Friday, October 11, 2013

معاشرہ محنت اور ذہانت کے تحت ترقی کرتا ہے


میںاس امر کا بار بار اظہار کر چکا ہوں کہ برصغیر کے لوگ بلا کے ذہین اور محنتی ہیں۔ کچھ گربت کے سبب تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور ان کی بچپن ہی سے ذہانت ہوٹلوں کے برتن دھونے میں ضاءع ہو جاتی ہے۔ کچھ سردیوں کی سرد راتوں میں گرم انڈے فروخت کرتے کرتے جوان ہو کر معاشرے کی بےحسی کا ثبوت بن جاتے ہیں۔ بڑی کرسیوں پر برجمان اپنی عیش وعشرت کا سامان بہم کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ انھیں کسی کے دکھ درد اور بھوک پیاس سے کوئ غرض نہیں ہوتی۔ اربوں جمع کرکے بھی مزید کی ہوس ان کا نصیبہ بن جاتی ہے۔
یہ معاشرے کے اپنے بچے ہیں۔ معاشرہ ان کی محنت اور ذہانت کے تحت ترقی کرتا ہے۔ بڑی کرسی والے خود غرض سہی معاشرے کو انھیں ہر حال میں سمبھالا دینا چاہیے۔ اہل ثروت یہ دیکھتے ہیں کہ انھیں اس سے کیا فاءدہ ہو گا۔ انھیں فاءیدہ نہ سہی' دیکھنا یہ ہے کہ ان سے معاشرے کو کیا فاءدہ ہو گا۔ ذہانت کو واپسی ملنے والے فاءدہ کے ترازو پر رکھا جاءے گا تو بات نہیں بن سکے گی۔ اس معاملے کو یوں بھی لیا جا سکتا ہے کہ یہ خوشحال ہوں گے تو ان کی قوت خرید بڑھے گی۔ قوت خرید بڑھنے سے تاجر حضرات کے کھیسے بھریں گے۔
جو بچے ٹیکنیکل کاموں کی طرف چلے جاتے ہیں اپنی فطری ذہانت کے بل بوتے پر حیرت ناک کام سرانجام دیتے ہیں لیکن ان کی ذہانت گوشہ ء گمنامی کا شکار رہتی ہے۔ ان کی کوئ حوصلہ افزائ نہیں ہو پاتی۔ اس کے دو نتیجے برآمد ہوتے ہیں
:اول۔ بھوک و پیاس اور حالات کی تنگی ترسی برداشت کرتے کرتے مر کھپ جاتے ہیں۔
دوم۔ مجبورا غربت اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی ذہانت سے غیر والایتوں کے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔
ٹی وی کی خبروں کے مظابق ایک صاحب نے پانی سے گاڑی چلا دی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائ کرنے کی بجاءے مذاق اڑایا جا رہا ہے اسے فراڈ کہا جا رہا ہے اور یہ بڑے ہی دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ آخر اس میں فراڑ والی کیا بات ہے۔ فراڈ قرار دینے والے جواب دیں بجلی کس سے بنتی رہی ہے۔ ریلوے کے بڑے کالے انجن کس سے چلتے تھے بھاپ سے اور بھاپ کس سے بنتی ہے پانی سے۔ اگر اس نے محنت کرکے اور بھیجے کا استعمال کرکے ایسی کٹ بنا لی ہے جو پانی سے نکلتی بھاپ کو انرجی میں کنورٹ کرکے گاڑی چلا دی ہے یا اس کٹ کے ذریعے بجلی حاصل کرکے گاڑی چلا دی ہے تو مجھے تو اس میں فراڈ والی کوئ بات نظر نہیں آتی۔
