Friday, October 11, 2013

ملالہ یوسف زئی ۔۔۔سوشل میڈیا کی نظر میں

بہادر بیٹی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔اسکولوں ، کالجوں اور گھروں میں اس کی جلد صحت یابی کے لیے دُعائیں مانگی جا رہی ہیں۔سوشل میڈیا بھی اس سلسلے میں کسی سے پیچھے نہیں ۔بہت سوں نے ملالہ کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کے لیے فیس بک پر اپنی پروفائل پکچر کی جگہ ملالہ کی تصویر ڈسپلے کر رکھی ہے۔شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں۔ادبیوں نے مذمتی قراردادیں اپنے اسٹیٹس پر آویزاں کر رکھی ہیں۔بہت سوں کا خیال ہے کہ ملالہ کو باقاعدہ ”قوم کی بیٹی“ کے خطاب سے نوازا جائے۔اسے امن کا نوبل انعام دیے جانے کا بھی مطالبہ کیا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ملالہ پر حملے کو ایک الگ زاویے سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ملالہ کی ”گل مکئی ڈائری “ کا معمہ حل ہو گیا ۔یہ ڈائری ایک غیرملکی ادارے کا مقامی نامہ نگار لکھتا رہا ہے ۔چوتھی جماعت میں پڑھنے والی ایک بچی اوباما کے بارے میں کتنا جان سکتی ہے کہ اسے اپنا آئیڈیل قرار دے۔ایک کالم نویس نے ”گل لالہ بمقابلہ ملالہ“ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ”ملالہ یوسف زئی پر حملے پر تلملانے اور آنسو بہانے والے ڈرامے بازو، کیا تمہیں وزیرستان میں ڈرون اور جیٹ حملوں میں شہید ہونے والی معصوم بچیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ایک صاحب نے ملالہ کی ڈائری سے یہ جملہ بھی نقل کیا ہے ” برقعہ پتھر کے دور کی نشانی ہے “ واللہ علم باالصواب۔ جتنے منہ ، اتنی باتیں۔کوئی کہتا ہے کہ اگر ملالہ پر یہی حملہ کراچی میں ہوا ہوتا تو کیا اسے اتنی زیادہ کوریج ملتی ؟عافیہ صدیقی بھی تو قوم کی بیٹی ہے ۔ اس پر ہونے والے امریکی مظالم پر خاموشی کیوں ؟ ڈرون حملوں اور لال مسجد میں شہید ہونے والی معصوم بچیوں کا ماتم کون کرے گا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ملالہ یوسف زئی پر حملے کی آڑ میں کوئی اور کھیل کھیلا جا رہا ہو 

بنیادی حقوق اور مفاد عامہ


 بڑے آدمی کی سوچ بڑی۔ مارکونی نے سوچا ریڈیو ایجاد کر مارا۔ ریڈیو ہی وہ بنیادی ایجاد ہے جس کے نتیجہ میں ٹی وی‘ واءرلس‘ بڑے بڑے ریڈار‘ انٹرنیٹ وغیرہ وجود پذیر ہوءے۔ یہ سوچ ہی کا کمال ہے کہ نئ نئ چیزیں آج دیکھنے اور استعمال کرنے کو مل رہی ہیں۔ سوچ کے نتیجہ میں بڑی بڑی الجھی گتھیاں سلجھ جاتی ہیں اور سلجھی گتھیاں الجھ جاتی ہیں۔ گویا سوچ کے نتیجہ میں بہت کچھ ہاتھ لگتا ہے اور بہت کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اب یہ سوچ پر انحصار کرتا ہے کہ کچھ ہاتھ سے جاتا ہے یا کچھ ہاتھ میں آتا ہے۔ شاءد ہی کوئ ہو گا جو ہاتھ سے جانے کا قاءل ہو۔ تقدیرا ہاتھ سے کچھ زیادہ ہی نکل جاءے تو یہ الگ بات ہے۔ نقصان کی صورت میں شخص اسے پورا کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات اس کی نوبت نہیں آتی‘ نقصان ہوتے ہی انسان الله کو پیارا ہو جاتا ہے۔ اس کے پچھلےعرصہ دراز تک اس کی نااہلی کے قصے سناتے رہتے ہیں۔ گویا وہ بعد از مرگ بھی لوگوں میں زندہ رہتا ہے۔ نقصان ہونے کے بعد اتفاقا زندہ بچ جاتا ہے اس کے اپنے اور قبر تک ساتھ دینے کا وعدہ کرنے والے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور اس کی وہ وہ خرابیاں نشر کرتے ہیں جن کا اس کو خود علم نہیں ہوتا۔ ماسٹر صاحب آنکھیں بند کءے دھوپ میں کرسی بچھا کر تشریف رکھتے تھے۔ بیگم نے بازار سے کچن کی کوئ اہم اور فوری ضرورت کی چیز لانے کو کہا۔ برہم اور تلخ ہوکر بولے دیکھتی نہیں ہو کہ میں مصروف ہوں۔ لامحالہ بیگم کو حیرانی ہونا تھی۔ اس نے ماسٹر صاحب سے زیادہ برہم اور تلخ ہو کر کہا کیا مصروفیت ہے میں تو تمہیں فارغ بیٹھا دیکھ رہی ہوں۔ بظاہر وہ غلط بھی نہیں تھی۔ میں سوچ رہا ہوں۔ کوئ بھی ماسٹر صاحب
کے اس کام کو کام نہیں مانے گا حالانکہ سوچنے سے بڑھ کر کوئ اور کام نہیں ہو سکتا۔ میں پچھلے کئ دن سے علیل پڑا ہوں اور تکلیف میں ہر اگلے دن اضافہ ہی ہوا۔ بیگم دن میں دو سے زیادہ مرتبہ چیک اپ کرانے اور دوا لانے کے لیے کہتی ہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ میں سوچ رہا ہوں تو اسے بڑا تاؤ آتا ہے اور کہتی ہے تم ساری عمر نکمے اور تساہل پسند رہے ہو۔ ہر روز ٹی وی دیکھتی ہے اور یہ کام اس کی شروع سے پہلی اور لازمی ترجیع رہا ہے۔ اس کے باوجود چیک اپ کرانے اور دوا لانے کے لیے فرمان جاری کرتی ہے۔ لگتا ہے وہ خبریں نہیں سنتی۔ اگر اسے خبریں سننے کا اتفاق ہوا ہو تو چیک اپ کرانے اور دوا لانے کا کبھی بھی نہ کہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اس کے دماغ میں یہ سچائ چل رہی ہو کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا مویا سوا لاکھ کا۔ ہو سکتا ہے دوا کھانے کے فورا بعد چل بسوں ۔اس طرح وہ ٹکے جو میں گرہ خود میں رکھتا ہوں اس کے اپنے ہوں گے بلکہ بیوہ الاؤنس بھی اس کی جیب میں ہو گا۔ میرے حقوق پورا کرنے کے حوالہ احسان جتانے کی صعوبت سے مکت ہو جاءے گی۔

 
یہ معلوم ہو گیا ہے کہ آدم خور ادویات کونسی کمپنی تیار کر رہی ہے۔ اس کا مالک ریکارڈ میں ہو گا۔ ادویات اوکے کرنے والے سلیمانی دیس سے نہیں آءے ہوں گے۔ ادویات تیار کرنے کا جس دفتر سے پروانہ جاری ہوا ہو گا کوئ انڈر گراؤنڈ کا نہیں ہو گا۔ تمام کچھ معلوم ہونے کے باوجود بقول ڈیپٹی ڈایکٹر ایف آئ اے فلاں فلاں فلاں عمل سے گزرنے کے بعد ایف آئ آر درج ہو گی۔ چاہے اس وقت تک ذمہ داران فرار ہو جاءیں۔ اتنا کچھ سامنے آ جانے اور اتنے وساءل رکھنے کے باوجود سوچنے کو پہلا سوال لازمی کا درجہ دیا جا رہا ہے تو ماسٹر صاحب اور میرے سوچنے کو احمقانہ فعل کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ شاءد یہاں بھی ماڑے اور تگڑے کا رولا ہے۔
 
ماڑے اور تگڑے کا حوالہ گفتگو میں آ گیا ہے تو اس پر مجھے ایک حکایت یاد آ گئ۔ ایک تگڑے کے ہاں ایک ماڑا ملازمت کے لیے چلا گیا۔ انٹرویو میں کامیابی کے بعد اسےایک لاکھ روپیہ ماہانہ پر ملازم رکھ لیا گیا۔ ملازم مضبوط اعصاب کا مالک تھا‘ دل کے دورے سے بچ گیا۔ اس نے مالک سے پوچھا مجھے کام کیا کرنا ہو گا؟ مالک نے مالکانہ انداز میں کہا کام ایسا مشکل نہیں بس تمہیں اتنا سوچنا ہے کہ تمہاری تنخواہ کا اک لاکھ اور تمہیں ملازمت رکھنے کے حوالہ سے مجھے دو لاکھ روپیہ کیسے حاصل ہو سکے گا۔ اب ڈیوٹی پر جاؤ‘ وقت برباد نہ کرو۔ ہمارے ہاں کے طاقتور لوگ وقت کی بڑی قدر کرتے ہیں اور سوچنے کو کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں۔ لوگ کبھی بجلی کبھی گیس کبھی معالجہ کبھی پیٹرول اور پتا نہیں کیا کچھ سوچتے سوچتے ملک عدم کی راہ لیے ہیں۔ اگر سوچ ان کی موت کا سبب نہیں بنتی تو بیماری آ پکڑتی ہے۔ معالجہ نہ میسر آنے کے باوجود نہیں مرتے تو ان کے شدت پسند ہونے میں کوئ گنجاءش نہیں رہ جاتی۔ اتنا سخت جان کوئ شدت پسند ہی سکتا ہے۔ ایسا شہری بھلا کس کام کا جو اپنا ایک لاکھ اور سرکار کے دو یا اس سے زیادہ حاصل کرنے کی سوچ سوچنے میں ناکام رہتا ہے۔
 
کسی بڑے کے حوالہ سے کاروائ کے معاملہ میں بنیادی حقوق اور عوامی مفاد یک جا نہ ہوں تو کاروائ ممکن ہی نہیں ہوتی۔ نہ بابا مرے اور نہ بیع کی بانٹ ہو۔ بنیادی حقوق کا مجروع ہونا شخصی معاملہ ہے۔ اس سےعوامی مفاد وابستہ نہیں ہوتا اورناہی ہو سکتا ہے۔ یہ معاملہ کس مجمع کے حوالہ سے تو درست ہو سکتا ہے لیکن کسی باقاءدہ سماج کے حوالہ سے درست قرار نہیں پا سکتا۔ باقاءدہ سماج میں ایک شخص کا مفاد پورے سماج سے پیوست ہوتا ہے۔ آج صرف ایک معاملہ ایسا رہ گیا ہے جو بنیادی حقوق اور عوامی مفاد سے کوئ تعلق نہیں رکھتا۔ وہ معاملہ دھنوانوں سے ٹیکس کی وصولی یا ان کی طرف سے رضاکارانہ اداءگی ہے۔
 
ٹیکس کی آمدنی کمی کمین عوام کی بھلائ اور بہتری پر صرف نہیں ہوتی ۔ یہ آمدنی کمی کمین عوام کو پھڑکانے‘ اداروں اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے دفترشاہی پر استعمال ہوتی ہے۔ ہاںاتنا ضرور ہے کہ بڑے لوگ اصلی شہریت رکھتے ہیں اور اصل عوام کے درجہ پر فاءز ہوتے ہیں اس حوالہ سے کہا جا سکتا ہے کہ ٹیکسوں کی عدم اداءگی سے بنیادی حقوق اور مفاد عامہ کو نقصان پہنچتا ہے لہذا ان پر قانون اور قانون والوں کی گرفت لازمی ہے۔
 
