Friday, October 11, 2013

‎""خدا کے واسطےمجھے تبدیلی ںہیں چائیے""

‎""خدا کے واسطےمجھے تبدیلی ںہیں چائیے""
مجھے وہ پرانا پاکستان چائیے 
جہاں محبت بستی تھی۔
جہاں محلے میں ایک گھر میں ٹی وی ہوا کرتا تھا اور اتوار کو پورا محلہ اس گھر میں جا کر فلم دیکھا کرتا تھا۔
جہاں محلے کا فریج سارے محلے کے مہمانوں کو ٹھنڈا پانی مہیا کیا کرتا تھا۔
جہاں محلے کی ایک گاڑی پورے محلے کی ایمبولینس بھی ہوا کرتی تھی۔
جہاں کسی بھی بزرگ کے سامنے چھوٹے پان یا سگریٹ استعمال نہیں کیا کرتے تھے۔
جہاں نوجوان بس میں کسی بوڑھے کو کھڑا دیکھ کر جگہ دے دیا کرتے تھے۔
جہاں بیرون ملک جانے والے کسی جوان کو پورا محلہ ائیر پورٹ چھوڑنے جایا کرتا تھا۔
جہاں کسی کے گھر زیادہ مہمان آ جاتے تو پڑوسی اپنا کمرہ پیش کر دیتے تھے۔
جہاں اسلام کے نام پر قتل نہیں ہوا کرتے تھے۔
جہاں اسلام کے نام پر دہشتگردی نہیں ہوا کرتی تھی۔
جہاں اسلام کے نام پر خود کش حملے نہیں ہوا کرتے تھے۔
جہاں ایک دوسرے کو کافر نہیں کہا جاتا تھا۔


خدا کےلئے مجھے میرا پاکستان واپس کر دو، مجھے تبدیلی نہیں چائیے۔
مجھے تبدیل نہیں ہونا
خدا کےلئے۔

جمہوریت تشکیل پاکستان اور جمہور کی خواہش


اس میں کوئ شک نہیں كہ پاكستان اسلام كے نام پر بنا تھا یہ الگ بات ہے كہ بنانے والوں كی نیت پاكستان كا مطلب كیا لا الہ الا اللہ كے نعرے كوحقیقت كے طورپر استعمال كرنا تھا یا مسلمانوں كے جذبات كو اپنے گندے ذاتی مقاصد كے لئے استعمال كرنا تھا لیكن غریب بھولے بھالے مسلمان اس سے مراد یہ ہی لے رہے تھے كہ ساری جدوجہد اسلام كے سنہری نظام كے لئے كی جا رہی ہے ۔ملك بن جانے كے بعد لاكھوں شھدا كے خون سے غداری كركے جس طرح اسلام، اسلامی اقدار اور انسانیت كا خون كیا گیا۔ اقتدار كی ہوس اور پیسے كے لالچ میں مسلمان نے مسلمان بھائی كا بے دریغ استحصال كیا اور نوبت یہاں تك پہنچ گئی كہ وطن عزیز دو لخت ہو گیا ۔ بھائی بھائی كے خون كا پیاسا ہو گیا یہ ظاہر كرتا ہے كہ شروع ہی سے ان كی نیت نیك نہیں تھی ۔ آج صورت حال یہ ہے كہ ٱج دنیا میں پاكستان كا مقام دیكھ كر درد مند دل خون كے آنسو روتا ہے ۔ 
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو كر 
اور ہم خوار ہوئے تارك قران ہو كر

شکریہ بیٹا آپ نے توجہ فرمائ۔ الله آپ کو شاد و شاداب رکھے۔ حصول پاکستان کے لیے جو شہید ہوءے بےگھر ہوءے بچوں کی شہادت بیماری بےکسی بےبسی عورتوں کی عزت کی پامالی وغیرہ کا صدمہ برداشت کیا ان کے ایک ایک دکھ ایک ایک صدمے ایک ایک پریشانی کو ہزاروں نہیں لاکھوں سلام۔ ہم کیا دے سکتے ہیں الله کے پاس ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ وہ انگریز اور اس کے بدنیت خودغرض ناہنجار اور منافق گماشتوں کی چال کو نہ سمجھ سکے۔ بیڑا غرق اور جہنم ٹھکانہ ہو پیٹو مورخ کا جس نے انہیں نبوت کے درجے سے دو چار انچ ہی نیچے رکھا ہے۔ اصل ہیروز تاریخ کا حصہ نہ بن سکے۔ پاکستان کی تشکیل کے دو حوالے/ دو کاز ٹھہرتے ہیں ایک مسلمانان ہند کا دوسرا گورا دوست اہل سیاست کا۔ گورا دوست اہل سیاست کل بھی غالب تھے آج بھی غالب ہیں۔ کل برطانیہ کے آج وہ امریکہ کے گماشتے ہیں۔ امریکہ امداد لوگوں کے نام پر دیتا ہے لیکن ہڑپ یہ کر جاتے ہیں۔ ملکی اور عوامی خون پی لینے کے بعد بھی ان کی ہوس کم نہیں ہوئ۔ وہ برطانیہ میڈ وامپاءر تھے یہ امریکہ میڈ وامپاءر ہیں۔ انصاف کل پرسوں ہی آزاد ہوا ہے وگرنہ یہ بھی ان وامپاءز کے دانت قریب رہا ہے۔ 