کہا گیا ہے یونیورسٹی کے پروفیسروں سے حق سچ کی مہر ثبت کراءیں گے۔ اگر وہ اتنے لاءق پتر ہوتے تو بہت پہلے یہی چیز تیار کر چکے ہوتے۔ یونیورسٹی کے پروفیسروں کے پاس اتنا وقت کہاں ہے۔ ان بےچاروں کو تو جوان کڑیوں سے ٹھرک جھاڑنے سے فرصت نہیں۔ اسکول ماسڑ اور کالج کے پروفیسر نہ ہوں تو ایجوکیشن کا منشی کدہ تعلیم کو کب کا دریا برد کر چکا ہوں۔ سروے کروا دیکھیں
تحقیق و تلاش کا سارا کام کالج کے پروفیسر نے ہی کیا ہے۔ ڈگری کے لالچ کے بغیر یہ لوگ کام کر رہے ہیں حالانکہ انھیں اس مغز ماری کے حوالہ سےکبھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔
کیا پانی سورس آف انرجی نہیں ہے۔ اگر ہے تو حوصلہ شکنی کے کیا معنی لیے جاءیں۔ اس سے کمشن کے گلچھرے ختم ہو جاءیں گے۔ پڑول اور گیس کی قیمتوں میں ہر دوسرے روز اضافے کی موجیں ختم ہو جاءیں گی۔ یقینا عیش وعشرت کی دنیا میں بھونچال آجاءے گا۔ پانی ہر قسم کی گیس ہوا بھاپ ریت کچرا دھوپ گوبر دھواں جانوروں کا پیشاب ہڈیاں وغیرہ انرجی کا ذریعہ ہیں۔ ان چیزوں سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر قدیر زندہ ہیں ان سے دریافت کر لیں۔ دراصل تڑپنے پھڑکنے کا نظارہ کرنے والوں کے یہ وارہ کی چیزیں نہیں ہیں۔ لوگوں کو اذیت دے کر انھیں مزا آتا ہے۔
 آپ کو یہاں کا بابا آدم ہی نرالہ نظر آءے گا۔ پہلی سے انگریزی کی تعلیم شروع کر دی ہے۔ اتنی مشکل کتابیں ہیں کہ دسویں پاس بھی انھیں پڑھ نہیں سکتا ہے۔ اس حوالہ سے انگریز کی ٹی سی تو ہو جاءے گی لیکن نسل کا بیڑا غرق ہو جاءے گا۔ کیا ان کو اباما کی کرسی پر بیٹھانا ہے؟
اسی طرح میٹرک میں حساب میں پاس ہونا کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ کیا آرٹس کے بچوں نے آڑھت یا کسی بنیک میں اکاؤنٹنٹ بننا ہے۔ جغرافیہ جو بڑی لازمی چیز ہے لایعنی سا ہو گیا ہے۔ انگریزی اور حساب لازمی قرار دے کر کھیسے تو بھرے جا سکتے ہیں لیکن نوجوان نسل کو ناکارہ کیا جا رہا ہے۔ ان دونوں مضموں کو آپشنل ہونا چاہیے۔ جو پڑھے گا شوق سے پڑھے گا اور قوم وملک کے لیے کار آمد ثابت ہو گا۔
آخر میں قارءین سے گزارش ہے کہ وہ اس ذہین شخص کی زندگی کی دعا مانگیں کیونکہ جو گرہ کا دشمن ہوا ہے اس کے پاسے باخیریت نہیں رہے۔