سوچ ہی کا کمال ہے کہ قانون یک چشما بنایا گیا۔ بڑوں کا کیا چاہے وہ کی بھی سطع کا کیا ہو قانون کے ہاتھوں کی پہنچ سے باہر رہتا ہے۔ قانون ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور انھیں اصلی عوام تسلیم کرتا ہے۔ ان کے علاوہ بنیادی حقوق اور مفاد عامہ ایک جھنڈے تلے جمع نہیں ہوتے بلکہ اس بھیڑ کے پاس جھنڈے کا تصور رہتا ہے۔ جھنڈا اور ڈنڈا سرکار کی ملکیت ہوتا ہے۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو سرکار میں وڈیروں کے کا مے گولے اور گماشتے بھی شامل ہوتے ہیں اور یہ بڑے کام کی چیز ہوتے ہیں کیونکہ آڑے وقتوں میں وڈیروں کا کیا ان کے سر پر رکھ کر اصل ریاستی عوام کے حقوق کی رکشا کرنے کا کام سر انجام پاتا رہتا ہے۔ اگر سوچ کا عمل کمزور پڑتا تو کمی کمین عوام بھی بےسری بھیڑ نہ ہوتے بلکہ عوام ہوتے۔ بنیادی حقوق اور عوامی مفاد کو تقسیم کرو اور حکومت کرو کی صلیب پر مصلوب نہ ہوتے۔ 
 میں سوچ کے حق میں کتنے ہی دلاءل کیوں نہ پیش کر دوں میری گھر والی نہیں مانے گی اور اس کا اصرار ہی رہے گا کہ میں چیک اپ کرا کر دوا ضرور کھاؤں۔ میں چیک اپ کے لءے تیار ہوا ہوں لیکن وہ اسے آدھا سچ مانتی ہے۔ سچ تبھی مکمل ہو گا جب میں دوا کھا کر الله کو پیارا ہو جاؤں گا۔ جب بنیادی حقوق اور مفاد عامہ دو الگ الگ چیزیں ہیں تو چیک اپ اور دوا کو دو الگ چیزیں کیوں نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیا کروں گھر کی عدالت اسے مانے کو تیار ہی نہیں۔ میں اپنی گھر والی کو قاءل نہیں کر سکتا کہ ریاستی قانون مانتا ہے کہ بنیادی حقوق اور مفاد عامہ دو الگ الگ چیزیں ہیں‘ باہر کون میری سنے گا۔ شاءد وہ قانون کو موم کی ناک سمجھتی ہے۔ اتنے لوگ مرے ہیں کس نے پوچھا ہے؟!
میری موت کو کون سنجیدہ لے گا؟!
میری گھروالی کا بنیادی حق ہے کہ وہ مجھے جینے دے یا موت کے حوالے کر دے۔ اگر مجھے سوچنے کا حق ہے تو یہ حق اس کو بھی حاصل ہے۔ الله جانے وہ دن کب آءے گا جب شخصی حق سماجی حق قرار پاءے۔
 

پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے کے بعد بھی پولیو کے کیس سامنے آتے ہیں۔

اور یہ بات انتہائی پریشانی کی ہے کہ بعض وکلاء اور ڈاکٹروں نے باقاعدہ
پولیو کے قطروں کے خلاف پریس کانفرنس کی تھی ۔ لیکن پھر انکو خاموش کرادیا گیا۔


ذیل کے کالم انصاری محمد صاحب نے پولیو کے قطروں کے بارے میں وضاحت کی گئی ۔ لھذا پڑھیئے اور سر دھنئے۔


(بشکریہ انصاری محمد صاحب اور)


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


اسلام و مسلم دشمن عناصر کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کی جڑیں کاٹ کر صفحہٴ ہستی سے ہمیشہ کے لئے انہیں مٹا دیا جائے۔


مسلمانوں کو مجبور ومقہور بناکر ان پر حکومت کرنے کے لئے ان کو مختلف محاذوں پر کمزور کردیا جائے، مثلاً ایمان واسلام، معیشت واقتصادیات، فوجی قوت، افرادی قوت اور اخلاقی قوت وغیرہ ۔ ایمان واسلام کا جنازہ تو پہلے ہی سے مسلمانوں کے دلوں سے نکال دیا گیا ہے۔ رنگ ڈھنگ، چال ڈھال، شکل وشباہت غرض یہ کہ قول وفعل کے اعتبار سے اغیار کی تقلید کرتے نہیں تھکتے۔ بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔


اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اقتصادیات کو تباہ وبرباد کردیا گیا۔ سارے مسلمان غیر مسلموں کے مقروض اور مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی فوجی قوت کو کمزور کرنے کی مہم شروع کی گئی ہے۔


کسی مسلمان ملک کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے دفاع کے لئے جدید اسلحہ کی صورت میں حاصل کریں،


جبکہ ارشاد خداوندی ہے،


”واعدوا لہم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم وآخرین من دونہم لاتعلمونہم اللہ یعلمہم“ (سورۃ الانفال: ۶۰)۔


یعنی ”اور مسلمانوں! سپاہیانہ قوت سے اور گھوڑوں کے باندھے رکھنے سے جہاں تک تم سے ہو سکے کافروں کے مقابلے کے لئے ساز وسامان مہیا کئے رہو کہ ایسا کرنے سے اللہ کے دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھو گے اور نیز ان کے سوا دوسروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے اور ان کے حال سے اللہ تعالیٰ خوب واقف ہے“۔


مسلمانوں کی اخلاقی قوت کو تباہ وبرباد کردیا گیا ہے، مرد وزن کا اختلاط عام سی بات ہے،


قرآن کریم کے حکم


”وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیة الاولیٰ“ (الحزاب: ۳۳)


کو حقوق نسواں پر نعوذ باللہ! ڈاکہ اور عورت کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں اور حضورﷺ کا ارشاد، ”بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“ (موطا امام مالک)۔


یعنی ”میں بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں“ کو بھول گئے ہیں اور سیاحت وروشن خیالی کے نام پر عورتوں کا غیر مردوں کی جھولی میں گرنا اور ان سے بغل گیر ہونے کو روشن خیالی سمجھتے اور اس پر فخر کرتے ہیں، بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی نظر میں ایسے افراد حضور ﷺکے اس قول، ”من تشبہ بقوم فہو منہم“ یعنی ”جس نے کسی قوم سے مشابہت اپنائی وہ انہیں میں سے ہیں“ کا مصداق ہیں۔


اب اغیار کا اگلا ہدف مسلمانوں کی افرادی قوت کا خاتمہ ہے۔ جس کے لئے مختلف قسم کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔جن میں سے ایک مرحلہ وار اور آہستگی کے ساتھ ویکسین کے ذریعے مسلمانوں کی آئندہ نسل کا خاتمہ ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ مسلمان وہ واحد قوم ہے جو تعداد میں سب سے زیادہ ہے،


اب ان لوگوں کی یہ کوشش ہے کہ مسلمانوں کی افرادی قوت کو کم کیا جائے۔ اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے پہلے ایک مرض پولیؤ کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور پھر اس کی ویکسین تیار کرکے سپلائی کی جاتی ہے، اور ہم ان کی تقلید میں ہی اپنی فلاح وبہبود ڈھونڈتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اغیار نہ کبھی ہمارا خیرخواہ رہا اور نہ اب ہے۔


قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے، ”یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا الیہود والنصاریٰ اولیاء بعضہم اولیاء بعض ومن یتولہم منکم فانہ منہم“ (سورۃ المائدۃ: ۵۱)۔ یعنی ”اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو اپنے دوست مت بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کی طرف پھرا وہ انہی میں سے ہے“۔


پولیو ویکسین کیا چیز ہے؟


اس کے کیا نقصانات ہیں؟


اور سائنس اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟


اللہ تعالیٰ بچے کو نر و مادہ کے باہم جنسی ملاپ سے پیدا فرماتاہے۔ نر میں اعضائے تولیدی کو ”ٹیسٹیز“ اور مادہ کے اعضائے تولیدی کو ”اووری“ کہتے ہیں۔ یہ اعضاء نہ صرف تولیدی ہیں بلکہ یہ ”غدود“ کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں۔


غدود انسانی جسم کا ایسا جز ہے جس کے ذمہ جسم کے مختلف افعال کو باقاعدہ بناکر انہیں کنٹرول کرنا ہے۔ جیسا کہ ”پٹیوٹری“ غدود انسان کے قد کا ذمہ دار ہے، اگر یہ ٹھیک وقت پر برابر مقدار میں ہا رمونز خارج کرے تو انسان کا قد نارمل ہوگا ورنہ یا تو بہت زیادہ بڑھے گا یا پھر پست رہ جائے گا ۔


اسی طرح مادہ میں ”اووری“ بھی ایک خاص قسم کا ہارمونز ”اسٹروجن“ خارج کرتی ہے۔ اس ہارمونز کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام لگا رکھا ہے کہ بچیوں میں عورت ذات والی تمام خصلتیں اور خصوصیات بھردے، اس کے ساتھ اسے نسوانی حسن بخش دے گی۔ اسی طرح نر میں” ٹیسٹیز“ جو ہارمونز خارج کرتا ہے اسے ”انڈروجن“ کہتے ہیں اور یہ انسانی بچے مردانہ پن پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اگر یہ دونوں غدود صحت مند ہوں گے اور اپنا کام صحیح طور پر سرانجام دیں تو نر (بچہ) میں مردانہ خصوصیات اور مادہ (بچی) میں نسوانی خصوصیات ہوں گی لیکن اگر یہ غدود اپنا کام صحیح طور پر سرانجام نہ دیں اور”اسٹروجن“ اور”انڈروجن“ صحیح مقدار میں پیدا نہ کرسکیں تو پھر پیدا ہونے والے بچے میں بے قاعدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔


یہ ویکسین جب شروع سے پلائی جاتی ہے تو آہستہ آہستہ بچے جب جوان ہوتے ہیں تو اس وقت تک یہ اپنا کام کرچکی ہوتی ہے اب بچہ جوان ہوکر مستقل بانجھ پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ویکسین میں کون سی چیز ملائی جاتی ہے یہ تو ابھی تک زیر تحقیق ہے۔


ڈاکٹر ہاروناکائیٹا جو کہ احمد دبلو یونیورسٹی زاریا میں فارماسوٹیکل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ ہیں، وہ نائیجریا سے ویکسین کے کچھ نمونے تحقیق کے لئے انڈیا لے گئے تاکہ ان میں موجود اجزاء کی جانچ پڑتال ہوسکے، جب ڈاکٹر کائٹانے ان ویکسین کو مختلف ٹیسٹ اور جانچ پڑتال کے مراحل سے گزارا تو اس میں کچھ ایسے مواد کی ملاوٹ کے شواہد ملے جو کہ صحت کے لئے خطرناک ہیں۔


ڈاکٹر کائٹا نے ہفت روزہ ”کیڈونا ٹرسٹ“ کو ایک انٹرویو میں بتایا،


”ہم نے پولیو کے اس ویکسین میں کچھ ایسی اشیاء دریافت کی ہیں جو صحت کے لئے نقصان دہ اور زہریلی ہیں اور خاص طور پر کچھ ایسی ہیں جو براہ راست انسان کے جنسی نظام تولید پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے خود ہمارے بیچ ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی خباثت اور بدتمیزی کی پشت پناہی کررہے ہیں اور برابر ان کی مدد کررہے ہیں اور مجھے یہ کہہ کر افسوس ہو رہا ہے کہ ان میں کچھ ہمارے اپنے ماہرین بھی شامل ہیں“


ڈاکٹر کائٹا نے یہ مطالبہ کیا کہ جو لوگ پولیو ویکسین کے نام پر یہ جعلی دوائی در آمد کررہے ہیں، ان کے خلاف دوسرے مجرموں کی طرح مقدمہ چلانا چاہئے اور سزا دینی چاہئے“۔


۱۹۹۵ء میں فلپائن کی آزاد خواتین کی ایک لیگ نے تشنج کے ٹیکوں کے خلاف کورٹ میں مقدمہ جیت لیا تھا اور یونیسف کی اس مہم کو روک لیا تھا۔ اس ویکسین میں ایسی دوائی (Beta-Human Chorionic Gonadotropinیا β-hCG) استعمال کی گئی تھی۔ جس کے استعمال کرنے سے عورت کا حمل مکمل طور پر نہیں ٹھہر سکتا تھا ۔ فلپائن کی سپریم کورٹ نے یہ معلوم کیا کہ تین ملین خواتین کو جن کی عمر ۱۲ سے ۴۵ سال تک تھی پہلے ہی سے یہ ویکسین دی جاچکی تھی۔