جمہوریت بھی تو امریکی لنکنیان ہے۔ اس کا بنیادی نعرہ تو دیکھیں

عوام کی حکومت
عوام کےلیے
عوام کے ذریعے

حالانکہ حکومت تو صرف اور صرف الله کی ہے۔ الله کی حکومت تو قرآن و سنت کے حوالہ سے قاءم ہو سکتی ہے۔ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اس جموریت نے کہاں تک عوام کی حکومت قاءم کی ہے۔ عوام تو روڑا کوڑا بھی نہیں رہے جو فصلوں کے کام ہی آ سکیں۔ غور کر لیں کماتےعوام ہیں ملک عوام کا ہے وساءل عوام کے ہیں۔ یہ عوام بد نصیب نہیں ہیں الله نے انہیں اس خطہ کے حوالہ سے بہت کچھ عطا کیا ہے لیکن لوٹ وہ رہے ہیں جن کا پہلے خدا برطانیہ تھا اب امریکہ ہے۔ وکیل قاتل کا بھی ہے مقتول کا بھی۔ قاتل کیوں نہیں تسلیم کرتا کہ میں قاتل ہوں۔ تقوی اور پریزگاری طاغوتی نظام ہا میسر نہیں کر سکتے یہ قرآن اور سنت ہی سے دل وجان میں جگہ پا سکتا ہے۔ امریکی خدا کے پیرو لوٹ مار کے بعد پاکستان جو ان کا ملک ہی نہیں‘ فرار ہوتے رہے ہیں' ہوتے رہیں گے ۔یہی آج کا کڑوا سچ ہے۔ جمہوریت کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں۔ کس پارلیمنٹ کی بات کرتے ہیں اس نے عوام کے لیے کب کبھی کوئ قانون بنایا ہے وہ تو اپنے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے کام کرتی آئ ہے اور یہی کچھ کرتی رہے گی۔ خدا انسان اور عوام دشمن قوتوں کو جمہوری پارلیمنٹ استثناء کی لعنت سے نوازتی رہے گی۔ بھری محفل تو دور کی بات‘ کوئ تنہائ میں بھی سوال کرنے کی جرات نہ کر سکے گا۔ مقتدرہ قوت شدادی و نمرودی شکتیوں سے سرفراز رہے گی۔ اس کے کیے اور کہے کو آءینی حق کا درجہ حاصل رہے گا۔ بزرگوں نے جس کاز کے لیے خون دیا تھا وہ موجودہ انداز واطوار سے حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اہل سیاست نے جن مقاصد کے لیے عوام کے خون سے ہولی کھیلی تھی وہ اس میں روز اول سے کامیاب ہیں۔ عوام اگر اپنے ابا واجداد کے مقاصد سے دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں ایک بار پھر آگ و خون کا دریا عبور کرنا ہو گا اگر نہیں تو موجودہ حالات پر گزرا کریں۔


باہوش بے ہوش‘ ملک دوست ملک دشمن‘ دیس بھگت غدار‘ ایماندار بے ایمان‘ امانت دار امانت خور‘ شریف بدمعاش کے ووٹ کی قیمت برابر ہے۔ بے جیبا باجیبا‘ دونوں الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں لیکن بےجیبا تو سیکورٹی فیس بھی ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اگر وہ بھی لوٹ مار ہیرا پھیری کو دھرم رکھتا تو بے جیبا نہ ہوتا۔ الیکشن لاکھوں کا نہیں‘ کروڑوں کا کھیل ہے۔ پیسے والے شرفاء شمار ہوتے ہیں لہذا یہ شرفاء کا شوق سمجھا جاتا ہے۔ بے جیبا اس سے دور رہتا ہے۔ وہ چار پانچ لمبی عمروں میں بھی دھنوان نہیں ہو سکتا۔ اگر اس کے باپ دادا بلکہ دادا پردادا غداری کرتے اور گورا حضور کے تلولے چاٹتے زیر ناف مردانہ آلات سہلاتے تو آج شرفا کی صف میں سر تان کر کھڑے ہوتے۔ اسٹیج پر کھڑے ہو کر لمبی لمبی چھوڑتے۔ منہ سے بھوک کا ناٹک کرتے لیکن تھلا اٹھا کر براءلر کی بو چھوڑتے۔ گویا یہ کھیل صرف اور صرف شرفا کا ہے۔ یہ شرفا خادم نہیں حاکم ہوتے ہیں۔۔

پڑھے لکھے اور اہل دانش کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ تو الیکشن ڈیوٹی پر پھاہے لگے ہوتے ہیں۔ انہیں الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہوتا ہاں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ حق ڈبے اور تھیلا اٹھائ کی نذر ہو جاتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آج تک بالا و زیرین عدالتوں کے ججز اساتذہ۔ معالجین‘ پولیس‘ رینجرز فوج کے بالا اور زیرین اہل کاروں اور منشی ہاؤس کے بڑے چھوٹے ملازمین کے ووٹ ڈالنے کا تناسب کیا رہا ہے؟ یقینا وہ اس ملک کے شہری ہوتے ہیں یا انہیں بھی شہری سمجھا جاتا ہے۔ درس گاہیں مقدس ہوتی ہیں انہیں شرفاء کے چناؤ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ناصرف معالج الیکشن ڈیوٹی پر بندھے ہوتے ہیں معالج گاہیں بھی اس طاغوتی عمل کا حصہ بنا لی جاتی ہیں۔ یہ فراڈ گویا انسانی زندگی سے بڑھ کر ضروری ہوتا ہے۔ 

کوئ سوال کرے آج تک کاسٹ ہونے والے ووٹس کا کیا تناسب رہا۔ جیتنے والے نے اپنے حلقہ کے کل ووٹس میں سے کتنے ووٹس حاصل کیے۔ اگر کوئ پوری ایمانداری سے حقاءق سامنے لے آءے تو اس لنکن ساختہ جمہوریت کی قلعی کھل کر سامنے آجاءے گی۔ میں کوئ نجومی نہیں اور ناہی علم جعفر سے میرا کبھی علاقہ رہا ہے طہارتی عمل کے باوجود کچھ نہیں ہو سکے گا۔ جمہور نے پاکستان کی تخلیق قرآن وسنت کی عمل داری سمجھا تھا۔ جمہوریت یہی ہو گی کہ عوام کی اس دیرانہ خواہش کو عملی شکل دے دی جاءے یا پھر جمہوریت کے نام نہاد نعرے کو شرفا کا چونچلا سمجھا جاءے۔

Aamir Liaquat Hussain Column "Had Guzarnay kay Bad Fahad ki Darkhast" published in Daily Jang Newspaper



