Monday, November 2, 2015

راہِ عشق رسولﷺ کے شھیدغازی علم دین ؒ کے وکیل قائداعظمؒ اور لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

 عشق کے تقاضے کو جو سمجھ جاتا ہے وہ خالق کے ساتھ اپنے رشتے کو بھی سمجھ جاتا ہے اُسے یہ ادراک ہو جاتا ہے کہ اُس کا تعلق جس خالق کے ساتھ ہے وہی خالق امیدِ صبح ہے۔ خالق اور بندئے کے تعلق کو بام عوج پہنچانے والی عظیم ہستی جناب سرکار دوجہاں نبی پاکﷺ کی ہے۔نبی پاکﷺ کی عزت شان و شان وکتکا ہر محاذ پر دفاع کرنا ہم سب کا فرض ہے اِس لیے کہ اﷲ پاک خود نبی پاکﷺ کی ہستی کی عزت و حرمت کا دفاع کرنے ولا ہے۔برصغیر پاک وہندمیں رونماء ہونے والے واقعے کی یاد کیسی بھلائی جاسکتی ہے کہ جب نبی پاکﷺ کا عاشق پھانسی پر جھول گیا اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ رب کی ذات اور رب کے محبوب ﷺ کی ذات سے وابستہ ہونے وا کوئی بھی شخص کیسے مر سکتا ہے۔دیکھ لیجیے راہ عشق رسولﷺ میں جو بھی شھید ہوا وہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ امر ہونا اِس لیے بھی ٹھرجاتا ہے کہ شھید نے گواہی جو دینا ہوتی ہے اپنے عشق کی ۔اپنے محبوب کی حرمت کی ۔ نبی پاک ﷺ کی ناموس پر قربان ہونے والے عظیم مجاہد جناب غازی علم دین شھید کی یاد اس طرح زخموں پر مرہم رکھتی ہے جیسے صحرا میں نخلستان۔ تاریخ عالم اُن مبارک ساعتوں کو کیسے فراموش کر سکتی ہے جو مبارک لمحات غازی علم دین نے گستاخِ رسول ﷺ کو جہنم رسید کرنے کے بعد اور تختہ دار پر چڑھنے سے پہلے گزارے۔ محبت کے انداز اور تقاضے عقل و ادراک کے محتاج نہیں ہوتے ۔ عشق کبھی بھی کسی دنیاوی تقاضے کا پابند بھی نہیں ہوتا۔ عشق رسول ﷺ کی ایمان افروز روشنی مومن کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ محبت رسول ﷺ کی لذت سے مومن کی آشنائی ہر کس وناکس سے اُسے ماورا کرتی ہے۔غازی علم دین شھید کو کہنے کو تو پھانسی دے دی گی۔ لیکن وہ پھانسی حیات جاودانی کا ایسا مشروب غازی صاحبؒ کو پلا گئی کہ پھر اُسکے بعد غازی صاحب ایسی روشن راہوں کے مسافر بن گئے کہ جناب محمد رسول اﷲﷺ کے پروانوں کے لیے ہمیشہ کے لیے امید اور آگہی کا روشن مینار بن گئے۔ جس دور میں جناب غازی علم دین شھیدؒ کو یہ مقام میسر آیا اُس وقت انگریز کا راج اور ہندووں کی مکاری عروج پر تھی مسلمان اقلیت میں ہونے کی بناء پر پسے ہوئے تھے۔ ان حالات میں علم دینؒ کو بقول اقبالؒ دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب شے ہے یہ لذتِ آشنائی۔ لذت آشنائی پھر چونکہ چنانچہ کے چکروں میں نہیں آتی وہ تو اطیواﷲ واطیوالرسول کی اسیر ہو جاتی ہے۔وہ لوگ جو اُس دور میں رہ رہے تھے اُن کے لیے واقعی یہ بہت بڑا کارنامہ تھا اور اُس دور کے دانشوروں علماء اساتذہ ہر شعبہ زندگی کے افراد نے جناب غازی علم دین شھید ؒ کی قسمت پر رشک کیا ۔میانوالی جیل میں غازی صاحبؒ کو پھانسی دے کر نبیﷺ کے عاشقوں کو ایک نئی جلو نے اپنے حصار میں لے لیا اور عشق ومستی کا قافلہ نہایت کھٹن اور مسائل کے ہوتے ہوئے بھی غازی صاحبؒ کی شہادت پر رب پاک کے حضور سر بسجود ہوا۔ عشق تو نام ہی آقا کریمﷺ کی ذات میں خود کو گم کرنے کا ہے اور یوں نبی پاکﷺ کی عزت وناموس کی خاطر خود کو امر کرنا ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ لاہور خوش قسمت ہے کہ داتا علیٰ ہجویری کی نگری میں ایک عظیم عاشق ِ رسولﷺجسے غازی علم دین شھید کہتے ہیں نبی پاک ﷺ کی شان پرقربان ہوا اور امر ہوگیاآج جب اس عظیم شخص کو اپنے پیارے نبی پاک ﷺ پر قربان ہوئے اسی سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن غازی علم دین شھید ؒ کا نام اِس طرح لیا جاتا ہے جس طرح کسی بھی زندہ شخص کا نام لینا چاہیے ہوتا ہے جبکہ وہ ہستی بھی عاشقِ رسولﷺ ہو۔ ایسا کیوں نہ ہو رب پاک واشگاف الفاظ میں اپنی کتاب قران پاک میں فرماتا ہے کہ جو اﷲ کہ راہ میں مارا جاتا ہے وہ زندہ ہے تمھیں اِس باات کا شعور نہیں، حتیٰ کہ شھید کو اﷲ پاک کے ہاں سے رزق بھی ملتا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ شھید چونکہ زندہ ہے اِس لیے اُس کو مردہ کہنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے تاریخ عالم نے بہت سے نیک بندوں کو اپنے رب پاک کی راہ میں جان دیتے دیکھا ہے حغرت عمار ابن یاسر کے والدین سے محمد مصطفےﷺ کے غلاموں کی شہادتوں کا شروع ہونے والا سفر جاری و ساری ہے اور غازی علم دین شھید اسلام کے وہ عظیم پیروکار ہیں جن پر اُمتِ مسلمہ کو فخر ہے۔ عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا عشق انسان کو انسانیت کے اعلیٰ وارفع مقام پر لا کھڑا کرتا ہے۔ حغرت بلالؓ حغرت اویس قرنیؓ کے راستے پر چلتے ہو ئے غازی علم دین شھید نے وہ مقام حاصل کیا کہ جس کے متعلق شاعرِ مشرق حکیم الامُت حضر ت علامہ اقبال ؒ پکار اُ ٹھے کہ ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا اور ہم دیکھتے رہ گے۔ یقیناً حضرت اقبال جیسی شخصیت کی جانب سے غازی علم دین شھید کو بہت زبردست خراج ِ تحسین ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں جب اِس کیس کی اپیل کی سماعت ہوئی تو لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا اس کے مطابق، علم دین بنام ایمپرر اے آ ٰئی آر 1930 لاہور 157کریمنل اپیل نمبر 562 آف 129۔قاتل 19 یا20 سال کا ہے ۔ اور اپنے مذہب کے بانی کے خلا ف کہے جانے والے اور کیے جانے والے فعل پر ناراض ہے ۔ علم دین جو کہ ایک تر کھان ہے اور سریاں والا بازار لاہور شہر کا رہائشی ہے جس نے 6اپریل1929 کو راج پال کو قتل کیا اور اِسکو دفعہ 302 کے تحت سزائے موت دی گئی۔ علم دین کی طرف سے اپیل کی گی اور سیکشن 374 سی آر پی سی کے تحت عدالت کے سامنے ہے۔ مرنے ولا ایک ہندو تھا جو کہ کتب فروش تھا اور ہسپتال روڈ پر اُسکی دکان تھی۔ کچھ عرصہ پہلے اُس نے مسلما نو ں کے مذہب کے بانی کے خلاف ایک پمفلٹ چھاپ کر مسلمانوں کو دُکھ پہنچایا تھا ؒراج پال کو دفعہ ایک سو تریپن ائے جو کہ پبلی کیشن کے متعلق ہے کہ مطابق جنوری 1927 کو قصور وار ٹھرایا گیا تاہم مئی 1927 میں ہائی کورٹ نے اُس کی سزا کو معطل کردیا۔ چھ اپریل 1929 کو راج پال پر دن دو بجے قاتلانہ حملہ کیا گیا راج پال کو آٹھ زخم آئے زخموں کی نوعیت سے لگتا ہے کہ راج پال نے خود کو بچانے کی کوشش کی ، راج پال کے ہاتھ پر چار زخم لگے تھے۔ اُس کے سر کے بلکل اوپر ایک زخم لگا جس سے اُسکے سر کی ہڈی کریک ہوئی ۔ اُس کی چھاتی پر بھی ایک گہرا زخم آیا۔PW-8 جو کہ آتما رام ہے اُس سے اپیل کندہ علم دین نے چھ اپریل کی صبح ایک چاقو خریدا علم دین راج پال کی دکان پر دن دو بجے پہنچاراج پال برآمدہ سے باہر گدی پر بیٹھا خطوط لکھ رہا تھا کہ اس پر علم دین نے حملہ کر دیا اس واقعہ کے چشم دید گواہ ناتھ PW-2ور بھگت رام (pw-3)جو کہ راج پال کے ملازم تھے۔ان میں سے گواہ (pw-2)بر آمدے کے اندر بیٹھا تھا اور (pw-3)گواہ برآمدے کے باہر شیلف میں کتابوں کو ترتیب دے رہا تھا۔انھوں نے الاارم بجایا کتابیں علم دین پر پھینکیں۔کر دناتھ اور بھگت رام جن کے ساتھ باہر سے نانک چاند(pw-1) اور پارمانانند مل گئے اور انھوں علم دین کا پیچھا کیاودیا راتھن جوکہ علم دین کو اپنے دفترکے دروازے سے دیکھ رہا تھا نے دوسرے لوگوں کی مددسے علم دین شہید کو پکڑ لیا۔علم دین باربار وانچی آواز میں شور مچانے لگا کہ وہ نہ تو چور ہے نہ ہی ڈاکو بلکہ اس نے تو نبی پاک ﷺ کا بدلہ لیا ہے۔علم دین کو مقتول کی دوکان پر لے جایا گیا اور پولیس کو بلایا گیا اور پولیس نے علم دین کو پکڑ لیا اور تفتیش کے دوران کردناتھ نے جو بیان اس کے مطابق جب علم دین کو پکڑا گیا۔اُس نے نہ تو کوئی مزاحمت اور نہ ہی اُس نے اپنے کسی ساتھی کا نام بتایا علم دین کے بیان پر آتمارام کی دکان کو تلاش کیا گیااور 9 اپریل کو آتما رام نے علم دین کو شناخت پریڈ میں شناخت کرلیا یہ شناخت پریڈ مجسٹریٹ کی زیر نگرانی ہوئی اور علم دین کو اُسی شخص کے طور پر پہچان لیا جس کو اُس نے چاقو فروخت کیا تھا جوکہ راچبال کی دکان سے ملا اس میں کوئی شک نہیں کہ آتمارام نے اس طرح کے چاقو اور لوگوں کو بھی فروخت کیے ہوں گئے۔ اسی طرح کے دو چاقو اُس نے بطور ثبوت عدالت پیش کیے آتمارام نے بتایا کہ اُس نے یہ چاقو ایک میڈیکل سٹور سے نیلامی میں خریدے تھے مسٹر جناح نے پراسیکیوشن کی کہانی پر مختلف groundsپر attackکیا انھوں نے اسی بات پر زور دیا کردی ناتھ قابل اعتما د گواہ نہیں ہے کیونکہ1) (وہ مقتول کا ملازم تھاپس وہ اس لیے intrested تھا2) (اُس نے ایف آئی آر میں نہیں بتایاکہ (a) کہ بھگت رام اُس کے ساتھ تھا ) (b اور علم دین نے یہ کہا کہ انھوں پیغمبرا سلامﷺ کابدلہ لیا ۔