اکڑی گردن اور تَنا سینہ۔یہ کیسا مجرم ہے ؟...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین

عراق کے شمالی حصے میں دریائے دجلہ کے کنارے ایک مشہور شہر موصل آباد ہے، پُرانے وقتوں میں بڑے بڑے تجارتی قافلے موصل شہر سے ہوکر گزرا کرتے تھے، اُن دنوں شام بھی عراق ہی کا حصہ کہلاتا تھا یا یوں کہہ لیجئے کہ عراق شام میں شامل تھا کیونکہ ابھی تک سرحدوں کا تعین نہیں کیا گیا تھا لہٰذااِن دونوں حصوں میں رہنے والے افراد آزادانہ اور بلاروک ٹوک ایک دوسرے کے علاقوں میں چلے جاتے تھے اور اِسی سبب موصل اور حلب تجارت کے بڑے مراکز کے طور پر معروف تھے…یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حلب میں مویشیوں کی بین الاقوامی منڈیاں لگا کرتی تھیں اور دنیا بھر سے مویشیوں کی تجارت کرنے والے اپنے مویشیوں کے ساتھ حلب میں جمع ہوتے تھے جہاں بہترین سودے پایہٴ تکمیل تک پہنچتے تھے…چنانچہ موصل کے ایک مشہور تاجر نے حلب کا رُخ کیا،وہیں ایک سرائے میں قیام کیا ،اپنے مویشی فروخت کئے اور واپس اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گیا … لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ حلب کے رئیس کا ایک بگڑا ہوا چراغ اُس کے سامانِ سکون کو آگ لگانے کے درپے ہے…یہ نوجوان کافی دیر سے تاجر کے پیچھے لگا ہوا تھا اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھا تاکہ اُسے لوٹ کر اپنے جنون، وحشی پن اور احساسِ برتری کو اطمینان دلا سکے …اور پھر اُسے موقع مل ہی گیا…تاجر، آبادی سے دور نکل کر ایک درخت کے نیچے کچھ دیر سستانے کے لئے جیسے ہی رُکا،نوجوان نے اُس پر دھاوا بول دیا،اُسے زمین پر گرانے کے بعد دودھاری خنجر اُس کی گردن پر رکھا اور مطالبہ کیا کہ ”تیرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ میرے حوالے کردے“…بے چارے تاجر نے بہت شور مچایا، ماہی بے آب کی طرح تڑپا، مدد کے لئے آوازیں دیں مگر ویرانہ بھلا کسی کی کیا مدد کر سکتا ہے ، ویرانے تو خود آبادی کے منتظر رہتے ہیں لہٰذا مرتا کیا نہ کرتا اُس نے اپنا سارا مال سینے پر چڑھے”شوقیہ لٹیرے “کے حوالے کردیا اور اُس سے التجا کی کہ اب وہ اُسے چھوڑ دے … مگر…نوجوان کے دماغ پر قابض ابلیس کچھ الگ ہی تانے بانے بننے میں مصروف تھا، اُس کی درندگی کی پیاس اُس وقت تک نہیں بجھ سکتی تھی جب تک کہ وہ تاجر کو ذبح نہ کر دیتا، تاجر نے بہتیرے ہاتھ جوڑے، رویا، اپنے بیوی بچوں کا واسطہ دیا، منت سماجت کی، گھر پہنچ کر اور مال دینے کا وعدہ کیا لیکن ظالم نے کچھ دیر تلک اُس کی بے بسی کے مزے لینے کے بعد بالآخر اُس کے گلے پر خنجر رکھ دیا…تاجر نے آخری مرتبہ چاروں اطراف نگاہ دوڑائی لیکن منظر ساکت تھاکہ گویا تماشے کے انتظار میں ہو،البتہ اُس کی بے چین نگاہوں نے اُسی درخت کی ایک شاخ پر کہ جہاں وہ سستانے لیٹا تھا دوکبوتروں کو دیکھ لیا اور اپنے گلے پر خنجر کی جاں لیوا دھار کے ساتھ یہ آخری الفاظ ادا کئے کہ”اے کبوترو! گواہ رہنا“۔
نوجوان اُسے قتل کرنے کے بعد اُس کے سینے سے اُٹھا اور مُردہ جسم کو لات مارتے ہوئے کہنے لگا”اے کبوترو! گواہ رہنا“اور پھر دیر تک قہقہے لگاتا رہا…وہ بار بار کہتا کہ ”اے کبوترو! گواہ رہنا“ اور ہنس ہنس کر دہرا ہو جاتا کہ جیسے مرنے والے نے جاتے جاتے اُسے کوئی لطیفہ سنا دیا ہو…دوسری جانب تاجر کے اہلِ خانہ، رشتے دار اور دوست احباب اُس کے یوں اچانک گم ہوجانے سے حد درجہ پریشان ہوگئے،موصل میں اُس کے دوستوں نے باقاعدہ ایک مہم چلائی کہ کسی طور اُس کا سراغ مل سکے اور اِسی مہم کے نتیجے میں اُنہیں یہ معلوم ہوگیا کہ موصل کے قریب اور حلب سے دور ایک ویرانے میں کسی نامعلوم شخص نے بڑی بے رحمی سے تاجر کو قتل کر کے اُس کا سارا مال اسباب لوٹ لیا تھا اور بعد میں اُسی راستے سے گزرنے والے بعض مسافروں نے لاوارث نعش دیکھ کر اُسے وہیں دفنا دیا تھا…دوستوں اور رشتے داروں نے یہ روح فرسا خبر سننے کے بعد قاتل کی گرفتاری کے لئے زمین آسمان ایک کردیا،حاکم شہر کو خط لکھے،قاضی سے نوٹس لینے کی اپیل کی، کوتوالانِ موصل و حلب سے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی درخواستیں کیں مگر سب بے سود!…وقت گزرتا رہا اور گزرتا ہی چلا گیا، کئی برس بیت گئے،حاکم بدل گئے، والی گزر گئے، قاضی ملک عدم سدھار گئے اور دوست احباب بھی صبر کر کے بیٹھ گئے…آہستہ آہستہ سب اِس سانحے کو بھول گئے البتہ ایک شخص آج تک اِس واردات کو نہیں بھولا تھا اور وہ یقینا وہی قاتل تھا جس نے اُس مظلوم تاجر کا لہو بہایا تھا…وہ جب بھی کبوتر یا اُن کے جوڑے کو دیکھتا اُسے مقتول کے آخری الفاظ یاد آجاتے کہ ”اے کبوترو! گواہ رہنا“۔ایک دن اُس کے باپ نے دعوت کا اہتمام کیا، باپ چونکہ امیر کبیر اور اثرورسوخ والا تھا اِسی سبب شہر کے جانے مانے افراد،اعلیٰ حکام، رئیس، امراء، وزراء اور تجار بڑی تعداد میں شریک ہوئے…دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے چنے ہوئے تھے، بگڑے ہوئے رئیس زادے نے ایک طبق سے ڈھکن اُٹھایا تو بھنے ہوئے کبوتروں نے اُس کی نظروں کا استقبال کیا،آنِ واحد میں درخت،اُس پر بیٹھے دوکبوتر اور تاجر کی لاش ایک منظر کی طرح اُس کے سامنے گھومنے لگے ،نہ جانے اُسے کیا ہوا کہ اُس نے یکدم ہذیانی انداز میں ایک بلند قہقہہ لگایا جس نے محفل کو اُس کی طرف متوجہ کر دیا…لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے کہ اِسے اچانک کیا ہو گیا ہے ؟