حد گزرنے کے بعد فہدکی درخواست!...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین
وہ آٹھویں جماعت کا ایک کم سن طالب علم ہے ،اُس کی آنکھوں نے ابھی مسرتوں کے دل خوش کن نظاروں کو اوجِ شباب پر نہیں دیکھا ہے ،وہ عمر کے زینے کی جس سیڑھی پر اِس وقت کھڑاہے وہاں سے اونچائی بہت دور ہے،ایک طویل اور تھکادینے والا سفر اُسکے انتظار میں ہے سچ تو یہ ہے کہ اُسے زندگی کے معنیٰ بھی صحیح طرح نہیں معلوم بس گھر سے اسکول جانا ،ہمجولیوں میں گھل مل کر علم حاصل کرنا،پھر کچھ خواہشیں،کچھ فرمائشیں اورمعصوم شرارتیں گھر آکر اماں، ابا سے لاڈ کرنا، بہن بھائیوں سے ناز نخرے اُٹھوانا اِس کے سوا زیست کے اور دوسرے رنگوں سے اِس کی پہچان ہی کہاں ہوئی ہے ؟ٹی وی،پی ایس پی،ویڈیو گیمز اور کبھی کبھار گھر والوں کے ساتھ کسی تفریحی مقام کی سیریا فلم دیکھنے کیلئے چلے جانا،یہی اِس کی کل کائنات ہے یہ دیگر بچوں کی طرح روٹھتا بھی ہے اور منائے جانے پر مان بھی جاتا ہے ، سب کی طرح اِس کی آرزو بھی یہی ہے کہ دن امن وچین میں گزریں اور راتیں خوش حالی میں بسر ہوں، دوسری کونپلوں کی طرح اِسے بھی یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ شام تک اُس کے ابا جان سلامت گھر آجائیں گے نا!کوئی ٹارگٹ کِلر، لٹیرا، بھتہ خور، دہشت گرد اور اغواکار اُن کا شکار تو نہیں کرے گا نا!کیونکہ اُسے بھی اپنے ابا سے بہت پیار ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ابا کی ڈانٹ سے اُسے کوئی محروم نہ کرے وہ ایک ایسے حساس دل کا مالک ہے جس میں احساس کی نہ ختم ہونے والی کانیں ہیں، اِتنی سی عمر میں دوسروں کی فکر اور اُن کے دکھوں کے خیال نے اُسے وقت سے پہلے ہی بوڑھا کردیا ہے اب اُسے کھلونوں کی نہیں بلکہ کھلے ہوئے چہروں کی ضرورت ہے ،انعام کی نہیں،امان کی چاہ ہے وہ واقعی ”بچپن کی ضد “ یعنی ”بڑھاپا“ بن چکا ہے ،منتخب اراکین اسمبلی سے بہتر سوچتاہے ،وزراء سے زیادہ محبِ وطن ہے اور افواجِ پاکستان سے بڑھ کر قربانی کا جذبہ رکھتاہے۔
یہ ہے کون؟ آٹھویں جماعت کا ایک ایسا ہونہار طالبعلم جس نے اپنے تئیں تو ایوانِ اقتدار کے درودیوار ہلا دیئے ہیں لیکن کیا کیجئے کہ وہاں کے مکین فطری طور پر زلزلوں کے پشتی عادی ہیں، وہ تو پوری قوم کو ہی ”آفٹر شاکس“ قرار دیتے ہوئے احتجاج و چیخ پکار پر کان دھرنا تو درکنار،نظر بھر کے دیکھنا بھی اپنی شان کے برخلاف سمجھتے ہیں ایسے میں پریس کلب کے باہر ایک بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود فہد امجد کی بھوک پیاس سے اُنہیں کیا لینا دینا؟یہ تو خود مدتوں سے ایسے بھوکے پیاسے ہیں کہ عوامی توقعات کی ہانڈی میں کل ہی بجٹ کا کفگیر ڈال کر اپنی اپنی پلیٹیں بھرلینے کے باوجود ہم سے مزید نوالوں کے متمنی ہیں فہد امجد اگلے پانچ برس تک بھی یوں ہی بیٹھا رہے اِن معروفوں اور مصروفوں کو کوئی فرق نہیں پڑتااور پھر فہد امجد کا مطالبہ بھی تو اقتدار کے کلیجے کو جلا بھنا دینے کیلئے کافی ہے کیاضرورت تھی اِس غریب وطن پرست کو ملک کے ”عجیب صدر“ اور ”نویلے وزیراعظم“ سے یہ التجا کرنے کی کہ ”زرداری انکل! اور نواز شریف انکل! میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ نے چاہا تو میری عمر اتنی زیادہ تو ہوگی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جگہ اُن کی سزا میں پوری کر لوں لہٰذا آپ صرف اتنا کر دیجئے کہ اوباما صاحب سے کہہ کر مجھے ڈاکٹر عافیہ کی جگہ بھجوا دیجئے اور اُنہیں بتا دیجئے کہ عافیہ صدیقی کی باقی سزا پوری کرنے کے لئے میں دل سے تیار ہوں نوازشریف انکل! اگر امریکہ کو ڈاکٹر عافیہ کے بدلے میں کوئی قیدی درکار ہے تو آپ پلیز مجھے امریکہ کے حوالے کر کے ڈاکٹر عافیہ کو جلد از جلد پاکستان واپس لانے کا انتظام کیجئے“۔