عالمی ادارہ صحت کی طرف سے (۲۰جون ۲۰۰۵ء)جاری کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں پولیو کے قطرے پلانے کے باوجود ۵۰۰ سے زائد پولیو کے کیس سامنے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ یمن اور انڈونیشیا جنہیں ۱۹۹۶ء میں پولیو ویکسین کی مہم چلانے کے بعد اس بیماری سے آزاد خطہ قرار دے دیا گیا تھا۔ وہاں پھر سے یہ وبا پھوٹ پڑی ہے۔ یمن میں ۲۴۳ اور انڈونیشیا میں ۵۳ نئے کیس سامنے آئے ہیں۔


بہت سے محققین نے اس ویکسین کو دراصل دنیا کی آبادی کنٹرول کرنے کا خفیہ مگر انتہائی مؤثر ہتھیار ثابت کیا ہے اور اس حوالے سے دستاویزی ثبوت بھی فراہم کئے ہیں۔ ایک خفیہ امریکی دستاویز “NSSMZOO” جو ۱۹۷۴ء میں شائع ہوئی اور ۱۹۸۹ء میں ڈی کلاسیفائی ہوئی۔ اس دستاویز پر اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے دستخط ہیں۔ اس دستاویز میں شناخت کئے گئے ممالک میں سے ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نائیجریا، انڈونیشیا، برازیل، فلپائن، میکسیکو، تھائی لینڈ، ترکی، ایتھوپیا اور کولمبیا ہیں۔ پاپولیشن کنٹرول اس دستاویز کا مرکزی اور یک نکاتی ایجنڈا ہے۔


۲۹جون ۱۹۸۷ء کو ایک امریکی اخبار نے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر روبرٹ سے بات کی، جن کا کہنا تھا کہ خسرہ کی ویکسین نقصان دہ وائرس سے آلودہ ہیں۔ ۳۰ برس تک نامی گرامی ڈاکٹر چلاتے رہے کہ ہم ”ویکسین“ نامی ٹائم بم سے کھیل رہے ہیں، خسرہ کے ویکسین سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ کینسر کا باعث ہے۔


لندن کے موقر ترین روز نامے دی ٹائمز نے ۱۱مئی ۱۹۸۷ء کو فرنٹ پیج پر اس حوالے سے یہ سرخی لگائی تھی کہ ”خسرہ کے لئے لگائے گئے ٹیکے ایڈز وائرس پھیلا رہے ہیں“۔


عالمی ادارہ صحت کے ایک کنسلٹنٹ نے اپنے ادارہ کو رپورٹ دی کہ زیمبیا، زائرے اور برازیل میں خسرہ ویکسین اور ایڈز وائرس کے پھیلاؤ کے درمیان تعلق کا شبہ تھا۔ تحقیق پر یہ شک وشبہات صحیح نکلے۔ عالمی ادارہ صحت نے رپورٹ ملنے کے باوجود اسے شائع نہیں کیا۔ برازیل واحد جنوبی امریکی ملک تھا جس نے خسرہ سے بچاؤ کی ویکسین مہم میں حصہ لیا اور پھر یہی ملک ایڈز کا سب سے بڑا شکار بنا۔ پولیو، خسرہ اور ہیپٹائٹس کی ویکسین میں وائرس کی موجودگی کے ثبوت سامنے آچکے ہیں ۔ان میں منگی وائرس جیسا خطرناک وائرس بھی شامل ہے ۔


عالمی ادارہ صحت پر خسرہ ویکسین کے ذریعے ایڈز پھیلانے کے الزامات بھی لگ چکے ہیں۔ ان ٹیکوں کی وجہ سے بانجھ پن ہونا بھی ثابت ہوچکا ہے۔ ویکسین دو ماہ کے بچوں کے لئے قطعاً محفوظ نہیں۔ مگر یہ ویکسین کا شیڈول نومولود کے ابتدائی دنوں سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ نومولود کے وزن، قد اور جسامت جیسے معاملات بالکل نظر انداز کردیئے جاتے ہیں۔ یہ سائنسی حقیقت ہے کہ ایک ہی دوائی یا ٹیکہ کسی ایک انسان کے لئے تو قطعی محفوظ ہو سکتے ہیں، مگر دوسرے کے لئے موت کا باعث بھی۔


ویکسین کو بچوں میں ذہنی عوارض کا سبب بھی قرار دیا جاتا ہے۔ پولیو کے قطرے جب پلوانے شروع ہوئے جن بچوں نے یہ استعمال کئے ہیں، یقیناً آج وہ جوان ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوں گے اور آج کل نوجوانوں کی اکثریت جن امراض میں مبتلا نظر آتی ہے وہ مردانہ امراض ہی ہیں۔ اس ضمن میں مزید جو حقائق دیئے گئے ہیں وہ بہت خوفناک ہیں۔


ہندوستان کے ایک جریدے ”المرشد“ میں پولیو کے قطروں سے متعلق ایک مدلل مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون کو پاکستان کی ”اشرف لیبارٹریز“، فیصل آباد کے ترجمان ماہنامہ ”رہنمائے صحت“ کی اشاعت میں شامل کیا گیا۔ جس میں سات سے زائد ایسے کیس ذکر کئے گئے ہیں جن میں بچوں کو پولیو کے قطروں کا کورس مکمل کروایا گیا تھا۔ انہیں اس روک تھام کے باوجود پولیو ہوگیا۔

رولا رپا توازن کا ضامن ہے


کل کی بات ہے بیغم بلا فل سٹپ بولے چلی جا رہی تھی اور میں اس کے حضور کھوگو بنے بیٹھا تھا۔ میں جانتا تھا ایک لفظ بھی میرے منہ سے نکلا تو دو چار گھنٹے بنے۔ مجھے ہمیشہ چپ کی چادر میں ہی پناہ ملی ہے۔ شوہر حضرات کو اکثر یہ جملہ سننے کو ملا ہو گا
تم نے ساری عمر کیاہی کیا ہے‘ کون سے تم نے میرے ماتھے پر ٹیکے سجا دیے ہیں"یہ جملہ پہلے بھی کوترسو بار سن چکا تھا۔ میں سقراط کا زہر سمجھ کر پی جاتا تھا۔ کل مجھے تاؤ آ گیا۔ کمال ہے وہ ساری عمر میں اس عرصہ کو بھی شمار کر رہی تھی جو میرے کنوار پن کا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں مجھے ابھی اور کتنا جینا ہے۔ ساری عمر میں تو یہ دونوں زمانے بھی آتے ہیں۔ جی میں آیا اس حوالہ سے بات کروں لیکن مجھے اس کے اس جملے نکمے تو ہو ہی اوپر سے حکایتں کرتے ہو کے تصور نے لرزا کر رکھ دیا۔ مجھے غصہ بڑا تھا جو میں ہر حال میں نکالنا چاہتا تھا۔ میں نے بڑی کڑک دار آواز جو کمرے کی دہلیز بھی پار نہ کر سکی‘ میں کہا کیوں خوامخواہ مغز چاٹ رہی ہو۔ اس کا جواب میری سوچ سے بھی بڑھ کر نکلا۔ کہنے لگی میں اپنے منہ سے بول رہی ہوں اس میں تمہارا کیا جاتا ہے۔ اس کی بات میں حد درجہ کی معقولیت تھی۔ ورزش تو اس کے دماغ اور منہ جس میں زبان اور جبڑے بھی شامل ہیں‘ ہو رہی۔ ہاں البتہ میرے کانوں کو زحمت ضرور تھی۔ دماغ کا خرچہ تب ہوتا جب میں اس کے کہے کو کوئ اہمیت دے رہا ہوتا۔ روز کی چخ چخ کو اہمیت دینا حماقت سے زیادہ نہیں۔غصہ میں آ کر ڈھیٹ اور چکنا گھڑا تک کہہ جاتی ہے۔ میں دونوں کانوں سے کام لیتا ہوں یعنی ایک کان سے سنتا ہوں دوسرے کان سے نکال دیتا ہوں اور بس۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری لڑائ یک طرفہ رہتی ہے۔ معروف مقولہ ہے کہ رعایا ملک کے قدموں پر قدم رکھتی ہے۔ میں بھی اس ذیل میں حاکم کے قدموں پر قدم رکھنے والا ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنے گھر کے افراد کی پوری دیانتداری سے خدمت کرتا ہوں۔ چوک اسی معاملہ میں ہوتی ہے جو میری پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔ گھر والے یقین نہیں کرتے۔ ہر گھر والی اپنے شوہر کو اوباما کا سالا سمجھتی ہے جو ہر کچھ اس کی دسترس میں ہے۔ بہر طور دسترس سے باہر کام کے لیے مجھے دونوں کانوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ حکومت میں موجود لوگ دونوں کانوں سے کام نہیں لیتے۔ وہ کانوں میں روئ ٹھونس لیتے ہیں۔ لوگ جب سڑکوں پرآتے ہیں تو نظر آنے کے مطابق یہ سازش اور بغاوت کے مترادف ہوتا ہے اس لیے وہ اس رولے رپے کے لیے ڈنڈے کا استعمال فرض عین سمجھتے ہیں۔ لوگ اتنا بولتے اور لکھتے ہیں لیکن ان کی چال میں رائ بھر فرق نہیں آتا۔ رہ گئ تاریخ کی بات تو مورخ ان کا ہتھ بدھا گولا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں پیٹو مورخ جسے میں مورکھ کہتا ہوں‘ انہیں نبی سے دو چار انچ ہئ نیچے رہنے دے گا۔ لہذا آتے وقت سے کیا ڈرنا۔ رعایا اور حکومت ریاست کے دو اہم رکن ہیں۔ رعایا حکومت کو ٹیکس دیتی ہے اگر نہیں ادا کرتی تو حکومت کو خوب خوب وصولنا آتا ہے۔ ٹیکس کے عوضانے میں حکومت رعایا کو سہولتیں جن میں تعلیم اورعلاج معالجے کی سہولتیں شامل ہیں‘ فراہم کرتی ہے یہی نہیں انہیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکس وصولنا یاد رہتا ہے لیکن سہولتیں فراہم کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ میں ہر ابے یا شوہر کی پیروی میں مسیتے جا کر قسم کھانے کو تیار ہوں کہ گھر والوں سے ٹیڈی پیسہ ٹیکس وصول نہیں کرتا۔ اپنی مزدوری سے روٹی کپڑا مکان تعلیم علاج معالجہ وغیرہ دستیاب کرتا ہوں اس کے باوجود ڈھیٹ ایسے ثقیل کلمات سنتا ہوں۔ سن کر ہاتھ نہیں کھنچتا۔ میں یہ سب کرنا اپنا فرض جانتا ہوں۔  
کل مجھے ایک پراءویٹ میسج موصول ہوا جس میں کراچی کی حالت زار کا تذکرہ تھا۔ پراءویٹ میسج پڑھ کر میرے ہاتھ پاؤں سے جان نکل گئ۔ پراءویٹ میسج میں ایک موثر اور منظم پارٹی کا ذکر تھا۔ لکھا تھا کہ ہر طبقہ کی عورت آبرو سے محروم ہو رہی ہے اور کوئ پوچھنے یا سننے والا موجود نہیں۔ ریاست کے اختیارات بے انتہا ہوتے ہیں۔ ریاست اپنے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہے۔ ادارے اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر ادارے کچھ بھی نہیں کرتے تو ان کے ہونے کا کوئ جواز نہیں بنتا۔ جب جنگل کا قانون چلنا ہے تو انھیں چلتا کرنا چاہیے اور ان پر اٹھنے والی خطیر رقم ہاؤسز اور اس کے مکینوں کی بہتری کے لیے خرچ ہونی چاہیے۔ ایک خیال یہ ہے کہ ادارے اپنے اور ہاؤسز کے لیے کماتے ہیں لہذا انہیں ختم کرنا ہاؤسز اور اس کے مکینوں کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف ہے۔ اس مخصوص گروہ یا ارٹی کو نکیل ڈالنا ہاوسز سے مرحومی کے مترادف ہے۔ گویا ان عنصر کو کھلی چھٹی دینا سیاسی مجبوری ہے۔ مجبوری کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ جن عورتوں کی عزت برباد ہوتی ہے کون سی ان کی اپنی ماءیں بہنیں ہوتی ہیں۔ دوسرا عورت کے ساتھ شادی کے بعد بھی یہی کچھ ہوتا ہے بلاشادی ہو رہا ہے تو کون سی قیامت ثوٹ رہی ہے۔ بس تھوڑا سا بے غیرت ہونے کی ضرورت ہے۔ بے غیرتی بھی کیسی۔ یہ ترقی پسندی کی علامت ہے۔ بہت سے علاقے موجود ہیں جہاں باپ کا تصور ہی نہیں۔ ان کے ہاں کوئ رولا نہیں تو ہمارے ہاں قدامت پسندی سے کام لیا جا رہا۔ ہمیں ہاؤسز کی سیاسی مجبوری دیکھتے ہوءے بے غیرت ہو جانا چاہیے۔عوام کا رولا اور بے بس سسکیاں قطعی ناجاءز اور باؤسز کے خلاف کھلی سازش ہے۔
گھر کی کرسی میرے پاس ہے رولے رپے کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا میری مالی مجبوری ہے۔ غنڈہ عناصر کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا ہاؤسز کی سیاسی مجبوری ہے۔ اس کا اس سے بہتر اور کوئ حل نہیں کہ بیغم بولتی رہے اور میں کام سے کام رکھوں۔ اس کے بولنے سے اس کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔ بےعزتی کرکےاس کی انا کو تسکین ملتی ہے اور وہ خود کو ونر سمجھتی ہے جبکہ میں اپنا پرنالہ آنے والی جگہ پر رکھتا ہوں۔ رولا ڈالنے اور برداشت کرنے سے بدامنی پیدا نہیں ہوتی بلکہ توازن کا رستہ ہموار ہوتا ہے۔

مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان 

دو میاں پیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ کر اپنی زوجہ محترمہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی صاحب کی کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور دو سو نان ڈال دیے۔ نئ شادی پر اٹھنے والے خرچے سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں نے مولوی صاحب کے ڈالے گیے اصولی خرچے میں عافیت سمجھی۔ رات کو میاں بیوی چولہے کے قریب بیٹھے ہوءے تھے۔ بیوی نے اپنی فراست جتاتے ہوءے کہا"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔"بات میں سچائ اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔ میاں نےدوبارہ بھڑک کر کہا
"
توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سیبظاہر اس میں ایسی کوئ بات نہیں جس پر بھڑکا جاءے بلکہ اس میں میاں کی ہی حماقت نظر آتی ہے۔ اصل معاملہ یہ نہیں جو بظاہر دکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زوجہ محترمہ غلطی میاں کی ثابت
کرنا چاہتی تھی۔ گویا اس کی غلطی کے سبب خرچہ پڑا۔ اسے یہ یاد نہ رہا کہ اس نے کوئ ایسی چبویں بات کی ہو گی جس کے ردعمل میں میاں نے ماں بہن کہا ہو گا۔ اگر وہ یہ کہتی حضرت سوری میں نے اشتعال میں آ کر فلاں بات کہہ دی جس کے سبب ہمیں دیگ اور نانوں کا خرچہ پڑ گیا۔ بات ختم ہو جاتی۔ وہ دراصل میاں کو سزا دینا چاہتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ دیگ اور نان کا خرچہ برداشت کر لے گا کیونکہ یہ نئ شادی پر اٹھنے والے خرچے کا عشر عشیر بھی نہیں۔
ایچ ای سی پاکستان مندے حال میں ہے۔ اس کی کوئ سننے والا نہیں کیونکہ سننے والوں کو اس نے بری طرح ڈسٹرب کیا اب اوپر سے خود کو سچا اور برحق سمجھ رہی ہے۔ مجھے اس کے دو ای میل ملے ہیں وہ ہسمجھ رہی ہے کہ میں اس کے حق میں کچھ لکھوں گا۔ میں پاگل ہوں جو اس کے حق میں قلم اٹھاؤں گا۔ کسی جھوٹے کے لیے قلم اٹھانا جھوٹے کے جھوٹ کی تاءید کرنے کے مترادف ہے۔ ادارے تاج وتخت کے غلام ہوتے ہیں اور انہیں تاج وتخت کے غلط معاملات کو تحفظ اور انہیں درست ثابت کرنے کے لیے قیام میں میں لایا گیا ہوتا ہے۔ وہ پروفیسر ہیں اور خود کو سچائ کا ٹھیکیدارسمجھتے ہیں حالانکہ سچائ ان کی گندی سوچ کے برعکس ہے۔ انہیں تنخواہ اس بات کی ملثی ہے کہ وہ تاج والوں کے اشاروں پر رقص کریں۔ انہوں نے حاکم طپقے کی ڈگریوں کو جعلی قرار دیا۔ حاکم طبقہ کبھی جعلی نہیں ہوتا۔ اگر تگڑے غلط قرار پانے لگے تو انہیں تگڑا کون مانے گا۔ ازل سے غلط عضو کمزور رہا ہے۔ انہیں کس حکیم نے اتنے ووٹ حاصل کرنے والے لوگوں کی ڈگریاں غلط قرار دینے کو کہا تھا۔ انہیں سیٹوں پر رعایا کی وقت پڑنے پر مرمت کرنے کے لیے عہدے دیے جاتے ہیں۔ ڈگری تو بہرصورت ڈگری ہوتی ہے اس میں غلط یا صیح ہونے کا سوال کہاں اٹھتا ہے۔ویسے خود کو تابع فرفان لکھتے ہیں لیکن عملی طور پر خود کو بالاتر سے بھی بالاتر سمجھتے ہیں۔ پانی اوپر سے نیچے آتا ہے‘ نیچے سے اوپر نہیں جاتا۔ جن کی انہوں نے ڈگریاں جعلی قرار دی ہیں جیل نہیں چلے گیے۔ موج میں تھے موج میں ہیں۔ اقبال نے کہا تھا
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
اصولی سی بات ہے مچھلی دریا میں زندہ رہ سکتی ہے لہذا وہ دریا سے باہر کیوں آءیں گءے۔ دریا ان کا اپنا ہے۔ اپنوں سے کبھی کوئ جدا ہوا ہے؟
ان کے نکالنے کی کوشش سے وہ کیوں نکلیں گے۔ دریا قطرے قطرے سے بنتا ہے۔ ان کے لیے چند قطرے معنویت نہ رکھتے ہوں لیکن دریا کے لیے بڑی معنویت رکھتے ہیں۔
 تیر کمان سے نکل چکا ہےاب کچھ نہیں ہو سکتا ہاں البتہ ایچ ای سی‘ پاکستان دوسرے اداروں کے لیے نشان عبرت ضرور ہے۔ جو بھی چنیدہ اور دریا کے اندر موجود دریا کی ذاتی مخلوق کے خلاف قدم اٹھاتا ہے گلیوں کا روڑا کوڑا بھی نہیں رہ پاتا۔ ہٹ دھرمی اور ڈھیٹ پنا تو یہ ہے کہ یہ سچ پتر غلطی کو غلطی تسلم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حسین ایک ہی تھا۔ آج کسی کو ریاست کے گناہ گاروں کے لیے اپنے بچے مروانے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔ ان کی مدد کے لیے کوئ میدان میں نہیں آءے گا۔ باور رہنا چاہیے سر کا بوجھ سر والے کے پاؤں پر آتا ہے۔

Beware in Pakistan

‎""خدا کے واسطےمجھے تبدیلی ںہیں چائیے""

‎""خدا کے واسطےمجھے تبدیلی ںہیں چائیے""
مجھے وہ پرانا پاکستان چائیے 
جہاں محبت بستی تھی۔
جہاں محلے میں ایک گھر میں ٹی وی ہوا کرتا تھا اور اتوار کو پورا محلہ اس گھر میں جا کر فلم دیکھا کرتا تھا۔
جہاں محلے کا فریج سارے محلے کے مہمانوں کو ٹھنڈا پانی مہیا کیا کرتا تھا۔
جہاں محلے کی ایک گاڑی پورے محلے کی ایمبولینس بھی ہوا کرتی تھی۔
جہاں کسی بھی بزرگ کے سامنے چھوٹے پان یا سگریٹ استعمال نہیں کیا کرتے تھے۔
جہاں نوجوان بس میں کسی بوڑھے کو کھڑا دیکھ کر جگہ دے دیا کرتے تھے۔
جہاں بیرون ملک جانے والے کسی جوان کو پورا محلہ ائیر پورٹ چھوڑنے جایا کرتا تھا۔
جہاں کسی کے گھر زیادہ مہمان آ جاتے تو پڑوسی اپنا کمرہ پیش کر دیتے تھے۔
جہاں اسلام کے نام پر قتل نہیں ہوا کرتے تھے۔
جہاں اسلام کے نام پر دہشتگردی نہیں ہوا کرتی تھی۔
جہاں اسلام کے نام پر خود کش حملے نہیں ہوا کرتے تھے۔
جہاں ایک دوسرے کو کافر نہیں کہا جاتا تھا۔


خدا کےلئے مجھے میرا پاکستان واپس کر دو، مجھے تبدیلی نہیں چائیے۔
مجھے تبدیل نہیں ہونا
خدا کےلئے۔

جمہوریت تشکیل پاکستان اور جمہور کی خواہش


اس میں کوئ شک نہیں كہ پاكستان اسلام كے نام پر بنا تھا یہ الگ بات ہے كہ بنانے والوں كی نیت پاكستان كا مطلب كیا لا الہ الا اللہ كے نعرے كوحقیقت كے طورپر استعمال كرنا تھا یا مسلمانوں كے جذبات كو اپنے گندے ذاتی مقاصد كے لئے استعمال كرنا تھا لیكن غریب بھولے بھالے مسلمان اس سے مراد یہ ہی لے رہے تھے كہ ساری جدوجہد اسلام كے سنہری نظام كے لئے كی جا رہی ہے ۔ملك بن جانے كے بعد لاكھوں شھدا كے خون سے غداری كركے جس طرح اسلام، اسلامی اقدار اور انسانیت كا خون كیا گیا۔ اقتدار كی ہوس اور پیسے كے لالچ میں مسلمان نے مسلمان بھائی كا بے دریغ استحصال كیا اور نوبت یہاں تك پہنچ گئی كہ وطن عزیز دو لخت ہو گیا ۔ بھائی بھائی كے خون كا پیاسا ہو گیا یہ ظاہر كرتا ہے كہ شروع ہی سے ان كی نیت نیك نہیں تھی ۔ آج صورت حال یہ ہے كہ ٱج دنیا میں پاكستان كا مقام دیكھ كر درد مند دل خون كے آنسو روتا ہے ۔ 
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو كر 
اور ہم خوار ہوئے تارك قران ہو كر

شکریہ بیٹا آپ نے توجہ فرمائ۔ الله آپ کو شاد و شاداب رکھے۔ حصول پاکستان کے لیے جو شہید ہوءے بےگھر ہوءے بچوں کی شہادت بیماری بےکسی بےبسی عورتوں کی عزت کی پامالی وغیرہ کا صدمہ برداشت کیا ان کے ایک ایک دکھ ایک ایک صدمے ایک ایک پریشانی کو ہزاروں نہیں لاکھوں سلام۔ ہم کیا دے سکتے ہیں الله کے پاس ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ وہ انگریز اور اس کے بدنیت خودغرض ناہنجار اور منافق گماشتوں کی چال کو نہ سمجھ سکے۔ بیڑا غرق اور جہنم ٹھکانہ ہو پیٹو مورخ کا جس نے انہیں نبوت کے درجے سے دو چار انچ ہی نیچے رکھا ہے۔ اصل ہیروز تاریخ کا حصہ نہ بن سکے۔ پاکستان کی تشکیل کے دو حوالے/ دو کاز ٹھہرتے ہیں ایک مسلمانان ہند کا دوسرا گورا دوست اہل سیاست کا۔ گورا دوست اہل سیاست کل بھی غالب تھے آج بھی غالب ہیں۔ کل برطانیہ کے آج وہ امریکہ کے گماشتے ہیں۔ امریکہ امداد لوگوں کے نام پر دیتا ہے لیکن ہڑپ یہ کر جاتے ہیں۔ ملکی اور عوامی خون پی لینے کے بعد بھی ان کی ہوس کم نہیں ہوئ۔ وہ برطانیہ میڈ وامپاءر تھے یہ امریکہ میڈ وامپاءر ہیں۔ انصاف کل پرسوں ہی آزاد ہوا ہے وگرنہ یہ بھی ان وامپاءز کے دانت قریب رہا ہے۔ 

