہ ہے کہ ’’تینوں مذکورہ‘‘ جب اپنے کھیلنے کا بہترین دور کھو چکے ہیں تب بلیک میلر صحافی پکڑا گیا ہے۔اب نہ تو مذکورہ کھلاڑیوں کی سزا واپس ہو سکتی ہے اور نہ دنیا بھر میں پاکستان کی ’’جگ ہنسائی‘‘ کا کوئی ازالہ ہو سکتاہے۔اس کو کہتے ہیں چور الٹا کوتوال کو ڈانٹے۔چور بھی کہے چور چور چوروں سے ہوشیار رہیئے۔ایک خاتون کو ہالی ووڈ کی بڑی ہیروئن بنانے کے چکر میں اس کو گولیاں دینے والا مظہر محمود خود ہی بڑا ’’ڈان‘‘ نکلا۔سٹہ بازی کیس میں اگرچہ کچھ نہ کچھ قصوروار سلمان بٹ اور محمد آصف تھے لیکن اس کی زیادہ سزا نو عمر محمد عامر کو اٹھانا پڑی۔

٭ بھارت نے رواں سال 400مرتبہ سیز فائر کو توڑا۔ اقوام متحدہ میں شکایت
ملک کا نام ہو ہندوستان اور پنگے بازی نہ کرے۔پنگہ بازی تو ہندوستان کے انگ انگ میں رچا بسا ہے۔ہندوستان تو وہ ملک ہے جہاں ان کی اپنی عوام ہندوستانیوں سے تنگ ہے۔ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی عزتیں تک غیرمحفوظ ہیں۔گزشتہ روزہندوؤں کو فقط اتنی خبر ملی کہ ایک مسلمان اخلاق حسین کے گھر گائے کا گوشت ہے۔بس یہ سننا تھا کہ تنگ نظر ہندوؤں نے اس کے گھر میں کر اسے شہید کر دیا اور اس کے بیٹے کو شدید زخمی کر دیا۔ اتنا بھی نہ سوچا کہ مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں یہ تو کم بخت ہندو ہیں جو گائے کھانا برا سمجھتے ہیں۔سکھ قوم ہندوستانیوں کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔مقبوضہ کشمیر والے ہر روز پاکستانی پرچم لہرا کر ہندوستان کے منہ پر تھپڑ مارتے ہیں لیکن صاحب غیر ت تو غیرت والوں کی ہوتی ہے ہندوستان کی غیر ت ہی نہیں وہ بھلا کہاں شرم حیا کریں گے۔دعا کریں کہ مسلمان کشمیری ،ہندوستانی سکھ اور ہندوستان میں رہنے والے مسلمان ہندوستان کی چنگل سے نکل جائیں۔باقی جہاں تک ہمارے پاکستانی بارڈر کی بات ہے پاکستان ہندوستان کو جواب دینا خوب جانتا ہے۔پاکستان نے یہ اچھا کیا کہ اقوام متحدہ کو ہندوستان کی سرحدی خلاف ورزیوں کی ویڈیو اور کلپس کے شواہد دے دیئے ۔جس دن دو دو ہاتھ ہوگئے ہماری فوج اور ہماری قوم ہندوستان کو اس کی نانی یاد دلا دے گی۔انشاء اﷲ

٭ 4اکتوبر کو میگا کرپشن بے نقاب کرونگا۔ عمران خان
خان صاحب اگر ہو سکے تو کسی اچھے منصوبے کی نقاب کشائی ہی کر لیں۔آپ نے چند سالوں سے سیاسی بیان بازویوں کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔آپ کا دھرناا یک فلاپ شو تھا اورآپ کے ہر مطالبے پر الیکشن کمیشن اور عدالتوں نے شفافانہ تحقیقات کیں۔جو الیکشن ہو گئے اور جو ہونے ہیں سب میں آپ کو زمینی حقائق ماننا پڑیں گے۔خان صاحب یہ کرکٹ گراؤنڈ نہیں ہے۔یہ سیاسی میدان ہے اور سیاسی میدان میں ووٹ سے فیصلہ ہوتا ہے۔آپ جو مرضی بے نقاب کریں اس سے پہلے آپ کو عوامی خدمات کے پروجیکٹس کی نقاب کشائی کرنا ہو گی ورنہ ہر میدان میں آپ ہی مات کھائیں گے۔خالی باتوں سے کس کا پیٹ بھرتا ہے۔عوام کی عملاً خدمت کرنا ضروری ہے۔ عملی زندگی اور بیان بازی ولی زندگی میں بہت فرق ہے۔جعلساز جعلساز ہوتا ہے۔لومڑی جتنی بھی چالاک ہو ایک دن اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔

٭ سانحہ منی پر ایرانی سیاست خبر
سانحہ منی شہادتوں کا ایک بڑا سانحہ ہے۔اس میں بہت گیارہ سے سو زائد حاجی شہید ہو گئے اور بہت سارے زخمی ہو چکے ہیں مزید یہ کہ ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔یہ ایک قدرتی حادثہ ہے۔جہاں بھی زیادہ لوگ اکھٹے ہو جاتے ہیں وہاں احتیاط کا دامن کسی کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔اگرچہ اس حادثے پر سعودی حکومت نے تن من دھن سے تحقیقات شروع کر دی ہیں پھر بھی پوری دنیا کے مسلمانوں کو انہیں شک کی نگاہ سے ہر گز نہیں دیکھنا چاہیئے۔اس حادثے میں داعش یا کوئی اور ملوث ہے اس پر بھی تفتیش جاری ہے پھر بھی ایرانی حکومت کی طرف سے اس پر سیاسی بیانات مذہبی لوگوں کی طرف سے ناپسند کئے گئے ہیں۔سعودی عرب او ر سعودی حکومت کو سب احترام کرتے ہیں اور ساری دنیا جانتی ہے کہ ہر سال فریضہ حج پر سعودی عرب کی گرانقدر خدمات کے خلاف بیان دینا انتہائی شرمناک ہے۔

شرمیلی دلہن

کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہے . ہمارے خاندان میں ایک کزن بھائی کی شادی تھی . بڑے دھوم دھڑاکے سے اورنگ آباد سے بارات آئی تھی . شادی کی رسمیں پوری ہوئیں، نکاح کا خطبہ پڑھایا گیا ، قاضی صاحب نے دولہا بھائی سے نکاح قبول کروایا لیکن جب دلہن سے پوچھا گیا تو دلہن چپ .دوبارہ پوچھا گیا لیکن دلہن پھر چپ . قاضی صاحب نے دلہن کے رشتہ داروں سے معاملہ پوچھا . رشتہ دار جو خاصے پریشان ہو چکے تھے دلہن کو سمجھانے لگے . قاضی صاحب نے پھر ایک بار دلہن سے پوچھا ، لیکن پھر وہی چپ . اتنے میں ایک مولوی ٹائپ کے صاحب جنہوں نے دراصل یہ رشتہ کرایا تھا ، بولے کہ ہمارے خاندان کی لڑکیاں شرم و حیا کا پاس کرتی ہیں ، اس طرح بھری محفل میں کچھ نہیں کہیں گی . لڑکی خاموش ہے ، یعنی وہ راضی ہے ، تینوں بار لڑکی چپ رہی ، یعنی تینوں بار وہ راضی تھی . یوں بھی خاموشی میں رضامندی کی باتیں بڑے بزرگوں سے سنتے آٔئے ہیں . قاضی صاحب نے ایک اور شادی میں خطبہ پڑھنا تھا ، لہٰذا انہوں نے یہ حجت قبول کرلی ، اور یوں یہ شادی ہو گئی . بعد میں کیا ہوا یہ ایک الگ کہانی ہے ، لیکن یہ قصّہ مجھے یوں یاد آ گیا ، کہ ہمارے نئۓ نویلے وزیر اعظم بھی کچھ پوچھے جانے پر اسی طرح شرما کر چپ ہو جاتے ہیں . دادری میں انتہا پسندوں نے ایک معصوم کو قتل کر دیا ، لوگوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا لیکن وہ شرما گئے . مہنگائی آسمان چھونے لگی ، لوگوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا لیکن وہ پھر شرما گئے . سب سے زیادہ تو وزیر اعظم تب شرماتے ہیں جب ان سے لوگ الیکشن میں کیٔے گئے وعدوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ، لیکن وہ ہر بار شرما جاتے ہیں . اب کوئی اتنا شرمأے تو کیا کرے گا قاضی . اسے دوسری شادیاں بھی تو کروانی ہیں . یہ شادی تو سمجھو اسی طرح چلے گی . . . جب تک چل سکے .