بھلا بتائیے ہے کوئی تُک؟کن لوگوں سے کیا مانگ بیٹھاہے ہمارا فہدجو قوم کو ملک میں موجود بجلی نہیں دے سکے وہ امریکہ میں مقید عافیہ کہاں سے لائیں گے ؟مگر بچہ بھی کیا کرے بے چارہ انتخابی تقاریر اور وعدوں کو سچ سمجھ بیٹھا، شاید اُسے سارے لیڈر اپنے ٹیچرز کی طرح لگتے ہوں گے اور جب ہی اُس نے سوچ لیا ہوگاکہ پاکستان ایک کلاس روم کی طرح ہے ،عوام اسٹوڈنٹس اور لیڈرز ٹیچرزجس طرح ٹیچرز وہی پڑھاتے اور سمجھاتے ہیں جو کتابوں میں لکھا ہوتا ہے اِسی طرح لیڈرز بھی وہی کہتے ہیں جو وہ ہمارے لئے کرنا چاہتے ہیں…اور اِسی اُمید پر وہ صدر صاحب سے چاند مانگ بیٹھا…ابھی بچہ ہے نا اِسی لئے یہ بات عقل میں نہیں سما سکی کہ اگرخدانخواستہ چاند”اُن“ کی دسترس میں ہوتا تو آسمان میں نہ ہوتا بلکہ سوئس بینک کے کسی اکاؤنٹ میں کبھی پورا ہوتااور کبھی آدھا…لیکن ہوتا محفوظ…کیونکہ اُسے کبھی گرہن نہیں لگتا…فہد ابھی چھوٹا ہے لیکن اُس نے اپنے جذبے کے اظہار سے کئی بڑوں کو لمحے بھر میں چھوٹا کردکھایاکہتے ہیں کہ اسمبلیاں”دردرکھنے والوں“ سے بھری پڑی ہیں مگر افسوس کہ غمِ عوام میں تیزی سے پھیلتے، پھلتے اور پھولتے اراکین میں سے کوئی ایک بھی فہد امجد جیسا نہیں ہے ،وزیراعظم سے لے کر اُن کی کابینہ کے بزرجمہروں تک شاید کسی کو خبر بھی نہیں ہے کہ امریکی جیل میں قید عافیہ صدیقی پر شدیدحملہ ہوا ہے ،وہ زخمی ہیں،کئی گھنٹوں تک بے ہوش رہی ہیں اور یہی تشویشناک اطلاعات سننے کے بعد فہد سے نہ رہا گیا اور اُس نے اپنے دونوں ”انکلز“ سے یہ درخواست کر ڈالی کہ عافیہ کے بدلے اُسے امریکہ بھجوا دیا جائے…اب اُسے کیا معلوم تھا کہ اُن میں سے ایک”انکل“ نے تو پانچ برسوں سے یہ قسم کھا رکھی ہے کہ لوگوں کے مصائب اور پریشانیوں کو دور کرنا تو کجا اُن سے لمحہ بھر آشنائی بھی حضوروالا پر حرام ہے …”مقدر کے سکندر“ کی طرح اُن کے زیرلب بھی یہی گیت رہتا ہے کہ ”روتے ہوئے آتے ہیں سب، ہنستا ہوا جو جائے گا…وہ مقدر کا سکندر ،جانِ من !کہلائے گا“اور اِسی کو نسخہ، وظیفہ اور علاج سمجھ کر وہ صرف مسکراتے رہتے ہیں کیونکہ اب تو ویسے بھی ”جانے کی گھڑی“ قریب آگئی ہے …رہے ”دوسرے انکل“تو وہ انتخابات کے بعد سے مسکرانا ہی بھول گئے ہیں،اللہ جانے اُنہیں کون سا غم اندر ہی اندر کھا رہا ہے …خبریں رکھنے اور سنانے والے کہتے ہیں کہ ”عوام کے دکھوں نے اُن سے اُن کی مسکراہٹ چھین لی ہے“ اگر یہ وجہ درست ہے تو پھر تو ڈار جی کو اپنے وزیراعظم کا چہرہ دیکھ کر بجٹ بنانا چاہئے تھا،مجھے لگتاہے کہ بجٹ تقریر لکھتے ہوئے شاید اُن کے سامنے صدر مملکت کی تصویر تھی یاتصورات کی پرچھائیوں میں اُنہی کا مسکراتا چہرہ…جب ہی تو ٹیکسوں کا اِتنا خوبصورت اِتوار بازار سجایا گیا ہے …لوگ خواہ مخواہ اِس فکر میں پریشان رہتے تھے کہ دوپہر اور رات کا کھاناکیسے کھائیں گے ؟اِس بجٹ نے اُنہیں داتا دربار،سیلانی دسترخوان اور دیگر مزارات کا راستہ دکھا دیا ہے جہاں دو وقت کا کھانا مفت ملتا ہے اور عزت سے کھلایا جاتا ہے …لیجئے! میں بھی کہاں نکل گیا…سچ تو یہ ہے کہ کم سن فہد امجد کی یہ قدآور آرزو حب الوطنی کے ٹھیکے داروں کے رخسار پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے …ایک وقت تھا کہ ہمارے حکمرانوں کے بس میں سب کچھ تھا، وہ چاہتے تو عافیہ صدیقی اپنی باقی ماندہ سزا پاکستان میں پوری کرسکتی تھی،وہ چاہتے توریمنڈ ڈیوس کے بدلے میں ہی ہم اُسے واپس لے آتے (میں جانتا ہوں کہ یہ ایک مفروضہ ہے مگر مفروضے ہی فارمولے بنتے ہیں) لیکن اُنہوں نے عصمت صدیقی کو سوائے جھوٹی تسلیوں کے اور کچھ نہیں دیا۔البتہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے فہد امجد کے بس میں جو تھا وہ اُس نے کردکھایا،وہ حاکم ہے نہ وزیر، جرنیل ہے نہ سفیر…صرف ایک عام پاکستانی بچہ ہے اور ایک عام پاکستانی بچے نے دنیا بھر کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ”ہماری عافیہ ہمیں لوٹادو! تم انصاف پسندوں نے اُسے جو سزا سنائی ہے اُسے پورا کرنے کیلئے کسی کا بچہ ہونا بہت ضروری ہے۔ 86برس کی سزا38سال کی عورت کیسے بھگت سکتی ہے؟اِس کے لئے تو 8سال کاایک بچہ چاہئے جس پر شاید یہ اُمید باندھی جاسکتی ہو کہ وہ 51برس تک جی سکے گا“…!!!



آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِ اعظمؒ

آ دیکھ ذرا رنگِ چمن قائدِ اعظمؒ
بے رنگ ہوئے سرو و سمن قائدِ اعظمؒ

تنظیم و اخوّت ہے نہ اب عزم و یقیں ہے
ہم بھول گئے عہدِ کُہن قائدِ اعظمؒ

گلشن کی تباہی کا سماں پیشِ نظر ہے
اُڑتے ہیں یہاں زاغ و زغن قائدِ اعظمؒ

بخشا تھا جسے تُو نے اُجالوں کا لبادہ
اُس قوم نے اوڑھا ہے کفن قائدِ اعظمؒ

پاکیزہ سیاست نہ امامت رہی باقی
دنیا بھی ہے فن ‘دین بھی فن قائدِ اعظمؒ

’شاہیں کے لیے موت ہے کرگس کی غلامی'
ہے زار و زبوں ارضِ وطن قائدِ اعظمؒ

وہ رنگ دکھائے ہیں نئے شیشہ گروں نے
پردیس بنا اپنا وطن قائدِ اعظمؒ

تو نے ہمیں بخشی تھی جو آزادی کی دولت
ہم نصف لُٹا کر ہیں مگن قائدِ اعظمؒ

یہ زخم بھرے گا تو عدو کے ہی لہو سے
زخمی ہیں عساکر کے بدن قائدِ اعظمؒ

کیا تجھ سے کریں گردشِ افلاک کا شکوہ
کھانے لگی سورج کو کرن قائدِ اعظمؒ

اَشکوں کا تلاطم ہے یہاں میرے چمن میں
اُمڈے ہیں وہاں گنگ و جمن قائدِ اعظمؒ

اصنام پرستوں کے لیے صبحِ مسرّت؟
واصف کے لیے رنج و محن قائدِ اعظمؒ

______________________________

حضرت واصف علی واصف ؒ کے شعری مجموعہ ”شب چراغ“ سے انتخاب

سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں


کل ہی کی بات ہے‘ میں کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ گھروالی چاءے لے کر نازل ہو گئ۔ مجھے سوچ میں ڈوبا میں ڈوبا ہوا دیکھ کر بولی “کیا بات ہے خیر تو ہے‘ کس سوچ میں ڈوبے ہوءےہو؟!"
"
نہیں کوئ ایسی خاص بات نہیں"
"
پھر بھیمجھے اپنی پنشن کے بےبابائ ہونے کے سبب پنشن آڈر میں کیڑا بھرتی کرنے کا تذکرہ اچھا نہ لگا۔ ہر روز ایک ہی راگ سن کر کان پک جاتے ہیں۔ دوسرا اس نے مجھے ہی جھوٹا کرنا تھا۔ جب رشوت اصول اور ضابطہ بن گئ ہو تو حاجی ثناءالله بننے کی کیا ضرورت ہے۔ اصول اور ضابطے سے انکار موت کو ماسی کہنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی کہ اصلاح اور بہتری جو کسی کی معدہ کشی کا سبب بنتی ہو جرم کبیرہ سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ دوسرا میرے اپنے حوالہ ہی سے سہی‘ اصلاح اور بہتری کا ٹھیکہ میں نے کیوں لے رکھا ہے۔ یہ حاکم کا کام ہے‘ وہ کرے نہ کرے‘ مجھے اس سے کیا۔ میرے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھتے ہیں۔ اس میں کسی اور کو ٹانگ زنی کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں تو لوگ اپنا کام ایمانداری تو بہت دور کی بات بددیانتی سے کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لہذا مجھے نہایت فرمانبرداری سے زر رشوت ادا کرکے کام نکلوا لینا چاہیے تھا۔ اب اپنی کرنی کی بھگتوں۔ایک ہی با ت پر ایک ہی انداز سے بےعزاتی کروانا سراسر بدذوقی تھی۔ کم از کم انداز اور ذاءقہ تو بدلا جانا چاہیے۔ ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھا جا سکتا ہے۔ اچانک ایک نئ با ت میرے ذہن میں آئ۔ میں نے اس کے سوال کے جواب میں عرض کیا“ کوئ بہت گڑبڑ میرے اندر چل رہی ہے۔"
"
کیوں کیا ہوا؟"
"
اب عینک سے دھندلا نظر آتا ہے اور بغیرعینک کے تو کچھ نظر آتا ہی نہیں"
"
میں تو پہلے ہی کہتی ہوں تمہارے سر میں دماغ نام کی چیز ہی نہیں"
کیا بکواس کرتی ہو“ میں نے جعلی غصہ دیکھاتے ہوءے کہا۔
"
ہاں ٹھیک کہتی ہوں"
"
خاک ٹھیک کہتی ہو"
"
ارے میں کب کہتی ہوں تمہارے دماغ میں گڑبڑ ہے‘ دماغ ہوگا تو ہی گڑبڑ ہو گی۔"
"
یہ کیا پہلیاں بھجوا رہی ہو‘ صاف صاف کہو"
"
جاؤ جا کرعینک کا نمبر بدلو"
"
میں نے پکا سا منہ بنا کرکہا ارے یہ بات تومیرے ذہن میں ہی نہیں آئ۔ تم جینیس ہو واہ واہ"
"
مروں گی تو تمہاری آنکھیں کھولیں گییہ کہہ کر وہ چلی گئ۔ چاءے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔اس واقعے کے بعد اس کی ذہانت کی دھاک پورے خاندان میں بیٹھ گئ تاہم اصل بات کسی کی سمجھ میں نہ آ سکی۔ نظر مفت میں تو ٹیسٹ نہیں ہوتی اگر ہو بھی جاءے تو رکشے والامیرا پھوپھڑ تو نہیں جو مفت میں دوکانوں پر لے جاتا پھرے گا۔ اگر گرہ میں مال ہوتا تو اپنی گروی پڑی پنشن حاصل نہ کر لیتا۔ میں اصل پریشانی کسی کو بتا کر اس تماشے کا مزا کرکرا نہیں کرنا جاہتا۔ ہاں البتہ اپنی گھروالی کی ذہانت کی بانگیں دیتا پھرتا ہوں۔آج ملک عزیز میں سیاسی تناؤ کی فضا ہے۔ گریب گربا کا اس میں کوئ ہاتھ نہیں اور ناہی وہ اس سے کوئ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھیں صرف بھوک پیاس سے خلاصی کی فکر لاحق ہے جس سے چھٹکارے کی سردست کوئ صورت نظر نہیں آتی۔ سیاسی فضا گرم ہو یا سرد‘ انھیں تو بھوک پیاس میں دن رات کرنا ہیں۔ اس مسلے کو دیکھنے کے لیے کبھی کس عینک کا استمال نہیں کیا گیا۔ اس مسلےکے لیے عینک بنائ یا بنوائ ہی نہیں گئ اورناہی ضرورت محسوس کی گئ ہے۔ ہر کسی کی سوچ اپنی ذات تک محدود رہی ہے لہذا عینک کے نمبر بڑھنے یا گھٹنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ہاں البتہ حصولی اقتدار کے لیے اکھاڑ پچھاڑ ضرور ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے۔پہلےپہل دو تین اخبار اور ریڈیو آگہی کی کل بساط تھی۔ بی بی سی کا شہرا تھا۔ آگہی کی کمی کے باعث اتنی بےچینی نہ تھی۔ حکمران عوام سے اور عوام حکمرانوں سے اور ان کی کار گزاری سے بےخبر تھے۔ بےخبری کے سبب توازن کی صورت موجود تھی۔ آج بےخبری یکطرفہ ہے۔ عوام حکمرانوں سے باخبر ہیں لیکن حکمران عوام سے بے خبر ہیں۔ پہلے وقتوں میں سیاسی ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے‘ کؤئ نہیں جانتا تھا لیکن آج میڈیا کے حوالہ سے معمولی سے معمولی بات گلیوں میں گردش کرنے لگتی ہے۔ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات سیر کی سوا سیر بن جاتی ہے۔بھولے بھالے سیاسی لوگ آج بھی پرانے نمبر کی عینک استمال میں لا رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی عینک کا نمبر بڑھ گیا ہے۔ کمزور گرہ کے لوگ پرانے نمبر کی عینک استمال کریں‘ یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ لوگ تو جھٹ سے نءے نمبر کی عینک خرید سکتے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر کچھ بھی خریدا جا سکتا ہے۔ یہ تو عوام کے تابعدار ہیں اور ان کے درمیان گریب بلکہ مقروض صورت بنا کر جاتے ہیں۔ ان بےچاروں کی گرہ میں ذاتی کیا ہے سب کچھ پرایا ہی تو ہے۔سیاست کا ہنر دیگر تمام ہنروں سے زیادہ مشکل ہے۔ قدم قدم پر مشکلوں اور آزماءشوں کے کانٹے بکھرے رہتے ہیں۔ چاروں اور خطرے کے بادل امڈے رہتے ہیں۔ ایسے میں جان اور ووٹ خوری کے لیے جھوٹ اور لایعنی وعدوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ خود کو اچھا اور دوسروں کو برا کہنا سیای اخلاقیات کی مجبوری ہوتی ہے۔ پیٹ بھر کھا کر بھوک کا ناٹک کرنا پڑتا ہے۔ چاروں یکے ہاتہ میں رکھنے کی سعی کرنا پڑتی ہے۔ گو کہ بےنمبر پتوں کو بھی بطور ٹیشو پیپر رکھنے کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ بےنمبر دکی کی سر اگر اتفاقا یا تقدرا کسی پچھڑے سیاستدار کے ہاتھ لگ جاءے توملال باکمال دیدنی ہوتا ہے۔ داؤ پر قوم اور اس کے اثاثے لگتے ہیں۔ جیت ہوئ تو پرایا مال اپنا ہوتا ہے۔ مات ہوئ تو لفظ داھندلی تسکین بخش روح افزا بن جاتا ہے۔ وہ مظلومیت کی جیتی جاگتی تصویر بن کر سامنے آتے ہیں اور گھر کی کھانا نہیں پڑتی۔سیاستداروں کےاثاثوں کی بات زوروں پر رہی ہے۔ ان کے اثاثوں کی بات کرنا سراسر ظلم ہے‘ زیادتی ہے۔ یہ گریب اور مسکین لوگ ہیں۔ جب تک پاکستان کے سارے کے سارے اثاثے ان کے اپنے نہیں ہو جاتے‘ ان کی گربت ختم نہیں ہو سکتی۔ خوشحال عوام کو ملکی قرضوں کی ادءگی میں زندگی گزارنا ہو گی۔ بات کرنی ہے تو تاجروں اور مہامنشی ہاؤس کے لوگوں کے مقینوں کی جاءے۔ پہلے طبقے کے لوگوں کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ انکم ٹیکس والے ان کے دکھنے والے دانتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ثانی الذکر طبقہ خود محتسب اورہر قسم کے احتساب سے بالاتر ہے۔ آج گریب لوگوں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ بالا طبقے کے خسارے اور قرض کو چکایا جا سکے۔ اس طرح وہ لوگوں کے نجی وساءل کو بھی بخوبی ہاتھ میں کر سکیں گے۔ میری یہ گزارش سیاست کی پرانی عینک کی زد میں نہیں آسکے گی۔ اس لیے سیاسی عینک کا نمبر تبدیل کرنے سے ہی سیاسی دھندلاہٹ ختم ہو سکے گی۔

