Monday, November 2, 2015

ہم نے ہزار سال حکومت کی آپ سو سال تو پورے کریں!

محمد بن قاسم سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک مسلمانوں نے برصغیر پر ہزار سال تک حکومت کی۔ برصغیر کے کونے کونے میں مسلمان حکمرانوں کی حکومت کے نشانات پائے جاتے ہیں۔ اس میں سب سے نمائیں وہ دفاعی قلعے ہیں جو اب بھی اپنی شان و شوکت سے مسلمان حکمرانوں کی شاندار حکمرانی کی شہادت دے رہے ہیں۔ اب بھارت کے متعصب برہمن حکمرانوں کی خواہش ہے کہ وہ مسلمانوں پر ہزار سال حکومت کریں ۔اس کے لیے انہوں نے اپنی عوام کے سامنے اکھنڈ بھارت کا نظریہ پیش کیا ہے۔ یہ سبق وہ بڑے پیمانے پر بھارتی عوام میں پھیلاتے رہتے ہیں۔اپنی نصابی کتابوں میں بنگلہ دیش،افغانستان ،پاکستان اور اردگرد کے ممالک کو اکھنڈ بھارت کے نقشے میں شامل کر کے اپنے بچوں کو سبق پڑھا رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی شاید یاد نہیں رہا کہ تجارت کے مکر سے برصغیر پرقبضہ کرنے والے انگریز بھی صرف ڈیڑھ سو سال حکومت کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور ان کی حکومت میں نہ ڈوبنے والے سورج کا پروپگنڈا کرنے والے انگریزواپس اپنے مسکن میں جا پہنچے جہاں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا اکثر بادل ہی رہتے ہیں۔تاریخی طور پر برصغیر پر مسلمان حکمرانوں کو برتری حاصل رہی ہے۔ اﷲ اﷲ کر کے برصغیر آزاد ہوا۔ اگر بھارت کی آزادی کے پچھلے ۶۸؍ سال کا جائزہ لیا جائے تو ایک عبرت ناک صورت حال سامنے آتی ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعدبھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ بھارت کے برہمن حکمرانوں اور عام ہندوؤں کے رویہ پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تاریخی عوامل ہیں۔ پہلی بات کہ اسلام ایک تازہ اور ہر دم تازہ رہنے والا دین ہے۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان صرف اﷲ کی وحدانیت اور رسول ؐ کی رسالت کااقرار کر کے مسلمانوں کے دین میں شامل ہو جاتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ اسلام میں صدقِ دل سے داخل ہونے والا انسان پاک اور صاف ہو جاتا ہے اُس کے سارے پرانے گناہ اﷲ معاف کر دیتا ہے۔ اُس کے حقوق مسلمان کے برابر ہو جاتے ہیں۔ آئندہ زندگی اُسے اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارنی ہوتی ہے اس حقانیت کو سمجھتے ہوئے بھارت کی کئی قومیں خاص کر اچھوت قوم کے ہندو مسلمان ہوئے ان میں سے کچھ پروفیسر بنے، مدینہ یونیورسٹی اور دنیا کی مسلم یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔ اسلام میں مذہبی آزادی، انسانوں کے حقوق ،ایک دوسرے کے حقوق، ماں باپ کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق حتہ کہ جانوروں تک کے حقوق تک کی تلقین کی جاتی ہے جبکہ ایسی واضع ہدایت کسی اور مذہب، خاص کر ہندو مذہب میں نہیں ہیں۔ آزادی کے بعد بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں پر حکومت کرنے کے لیے ان کے دل جیتنے تھے۔ ان کو مذہبی آزادی دینا تھی جبکہ گائے کے گوشت کا مسئلہ پیدا کر کے مسلمانوں کو بھارت میں جگہ جگہ قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے شراب اسلام میں حرام ہے پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہے۔ کیا پاکستان میں شراب پینے والے ہندوؤں کو قتل کیا جاتا ہے؟ بھارت کے حکمران کو مسلمانوں سے پیار کرنا تھا۔ ان کو حکومت کے اندر آئینی طور پر مقرر کردہ کوٹہ کے مطابق نوکریاں دینی تھیں۔ جب نوکریاں نہیں دیں جاتیں تو انہوں نے کاروبار شروع کیا جب کاروبار میں کامیاب ہوئے تو ذبردستی بلوے کرا کر ان کے کاروبار نذر آتش کر دیا گئے۔ ان کی امیددوں کے باغ پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ تقسیم کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مسلم اکثریت کی ریاست کشمیر پر جبری قبضہ کرنے کے بجائے اس کوپاکستان میں شامل ہونے کی آزادی دی جانی چاہیے تھی مگر بڑے دل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا اور انہیں جبر سے آٹھ لاکھ فوج رکھ کر غلام بنا لیا گیا ہے۔بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کا رویہ رکھا گیا انہیں تکلیفیں دے دے کر کہا گیا پاکستان چلے جاؤ۔ جبکہ مسلمان کہتے ہیں کیوں پاکستان چلے جائیں یہ ہمارا اپنا ملک ہے ہم یہاں ہزار سال سے رہ رہے ہیں ۔ اس رویہ کی وجہ سے بھارت کے مسلمان اب سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ وہ بھارت میں دلتوں کو ملا کر ایک اور پاکستان کا مطالبہ کیوں نہ کریں۔ نظر آ رہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور نیچی ذات کی قوموں پر ظلم کی وجہ سے ایک اور پاکستان بن کے ہی رہے گا جس میں بھارت کی نیچی قوموں کے لوگ شامل ہو جائیں گے۔ یاد رکھیں کہ حکومتیں کرنے والے حکمرانوں کے دل بڑے ہونے چاہییں۔ ان کی سوچ میں وسعت ہو۔ وہ عوام کے دکھ دردمیں شامل ہوں۔ وہ ظالم نہ ہوں۔ عوام کے جائزحقوق ادا کرنے والے ہوں ۔ حکومت کے اکثریتی عوام اقلیتی لوگوں سے محبت کرنے والے ہوں تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ حکمران عوام پر دیر تک حکومت کر سکتے ہیں۔ برصغیر میں حکومت کرنے والے مسلمان حکمرانوں کے متعلق اگر دیکھا جائے کہ ان کی عام عوام کے ساتھ کیا رویہ تھا تو سب سے پہلے حکمران محمد بن قاسم کو دیکھتے ہیں سندھ میں اب بھی لاکھوں لوگ اپنے بچوں کے نام قاسم کے نام پر رکھتے ہیں۔