جمہوریت بھی تو امریکی لنکنیان ہے۔ اس کا بنیادی نعرہ تو دیکھیں

عوام کی حکومت
عوام کےلیے
عوام کے ذریعے

حالانکہ حکومت تو صرف اور صرف الله کی ہے۔ الله کی حکومت تو قرآن و سنت کے حوالہ سے قاءم ہو سکتی ہے۔ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اس جموریت نے کہاں تک عوام کی حکومت قاءم کی ہے۔ عوام تو روڑا کوڑا بھی نہیں رہے جو فصلوں کے کام ہی آ سکیں۔ غور کر لیں کماتےعوام ہیں ملک عوام کا ہے وساءل عوام کے ہیں۔ یہ عوام بد نصیب نہیں ہیں الله نے انہیں اس خطہ کے حوالہ سے بہت کچھ عطا کیا ہے لیکن لوٹ وہ رہے ہیں جن کا پہلے خدا برطانیہ تھا اب امریکہ ہے۔ وکیل قاتل کا بھی ہے مقتول کا بھی۔ قاتل کیوں نہیں تسلیم کرتا کہ میں قاتل ہوں۔ تقوی اور پریزگاری طاغوتی نظام ہا میسر نہیں کر سکتے یہ قرآن اور سنت ہی سے دل وجان میں جگہ پا سکتا ہے۔ امریکی خدا کے پیرو لوٹ مار کے بعد پاکستان جو ان کا ملک ہی نہیں‘ فرار ہوتے رہے ہیں' ہوتے رہیں گے ۔یہی آج کا کڑوا سچ ہے۔ جمہوریت کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں۔ کس پارلیمنٹ کی بات کرتے ہیں اس نے عوام کے لیے کب کبھی کوئ قانون بنایا ہے وہ تو اپنے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے کام کرتی آئ ہے اور یہی کچھ کرتی رہے گی۔ خدا انسان اور عوام دشمن قوتوں کو جمہوری پارلیمنٹ استثناء کی لعنت سے نوازتی رہے گی۔ بھری محفل تو دور کی بات‘ کوئ تنہائ میں بھی سوال کرنے کی جرات نہ کر سکے گا۔ مقتدرہ قوت شدادی و نمرودی شکتیوں سے سرفراز رہے گی۔ اس کے کیے اور کہے کو آءینی حق کا درجہ حاصل رہے گا۔ بزرگوں نے جس کاز کے لیے خون دیا تھا وہ موجودہ انداز واطوار سے حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اہل سیاست نے جن مقاصد کے لیے عوام کے خون سے ہولی کھیلی تھی وہ اس میں روز اول سے کامیاب ہیں۔ عوام اگر اپنے ابا واجداد کے مقاصد سے دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں ایک بار پھر آگ و خون کا دریا عبور کرنا ہو گا اگر نہیں تو موجودہ حالات پر گزرا کریں۔


باہوش بے ہوش‘ ملک دوست ملک دشمن‘ دیس بھگت غدار‘ ایماندار بے ایمان‘ امانت دار امانت خور‘ شریف بدمعاش کے ووٹ کی قیمت برابر ہے۔ بے جیبا باجیبا‘ دونوں الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں لیکن بےجیبا تو سیکورٹی فیس بھی ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اگر وہ بھی لوٹ مار ہیرا پھیری کو دھرم رکھتا تو بے جیبا نہ ہوتا۔ الیکشن لاکھوں کا نہیں‘ کروڑوں کا کھیل ہے۔ پیسے والے شرفاء شمار ہوتے ہیں لہذا یہ شرفاء کا شوق سمجھا جاتا ہے۔ بے جیبا اس سے دور رہتا ہے۔ وہ چار پانچ لمبی عمروں میں بھی دھنوان نہیں ہو سکتا۔ اگر اس کے باپ دادا بلکہ دادا پردادا غداری کرتے اور گورا حضور کے تلولے چاٹتے زیر ناف مردانہ آلات سہلاتے تو آج شرفا کی صف میں سر تان کر کھڑے ہوتے۔ اسٹیج پر کھڑے ہو کر لمبی لمبی چھوڑتے۔ منہ سے بھوک کا ناٹک کرتے لیکن تھلا اٹھا کر براءلر کی بو چھوڑتے۔ گویا یہ کھیل صرف اور صرف شرفا کا ہے۔ یہ شرفا خادم نہیں حاکم ہوتے ہیں۔۔

پڑھے لکھے اور اہل دانش کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ تو الیکشن ڈیوٹی پر پھاہے لگے ہوتے ہیں۔ انہیں الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہوتا ہاں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ حق ڈبے اور تھیلا اٹھائ کی نذر ہو جاتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آج تک بالا و زیرین عدالتوں کے ججز اساتذہ۔ معالجین‘ پولیس‘ رینجرز فوج کے بالا اور زیرین اہل کاروں اور منشی ہاؤس کے بڑے چھوٹے ملازمین کے ووٹ ڈالنے کا تناسب کیا رہا ہے؟ یقینا وہ اس ملک کے شہری ہوتے ہیں یا انہیں بھی شہری سمجھا جاتا ہے۔ درس گاہیں مقدس ہوتی ہیں انہیں شرفاء کے چناؤ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ناصرف معالج الیکشن ڈیوٹی پر بندھے ہوتے ہیں معالج گاہیں بھی اس طاغوتی عمل کا حصہ بنا لی جاتی ہیں۔ یہ فراڈ گویا انسانی زندگی سے بڑھ کر ضروری ہوتا ہے۔ 

کوئ سوال کرے آج تک کاسٹ ہونے والے ووٹس کا کیا تناسب رہا۔ جیتنے والے نے اپنے حلقہ کے کل ووٹس میں سے کتنے ووٹس حاصل کیے۔ اگر کوئ پوری ایمانداری سے حقاءق سامنے لے آءے تو اس لنکن ساختہ جمہوریت کی قلعی کھل کر سامنے آجاءے گی۔ میں کوئ نجومی نہیں اور ناہی علم جعفر سے میرا کبھی علاقہ رہا ہے طہارتی عمل کے باوجود کچھ نہیں ہو سکے گا۔ جمہور نے پاکستان کی تخلیق قرآن وسنت کی عمل داری سمجھا تھا۔ جمہوریت یہی ہو گی کہ عوام کی اس دیرانہ خواہش کو عملی شکل دے دی جاءے یا پھر جمہوریت کے نام نہاد نعرے کو شرفا کا چونچلا سمجھا جاءے۔

Aamir Liaquat Hussain Column "Had Guzarnay kay Bad Fahad ki Darkhast" published in Daily Jang Newspaper