کیونکہ بھگت رام بھی راج پال کا ملازم تھا اس لیے وہintrestedکی صف میں ہے بیانات کی صحت پر اعتراض لگائے گئے جوکہ پولیس کو دئیے گئے تھے جس کے سبب آتمارام کاپتہ چلا اور آتمارام کی وجہ سے علم دین کی شناخت ہوئی اور آتمارام نے چاقوکی فروخت کی بابت بیان دیامسٹر جناحؒ نے اُس کو جھوٹا قرار دیا ۔جج صاحب نے شہادتوں کو ڈسکس کرنے کے بعدیہ قرار دیا کہ جرم ثابت ہو گیا ہے علم دین کی عمر کم ہے وہ19 یا20 سال کاہے اور اُس کا یہ ایکٹ اپنے مذہب کے بانی کی وجہ سے ہے جیساکہ عامر بنام امپیرر کیس میں تھا اس بناء پر کہ کیونکہ قاتل کی عُمرکم ہے اور وہ 19یا20سال کا ہے یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ اُسے قانون کے مطابق سزانہ دی جائے ۔ مسٹر جناحؒ کی یہ Reason کے قاتل کی عُمر تھوڑی ہے اور اُس کو کپیٹل سزانہ دی جائے ۔ اور اُسے جان بوجھ کر کسی کو قتل کرنے کی سزانہ دی جائے ۔ میں اپیل کو ڈ سمس کرتا ہوں اور سزائے موت کی توثیق کرتا ہوں ۔یہ فیصلہ ہے جو لاہور ہائی کورٹ نے لکھا اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غازی علم دین شہید صاحب نے یہ بات کہی کہ اُنھوں نے راج پال کو قتل نہیں کیا۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا غازی صاحب نے راج پال کو کسی شے کے لالچ میں قتل کیا۔ اُنھوں نے تو یہاں تک کہہ د یا کہ جب لوگوں نے اُن کو راج پال کو جہنم رسید کرنے پر پکڑا تو انھوں نے کہا کہ نہ تو میں چور ہو اور نہ ہی ڈاکو میں نے تو یہ سب اپنے نبی پاک ﷺ کی عزت کی خاطر کیاہے ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر غازی صاحب مصلحت کا شکار ہو جاتے تو جرم سے انکار کردئے اور اپنی جان بخشی کروالیتے۔یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی الہامی مذہب کے پیروکاروں کو کیا صرف آزادی رائے کے اظہار کے نام پر دکھ پہنچایا جاسکتا ہے۔ دین اسلام کے مطابق تمام انبیاء اکرام کی عزت و ناموس کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن نبی پاک ﷺ کے خلاف آئے روز مغربی ممالک کے نام نہاد آزادی رائے کے پرستاوروں کی جانب سے گستاخی کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کا امتحان لیا جاتا ہے۔ ایسے میں پاکستان میں 295C کا قانون اِس بات کی دلیل ہے کہ اگر کسی بھی شخص پر انبیاء اکرام کی گستاخی کا الزام لگتا ہے تو قانون کے مطابق کاروائی کی جائے اور انصاف کے تما م تر تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ نہ کہ عوام خود انصاف کریں انصاف کرنا عدالتوں کا کام ہے۔ آج تک توہین رسالت کے قانون کے تحت کسی بھی غیر مسلم کوپاکستان میں سزا نہیں دی گئی۔ آخری الہامی کتاب قران مجید نے صاحب قران جناب نبی پاک ﷺ کی عزت وحرمت کے متعلق واضع احکامات دیئے ہیں۔اقبالؒ کے مطابق مسلمان کے اندر روح محمدﷺ ہے اور جب روح محمد مومن کے اندر ہے تو پھر کوئی بھی مومن کسی بد بخت کی جانب سے نبی پاک ﷺ کی شان اقدس میں کیسے گستاخی برداشت کرسکتا ہے۔ اگر غازی علم دین شھید ؒ کے دور میں بھی توہین رسالت کا قانون ہوتا تو پھر کسی راج پال کو ایسا کرنے کی جُرات نہ ہوتی۔ جناب غازی علم دین شھید نے اپنی زندگی قربان کرکے اپنے آقاﷺ کی شفاعت حاصل کرلی۔ حضرت قائد اعظمؒ جیسی عظیم ہستی جناب غازی صاحبؒ کی وکالت کرنے کے لیے لاہور پہنچی۔ لیکن شھادت کا جام پینے کے لیے بیقرار غازی صاحبؒ اپنے آقا کریم ﷺ کے نام پر فدا ہوگے۔ اِس لیے جو نام نہاد لبرل فاشسٹ یہ شور مچاتے ہیں کہ 295C قانون کو ختم کیا جائے تو اِن کو یہ نظر نہیں آتا کہ اِسی قانون کی وجہ سے تو عدالت کو انصاف کرنے کا موقع ملتا ہے ورنہ ہر مسلمان غازی علم دین شھید ہی تو ہے۔بقول جناب مولانا رومیؒ ، ملتِ عشق از ہمہ ملت جُدا است ، عاشقاں را مذہب و ملتِ خدا ست، یعنی عشق والوں کا مسلک سب سے جُدا ہوتا ہے، عاشقوں کا مسلک اور مذہب صرف خُدا ہوتا ہے۔ ممتازی قادری والے معاملے میں سپریم کورٹ کے واقعہ نے بھی غازی علم دین شھیدؒ کے کیس کی یاد تازہ کر دی ہے۔

بیماری اور اس کا علاج و عیادت کے فضائل

سرور کائنات ﷺ کی سنت اور آپ کا اسوہ یہ ہے کہ جب آدمی بیمار ہو،صحت خراب ہو تو علاج کرایا جائے۔اس لئے جوشخص علاج کراتا ہے وہ سنت پر عمل کرتا ہے اور جو نہیں کراتا وہ سنت کو ترک کرتا ہے۔علاج نہ کراناکسی فضیلت کا باعث ہوتا تو یقینا آپ ﷺ اس سے احتراز فرماتے۔

’’ بیماری ‘‘گناہوں سے پاکی کا ذریعہ ہے : حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس مسلمان کو جو کوئی تکلیف پہنچتی ہے حتیٰ کہ اگر اس کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس تکلیف کے بدلے کوئی نا کوئی گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کا درجہ بلند فرماتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے ’’ الحمی من فیح جھنم ‘‘یہ بخار جہنم کی گرمی کا حصہ ہے(بخاری شریف باب صفۃ النار) علمائے کرام نے اس حدیث پاک کی مختلف تشریحات کی ہیں بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ یعنی جہنم میں جو گرمی برداشت کرنی پڑتی ہے اس کے بدلے میں اﷲ نے یہ گرمی دے دی تاکہ اس بخار کی وجہ سے وہ گناہ دنیا ہی کے اندر دھل جائے اور معاف ہو جائے۔اﷲ کے نبی ﷺ جب مریض کی عیادت فرماتے تو فرماتے ’’ لاباس طھورانشاء اﷲ‘‘ یعنی کوئی غم نہ کرو یہ بخار تمہارے گناہوں سے پاکی کا سبب اور ذریعہ بن جائے گا۔

بیماری اور اس کا علاج : پارہ 7؍ رکوع 7؍سورہ انعام آیت نمبر 16؍ وَ اِنْ یَمْسَکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَاکَاشِفَ لَہٗ اِلَّا ھُوْ ط وَ اِنْ یَمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیءٍ قَدِیْر، وَھُوَ الْقَاہِرُ فَوْ قَ عِبَادِہٖ ط وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْخبِیر۔اگر تجھے اﷲ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سواکوئی دور کرنے والا نہیں ۔اگر تجھے بھلائی آرام پہنچائے تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے اور وہی غالب ہے اپنے بندوں پر اور حکمت والا جاننے والا ہے(ترجمہ کنز الایمان)حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ کے رسول نے فرمایا اﷲ نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے اور بیماری سے زیادہ قوت (شفاء)دوا میں رکھی ہے۔اس سے علاج کی اہمیت اور افادیت سامنے آتی ہے آپ ﷺ نے علاج کروایا اور لوگوں کو بکثرت دوائیں و علاج بتائے۔اس کی وجہ سے اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کی طبی معلومات اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ لوگ اکثر علاج پوچھنے آتے تھے اور تعجب کرتے تھے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے مختلف امراض کی دوائیں اور ان کے علاج بتائے۔صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ اجمعین کو علاج کا مشورہ دیا اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا ۔علاج کو توکل کے منافی سمجھنا بھی صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ توکل یہ نہیں ہے کہ آدمی اسباب و وسائل کو اختیار نہ کرے ۔ بلکہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو اصل اعتماد اسباب و وسائل پر نہیں بلکہ اﷲ کی ذات پر ہو۔وسائل کو اختیار کئے بغیر جو توکل کیا جائے وہ توکل غلط قسم کا توکل ہوگا۔بیماری میں توکل یہ ہے کہ آدمی دوا علاج کرنے کے باوجود اﷲ پر بھروسہ رکھے اور مرض اور شفاء سب کو رب کی جانب سے سمجھے۔