محمد بن قاسم کی نرم مزاجی کے متعلق ڈاکڑ ممتاز حسین پٹھان لکھتے ہیں ’’رواداری کسی بھی فاتح کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے اس کے باوجود کہ وہ مخالف کو دبانے کی صلا حیت رکھتا ہو محمد بن قاسم نے سندھ کے باشندوں کے لیے مہربانی اور رواداری کا طریقہ اختیار کیا ۔‘‘ اکبر بادشاہ نے تو بیربل کو اپنا مشیر بنایاتھا اور رعایا کے ساتھ اتنا مل گیا تھا کہ اپنا مذہب بدل کر دین اکبری بنا کر ڈالا جس میں ہندوانہ رسمیں شامل تھیں۔جہانگیر بادشاہ نے محل کے باہر ایک گھنٹی لگا رکھی تھی کہ جس کو بھی تکلیف ہو وہ گھنٹی بجا کر بادشاہ کو اطلاع دے سکتا ہے تاکہ اس کی فریاد سن کر اسے انصاف دیا جائے ۔ موجودہ وزیر اعظم ہند انصاف کیا دے گا الٹا تو اپنی مسلمان رعایا کو اپنی پولیس کے ذریعے قتل کرواتا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر جس نے ہندوستان پر پچاس سال حکومت کی عوام کے پیسے کو اڑاتا نہیں تھا بلکہ ٹوپیاں سی کر فروخت کرتا تھا اور اپنا خرچہ چلاتا تھا۔ برصغیر کے درویش مشن بزرگوں نے چپہ چپہ میں محبت اور شانتی کا درس دیا جس سے کروڑوں ہندو مسلمان ہوئے آج بھی پاکستان کے ہنددؤں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ وہ فلاں درگا ہ کے مرید ہیں۔ کیا اب بھارت کے مذہبی پیشوا مسلمانوں سے ایسا محبت والا رویہ رکھتے ہیں یا منہ پر رام رام اور بغل میں چھری والا رویہ ہے؟ تاریخی بابری مسجد کو گرا دیا اس کے علاوہ ہزاروں مسجدوں کو گرا دیا گیا۔ بھارت کے سیاستدان پاکستان سے بات چیت کرنے کے روا دار نہیں پاکستان کے نمائندے کو واپس کر دیتے ہیں۔ اپنی رعایا دلتوں کو کتے سے تشبی دیتے ہیں۔ بھارت پاکستان کے کھیلوں کے سربراہ کو احتجاج کر کے واپس بھیج دیتا ہے بھارت کے غزل گلوکار جگجیت سنگھ کہتے ہیں میں تو پاکستان جا کر غزل نہیں گاتا غلام علی کیوں بھاگے بھاگے بھارت آتے ہیں۔قصوری کی کتاب کی رونمائی کے موقعے پر اپنے ہی ملک کے کلکرنی کے منہ پر سیاہی مل دیتے ہیں۔ ’’ہندو دیودادہنی‘‘ کے صوبائی صدر سنیل سنگھ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دہشت گردی کی نرسی قرار دے دیا ہے اور کہا کہ دہشت گردوں کو پاکستان جانا ہو گا یا اُنہیں قبرستان میں دفنا ناہو گا۔ہزار سال تک مسلمانوں پر حکومت کی خواہش رکھنے والے برہمن ہندو حکمرانوں کا مسلمانوں اوراچھوت قوموں سے رویہ پر غور کریں تو لگتا ہے بھارت میں مسلمان اور نیچی ذات کی قومیں مل کر ایک اور پاکستان بنانے کی طرف دکھیل دی گئیں ہیں جہاں امن و سکون سے رہ سکیں۔ بھارت میں ۲۷؍ علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں کہیں بھارت کے روس کی طرح کے ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوجائیں۔مسلمانوں پر ہزار سال حکومت کرنے کی تو دور کی بات ہے۔ہم نے آپ پر ہزار حکومت کی آپ شاید سو سال بھی پورے نہ کر سکیں گے۔