حد گزرنے کے بعد فہدکی درخواست!...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
وہ آٹھویں جماعت کا ایک کم سن طالب علم ہے ،اُس کی آنکھوں نے ابھی مسرتوں کے دل خوش کن نظاروں کو اوجِ شباب پر نہیں دیکھا ہے ،وہ عمر کے زینے کی جس سیڑھی پر اِس وقت کھڑاہے وہاں سے اونچائی بہت دور ہے،ایک طویل اور تھکادینے والا سفر اُسکے انتظار میں ہے سچ تو یہ ہے کہ اُسے زندگی کے معنیٰ بھی صحیح طرح نہیں معلوم بس گھر سے اسکول جانا ،ہمجولیوں میں گھل مل کر علم حاصل کرنا،پھر کچھ خواہشیں،کچھ فرمائشیں اورمعصوم شرارتیں گھر آکر اماں، ابا سے لاڈ کرنا، بہن بھائیوں سے ناز نخرے اُٹھوانا اِس کے سوا زیست کے اور دوسرے رنگوں سے اِس کی پہچان ہی کہاں ہوئی ہے ؟ٹی وی،پی ایس پی،ویڈیو گیمز اور کبھی کبھار گھر والوں کے ساتھ کسی تفریحی مقام کی سیریا فلم دیکھنے کیلئے چلے جانا،یہی اِس کی کل کائنات ہے یہ دیگر بچوں کی طرح روٹھتا بھی ہے اور منائے جانے پر مان بھی جاتا ہے ، سب کی طرح اِس کی آرزو بھی یہی ہے کہ دن امن وچین میں گزریں اور راتیں خوش حالی میں بسر ہوں، دوسری کونپلوں کی طرح اِسے بھی یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ شام تک اُس کے ابا جان سلامت گھر آجائیں گے نا!کوئی ٹارگٹ کِلر، لٹیرا، بھتہ خور، دہشت گرد اور اغواکار اُن کا شکار تو نہیں کرے گا نا!کیونکہ اُسے بھی اپنے ابا سے بہت پیار ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ابا کی ڈانٹ سے اُسے کوئی محروم نہ کرے وہ ایک ایسے حساس دل کا مالک ہے جس میں احساس کی نہ ختم ہونے والی کانیں ہیں، اِتنی سی عمر میں دوسروں کی فکر اور اُن کے دکھوں کے خیال نے اُسے وقت سے پہلے ہی بوڑھا کردیا ہے اب اُسے کھلونوں کی نہیں بلکہ کھلے ہوئے چہروں کی ضرورت ہے ،انعام کی نہیں،امان کی چاہ ہے وہ واقعی ”بچپن کی ضد “ یعنی ”بڑھاپا“ بن چکا ہے ،منتخب اراکین اسمبلی سے بہتر سوچتاہے ،وزراء سے زیادہ محبِ وطن ہے اور افواجِ پاکستان سے بڑھ کر قربانی کا جذبہ رکھتاہے۔
یہ ہے کون؟ آٹھویں جماعت کا ایک ایسا ہونہار طالبعلم جس نے اپنے تئیں تو ایوانِ اقتدار کے درودیوار ہلا دیئے ہیں لیکن کیا کیجئے کہ وہاں کے مکین فطری طور پر زلزلوں کے پشتی عادی ہیں، وہ تو پوری قوم کو ہی ”آفٹر شاکس“ قرار دیتے ہوئے احتجاج و چیخ پکار پر کان دھرنا تو درکنار،نظر بھر کے دیکھنا بھی اپنی شان کے برخلاف سمجھتے ہیں ایسے میں پریس کلب کے باہر ایک بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود فہد امجد کی بھوک پیاس سے اُنہیں کیا لینا دینا؟یہ تو خود مدتوں سے ایسے بھوکے پیاسے ہیں کہ عوامی توقعات کی ہانڈی میں کل ہی بجٹ کا کفگیر ڈال کر اپنی اپنی پلیٹیں بھرلینے کے باوجود ہم سے مزید نوالوں کے متمنی ہیں فہد امجد اگلے پانچ برس تک بھی یوں ہی بیٹھا رہے اِن معروفوں اور مصروفوں کو کوئی فرق نہیں پڑتااور پھر فہد امجد کا مطالبہ بھی تو اقتدار کے کلیجے کو جلا بھنا دینے کیلئے کافی ہے کیاضرورت تھی اِس غریب وطن پرست کو ملک کے ”عجیب صدر“ اور ”نویلے وزیراعظم“ سے یہ التجا کرنے کی کہ ”زرداری انکل! اور نواز شریف انکل! میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ نے چاہا تو میری عمر اتنی زیادہ تو ہوگی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جگہ اُن کی سزا میں پوری کر لوں لہٰذا آپ صرف اتنا کر دیجئے کہ اوباما صاحب سے کہہ کر مجھے ڈاکٹر عافیہ کی جگہ بھجوا دیجئے اور اُنہیں بتا دیجئے کہ عافیہ صدیقی کی باقی سزا پوری کرنے کے لئے میں دل سے تیار ہوں نوازشریف انکل! اگر امریکہ کو ڈاکٹر عافیہ کے بدلے میں کوئی قیدی درکار ہے تو آپ پلیز مجھے امریکہ کے حوالے کر کے ڈاکٹر عافیہ کو جلد از جلد پاکستان واپس لانے کا انتظام کیجئے“۔
بھلا بتائیے ہے کوئی تُک؟کن لوگوں سے کیا مانگ بیٹھاہے ہمارا فہدجو قوم کو ملک میں موجود بجلی نہیں دے سکے وہ امریکہ میں مقید عافیہ کہاں سے لائیں گے ؟مگر بچہ بھی کیا کرے بے چارہ انتخابی تقاریر اور وعدوں کو سچ سمجھ بیٹھا، شاید اُسے سارے لیڈر اپنے ٹیچرز کی طرح لگتے ہوں گے اور جب ہی اُس نے سوچ لیا ہوگاکہ پاکستان ایک کلاس روم کی طرح ہے ،عوام اسٹوڈنٹس اور لیڈرز ٹیچرزجس طرح ٹیچرز وہی پڑھاتے اور سمجھاتے ہیں جو کتابوں میں لکھا ہوتا ہے اِسی طرح لیڈرز بھی وہی کہتے ہیں جو وہ ہمارے لئے کرنا چاہتے ہیں…اور اِسی اُمید پر وہ صدر صاحب سے چاند مانگ بیٹھا…ابھی بچہ ہے نا اِسی لئے یہ بات عقل میں نہیں سما سکی کہ اگرخدانخواستہ چاند”اُن“ کی دسترس میں ہوتا تو آسمان میں نہ ہوتا بلکہ سوئس بینک کے کسی اکاؤنٹ میں کبھی پورا ہوتااور کبھی آدھا…لیکن ہوتا محفوظ…کیونکہ اُسے کبھی گرہن نہیں لگتا…فہد ابھی چھوٹا ہے لیکن اُس نے اپنے جذبے کے اظہار سے کئی بڑوں کو لمحے بھر میں چھوٹا کردکھایاکہتے ہیں کہ اسمبلیاں”دردرکھنے والوں“ سے بھری پڑی ہیں مگر افسوس کہ غمِ عوام میں تیزی سے پھیلتے، پھلتے اور پھولتے اراکین میں سے کوئی ایک بھی فہد امجد جیسا نہیں ہے ،وزیراعظم سے لے کر اُن کی کابینہ کے بزرجمہروں تک شاید کسی کو خبر بھی نہیں ہے کہ امریکی جیل میں قید عافیہ صدیقی پر شدیدحملہ ہوا ہے ،وہ زخمی ہیں،کئی گھنٹوں تک بے ہوش رہی ہیں اور یہی تشویشناک اطلاعات سننے کے بعد فہد سے نہ رہا گیا اور اُس نے اپنے دونوں ”انکلز“ سے یہ درخواست کر ڈالی کہ عافیہ کے بدلے اُسے امریکہ بھجوا دیا جائے…اب اُسے کیا معلوم تھا کہ اُن میں سے ایک”انکل“ نے تو پانچ برسوں سے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ لوگوں کے مصائب اور پریشانیوں کو دور کرنا تو کجا اُن سے لمحہ بھر آشنائی بھی حضوروالا پر حرام ہے …”مقدر کے سکندر“ کی طرح اُن کے زیرلب بھی یہی گیت رہتا ہے کہ ”روتے ہوئے آتے ہیں سب، ہنستا ہوا جو جائے گا…وہ مقدر کا سکندر ،جانِ من !کہلائے گا“اور اِسی کو نسخہ، وظیفہ اور علاج سمجھ کر وہ صرف مسکراتے رہتے ہیں کیونکہ اب تو ویسے بھی ”جانے کی گھڑی“ قریب آگئی ہے …رہے ”دوسرے انکل“تو وہ انتخابات کے بعد سے مسکرانا ہی بھول گئے ہیں،اللہ جانے اُنہیں کون سا غم اندر ہی اندر کھا رہا ہے …خبریں رکھنے اور سنانے والے کہتے ہیں کہ ”عوام کے دکھوں نے اُن سے اُن کی مسکراہٹ چھین لی ہے“ اگر یہ وجہ درست ہے تو پھر تو ڈار جی کو اپنے وزیراعظم کا چہرہ دیکھ کر بجٹ بنانا چاہئے تھا،مجھے لگتاہے کہ بجٹ تقریر لکھتے ہوئے شاید اُن کے سامنے صدر مملکت کی تصویر تھی یاتصورات کی پرچھائیوں میں اُنہی کا مسکراتا چہرہ…جب ہی تو ٹیکسوں کا اِتنا خوبصورت اِتوار بازار سجایا گیا ہے …لوگ خواہ مخواہ اِس فکر میں پریشان رہتے تھے کہ دوپہر اور رات کا کھاناکیسے کھائیں گے ؟اِس بجٹ نے اُنہیں داتا دربار،سیلانی دسترخوان اور دیگر مزارات کا راستہ دکھا دیا ہے جہاں دو وقت کا کھانا مفت ملتا ہے اور عزت سے کھلایا جاتا ہے …لیجئے! میں بھی کہاں نکل گیا…سچ تو یہ ہے کہ کم سن فہد امجد کی یہ قدآور آرزو حب الوطنی کے ٹھیکے داروں کے رخسار پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے …ایک وقت تھا کہ ہمارے حکمرانوں کے بس میں سب کچھ تھا، وہ چاہتے تو عافیہ صدیقی اپنی باقی ماندہ سزا پاکستان میں پوری کرسکتی تھی،وہ چاہتے توریمنڈ ڈیوس کے بدلے میں ہی ہم اُسے واپس لے آتے (میں جانتا ہوں کہ یہ ایک مفروضہ ہے مگر مفروضے ہی فارمولے بنتے ہیں) لیکن اُنہوں نے عصمت صدیقی کو سوائے جھوٹی تسلیوں کے اور کچھ نہیں دیا۔البتہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے فہد امجد کے بس میں جو تھا وہ اُس نے کردکھایا،وہ حاکم ہے نہ وزیر، جرنیل ہے نہ سفیر…صرف ایک عام پاکستانی بچہ ہے اور ایک عام پاکستانی بچے نے دنیا بھر کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ”ہماری عافیہ ہمیں لوٹادو! تم انصاف پسندوں نے اُسے جو سزا سنائی ہے اُسے پورا کرنے کیلئے کسی کا بچہ ہونا بہت ضروری ہے۔ 86برس کی سزا38سال کی عورت کیسے بھگت سکتی ہے؟اِس کے لئے تو 8سال کاایک بچہ چاہئے جس پر شاید یہ اُمید باندھی جاسکتی ہو کہ وہ 51برس تک جی سکے گا“…!!!



آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِ اعظمؒ

آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِ اعظمؒ
بے رنگ ہوئے سرو و سمن قائدِ اعظمؒ