معاشرہ محنت اور ذہانت کے تحت ترقی کرتا ہے


میںاس امر کا بار بار اظہار کر چکا ہوں کہ برصغیر کے لوگ بلا کے ذہین اور محنتی ہیں۔ کچھ گربت کے سبب تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور ان کی بچپن ہی سے ذہانت ہوٹلوں کے برتن دھونے میں ضاءع ہو جاتی ہے۔ کچھ سردیوں کی سرد راتوں میں گرم انڈے فروخت کرتے کرتے جوان ہو کر معاشرے کی بےحسی کا ثبوت بن جاتے ہیں۔ بڑی کرسیوں پر برجمان اپنی عیش وعشرت کا سامان بہم کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ انھیں کسی کے دکھ درد اور بھوک پیاس سے کوئ غرض نہیں ہوتی۔ اربوں جمع کرکے بھی مزید کی ہوس ان کا نصیبہ بن جاتی ہے۔
یہ معاشرے کے اپنے بچے ہیں۔ معاشرہ ان کی محنت اور ذہانت کے تحت ترقی کرتا ہے۔ بڑی کرسی والے خود غرض سہی معاشرے کو انھیں ہر حال میں سمبھالا دینا چاہیے۔ اہل ثروت یہ دیکھتے ہیں کہ انھیں اس سے کیا فاءدہ ہو گا۔ انھیں فاءیدہ نہ سہی' دیکھنا یہ ہے کہ ان سے معاشرے کو کیا فاءدہ ہو گا۔ ذہانت کو واپسی ملنے والے فاءدہ کے ترازو پر رکھا جاءے گا تو بات نہیں بن سکے گی۔ اس معاملے کو یوں بھی لیا جا سکتا ہے کہ یہ خوشحال ہوں گے تو ان کی قوت خرید بڑھے گی۔ قوت خرید بڑھنے سے تاجر حضرات کے کھیسے بھریں گے۔
جو بچے ٹیکنیکل کاموں کی طرف چلے جاتے ہیں اپنی فطری ذہانت کے بل بوتے پر حیرت ناک کام سرانجام دیتے ہیں لیکن ان کی ذہانت گوشہ ء گمنامی کا شکار رہتی ہے۔ ان کی کوئ حوصلہ افزائ نہیں ہو پاتی۔ اس کے دو نتیجے برآمد ہوتے ہیں
:اول۔ بھوک و پیاس اور حالات کی تنگی ترسی برداشت کرتے کرتے مر کھپ جاتے ہیں۔
دوم۔ مجبورا غربت اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی ذہانت سے غیر والایتوں کے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔
ٹی وی کی خبروں کے مظابق ایک صاحب نے پانی سے گاڑی چلا دی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائ کرنے کی بجاءے مذاق اڑایا جا رہا ہے اسے فراڈ کہا جا رہا ہے اور یہ بڑے ہی دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ آخر اس میں فراڑ والی کیا بات ہے۔ فراڈ قرار دینے والے جواب دیں بجلی کس سے بنتی رہی ہے۔ ریلوے کے بڑے کالے انجن کس سے چلتے تھے بھاپ سے اور بھاپ کس سے بنتی ہے پانی سے۔ اگر اس نے محنت کرکے اور بھیجے کا استعمال کرکے ایسی کٹ بنا لی ہے جو پانی سے نکلتی بھاپ کو انرجی میں کنورٹ کرکے گاڑی چلا دی ہے یا اس کٹ کے ذریعے بجلی حاصل کرکے گاڑی چلا دی ہے تو مجھے تو اس میں فراڈ والی کوئ بات نظر نہیں آتی۔
کہا گیا ہے یونیورسٹی کے پروفیسروں سے حق سچ کی مہر ثبت کراءیں گے۔ اگر وہ اتنے لاءق پتر ہوتے تو بہت پہلے یہی چیز تیار کر چکے ہوتے۔ یونیورسٹی کے پروفیسروں کے پاس اتنا وقت کہاں ہے۔ ان بےچاروں کو تو جوان کڑیوں سے ٹھرک جھاڑنے سے فرصت نہیں۔ اسکول ماسڑ اور کالج کے پروفیسر نہ ہوں تو ایجوکیشن کا منشی کدہ تعلیم کو کب کا دریا برد کر چکا ہوں۔ سروے کروا دیکھیں
تحقیق و تلاش کا سارا کام کالج کے پروفیسر نے ہی کیا ہے۔ ڈگری کے لالچ کے بغیر یہ لوگ کام کر رہے ہیں حالانکہ انھیں اس مغز ماری کے حوالہ سےکبھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔
کیا پانی سورس آف انرجی نہیں ہے۔ اگر ہے تو حوصلہ شکنی کے کیا معنی لیے جاءیں۔ اس سے کمشن کے گلچھرے ختم ہو جاءیں گے۔ پڑول اور گیس کی قیمتوں میں ہر دوسرے روز اضافے کی موجیں ختم ہو جاءیں گی۔ یقینا عیش وعشرت کی دنیا میں بھونچال آجاءے گا۔ پانی ہر قسم کی گیس ہوا بھاپ ریت کچرا دھوپ گوبر دھواں جانوروں کا پیشاب ہڈیاں وغیرہ انرجی کا ذریعہ ہیں۔ ان چیزوں سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر قدیر زندہ ہیں ان سے دریافت کر لیں۔ دراصل تڑپنے پھڑکنے کا نظارہ کرنے والوں کے یہ وارہ کی چیزیں نہیں ہیں۔ لوگوں کو اذیت دے کر انھیں مزا آتا ہے۔
 آپ کو یہاں کا بابا آدم ہی نرالہ نظر آءے گا۔ پہلی سے انگریزی کی تعلیم شروع کر دی ہے۔ اتنی مشکل کتابیں ہیں کہ دسویں پاس بھی انھیں پڑھ نہیں سکتا ہے۔ اس حوالہ سے انگریز کی ٹی سی تو ہو جاءے گی لیکن نسل کا بیڑا غرق ہو جاءے گا۔ کیا ان کو اباما کی کرسی پر بیٹھانا ہے؟
اسی طرح میٹرک میں حساب میں پاس ہونا کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ کیا آرٹس کے بچوں نے آڑھت یا کسی بنیک میں اکاؤنٹنٹ بننا ہے۔ جغرافیہ جو بڑی لازمی چیز ہے لایعنی سا ہو گیا ہے۔ انگریزی اور حساب لازمی قرار دے کر کھیسے تو بھرے جا سکتے ہیں لیکن نوجوان نسل کو ناکارہ کیا جا رہا ہے۔ ان دونوں مضموں کو آپشنل ہونا چاہیے۔ جو پڑھے گا شوق سے پڑھے گا اور قوم وملک کے لیے کار آمد ثابت ہو گا۔
آخر میں قارءین سے گزارش ہے کہ وہ اس ذہین شخص کی زندگی کی دعا مانگیں کیونکہ جو گرہ کا دشمن ہوا ہے اس کے پاسے باخیریت نہیں رہے۔