Saturday, October 31, 2015

WANT TO BE A WEB DESIGNER or FRONTEND DEVELOPER

WANT TO BE A WEB DESIGNER or FRONTEND DEVELOPER
For Further Detail: 0334 414 4391 0332 190 9909
Our objective is to give opportunity to professional students and those who were not able to get formal education in their career.


Monday, September 7, 2015

ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﻧﻤﺒﺮ 335139 ﮈﯾﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ

17 ﺳﺘﻤﺒﺮ 2005 ﺀ ﮐﻮ ﻭﺍﮨﮕﮧ ﺑﺎﺭﮈﺭ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﺣﮑﺎﻡ ﻧﮯ ﻗﯿﺪﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻭﭖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺣﮑﺎﻡ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﯿﺎ -ﺍﺱ ﮔﺮﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻧﻮﻋﯿﺖ ﮐﮯ ﻗﯿﺪﯼ ﺗﮭﮯ - ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﭩﮭﮍﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺗﮭﮯ - ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮔﺮﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﭨﮫ ﭘﯿﻨﺴﭩﮫ ﺳﺎﻟﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﺎ - ﺟﺲ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﭩﮭﮍﯼ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ -
ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻤﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﮭﺎﻝ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ - ﺍﻭﺭ ﺟﺴﻢ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻣﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﭘﺘﻨﮓ ﮐﯽ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﺎﻥ ﻣﮍﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ - ﺧﻮﺩﺭﻭ ﺟﮭﺎﮌﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﺮﮐﮯ ﺑﮯ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺑﺎﻝ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻃﻮﯾﻞ ﻋﺮﺻﮯ ﺗﮏ ﺍﻥ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﯿﻞ ﯾﺎ ﮐﻨﮕﮭﯽ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ - ﺍﻭﺭ ﺩﮐﮫ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺱ ﻗﯿﺪﯼ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮐﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺼﺎﺋﺐ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﺱ ﻗﯿﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﺑﮍﯼ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﯽ ﭼﻤﮏ ﺗﮭﯽ - ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺣﮑﺎﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﮐﺎﺭﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﺳﺎﺭﮮ ﻗﯿﺪﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﻓﺎﺭﻍ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ - ﺳﺎﺭﮮ ﻗﯿﺪﯼ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ -ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﻗﯿﺪﯼ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻞ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ - ﮐﺎﻧﭙﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺗﻮﺍﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﮦ ﭨﻮﭨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻟﮑﮫ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻏﺮﯾﺐ ﺳﺎﺋﻞ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ - ﺍﻭﺭ ﯾﻮﮞ 2005 ﺀ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﺷﺨﺺ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺁﺭﻣﯽ ﮐﯽ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﺭﺟﻤﻨﭧ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺩﻋﻮﯼ - ﮐﺮﺩﯾﺎ - ﺍﺱ ﺩﻋﻮﮮ ﮐﮯ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺭﺟﻤﻨﭧ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺩﯾﺎ - ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭘﯿﺶ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﺎﺗﻮﺍﮞ ﺷﺨﺺ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺁﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻓﻮﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﮐﻮ ﺳﻠﯿﻮﭦ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﺮ ﭨﻮﭨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ
” ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﻧﻤﺒﺮ 335139 ﮈﯾﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮨﮯ “ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﮐﻮ ﮐﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻻﻏﺮ ، ﻧﺎﺗﻮﺍﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﺣﻮﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺩﻋﻮﮮ ﻧﮯ ﭼﮑﺮﺍ ﮐﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ - ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻓﻮﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﺮﭘﻮﺭ ﺳﻠﯿﻮﭦ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ - ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻗﯿﺪﯼ ﮐﮯ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺒﺮ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﺟﺐ ﻓﻮﺟﯽ ﺭﯾﮑﺎﺭﮈ ﮐﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﻓﺎﺋﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﺩ ﺟﮭﺎﮌﯼ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﮐﮯ ﻻﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻝ ﮨﻼ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺋﯽ - ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺏ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ، ﻓﯿﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﭩﺎﺭﺯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺱ ﻻﻏﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺳﻠﯿﻮﭦ ﻣﺎﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ - ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﺗﮭﺎ 65- ﺀ ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﯿﭙﭩﻦ ﺷﯿﺮ ﮐﯽ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮈﭘﻮ ﮐﻮ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮﮐﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﺷﻤﻦ ﺳﮯ ﺟﮭﮍﭖ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ - ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺸﺖ ﭘﺮ ﻭﺍﺋﺮﻟﯿﺲ ﺳﯿﭧ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻓﺴﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺭﺳﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻓﺮﺍﺋﺾ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﮔﻦ ﺳﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺯﺧﻤﯽ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ - ﺳﭙﺎﮨﯽ ﺍﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻻﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﺯﺧﻤﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﺑﻨﻮﮞ ، ﻣﯿﮟ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﭖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ - ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﺎﻝ ﭼﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺟﮭﻞ ﮐﺮﻟﯿﺎ - ﺩﻭﺳﺖ ﺗﻼﺵ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﻮﭦ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﭘﮭﺮ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﻓﻮﺟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﮌﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻟﯿﺎ - ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﻮﻟﮯ ﻧﮯ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﻮ ﺷﺪﯾﺪ ﺯﺧﻤﯽ ﮐﺮﺩﯾﺎ - ﻭﮦ ﺑﮯ ﮨﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮔﺮﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﺷﻤﻦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﺮﻟﯿﺎ - ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﻝ ﭼﮭﭩﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﻠﮑﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻗﯿﺪﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻓﮩﺮﺳﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺒﺎﺩﻟﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻧﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﺎ ﺫﮐﺮﻧﮧ ﮐﯿﺎ - ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﻮ ﺷﮩﯿﺪ ﺗﺼﻮﺭﮐﺮﻟﯿﺎ - ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﮩﯿﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﯾﮏ ﯾﺎﺩﮔﺎﺭ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﮐﻨﺪﮦ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ - ﺍﺩﮬﺮﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻓﻮﺝ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﮐﮍﯾﻞ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮭﻠﻮﺍﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﮩﺎﮌ ﺗﻮﮌﻧﮯ ﻟﮕﯽ - ﺍﺳﮯ 4X4 ﻓﭧ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﻨﺠﺮﺍ ﻧﻤﺎ ﮐﻮﭨﮭﮍﯼ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﺪ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ - ﺟﮩﺎﮞ ﻭﮦ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮫ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﻟﯿﭧ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ -ﺩﺷﻤﻦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﻮﺯ ﻣﻈﺎﻟﻢ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﮔﻠﻮﺍﻧﮧ ﺳﮑﺎ ﺗﮭﺎ - ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﯽ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺛﺎﺑﺖ ﻗﺪﻣﯽ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺍﻓﺴﺮﺍﻥ ﮐﻮ ﭘﺎﮔﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ - ﺟﺐ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺍﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﻮ ﺗﺸﺪﺩ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﮯ ” ﮐﮩﻮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﺮﺩﮦ ﺑﺎﺩ “ ﺍﻭﺭ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺗﻮﺍﻧﺎﺋﯽ ﺍﮐﭩﮭﯽ ﮐﺮﮐﮯ ﻧﻌﺮﮦ ﻣﺎﺭﺗﺎ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺯﻧﺪﮦ ﺑﺎﺩ ، ﺟﻮ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻓﻮﺟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﮭﻼ ﮐﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺘﺎ - ﻭﮦ ﭼﻼﻧﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮐﻮ ﭘﺎﮔﻞ ﭘﺎﮔﻞ ﮐﮩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﭘﺎﮔﻞ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻥ ﮐﺎ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮﮞ --- ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮﮞ --- ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺫﺭّﮮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ --- ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﯿﻠﺌﮯ --- ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﻭ ﻭﻗﺎﺭ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ --- ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺫﮨﻨﻮﮞ ﭘﺮ ﮨﺘﮭﻮﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻟﮕﺘﮯ - ﺁﺧﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭘﮭﺮ 4x4 ﮐﯽ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﯼ ﮐﻮﭨﮭﮍﯼ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﻣﻘﻔﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ - ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﻧﮯ 1965 ﺀ ﺳﮯ ﻟﯿﮑﺮ 2005 ﺀ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﺍﺱ ﮐﻮﭨﮭﮍﯼ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭ ﺩﯾﺌﮯ ﺍﺏ ﻭﮦ ﮐﭩﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺯﻧﺪﮦ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﺎ ﻧﻌﺮﮦ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﻟﺒﺎﺱ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﮯ ﭼﯿﺘﮭﮍﻭﮞ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ 4x4 ﻓﭧ ﮐﻮﭨﮭﮍﯼ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺣﺼﮯ ﮐﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍ ﭘﻨﮯ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺧﻮﻥ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺯﻧﺪﮦ ﺑﺎﺩ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺘﺎ - ﯾﻮﮞ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﭘﻦ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﺗﺎ ﺭﮨﺎ - ﺁﺋﯿﮟ ﮨﻢ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺁﺝ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﺎﮔﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻠﯿﻮﭦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

Popular Pakistani Celebrities Who Dated In The Past

  Popular Pakistani Celebrities Who Dated In The Past Hamza Ali Abbasi and Saba Qamar Saba Qamar’s “I love you” post on Hamza Ali Abbasi’s p...