مستقل مزاجی کامیابی کی کنجی

کسی بھی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کوئی شخص اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ضروری سمجھتا ہے۔ زندگی میں کامیابی کی قیمت ہمیشہ جہد مسلسل و مستقل مزاجی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر کسی انسان کو سفر کر کے ہزاروں میل دور منزل تک پہنچنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل قدم اٹھاتا جائے، اگر وہ قدم نہیں اٹھاتا یا راستے میں تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے تو کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ چین کے عظیم قائد ماﺅزے تنگ نے تاریخ ساز لانگ مارچ کا آغاز کرتے ہوئے ”انقلابیوں“ سے کہا تھا: ”ہزاروں میل کا فاصلہ ایک قدم آگے بڑھنے سے کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔“ بہت سے لوگ کسی کامیاب انسان کو دیکھ کر اس جیسا بننے کی بات کرتے ہیں، لیکن اس کی طرح جدوجہد نہیں کرتے۔ اس کے موجودہ مقام و مرتبہ پر رشک تو کرتے ہیں، لیکن اس مقام کے پیچھے طویل عرصے کی جدوجہد پر نظر نہیں ڈالتے۔ ہر کامیاب شخص ایک طویل محنت و جدوجہد کرنے کے بعد ہی اس مقام تک پہنچتا ہے، جو مقام ہمیں نظر آرہا ہوتا ہے، اس مقام تک پہنچنے کے لیے یقیناً ہمیں بھی اسی تسلسل کے ساتھ محنت کرنا ہوگی جس تسلسل کے ساتھ کسی بھی کامیاب شخص نے محنت کی۔

کسی بھی کام کو اس کے مطلوبہ نتائج تک پہنچانے کے لیے انسان میں صرف شوق اور ہمت کا ہونا ہی ضروری نہیں، بلکہ تسلسل کے ساتھ محنت کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر کامیابی کا ملنا محال ہے۔ جو لوگ کسی کام کو تسلسل کے ساتھ کرتے رہتے ہیں، وہ اپنی کشتی کو ایک دن ضرور ساحل پر پہنچا کر رہتے ہیں اور جو ہمت ہار جائیں تو ان کی کشتی ہمیشہ بھنور میں پھنسی رہتی ہے۔ کسی صاحب خرد و دانش کا قول ہے: ”کسی کام کو کرنے سے پہلے سوبار سوچو کہ یہ کام ٹھیک ہے یا نہیں۔ جب تمہارا ذہن اس کام کے کرنے کا فیصلہ دے دے تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کرلو اور دم اس وقت لو جب اسے پورا کرچکو۔ اس بات سے نہ گھبراﺅ کہ راستے میں مشکلات آئیں گی۔ اپنی منزل کی طرف نگاہ کر کے آگے بڑھتے چلے جاﺅ۔ انشاءاللہ کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے گی۔“ بہت سے لوگ کسی کام کا آغاز کرتے وقت بہت جوش و خروش دکھاتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ یہ جوش و خروش مدہم ہوتا جاتا ہے اور پھر ایک دن وہ ہمت ہار جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے مقصد کو پانے کا دم تو بھرتے ہیں، لیکن راستے میں ہی ان کے ارادے دم توڑ جاتے ہیں اور وہ ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ جب کہ بہت سے لوگ کھلی آنکھوں سے بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں اور پھر ان کی تعبیر بھی پالیتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو محنت اور مستقل مزاجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں اور پھر جہد مسلسل اور مستقل مزاجی کامیابی کو ان کے قدموں میں لے آتی ہے۔