اکڑی گردن اور تَنا سینہ۔یہ کیسا مجرم ہے ؟...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین

عراق کے شمالی حصے میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک مشہور شہر موصل آباد ہے، پُرانے وقتوں میں بڑے بڑے تجارتی قافلے موصل شہر سے ہوکر گزرا کرتے تھے، اُن دنوں شام بھی عراق ہی کا حصہ کہلاتا تھا یا یوں کہہ لیجئے کہ عراق شام میں شامل تھا کیونکہ ابھی تک سرحدوں کا تعین نہیں کیا گیا تھا لہٰذااِن دونوں حصوں میں رہنے والے افراد آزادانہ اور بلاروک ٹوک ایک دوسرے کے علاقوں میں چلے جاتے تھے اور اِسی سبب موصل اور حلب تجارت کے بڑے مراکز کے طور پر معروف تھے…یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حلب میں مویشیوں کی بین الاقوامی منڈیاں لگا کرتی تھیں اور دنیا بھر سے مویشیوں کی تجارت کرنے والے اپنے مویشیوں کے ساتھ حلب میں جمع ہوتے تھے جہاں بہترین سودے پایہٴ تکمیل تک پہنچتے تھے…چنانچہ موصل کے ایک مشہور تاجر نے حلب کا رُخ کیا،وہیں ایک سرائے میں قیام کیا ،اپنے مویشی فروخت کئے اور واپس اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گیا … لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ حلب کے رئیس کا ایک بگڑا ہوا چراغ اُس کے سامانِ سکون کو آگ لگانے کے درپے ہے…یہ نوجوان کافی دیر سے تاجر کے پیچھے لگا ہوا تھا اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا تاکہ اُسے لوٹ کر اپنے جنون، وحشی پن اور احساسِ برتری کو اطمینان دلا سکے …اور پھر اُسے موقع مل ہی گیا…تاجر، آبادی سے دور نکل کر ایک درخت کے نیچے کچھ دیر سستانے کے لئے جیسے ہی رُکا،نوجوان نے اُس پر دھاوا بول دیا،اُسے زمین پر گرانے کے بعد دودھاری خنجر اُس کی گردن پر رکھا اور مطالبہ کیا کہ ”تیرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ میرے حوالے کردے“…بے چارے تاجر نے بہت شور مچایا، ماہی بے آب کی طرح تڑپا، مدد کے لئے آوازیں دیں مگر ویرانہ بھلا کسی کی کیا مدد کر سکتا ہے ، ویرانے تو خود آبادی کے منتظر رہتے ہیں لہٰذا مرتا کیا نہ کرتا اُس نے اپنا سارا مال سینے پر چڑھے”شوقیہ لٹیرے “کے حوالے کردیا اور اُس سے التجا کی کہ اب وہ اُسے چھوڑ دے … مگر…نوجوان کے دماغ پر قابض ابلیس کچھ الگ ہی تانے بانے بننے میں مصروف تھا، اُس کی درندگی کی پیاس اُس وقت تک نہیں بجھ سکتی تھی جب تک کہ وہ تاجر کو ذبح نہ کر دیتا، تاجر نے بہتیرے ہاتھ جوڑے، رویا، اپنے بیوی بچوں کا واسطہ دیا، منت سماجت کی، گھر پہنچ کر اور مال دینے کا وعدہ کیا لیکن ظالم نے کچھ دیر تلک اُس کی بے بسی کے مزے لینے کے بعد بالآخر اُس کے گلے پر خنجر رکھ دیا…تاجر نے آخری مرتبہ چاروں اطراف نگاہ دوڑائی لیکن منظر ساکت تھاکہ گویا تماشے کے انتظار میں ہو،البتہ اُس کی بے چین نگاہوں نے اُسی درخت کی ایک شاخ پر کہ جہاں وہ سستانے لیٹا تھا دوکبوتروں کو دیکھ لیا اور اپنے گلے پر خنجر کی جاں لیوا دھار کے ساتھ یہ آخری الفاظ ادا کئے کہ”اے کبوترو! گواہ رہنا“۔
نوجوان اُسے قتل کرنے کے بعد اُس کے سینے سے اُٹھا اور مُردہ جسم کو لات مارتے ہوئے کہنے لگا”اے کبوترو! گواہ رہنا“اور پھر دیر تک قہقہے لگاتا رہا…وہ بار بار کہتا کہ ”اے کبوترو! گواہ رہنا“ اور ہنس ہنس کر دہرا ہو جاتا کہ جیسے مرنے والے نے جاتے جاتے اُسے کوئی لطیفہ سنا دیا ہو…دوسری جانب تاجر کے اہلِ خانہ، رشتے دار اور دوست احباب اُس کے یوں اچانک گم ہوجانے سے حد درجہ پریشان ہوگئے،موصل میں اُس کے دوستوں نے باقاعدہ ایک مہم چلائی کہ کسی طور اُس کا سراغ مل سکے اور اِسی مہم کے نتیجے میں اُنہیں یہ معلوم ہوگیا کہ موصل کے قریب اور حلب سے دور ایک ویرانے میں کسی نامعلوم شخص نے بڑی بے رحمی سے تاجر کو قتل کر کے اُس کا سارا مال اسباب لوٹ لیا تھا اور بعد میں اُسی راستے سے گزرنے والے بعض مسافروں نے لاوارث نعش دیکھ کر اُسے وہیں دفنا دیا تھا…دوستوں اور رشتے داروں نے یہ روح فرسا خبر سننے کے بعد قاتل کی گرفتاری کے لئے زمین آسمان ایک کردیا،حاکم شہر کو خط لکھے،قاضی سے نوٹس لینے کی اپیل کی، کوتوالانِ موصل و حلب سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی درخواستیں کیں مگر سب بے سود!