رحمت کاملہ کا سایہ : ٭حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جس بندے پر میں نے ایک بیماری نازل کی اور اس پر اس نے صبر کیا اور لوگوں سے اس کا شکوہ شکایت نہیں کی ۔اب اگر میں اس کو صحت دونگا تو اس سے بہتر گوشت و پوشت اس کو دونگا۔٭حضرت وہب بن منبہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اﷲ نے حضرت عزیر علیہ السلام پر وحی بھیجی اگر تجھ پر کوئی بلانازل ہو تومیری مخلوق کے پاس شکایت سے بچنا۔اور میرے ساتھ ایسا معاملہ کر جیسا کہ میں تیرے ساتھ کرتا ہوں کیوں کہ جس طرح میں تیری شکایت فرشتوں کے سامنے نہیں کرتا اس وقت جب تیرے برے اعمال میرے سامنے آتے ہیں ایسے ہی تجھے مناسب ہے کہ جب تجھ پر کوئی مصیبت و بلا و بیماری آئے تو میری شکایت سے پرہیز کیا کرو۔کیونکہ شکوہ شکایت سے تیرا دشمن خوش ہوگااور دوست غمگین ہوگا۔

بیماری پر صبر اور اس پر انعام : وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْن۔اﷲ صبر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے(ترجمہ)۔ جو شخص عبادت الٰہی پر صبر کرتا ہے اور ہر وقت عبادت میں مصروف رہتا ہے اسے قیامت کے دن اﷲ 300؍ایسے درجات عطا فرمائے گا جن میں ہر درجہ کا فاصلہ زمین و آسمان کے برابر یعنی دوری ہوگی۔جو اﷲ کی حرام کی ہوئی چیزوں پر صبر کرے گا اسے 600؍درجات بلندی عطا فرمائے گا جن میں ہر درجہ کا فاصلہآسمان تا ساتویں آسمان کے برابر ہوگااور جو مصائب و بیماری پر صبر کرتا ہے اسے 700؍ درجات عطا ہونگے ہر درجہ کا فاصلہ تحت الثریٰ سے عرش علیٰ کے برابر ہوگا(مکاشفۃ القلوب جلد اول صفحہ 50)۔ حدیث پاک میں ہے جو شخص رات بھر بیمار رہا اور صبر کر کے اﷲ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوا(اور بیماری کا ہو ہلہ نہ کیا) تو وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے گاجیسے کے اپنی پیدائش کے وقت تھااس لئے جب تم بیمار ہو جاؤ تو عافیت کی تمنا کرو۔

بیماری اوررنج و غم گناہوں کو مٹا دیتے ہیں: حضرت علامہ ضحاک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں جو شخص 40؍ راتوں میں ایک رات بھی گرفتار رنج و الم نہ ہوا اﷲ تعالیٰ کے یہاں اس کے لئے کوئی خیر اور بھلائی نہیں۔
جھوٹے بیمار کا عذاب:حدیث پاک میں ہے لا تمارضوفتمرّضوفتموفتدخلو النار جھوٹا بیمار مت بنوکہ حقیقت میں بیمار بن جاؤگے اور مر جاؤگے تو جہنم میں جاؤگے(ترجمہ)۔خدا سے ہمیشہ ڈرو کہ جھوٹا بیمار بننے سے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حقیقت میں بیمار کر دے اور عاقبت خراب ہونے کا خوف الگ سے دامن گیر ہو (حوالہ الملفوظ حصہ چہارم صفحہ 35، خطبات محرم صفحہ 539)۔