لیکن وہ تھا کہ بس ہنسے جارہا تھا، یکایک اُس کی ہنسی رکی اور ایک غیر مرئی قوت نے اُس کی زبان کھلوادی، اُس نے بھنے ہوئے کبوتروں کی طرف اشارہ کیا اور بڑے فخر سے اپنے ہاتھوں کئے گئے ایک بے بس کے قتل کا قصہ سنانے لگا، محفل میں موجود افراد پھٹی آنکھوں اور متعجب سماعتوں سے اُس کے اعترافِ جرم کے گواہ بن گئے…جیسے ہی وہ قصہ سنا کرتھما تو اُسے ایک جھٹکا لگا جیسے کسی نے اُس سے کہا ہو کہ ”بے وقوف! یہ تُو نے کیا کرڈالا! جس قصے کو لوگ بھول چکے تھے،فائلیں بند ہوگئی تھیں، واقعہ دَب گیا تھا تُو نے اپنی بَک بَک سے سب کو اِس راز میں شریک کرلیا“…مگر اب ہو بھی کیا سکتا تھا،الفاظ تو ادائیگی سے پہلے انسان کے غلام ہوتے ہیں ،ادا ہونے کے بعد تو انسان اُن کا غلام بنتاہے چنانچہ کچھ ہی دیر میں حلب میں یہ واقعہ زبان زدِ عام تھا، قاضی القضاة کو بھی اِس ”اعتراف“ کی اطلاع مل گئی اور اُس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حاکم کو حکم دیا کہ مظلوم تاجر کے قاتل کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے…مقدمہ چلا…دعوت میں شریک لوگوں کو گواہی کے لئے بلوایا گیا، انکار کی جرأت کسی میں نہ تھی…حلب کا حاکم کہتا تھا کہ ”میں گواہ ہوں“…قاضی نے کہا ”میں نے بھی گواہی دی“…پولیس کا چیف بولا ”میں بھی گواہی دیتا ہوں“ اور سب لوگوں نے کہا کہ ”ہم بھی گواہ ہیں“…جس کے بعد اُسے پھانسی کا حکم سنا دیا گیا…سزا سے ایک دن پہلے مجرم سے اُس کی بیوی نے الوداعی ملاقات کی اور اُس سے پوچھا ”اِتنے برسوں سے تم نے اِس جرم کو چھپا کر رکھا پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ تم نے خود ہی اِس راز کو سب کے سامنے منکشف کردیا“اُس نے تاسف سے جواب دیا”سب سے بڑے صاحبِ ارادہ نے میرے اِرادے کو توڑ دیا اور مجھے سچ کہنے پر مجبور کردیا“…دوسرے دن صبح سویرے جب اُسے کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالا گیا تو اُ س نے چلاکر یہ آخری الفاظ کہے کہ ”وہ الفاظ میرے نہیں تھے،اُن کبوتروں کے تھے جو دعوت کے دن طبق میں میرے سامنے بھنے پڑے تھے“…الفاظ ادا ہوتے ہی رسّا کھنچا اور قاتل تختے پر جھول گیا،لوگوں نے سکھ کا سانس لیا،انصاف کے کلیجے کو ٹھنڈ پہنچی اور وقت کو اپنے گزرجانے کا احساسِ شرمندگی جاتا رہا…اُس لمحے لوگوں نے ایک اور منظر دیکھا کہ پھانسی کے رسّے سے لٹکے ہوئے قاتل کے سر پر دو کبوتر بے حِس و حرکت بیٹھے ہوئے تھے،اللہ اکبر کے نعرے بَلند ہوئے اور سب نے ایک آواز ہوکر کہا کہ ”اِن کبوتروں نے بھی گواہی دے دی“۔
بس فرق صر ف اِتنا ہے کہ مجرم سزا سننے کے بعد کمرہٴ عدالت سے اکڑے ہوئے سینے اور تَنی ہوئی گردن کے ساتھ باہر نہیں نکلا تھا،اُس نے بکتر بند گاڑی کو لاتیں نہیں ماری تھیں،انصاف کے رخسار پر تھوکنے کی جرأت نہیں کی تھی کیونکہ وہ ”زبردست صاحبِ ارادہ“ کی طاقت دیکھ چکا تھا،شاہ زیب کے قاتلوں نے ابھی دیکھی نہیں ہے لیکن قسم رب کی بہت جلد دیکھ لیں گے!!