تنظیم و اخوّت ہے نہ اب عزم و یقیں ہے
ہم بھول گئے عہدِ کُہن قائدِ اعظمؒ

گلشن کی تباہی کا سماں پیشِ نظر ہے
اُڑتے ہیں یہاں زاغ و زغن قائدِ اعظمؒ

بخشا تھا جسے تُو نے اُجالوں کا لبادہ
اُس قوم نے اوڑھا ہے کفن قائدِ اعظمؒ

پاکیزہ سیاست نہ امامت رہی باقی
دنیا بھی ہے فن ‘دین بھی فن قائدِ اعظمؒ

’شاہیں کے لیے موت ہے کرگس کی غلامی'
ہے زار و زبوں ارضِ وطن قائدِ اعظمؒ

وہ رنگ دکھائے ہیں نئے شیشہ گروں نے
پردیس بنا اپنا وطن قائدِ اعظمؒ

تو نے ہمیں بخشی تھی جو آزادی کی دولت
ہم نصف لُٹا کر ہیں مگن قائدِ اعظمؒ

یہ زخم بھرے گا تو عدو کے ہی لہو سے
زخمی ہیں عساکر کے بدن قائدِ اعظمؒ

کیا تجھ سے کریں گردشِ افلاک کا شکوہ
کھانے لگی سورج کو کرن قائدِ اعظمؒ

اَشکوں کا تلاطم ہے یہاں میرے چمن میں
اُمڈے ہیں وہاں گنگ و جمن قائدِ اعظمؒ

اصنام پرستوں کے لیے صبحِ مسرّت؟
واصف کے لیے رنج و محن قائدِ اعظمؒ

______________________________

حضرت واصف علی واصف ؒ کے شعری مجموعہ ”شب چراغ“ سے انتخاب

سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں


کل ہی کی بات ہے‘ میں کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ گھروالی چاءے لے کر نازل ہو گئ۔ مجھے سوچ میں ڈوبا میں ڈوبا ہوا دیکھ کر بولی “کیا بات ہے خیر تو ہے‘ کس سوچ میں ڈوبے ہوءےہو؟!"
"
نہیں کوئ ایسی خاص بات نہیں"
"
پھر بھیمجھے اپنی پنشن کے بےبابائ ہونے کے سبب پنشن آڈر میں کیڑا بھرتی کرنے کا تذکرہ اچھا نہ لگا۔ ہر روز ایک ہی راگ سن کر کان پک جاتے ہیں۔ دوسرا اس نے مجھے ہی جھوٹا کرنا تھا۔ جب رشوت اصول اور ضابطہ بن گئ ہو تو حاجی ثناءالله بننے کی کیا ضرورت ہے۔ اصول اور ضابطے سے انکار موت کو ماسی کہنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی کہ اصلاح اور بہتری جو کسی کی معدہ کشی کا سبب بنتی ہو جرم کبیرہ سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ دوسرا میرے اپنے حوالہ ہی سے سہی‘ اصلاح اور بہتری کا ٹھیکہ میں نے کیوں لے رکھا ہے۔ یہ حاکم کا کام ہے‘ وہ کرے نہ کرے‘ مجھے اس سے کیا۔ میرے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھتے ہیں۔ اس میں کسی اور کو ٹانگ زنی کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں تو لوگ اپنا کام ایمانداری تو بہت دور کی بات بددیانتی سے کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لہذا مجھے نہایت فرمانبرداری سے زر رشوت ادا کرکے کام نکلوا لینا چاہیے تھا۔ اب اپنی کرنی کی بھگتوں۔ایک ہی با ت پر ایک ہی انداز سے بےعزاتی کروانا سراسر بدذوقی تھی۔ کم از کم انداز اور ذاءقہ تو بدلا جانا چاہیے۔ ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھا جا سکتا ہے۔ اچانک ایک نئ با ت میرے ذہن میں آئ۔ میں نے اس کے سوال کے جواب میں عرض کیا“ کوئ بہت گڑبڑ میرے اندر چل رہی ہے۔"
"
کیوں کیا ہوا؟"
"
اب عینک سے دھندلا نظر آتا ہے اور بغیرعینک کے تو کچھ نظر آتا ہی نہیں"
"
میں تو پہلے ہی کہتی ہوں تمہارے سر میں دماغ نام کی چیز ہی نہیں"
کیا بکواس کرتی ہو“ میں نے جعلی غصہ دیکھاتے ہوءے کہا۔
"
ہاں ٹھیک کہتی ہوں"
"
خاک ٹھیک کہتی ہو"
"
ارے میں کب کہتی ہوں تمہارے دماغ میں گڑبڑ ہے‘ دماغ ہوگا تو ہی گڑبڑ ہو گی۔"
"
یہ کیا پہلیاں بھجوا رہی ہو‘ صاف صاف کہو"
"
جاؤ جا کرعینک کا نمبر بدلو"
"
میں نے پکا سا منہ بنا کرکہا ارے یہ بات تومیرے ذہن میں ہی نہیں آئ۔ تم جینیس ہو واہ واہ"
"
مروں گی تو تمہاری آنکھیں کھولیں گییہ کہہ کر وہ چلی گئ۔ چاءے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔اس واقعے کے بعد اس کی ذہانت کی دھاک پورے خاندان میں بیٹھ گئ تاہم اصل بات کسی کی سمجھ میں نہ آ سکی۔ نظر مفت میں تو ٹیسٹ نہیں ہوتی اگر ہو بھی جاءے تو رکشے والامیرا پھوپھڑ تو نہیں جو مفت میں دوکانوں پر لے جاتا پھرے گا۔ اگر گرہ میں مال ہوتا تو اپنی گروی پڑی پنشن حاصل نہ کر لیتا۔ میں اصل پریشانی کسی کو بتا کر اس تماشے کا مزا کرکرا نہیں کرنا جاہتا۔ ہاں البتہ اپنی گھروالی کی ذہانت کی بانگیں دیتا پھرتا ہوں۔آج ملک عزیز میں سیاسی تناؤ کی فضا ہے۔ گریب گربا کا اس میں کوئ ہاتھ نہیں اور ناہی وہ اس سے کوئ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھیں صرف بھوک پیاس سے خلاصی کی فکر لاحق ہے جس سے چھٹکارے کی سردست کوئ صورت نظر نہیں آتی۔ سیاسی فضا گرم ہو یا سرد‘ انھیں تو بھوک پیاس میں دن رات کرنا ہیں۔ اس مسلے کو دیکھنے کے لیے کبھی کس عینک کا استمال نہیں کیا گیا۔ اس مسلےکے لیے عینک بنائ یا بنوائ ہی نہیں گئ اورناہی ضرورت محسوس کی گئ ہے۔ ہر کسی کی سوچ اپنی ذات تک محدود رہی ہے لہذا عینک کے نمبر بڑھنے یا گھٹنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ہاں البتہ حصولی اقتدار کے لیے اکھاڑ پچھاڑ ضرور ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے۔پہلےپہل دو تین اخبار اور ریڈیو آگہی کی کل بساط تھی۔ بی بی سی کا شہرا تھا۔ آگہی کی کمی کے باعث اتنی بےچینی نہ تھی۔ حکمران عوام سے اور عوام حکمرانوں سے اور ان کی کار گزاری سے بےخبر تھے۔ بےخبری کے سبب توازن کی صورت موجود تھی۔ آج بےخبری یکطرفہ ہے۔ عوام حکمرانوں سے باخبر ہیں لیکن حکمران عوام سے بے خبر ہیں۔ پہلے وقتوں میں سیاسی ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے‘ کؤئ نہیں جانتا تھا لیکن آج میڈیا کے حوالہ سے معمولی سے معمولی بات گلیوں میں گردش کرنے لگتی ہے۔ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات سیر کی سوا سیر بن جاتی ہے۔بھولے بھالے سیاسی لوگ آج بھی پرانے نمبر کی عینک استمال میں لا رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی عینک کا نمبر بڑھ گیا ہے۔ کمزور گرہ کے لوگ پرانے نمبر کی عینک استمال کریں‘ یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ لوگ تو جھٹ سے نءے نمبر کی عینک خرید سکتے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر کچھ بھی خریدا جا سکتا ہے۔ یہ تو عوام کے تابعدار ہیں اور ان کے درمیان گریب بلکہ مقروض صورت بنا کر جاتے ہیں۔ ان بےچاروں کی گرہ میں ذاتی کیا ہے سب کچھ پرایا ہی تو ہے۔سیاست کا ہنر دیگر تمام ہنروں سے زیادہ مشکل ہے۔ قدم قدم پر مشکلوں اور آزماءشوں کے کانٹے بکھرے رہتے ہیں۔ چاروں اور خطرے کے بادل امڈے رہتے ہیں۔ ایسے میں جان اور ووٹ خوری کے لیے جھوٹ اور لایعنی وعدوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ خود کو اچھا اور دوسروں کو برا کہنا سیای اخلاقیات کی مجبوری ہوتی ہے۔ پیٹ بھر کھا کر بھوک کا ناٹک کرنا پڑتا ہے۔ چاروں یکے ہاتہ میں رکھنے کی سعی کرنا پڑتی ہے۔ گو کہ بےنمبر پتوں کو بھی بطور ٹیشو پیپر رکھنے کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ بےنمبر دکی کی سر اگر اتفاقا یا تقدرا کسی پچھڑے سیاستدار کے ہاتھ لگ جاءے توملال باکمال دیدنی ہوتا ہے۔ داؤ پر قوم اور اس کے اثاثے لگتے ہیں۔ جیت ہوئ تو پرایا مال اپنا ہوتا ہے۔ مات ہوئ تو لفظ داھندلی تسکین بخش روح افزا بن جاتا ہے۔ وہ مظلومیت کی جیتی جاگتی تصویر بن کر سامنے آتے ہیں اور گھر کی کھانا نہیں پڑتی۔سیاستداروں کےاثاثوں کی بات زوروں پر رہی ہے۔ ان کے اثاثوں کی بات کرنا سراسر ظلم ہے‘ زیادتی ہے۔ یہ گریب اور مسکین لوگ ہیں۔ جب تک پاکستان کے سارے کے سارے اثاثے ان کے اپنے نہیں ہو جاتے‘ ان کی گربت ختم نہیں ہو سکتی۔ خوشحال عوام کو ملکی قرضوں کی ادءگی میں زندگی گزارنا ہو گی۔ بات کرنی ہے تو تاجروں اور مہامنشی ہاؤس کے لوگوں کے مقینوں کی جاءے۔ پہلے طبقے کے لوگوں کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ انکم ٹیکس والے ان کے دکھنے والے دانتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ثانی الذکر طبقہ خود محتسب اورہر قسم کے احتساب سے بالاتر ہے۔ آج گریب لوگوں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ بالا طبقے کے خسارے اور قرض کو چکایا جا سکے۔ اس طرح وہ لوگوں کے نجی وساءل کو بھی بخوبی ہاتھ میں کر سکیں گے۔ میری یہ گزارش سیاست کی پرانی عینک کی زد میں نہیں آسکے گی۔ اس لیے سیاسی عینک کا نمبر تبدیل کرنے سے ہی سیاسی دھندلاہٹ ختم ہو سکے گی۔

معاشرہ محنت اور ذہانت کے تحت ترقی کرتا ہے


میںاس امر کا بار بار اظہار کر چکا ہوں کہ برصغیر کے لوگ بلا کے ذہین اور محنتی ہیں۔ کچھ گربت کے سبب تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور ان کی بچپن ہی سے ذہانت ہوٹلوں کے برتن دھونے میں ضاءع ہو جاتی ہے۔ کچھ سردیوں کی سرد راتوں میں گرم انڈے فروخت کرتے کرتے جوان ہو کر معاشرے کی بےحسی کا ثبوت بن جاتے ہیں۔ بڑی کرسیوں پر برجمان اپنی عیش وعشرت کا سامان بہم کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ انھیں کسی کے دکھ درد اور بھوک پیاس سے کوئ غرض نہیں ہوتی۔ اربوں جمع کرکے بھی مزید کی ہوس ان کا نصیبہ بن جاتی ہے۔
یہ معاشرے کے اپنے بچے ہیں۔ معاشرہ ان کی محنت اور ذہانت کے تحت ترقی کرتا ہے۔ بڑی کرسی والے خود غرض سہی معاشرے کو انھیں ہر حال میں سمبھالا دینا چاہیے۔ اہل ثروت یہ دیکھتے ہیں کہ انھیں اس سے کیا فاءدہ ہو گا۔ انھیں فاءیدہ نہ سہی' دیکھنا یہ ہے کہ ان سے معاشرے کو کیا فاءدہ ہو گا۔ ذہانت کو واپسی ملنے والے فاءدہ کے ترازو پر رکھا جاءے گا تو بات نہیں بن سکے گی۔ اس معاملے کو یوں بھی لیا جا سکتا ہے کہ یہ خوشحال ہوں گے تو ان کی قوت خرید بڑھے گی۔ قوت خرید بڑھنے سے تاجر حضرات کے کھیسے بھریں گے۔
جو بچے ٹیکنیکل کاموں کی طرف چلے جاتے ہیں اپنی فطری ذہانت کے بل بوتے پر حیرت ناک کام سرانجام دیتے ہیں لیکن ان کی ذہانت گوشہ ء گمنامی کا شکار رہتی ہے۔ ان کی کوئ حوصلہ افزائ نہیں ہو پاتی۔ اس کے دو نتیجے برآمد ہوتے ہیں
:اول۔ بھوک و پیاس اور حالات کی تنگی ترسی برداشت کرتے کرتے مر کھپ جاتے ہیں۔
دوم۔ مجبورا غربت اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی ذہانت سے غیر والایتوں کے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔
ٹی وی کی خبروں کے مظابق ایک صاحب نے پانی سے گاڑی چلا دی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائ کرنے کی بجاءے مذاق اڑایا جا رہا ہے اسے فراڈ کہا جا رہا ہے اور یہ بڑے ہی دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ آخر اس میں فراڑ والی کیا بات ہے۔ فراڈ قرار دینے والے جواب دیں بجلی کس سے بنتی رہی ہے۔ ریلوے کے بڑے کالے انجن کس سے چلتے تھے بھاپ سے اور بھاپ کس سے بنتی ہے پانی سے۔ اگر اس نے محنت کرکے اور بھیجے کا استعمال کرکے ایسی کٹ بنا لی ہے جو پانی سے نکلتی بھاپ کو انرجی میں کنورٹ کرکے گاڑی چلا دی ہے یا اس کٹ کے ذریعے بجلی حاصل کرکے گاڑی چلا دی ہے تو مجھے تو اس میں فراڈ والی کوئ بات نظر نہیں آتی۔
کہا گیا ہے یونیورسٹی کے پروفیسروں سے حق سچ کی مہر ثبت کراءیں گے۔ اگر وہ اتنے لاءق پتر ہوتے تو بہت پہلے یہی چیز تیار کر چکے ہوتے۔ یونیورسٹی کے پروفیسروں کے پاس اتنا وقت کہاں ہے۔ ان بےچاروں کو تو جوان کڑیوں سے ٹھرک جھاڑنے سے فرصت نہیں۔ اسکول ماسڑ اور کالج کے پروفیسر نہ ہوں تو ایجوکیشن کا منشی کدہ تعلیم کو کب کا دریا برد کر چکا ہوں۔ سروے کروا دیکھیں
تحقیق و تلاش کا سارا کام کالج کے پروفیسر نے ہی کیا ہے۔ ڈگری کے لالچ کے بغیر یہ لوگ کام کر رہے ہیں حالانکہ انھیں اس مغز ماری کے حوالہ سےکبھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔
کیا پانی سورس آف انرجی نہیں ہے۔ اگر ہے تو حوصلہ شکنی کے کیا معنی لیے جاءیں۔ اس سے کمشن کے گلچھرے ختم ہو جاءیں گے۔ پڑول اور گیس کی قیمتوں میں ہر دوسرے روز اضافے کی موجیں ختم ہو جاءیں گی۔ یقینا عیش وعشرت کی دنیا میں بھونچال آجاءے گا۔ پانی ہر قسم کی گیس ہوا بھاپ ریت کچرا دھوپ گوبر دھواں جانوروں کا پیشاب ہڈیاں وغیرہ انرجی کا ذریعہ ہیں۔ ان چیزوں سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر قدیر زندہ ہیں ان سے دریافت کر لیں۔ دراصل تڑپنے پھڑکنے کا نظارہ کرنے والوں کے یہ وارہ کی چیزیں نہیں ہیں۔ لوگوں کو اذیت دے کر انھیں مزا آتا ہے۔
 آپ کو یہاں کا بابا آدم ہی نرالہ نظر آءے گا۔ پہلی سے انگریزی کی تعلیم شروع کر دی ہے۔ اتنی مشکل کتابیں ہیں کہ دسویں پاس بھی انھیں پڑھ نہیں سکتا ہے۔ اس حوالہ سے انگریز کی ٹی سی تو ہو جاءے گی لیکن نسل کا بیڑا غرق ہو جاءے گا۔ کیا ان کو اباما کی کرسی پر بیٹھانا ہے؟
اسی طرح میٹرک میں حساب میں پاس ہونا کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ کیا آرٹس کے بچوں نے آڑھت یا کسی بنیک میں اکاؤنٹنٹ بننا ہے۔ جغرافیہ جو بڑی لازمی چیز ہے لایعنی سا ہو گیا ہے۔ انگریزی اور حساب لازمی قرار دے کر کھیسے تو بھرے جا سکتے ہیں لیکن نوجوان نسل کو ناکارہ کیا جا رہا ہے۔ ان دونوں مضموں کو آپشنل ہونا چاہیے۔ جو پڑھے گا شوق سے پڑھے گا اور قوم وملک کے لیے کار آمد ثابت ہو گا۔
آخر میں قارءین سے گزارش ہے کہ وہ اس ذہین شخص کی زندگی کی دعا مانگیں کیونکہ جو گرہ کا دشمن ہوا ہے اس کے پاسے باخیریت نہیں رہے۔