تعزیت کرنا بھی عبادت ہے: مولائے رحیم نے اپنے بندوں پر اپنی رحمت کے دروازے کھول رکھے ہیں جو شخص چاہے اپنے ظرف کے مطابق اس سے فائدے حاصل کر سکتا ہے فرائض و واجبات کی اہمیت سے تو مسلمان ایک حد تک واقف ہیں، لیکن بہت سی باتیں جن کی کوئی اہمیت نہیں سمجھی جاتی ہیں حالانکہ وہ اﷲ کے نزدیک بہت اہم ہوتی ہیں انہی میں سے عیادت (بیمار پُرسی)تعزیت (مصیبت زدہ کی تسلی و دلجوئی)کرنا جن کی بڑی فضیلت اور بڑا ثواب ہے کبھی کسی مصیبت زدہ کی معمولی سی ہمدردی ہمیشہ کے لئے اس کو ہمدردی کرنے والے سے منسلک کر دیتی ہے۔حدیث میں عیادت و تعزیت کے بہت سے فضائل ہیں مسلمانوں کے مسلمانوں پر جو حقوق ہیں ان میں، عیادت اور جنازہ بھی شامل ہے قال رسول اﷲ ﷺ حق المسلم علیٰ المسلم خمس روا سلام و عیادۃ المریض و اتباع الجنائز واجابۃ الدعوۃو تشمیت العاطش (بخاری و مشکوٰۃ) سرور کائنات ﷺ نے فرمایا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینااور بیمار کی عیادت کرنا اور جنازے کے پیچھے چلنااور دعوت کا قبول کرنااور چھینکنے والے کا جواب دینا(جب چھینکنے والا الحمد للّٰہ کہے تو اس کو یرحمک اللّٰہ کہنا)(ترجمہ)۔لوگ ان باتوں کو معمولی سمجھتے ہیں لیکن قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ان باتوں کی پُرسش فرمائے گا۔حدیث پاک میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گاکہ اے آدمی میں بیمار ہواتو تو نے میری عیادت نہیں کی ،وہ عرض کرے گا اے پروردگا میں تیری عیادت کیسے کرتا، تو تو پروردگار عالم ہے، اﷲ فرمائے گا کہ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تونے اس کی عیادت نہیں کی ۔ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھ کو اس کے نزدیک پاتا۔اے آدمی میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تونے مجھ کو نہیں کھلایا وہ عرض کرے گا کہ میں تجھ کو کیسے کھلاتا تو تو پروردگار عالم ہے اﷲ فرمائے گا کہ کیا تجھ کو علم نہیں کہ میرا فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو نے اس کو نہیں کھلایا،کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب مجھ سے پاتا؟ اے آدمی میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھ کو پانی نہیں پلایا۔وہ عرض کرے گا کہ میرے پروردگا ر میں تجھ کو کیوں کر پانی پلاتا ۔تو تو پروردگار عالم ہے ۔ اﷲ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تو تونے اس کو پانی نہیں پلایا اگر تو اس کو پانی پلاتا تو اس کا ثواب میرے پاس پاتا۔سبحان اﷲ سبحان اﷲ! قربان ہو جائیں پیارے اسلامی بھائیومولائے رحیم کی کرم نوازی پر۔
بیمار پُرسی و تعزیت کے فضائل: جو شخص بیمار کی عیادت کرتا ہے،اگر وہ صبح کو عیادت کرے گا تو صبح سے شام تک فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہیں گے اور اگر شام کو عیادت کرے گا تو شام سے صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہیں گے اور اس کو عیادت کا ثواب جنت میں ایک باغ کی شکل میں ملے گا۔عیادت کی فضیلت و برکت یہ بھی ہے کہ عیادت کرنے والے کوآسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے کہ تیری زندگی اچھی ہوئی اور تیرا چلنا اچھا ہوااور تیرا مقام جنت کے ایک مکان میں ہوگا یعنی عیادت کی برکت سے دنیا اور آخرت میں اچھی زندگی حاصل ہوگی۔ایک مسلمان کی عیادت خود بھی جنت کے باغ کے سیر کے برابر ہے اور اس کا بے انتہاثواب ہے۔

عیادت کا اسلامی طریقہ : جب مریض کی عیادت کو جائے تو اس سے اس طرح سے باتیں کرے کہ اس کی طبیعت میں فرحت و سرور پیدا ہواور مرض کی شدت کے سبب اس کو موت کا خطرہ ہو تو اس کو اپنی دلچسپ باتوں سے دور کرنے کی کوشش کرے اور اس کے مرض کو معمولی بتائے اور کہے کہ آپ جلد اچھے ہو جائیے گا(حدیث)دوسری حدیث پاک میں اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا تم بیمار کے پاس جاؤ،تو اچھی باتیں کر کے اس کے دل سے موت کا خطرہ دور کردو۔بلا شبہ اس سے کوئی چیز دور نہیں ہوگی مریض کا دل خوش ہوگا۔

بیماری پر کفریہ لفظ گناہ ہے،کلمات کفر کی چند مثالیں:(۱) اﷲ نے مجھ کو بیمار کر کے مجھ پر ظلم کیا ہے(معاذ اﷲ)، اس نے مجھ پر ظلم کیا ہے یہ کلمۂ کفر ہے (حوالہ البحر الرائق،جلد 5؍ صفحہ 209)
(۲)جو شخص مصیبت میں ہو اور بیمار ہو ،یہ کہے اے اﷲ تونے مال لے لیا ،فلاں چیز لے لی،اب کیا کرے گایا اب کیا باقی رہ گیا ہے یا اب جان لے لے گایہ قول کفر ہے(بہار شریعت جلد 9؍ صفحہ 172)۔
(۳)کسی مسکین اور بیمار نے اپنی محتاجی اور بیماری کو دیکھ کر یہ کہا یا اﷲ میں بھی تیرا بندہ ہوں اور میں بیمار ہوں اور تیرا فلاں بندہ عیش و عشرت میں ہے ،آخیر یہ کیا معاملہ ہے کیا یہ ہی تیرا انصاف ہے ایسا کہنا کلمۂ کفر ہے(بہار شریعت جلد 9؍ صفحہ 170)۔
(۴)جو کہے اﷲ نے مجھ مجبور کو بیمار کر کے اور پریشان کیا ہے(معاذ اﷲ) یہ کلمۂ کفر ہے(فتاویٰ عالمگیری جلد 2؍صفحہ260)۔

اﷲ پاک ہم سبھی کو بیماری،عیادت اور تعزیت کے احکام جاننے اور سمجھنے عمل کرنے کی توفیق سے نوازے۔آمین ثم آمین۔

ہم نے ہزار سال حکومت کی آپ سو سال تو پورے کریں!