…وقت گزرتا رہا اور گزرتا ہی چلا گیا، کئی برس بیت گئے،حاکم بدل گئے، والی گزر گئے، قاضی ملک عدم سدھار گئے اور دوست احباب بھی صبر کر کے بیٹھ گئے…آہستہ آہستہ سب اِس سانحے کو بھول گئے البتہ ایک شخص آج تک اِس واردات کو نہیں بھولا تھا اور وہ یقینا وہی قاتل تھا جس نے اُس مظلوم تاجر کا لہو بہایا تھا…وہ جب بھی کبوتر یا اُن کے جوڑے کو دیکھتا اُسے مقتول کے آخری الفاظ یاد آجاتے کہ ”اے کبوترو! گواہ رہنا“۔ایک دن اُس کے باپ نے دعوت کا اہتمام کیا، باپ چونکہ امیر کبیر اور اثرورسوخ والا تھا اِسی سبب شہر کے جانے مانے افراد،اعلیٰ حکام، رئیس، امراء، وزراء اور تجار بڑی تعداد میں شریک ہوئے…دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے چنے ہوئے تھے، بگڑے ہوئے رئیس زادے نے ایک طبق سے ڈھکن اُٹھایا تو بھنے ہوئے کبوتروں نے اُس کی نظروں کا استقبال کیا،آنِ واحد میں درخت،اُس پر بیٹھے دوکبوتر اور تاجر کی لاش ایک منظر کی طرح اُس کے سامنے گھومنے لگے ،نہ جانے اُسے کیا ہوا کہ اُس نے یکدم ہذیانی انداز میں ایک بلند قہقہہ لگایا جس نے محفل کو اُس کی طرف متوجہ کر دیا…لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے کہ اِسے اچانک کیا ہو گیا ہے ؟لیکن وہ تھا کہ بس ہنسے جارہا تھا، یکایک اُس کی ہنسی رکی اور ایک غیر مرئی قوت نے اُس کی زبان کھلوادی، اُس نے بھنے ہوئے کبوتروں کی طرف اشارہ کیا اور بڑے فخر سے اپنے ہاتھوں کئے گئے ایک بے بس کے قتل کا قصہ سنانے لگا، محفل میں موجود افراد پھٹی آنکھوں اور متعجب سماعتوں سے اُس کے اعترافِ جرم کے گواہ بن گئے…جیسے ہی وہ قصہ سنا کرتھما تو اُسے ایک جھٹکا لگا جیسے کسی نے اُس سے کہا ہو کہ ”بے وقوف! یہ تُو نے کیا کرڈالا! جس قصے کو لوگ بھول چکے تھے،فائلیں بند ہوگئی تھیں، واقعہ دَب گیا تھا تُو نے اپنی بَک بَک سے سب کو اِس راز میں شریک کرلیا“…مگر اب ہو بھی کیا سکتا تھا،الفاظ تو ادائیگی سے پہلے انسان کے غلام ہوتے ہیں ،ادا ہونے کے بعد تو انسان اُن کا غلام بنتاہے چنانچہ کچھ ہی دیر میں حلب میں یہ واقعہ زبان زدِ عام تھا، قاضی القضاة کو بھی اِس ”اعتراف“ کی اطلاع مل گئی اور اُس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حاکم کو حکم دیا کہ مظلوم تاجر کے قاتل کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے…مقدمہ چلا…دعوت میں شریک لوگوں کو گواہی کے لئے بلوایا گیا، انکار کی جرأت کسی میں نہ تھی…حلب کا حاکم کہتا تھا کہ ”میں گواہ ہوں“…قاضی نے کہا ”میں نے بھی گواہی دی“…پولیس کا چیف بولا ”میں بھی گواہی دیتا ہوں“ اور سب لوگوں نے کہا کہ ”ہم بھی گواہ ہیں“…جس کے بعد اُسے پھانسی کا حکم سنا دیا گیا…سزا سے ایک دن پہلے مجرم سے اُس کی بیوی نے الوداعی ملاقات کی اور اُس سے پوچھا ”اِتنے برسوں سے تم نے اِس جرم کو چھپا کر رکھا پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ تم نے خود ہی اِس راز کو سب کے سامنے منکشف کردیا“اُس نے تاسف سے جواب دیا”سب سے بڑے صاحبِ ارادہ نے میرے اِرادے کو توڑ دیا اور مجھے سچ کہنے پر مجبور کردیا“…دوسرے دن صبح سویرے جب اُسے کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالا گیا تو اُ س نے چلاکر یہ آخری الفاظ کہے کہ ”وہ الفاظ میرے نہیں تھے،اُن کبوتروں کے تھے جو دعوت کے دن طبق میں میرے سامنے بھنے پڑے تھے“…الفاظ ادا ہوتے ہی رسّا کھنچا اور قاتل تختے پر جھول گیا،لوگوں نے سکھ کا سانس لیا،انصاف کے کلیجے کو ٹھنڈ پہنچی اور وقت کو اپنے گزرجانے کا احساسِ شرمندگی جاتا رہا…اُس لمحے لوگوں نے ایک اور منظر دیکھا کہ پھانسی کے رسّے سے لٹکے ہوئے قاتل کے سر پر دو کبوتر بے حِس و حرکت بیٹھے ہوئے تھے،اللہ اکبر کے نعرے بَلند ہوئے اور سب نے ایک آواز ہوکر کہا کہ ”اِن کبوتروں نے بھی گواہی دے دی“۔
بس فرق صر ف اِتنا ہے کہ مجرم سزا سننے کے بعد کمرہٴ عدالت سے اکڑے ہوئے سینے اور تَنی ہوئی گردن کے ساتھ باہر نہیں نکلا تھا،اُس نے بکتر بند گاڑی کو لاتیں نہیں ماری تھیں،انصاف کے رخسار پر تھوکنے کی جرأت نہیں کی تھی کیونکہ وہ ”زبردست صاحبِ ارادہ“ کی طاقت دیکھ چکا تھا،شاہ زیب کے قاتلوں نے ابھی دیکھی نہیں ہے لیکن قسم رب کی بہت جلد دیکھ لیں گے!!