اکڑی گردن اور تَنا سینہ۔یہ کیسا مجرم ہے ؟...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین

عراق کے شمالی حصے میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک مشہور شہر موصل آباد ہے، پُرانے وقتوں میں بڑے بڑے تجارتی قافلے موصل شہر سے ہوکر گزرا کرتے تھے، اُن دنوں شام بھی عراق ہی کا حصہ کہلاتا تھا یا یوں کہہ لیجئے کہ عراق شام میں شامل تھا کیونکہ ابھی تک سرحدوں کا تعین نہیں کیا گیا تھا لہٰذااِن دونوں حصوں میں رہنے والے افراد آزادانہ اور بلاروک ٹوک ایک دوسرے کے علاقوں میں چلے جاتے تھے اور اِسی سبب موصل اور حلب تجارت کے بڑے مراکز کے طور پر معروف تھے…یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حلب میں مویشیوں کی بین الاقوامی منڈیاں لگا کرتی تھیں اور دنیا بھر سے مویشیوں کی تجارت کرنے والے اپنے مویشیوں کے ساتھ حلب میں جمع ہوتے تھے جہاں بہترین سودے پایہٴ تکمیل تک پہنچتے تھے…چنانچہ موصل کے ایک مشہور تاجر نے حلب کا رُخ کیا،وہیں ایک سرائے میں قیام کیا ،اپنے مویشی فروخت کئے اور واپس اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گیا … لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ حلب کے رئیس کا ایک بگڑا ہوا چراغ اُس کے سامانِ سکون کو آگ لگانے کے درپے ہے…یہ نوجوان کافی دیر سے تاجر کے پیچھے لگا ہوا تھا اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا تاکہ اُسے لوٹ کر اپنے جنون، وحشی پن اور احساسِ برتری کو اطمینان دلا سکے …اور پھر اُسے موقع مل ہی گیا…تاجر، آبادی سے دور نکل کر ایک درخت کے نیچے کچھ دیر سستانے کے لئے جیسے ہی رُکا،نوجوان نے اُس پر دھاوا بول دیا،اُسے زمین پر گرانے کے بعد دودھاری خنجر اُس کی گردن پر رکھا اور مطالبہ کیا کہ ”تیرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ میرے حوالے کردے“…بے چارے تاجر نے بہت شور مچایا، ماہی بے آب کی طرح تڑپا، مدد کے لئے آوازیں دیں مگر ویرانہ بھلا کسی کی کیا مدد کر سکتا ہے ، ویرانے تو خود آبادی کے منتظر رہتے ہیں لہٰذا مرتا کیا نہ کرتا اُس نے اپنا سارا مال سینے پر چڑھے”شوقیہ لٹیرے “کے حوالے کردیا اور اُس سے التجا کی کہ اب وہ اُسے چھوڑ دے … مگر…نوجوان کے دماغ پر قابض ابلیس کچھ الگ ہی تانے بانے بننے میں مصروف تھا، اُس کی درندگی کی پیاس اُس وقت تک نہیں بجھ سکتی تھی جب تک کہ وہ تاجر کو ذبح نہ کر دیتا، تاجر نے بہتیرے ہاتھ جوڑے، رویا، اپنے بیوی بچوں کا واسطہ دیا، منت سماجت کی، گھر پہنچ کر اور مال دینے کا وعدہ کیا لیکن ظالم نے کچھ دیر تلک اُس کی بے بسی کے مزے لینے کے بعد بالآخر اُس کے گلے پر خنجر رکھ دیا…تاجر نے آخری مرتبہ چاروں اطراف نگاہ دوڑائی لیکن منظر ساکت تھاکہ گویا تماشے کے انتظار میں ہو،البتہ اُس کی بے چین نگاہوں نے اُسی درخت کی ایک شاخ پر کہ جہاں وہ سستانے لیٹا تھا دوکبوتروں کو دیکھ لیا اور اپنے گلے پر خنجر کی جاں لیوا دھار کے ساتھ یہ آخری الفاظ ادا کئے کہ”اے کبوترو! گواہ رہنا“۔
نوجوان اُسے قتل کرنے کے بعد اُس کے سینے سے اُٹھا اور مُردہ جسم کو لات مارتے ہوئے کہنے لگا”اے کبوترو! گواہ رہنا“اور پھر دیر تک قہقہے لگاتا رہا…وہ بار بار کہتا کہ ”اے کبوترو! گواہ رہنا“ اور ہنس ہنس کر دہرا ہو جاتا کہ جیسے مرنے والے نے جاتے جاتے اُسے کوئی لطیفہ سنا دیا ہو…دوسری جانب تاجر کے اہلِ خانہ، رشتے دار اور دوست احباب اُس کے یوں اچانک گم ہوجانے سے حد درجہ پریشان ہوگئے،موصل میں اُس کے دوستوں نے باقاعدہ ایک مہم چلائی کہ کسی طور اُس کا سراغ مل سکے اور اِسی مہم کے نتیجے میں اُنہیں یہ معلوم ہوگیا کہ موصل کے قریب اور حلب سے دور ایک ویرانے میں کسی نامعلوم شخص نے بڑی بے رحمی سے تاجر کو قتل کر کے اُس کا سارا مال اسباب لوٹ لیا تھا اور بعد میں اُسی راستے سے گزرنے والے بعض مسافروں نے لاوارث نعش دیکھ کر اُسے وہیں دفنا دیا تھا…دوستوں اور رشتے داروں نے یہ روح فرسا خبر سننے کے بعد قاتل کی گرفتاری کے لئے زمین آسمان ایک کردیا،حاکم شہر کو خط لکھے،قاضی سے نوٹس لینے کی اپیل کی، کوتوالانِ موصل و حلب سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی درخواستیں کیں مگر سب بے سود!…وقت گزرتا رہا اور گزرتا ہی چلا گیا، کئی برس بیت گئے،حاکم بدل گئے، والی گزر گئے، قاضی ملک عدم سدھار گئے اور دوست احباب بھی صبر کر کے بیٹھ گئے…آہستہ آہستہ سب اِس سانحے کو بھول گئے البتہ ایک شخص آج تک اِس واردات کو نہیں بھولا تھا اور وہ یقینا وہی قاتل تھا جس نے اُس مظلوم تاجر کا لہو بہایا تھا…وہ جب بھی کبوتر یا اُن کے جوڑے کو دیکھتا اُسے مقتول کے آخری الفاظ یاد آجاتے کہ ”اے کبوترو! گواہ رہنا“۔ایک دن اُس کے باپ نے دعوت کا اہتمام کیا، باپ چونکہ امیر کبیر اور اثرورسوخ والا تھا اِسی سبب شہر کے جانے مانے افراد،اعلیٰ حکام، رئیس، امراء، وزراء اور تجار بڑی تعداد میں شریک ہوئے…دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے چنے ہوئے تھے، بگڑے ہوئے رئیس زادے نے ایک طبق سے ڈھکن اُٹھایا تو بھنے ہوئے کبوتروں نے اُس کی نظروں کا استقبال کیا،آنِ واحد میں درخت،اُس پر بیٹھے دوکبوتر اور تاجر کی لاش ایک منظر کی طرح اُس کے سامنے گھومنے لگے ،نہ جانے اُسے کیا ہوا کہ اُس نے یکدم ہذیانی انداز میں ایک بلند قہقہہ لگایا جس نے محفل کو اُس کی طرف متوجہ کر دیا…لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے کہ اِسے اچانک کیا ہو گیا ہے ؟لیکن وہ تھا کہ بس ہنسے جارہا تھا، یکایک اُس کی ہنسی رکی اور ایک غیر مرئی قوت نے اُس کی زبان کھلوادی، اُس نے بھنے ہوئے کبوتروں کی طرف اشارہ کیا اور بڑے فخر سے اپنے ہاتھوں کئے گئے ایک بے بس کے قتل کا قصہ سنانے لگا، محفل میں موجود افراد پھٹی آنکھوں اور متعجب سماعتوں سے اُس کے اعترافِ جرم کے گواہ بن گئے…جیسے ہی وہ قصہ سنا کرتھما تو اُسے ایک جھٹکا لگا جیسے کسی نے اُس سے کہا ہو کہ ”بے وقوف! یہ تُو نے کیا کرڈالا! جس قصے کو لوگ بھول چکے تھے،فائلیں بند ہوگئی تھیں، واقعہ دَب گیا تھا تُو نے اپنی بَک بَک سے سب کو اِس راز میں شریک کرلیا“…مگر اب ہو بھی کیا سکتا تھا،الفاظ تو ادائیگی سے پہلے انسان کے غلام ہوتے ہیں ،ادا ہونے کے بعد تو انسان اُن کا غلام بنتاہے چنانچہ کچھ ہی دیر میں حلب میں یہ واقعہ زبان زدِ عام تھا، قاضی القضاة کو بھی اِس ”اعتراف“ کی اطلاع مل گئی اور اُس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حاکم کو حکم دیا کہ مظلوم تاجر کے قاتل کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے…مقدمہ چلا…دعوت میں شریک لوگوں کو گواہی کے لئے بلوایا گیا، انکار کی جرأت کسی میں نہ تھی…حلب کا حاکم کہتا تھا کہ ”میں گواہ ہوں“…قاضی نے کہا ”میں نے بھی گواہی دی“…پولیس کا چیف بولا ”میں بھی گواہی دیتا ہوں“ اور سب لوگوں نے کہا کہ ”ہم بھی گواہ ہیں“…جس کے بعد اُسے پھانسی کا حکم سنا دیا گیا…سزا سے ایک دن پہلے مجرم سے اُس کی بیوی نے الوداعی ملاقات کی اور اُس سے پوچھا ”اِتنے برسوں سے تم نے اِس جرم کو چھپا کر رکھا پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ تم نے خود ہی اِس راز کو سب کے سامنے منکشف کردیا“اُس نے تاسف سے جواب دیا”سب سے بڑے صاحبِ ارادہ نے میرے اِرادے کو توڑ دیا اور مجھے سچ کہنے پر مجبور کردیا“…دوسرے دن صبح سویرے جب اُسے کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالا گیا تو اُ س نے چلاکر یہ آخری الفاظ کہے کہ ”وہ الفاظ میرے نہیں تھے،اُن کبوتروں کے تھے جو دعوت کے دن طبق میں میرے سامنے بھنے پڑے تھے“…الفاظ ادا ہوتے ہی رسّا کھنچا اور قاتل تختے پر جھول گیا،لوگوں نے سکھ کا سانس لیا،انصاف کے کلیجے کو ٹھنڈ پہنچی اور وقت کو اپنے گزرجانے کا احساسِ شرمندگی جاتا رہا…اُس لمحے لوگوں نے ایک اور منظر دیکھا کہ پھانسی کے رسّے سے لٹکے ہوئے قاتل کے سر پر دو کبوتر بے حِس و حرکت بیٹھے ہوئے تھے،اللہ اکبر کے نعرے بَلند ہوئے اور سب نے ایک آواز ہوکر کہا کہ ”اِن کبوتروں نے بھی گواہی دے دی“۔
بس فرق صر ف اِتنا ہے کہ مجرم سزا سننے کے بعد کمرہٴ عدالت سے اکڑے ہوئے سینے اور تَنی ہوئی گردن کے ساتھ باہر نہیں نکلا تھا،اُس نے بکتر بند گاڑی کو لاتیں نہیں ماری تھیں،انصاف کے رخسار پر تھوکنے کی جرأت نہیں کی تھی کیونکہ وہ ”زبردست صاحبِ ارادہ“ کی طاقت دیکھ چکا تھا،شاہ زیب کے قاتلوں نے ابھی دیکھی نہیں ہے لیکن قسم رب کی بہت جلد دیکھ لیں گے!!