محمد بن قاسم سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک مسلمانوں نے برصغیر پر ہزار سال تک حکومت کی۔ برصغیر کے کونے کونے میں مسلمان حکمرانوں کی حکومت کے نشانات پائے جاتے ہیں۔ اس میں سب سے نمائیں وہ دفاعی قلعے ہیں جو اب بھی اپنی شان و شوکت سے مسلمان حکمرانوں کی شاندار حکمرانی کی شہادت دے رہے ہیں۔ اب بھارت کے متعصب برہمن حکمرانوں کی خواہش ہے کہ وہ مسلمانوں پر ہزار سال حکومت کریں ۔اس کے لیے انہوں نے اپنی عوام کے سامنے اکھنڈ بھارت کا نظریہ پیش کیا ہے۔ یہ سبق وہ بڑے پیمانے پر بھارتی عوام میں پھیلاتے رہتے ہیں۔اپنی نصابی کتابوں میں بنگلہ دیش،افغانستان ،پاکستان اور اردگرد کے ممالک کو اکھنڈ بھارت کے نقشے میں شامل کر کے اپنے بچوں کو سبق پڑھا رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی شاید یاد نہیں رہا کہ تجارت کے مکر سے برصغیر پرقبضہ کرنے والے انگریز بھی صرف ڈیڑھ سو سال حکومت کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور ان کی حکومت میں نہ ڈوبنے والے سورج کا پروپگنڈا کرنے والے انگریزواپس اپنے مسکن میں جا پہنچے جہاں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا اکثر بادل ہی رہتے ہیں۔تاریخی طور پر برصغیر پر مسلمان حکمرانوں کو برتری حاصل رہی ہے۔ اﷲ اﷲ کر کے برصغیر آزاد ہوا۔ اگر بھارت کی آزادی کے پچھلے ۶۸؍ سال کا جائزہ لیا جائے تو ایک عبرت ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعدبھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ بھارت کے برہمن حکمرانوں اور عام ہندوؤں کے رویہ پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تاریخی عوامل ہیں۔ پہلی بات کہ اسلام ایک تازہ اور ہر دم تازہ رہنے والا دین ہے۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان صرف اﷲ کی وحدانیت اور رسول ؐ کی رسالت کااقرار کر کے مسلمانوں کے دین میں شامل ہو جاتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ اسلام میں صدقِ دل سے داخل ہونے والا انسان پاک اور صاف ہو جاتا ہے اُس کے سارے پرانے گناہ اﷲ معاف کر دیتا ہے۔ اُس کے حقوق مسلمان کے برابر ہو جاتے ہیں۔ آئندہ زندگی اُسے اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارنی ہوتی ہے اس حقانیت کو سمجھتے ہوئے بھارت کی کئی قومیں خاص کر اچھوت قوم کے ہندو مسلمان ہوئے ان میں سے کچھ پروفیسر بنے، مدینہ یونیورسٹی اور دنیا کی مسلم یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔ اسلام میں مذہبی آزادی، انسانوں کے حقوق ،ایک دوسرے کے حقوق، ماں باپ کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق حتہ کہ جانوروں تک کے حقوق تک کی تلقین کی جاتی ہے جبکہ ایسی واضع ہدایت کسی اور مذہب، خاص کر ہندو مذہب میں نہیں ہیں۔ آزادی کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں پر حکومت کرنے کے لیے ان کے دل جیتنے تھے۔ ان کو مذہبی آزادی دینا تھی جبکہ گائے کے گوشت کا مسئلہ پیدا کر کے مسلمانوں کو بھارت میں جگہ جگہ قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے شراب اسلام میں حرام ہے پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہے۔ کیا پاکستان میں شراب پینے والے ہندوؤں کو قتل کیا جاتا ہے؟ بھارت کے حکمران کو مسلمانوں سے پیار کرنا تھا۔ ان کو حکومت کے اندر آئینی طور پر مقرر کردہ کوٹہ کے مطابق نوکریاں دینی تھیں۔ جب نوکریاں نہیں دیں جاتیں تو انہوں نے کاروبار شروع کیا جب کاروبار میں کامیاب ہوئے تو ذبردستی بلوے کرا کر ان کے کاروبار نذر آتش کر دیا گئے۔ ان کی امیددوں کے باغ پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ تقسیم کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مسلم اکثریت کی ریاست کشمیر پر جبری قبضہ کرنے کے بجائے اس کوپاکستان میں شامل ہونے کی آزادی دی جانی چاہیے تھی مگر بڑے دل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا اور انہیں جبر سے آٹھ لاکھ فوج رکھ کر غلام بنا لیا گیا ہے۔بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کا رویہ رکھا گیا انہیں تکلیفیں دے دے کر کہا گیا پاکستان چلے جاؤ۔ جبکہ مسلمان کہتے ہیں کیوں پاکستان چلے جائیں یہ ہمارا اپنا ملک ہے ہم یہاں ہزار سال سے رہ رہے ہیں ۔ اس رویہ کی وجہ سے بھارت کے مسلمان اب سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ وہ بھارت میں دلتوں کو ملا کر ایک اور پاکستان کا مطالبہ کیوں نہ کریں۔ نظر آ رہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور نیچی ذات کی قوموں پر ظلم کی وجہ سے ایک اور پاکستان بن کے ہی رہے گا جس میں بھارت کی نیچی قوموں کے لوگ شامل ہو جائیں گے۔ یاد رکھیں کہ حکومتیں کرنے والے حکمرانوں کے دل بڑے ہونے چاہییں۔ ان کی سوچ میں وسعت ہو۔ وہ عوام کے دکھ دردمیں شامل ہوں۔ وہ ظالم نہ ہوں۔ عوام کے جائزحقوق ادا کرنے والے ہوں ۔ حکومت کے اکثریتی عوام اقلیتی لوگوں سے محبت کرنے والے ہوں تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ حکمران عوام پر دیر تک حکومت کر سکتے ہیں۔ برصغیر میں حکومت کرنے والے مسلمان حکمرانوں کے متعلق اگر دیکھا جائے کہ ان کی عام عوام کے ساتھ کیا رویہ تھا تو سب سے پہلے حکمران محمد بن قاسم کو دیکھتے ہیں سندھ میں اب بھی لاکھوں لوگ اپنے بچوں کے نام قاسم کے نام پر رکھتے ہیں۔محمد بن قاسم کی نرم مزاجی کے متعلق ڈاکڑ ممتاز حسین پٹھان لکھتے ہیں ’’رواداری کسی بھی فاتح کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے اس کے باوجود کہ وہ مخالف کو دبانے کی صلا حیت رکھتا ہو محمد بن قاسم نے سندھ کے باشندوں کے لیے مہربانی اور رواداری کا طریقہ اختیار کیا ۔‘‘ اکبر بادشاہ نے تو بیربل کو اپنا مشیر بنایاتھا اور رعایا کے ساتھ اتنا مل گیا تھا کہ اپنا مذہب بدل کر دین اکبری بنا کر ڈالا جس میں ہندوانہ رسمیں شامل تھیں۔جہانگیر بادشاہ نے محل کے باہر ایک گھنٹی لگا رکھی تھی کہ جس کو بھی تکلیف ہو وہ گھنٹی بجا کر بادشاہ کو اطلاع دے سکتا ہے تاکہ اس کی فریاد سن کر اسے انصاف دیا جائے ۔ موجودہ وزیر اعظم ہند انصاف کیا دے گا الٹا تو اپنی مسلمان رعایا کو اپنی پولیس کے ذریعے قتل کرواتا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر جس نے ہندوستان پر پچاس سال حکومت کی عوام کے پیسے کو اڑاتا نہیں تھا بلکہ ٹوپیاں سی کر فروخت کرتا تھا اور اپنا خرچہ چلاتا تھا۔ برصغیر کے درویش مشن بزرگوں نے چپہ چپہ میں محبت اور شانتی کا درس دیا جس سے کروڑوں ہندو مسلمان ہوئے آج بھی پاکستان کے ہنددؤں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ وہ فلاں درگا ہ کے مرید ہیں۔ کیا اب بھارت کے مذہبی پیشوا مسلمانوں سے ایسا محبت والا رویہ رکھتے ہیں یا منہ پر رام رام اور بغل میں چھری والا رویہ ہے؟ تاریخی بابری مسجد کو گرا دیا اس کے علاوہ ہزاروں مسجدوں کو گرا دیا گیا۔ بھارت کے سیاستدان پاکستان سے بات چیت کرنے کے روا دار نہیں پاکستان کے نمائندے کو واپس کر دیتے ہیں۔ اپنی رعایا دلتوں کو کتے سے تشبی دیتے ہیں۔ بھارت پاکستان کے کھیلوں کے سربراہ کو احتجاج کر کے واپس بھیج دیتا ہے بھارت کے غزل گلوکار جگجیت سنگھ کہتے ہیں میں تو پاکستان جا کر غزل نہیں گاتا غلام علی کیوں بھاگے بھاگے بھارت آتے ہیں۔قصوری کی کتاب کی رونمائی کے موقعے پر اپنے ہی ملک کے کلکرنی کے منہ پر سیاہی مل دیتے ہیں۔ ’’ہندو دیودادہنی‘‘ کے صوبائی صدر سنیل سنگھ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دہشت گردی کی نرسی قرار دے دیا ہے اور کہا کہ دہشت گردوں کو پاکستان جانا ہو گا یا اُنہیں قبرستان میں دفنا ناہو گا۔ہزار سال تک مسلمانوں پر حکومت کی خواہش رکھنے والے برہمن ہندو حکمرانوں کا مسلمانوں اوراچھوت قوموں سے رویہ پر غور کریں تو لگتا ہے بھارت میں مسلمان اور نیچی ذات کی قومیں مل کر ایک اور پاکستان بنانے کی طرف دکھیل دی گئیں ہیں جہاں امن و سکون سے رہ سکیں۔ بھارت میں ۲۷؍ علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں کہیں بھارت کے روس کی طرح کے ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوجائیں۔مسلمانوں پر ہزار سال حکومت کرنے کی تو دور کی بات ہے۔ہم نے آپ پر ہزار حکومت کی آپ شاید سو سال بھی پورے نہ کر سکیں گے۔