بہت سے لوگ ایک اچھا لکھاری بننے اور بڑے کالم نگاروں کی طرح مقبولیت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، لیکن دو چار تحریریں مسترد ہونے کے بعد ہی ہمت ہار جاتے ہیں اور لکھنا چھوڑ دیتے ہیں، حالانکہ لکھنا لکھنے سے آتا ہے اور تحریر میں نکھار مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک اچھا لکھاری بننے کے لیے مستقل مزاجی سے پڑھنا اور لکھنا ضروری ہے۔ بہت سے طالب علم تعلیم حاصل کرنا شروع کرتے ہیں، چند دن تک شوق سے پڑھتے ہیں، لیکن چند دن کے بعد ہی وہ اپنی تعلیم سے اکتا کر کسی اور وادی میں اترجاتے ہیں اور انجام کار امتحان میں ناکامی کا داغ لگ جاتا ہے۔ اس کے برعکس کتنے ہی طالب علموں کو اگرچہ تعلیم کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہوتا، لیکن چونکہ ان کی محنت میں تسلسل ہوتا ہے اور وہ پورا سال پڑھتے رہتے ہیں، اس لیے کامیابی بھی ان کے قدموں کی دھول بنتی ہے۔ کامیابی کا راز ہمت اور شوق کے ساتھ مسلسل محنت میں پوشیدہ ہے۔ پانی کا دھارا بھی اگر مسلسل پتھر پر گرتا رہے تو اس میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔ عظیم محدث حافظ خطیب بغدادی لکھتے ہیں: ”ایک آدمی کو علم حاصل کرنے کا شوق تھا، لیکن وہ اس میدان میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا، چنانچہ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب علم حاصل نہیں کرے گا۔ اس کا گزر ایک پہاڑ کے پاس سے ہوا، جس کی چوٹی سے پانی ایک چٹان پر مسلسل گررہا تھا اور اس تسلسل نے چٹان میں شگاف پیدا کردیا تھا، طالب علم نے چٹان پر گرتے پانی کو دیکھا اور بولا: ”پانی نے اپنی لطافت کے باوجود مسلسل بہہ کر چٹان کی کثافت میں یہ شگاف پیدا کردیا تو میں کیوں علم حاصل نہیں کرسکتا؟ سو اللہ کی قسم ! میں بھی ضرور علم حاصل کروں گا، پھر وہ علم کی دھن میں لگ گیا اور علم کو حاصل کر لیا۔“ مستقل مزاجی انسان کو منزل تک پہنچاتی ہے۔ جو لوگ مستقل مزاج نہیں ہوتے، وہ منزل نہیں پاسکتے۔ ان کے ارادے بدلتے رہتے ہیں۔ اگرچہ انسانی فطرت میں متبادلات کا عنصر ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے اور ہونا بھی چاہیے، لیکن بعض اوقات باربار متبادل راستے ڈھونڈنا منزل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ تکلیف یا مصیبت میں متبادل راستہ کام آسکتا ہے، لیکن جب منزل طے ہوجائے تو اس کے بعد بار بار متبادل کا سوچنا راہ نجات نہیں۔

یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ قدرت مستقل مزاج اور محنتی انسان پر ضرور مہربان ہوتی ہے۔ مستقل مزاجی وجہد مسلسل کی بدولت بہت سے لوگوں نے اپنے بلند و بالا خوابوں کو حقیقت کردکھایا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنے لوگ عظیم ،ہیر و اور لیڈر بنے ان کی کامیابی کاراز جدوجہد مسلسل اور مستقل مزاجی ہے۔ دنیاکی ترقی، ایجادات، تحقیق اورکارنامے یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور محنت کے کرشمے ہیں۔ اگر انسان مسلسل محنت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے۔ مستقل محنت کے ذریعے ہی بڑے بڑے علمائے کرام، سائنسدان، سیاستدان، ڈاکٹر، ماہرین فن، موجد اور قلمکار و ادیب اس مقامِ خاص تک پہنچے، جہاں آج ہم انھیں کھڑا ہوا پاتے ہیں۔ آج کا انسان زمین و آسمان، کوہسار و صحرا اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو تسخیر کرچکا ہے اور یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور عزمِ صمیم کی بدولت ہے۔ تمام افراد جو کامیابی کے بلند و بالا زینے تک پہنچے، وہ مشکلات و مصائب کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرتے ہوئے اپنے نصب العین کی طرف گامزن رہے اور بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔

دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو ناممکن ہو۔ مستقل محنت اور جہد مسلسل سے ہر نا ممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مستقل محنت کے سامنے نہ سمندر رکاوٹ بن سکتا ہے اور نہ پہاڑ لغزش پیدا کرسکتے ہیں، نہ ہی دشت و صحرا آج تک اس کا راستہ روک سکے ہیں۔ جب انسان کسی کام کی تکمیل کا عزم مصمم کر لے تو اس کی راہ میں حسد رکاوٹ بنتا ہے، نہ دھوکا آڑے آتا ہے۔ سازش خلل ڈالتی ہے، نہ کوئی اور چیز مانع ہوتی ہے۔ بند راستے، پرخاروادی اور کھڑی رکاوٹیں اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کرسکتیں۔کامیابی حاصل کرنے کے لیے انسان کو ہمیشہ اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھنا چاہیے۔ اگر کسی موڑ پر اس کی محنت اور ہمت کا شیرازہ بکھربھی جائے، تب بھی ناامیدی کے اندھیر ے کو جہدِ مسلسل سے روشن کرتا رہے تو ترقی اور کامیابی اس کے قدم ضرور چومے گی۔