Wednesday, January 9, 2013

Positive Thinking Through Self talk


s you received.

  • Personalizing. When something bad occurs, you automatically blame yourself. For example, you hear that an evening out with friends is canceled and you assume that the change in plans is because no one wanted to be around you.

  • Catastrophizing. You automatically anticipate the worst. You refuse to go out with friends for fear that you'll make a fool of yourself. Or one change in your daily routine leads you to think the entire day will be a disaster.
  
  • Polarizing. You see things only as good or bad, black or white. There is no middle ground. You feel that you have to be perfect or that you're a total failure.


You can learn positive thinking
Instead of giving in to negative self-talk, weed out misconceptions and irrational thinking and then challenge them with rational, positive thoughts. When you do this, your self-talk will gradually become realistic and self-affirming — you engage in positive thinking.
You can learn to turn negative thinking into positive thinking. The process is simple, but it takes time and practice — you are creating a new habit, after all.
Periodically during the day, stop and evaluate what you're thinking. If you find that your thoughts are mainly negative, try to find a way to put a positive spin on them.
Start by following one simple rule: Don't say anything to yourself that you wouldn't say to anyone else. Examples of typical negative self-talk and how you might apply a positive thinking twist include:
Negative self-talk
Positive spin
I've never done it before. It's an opportunity to learn something new.
It's too complicated. I'll tackle it from a different angle.
I don't have the resources. Necessity is the mother of invention.
There's not enough time. Let's re-evaluate some priorities.
There's no way it will work. I can try to make it work.
It's too radical a change. Let's take a chance.
No one bothers to communicate with me. I'll see if I can open the channels of communication.
I'm not going to get any better at this. I'll give it another try.
Practicing positive thinking every day
If you tend to have a negative outlook, don't expect to become an optimist overnight. But with practice, eventually your self-talk will automatically contain less self-criticism and more self-acceptance. You may also become less critical of the world around you.
Practicing positive self-talk will improve your outlook. When your state of mind is generally optimistic, you're able to handle everyday stress in a constructive way. That ability may contribute to the widely observed health benefits of positive thinking.

source: unknown

Want Allah to Forgive You? Forgive Others

By Sheikh Salman al-Oudah

If we want Allah to forgive us, we should be forgiving of others and willing to overlook their wrongs. This is part of what it means to be good to others. Allah describes his believing servants as 

"those who restrain their anger and are pardoning towards people." He then says: "Indeed, Allah loves those who do good." [Noble Quran 3:134]

Indeed, Allah says:

"And let not those of you who possess wealth and abundance swear against giving to the near of kin and the poor and those who have had to emigrate for Allah's sake. They should forgive and forebear. Do you not love that Allah should forgive you? And Allah is Forgiving, Merciful." [Noble Quran 24:22]

Righteous deeds of all kinds bring us closer to Allah, but especially kindness to others. We should show kindness to all creatures as well as to human beings, whether this kindness comes in the form of our personal behavior, our sharing of our wealth, giving assistance with our abilities and our influence, or praying to Allah on their behalf. We need to especially consider the disenfranchised, the widows and orphans, and the poor.

The Prophet (Peace and blessings be upon him) said: There was a merchant who used to extend credit to people. If he found one of his customers to be in straightened means, he would say to his assistants: "Forgive them their debt, perhaps Allah will forgive us." Allah did forgive him. [Sahih Al-Bukhari (2078) and Sahih Muslim (1562)]

Pardon, tolerance, and magnanimity should exemplify the way we treat one another. We should be willing to overlook the faults of others. We should even be willing at times to waive some of our rights. We should not always demand everything that is due to us. All relationships are a matter of give and take.

This applies to everyone we have dealings with. It is the way things should be between the husband and wife, between parents and children, between teachers and students, and between governors and the governed. In each of these relationships, there are clearly defined rights and duties, and we should do our best to fulfill them. However, in every relationship, people fall short at times. Forgiveness, forbearance, and pardon bring harmony and love into our relationships.

Imagine a marriage based solely on accounting for rights and obligations. Would there be any love or mercy in such a marriage, any room for tenderness and affection?

Tolerance and magnanimity, stabilize those relationships and bolster the esteem and human worth that people have for one another. By Allah's grace, these qualities make our dealings more successful, and certainly make our dealings more pleasing to Allah.

Sixty Tips From Quran

1. Respect and Honour All Human Beings irrespective Of Their Religion, Colour, Race, Sex, Language, Status, Property, Birth, Profession / Job And So On [17/70] 

2. Talk Straight, To The Point,
Without Any Ambiguity Or Deception [33/70]

3. Choose Best Words To Speak And Say Them in The Best Possible Way [17/53, 2/83]

4. Do Not Shout. Speak Politely Keeping Your Voice Low. [31/19]

5. Always Speak The Truth. Shun Words That Are Deceitful And Ostentatious [22/30]

6. Do Not Confound Truth With Falsehood[2/42]
7. Say With Your Mouth What is in Your Heart [3/167]

8. Speak in A Civilised Manner in A Language That is Recognised By The Society And is Commonly Used [4/5]

9. When You Voice An Opinion, Be Just, Even if it is Against A Relative [6/152]

10. Do Not Be A Bragging Boaster [31/18]

11. Do Not Talk, Listen Or Do Anything Vain [23/3, 28/55]

12. Do Not Participate in Any Paltry. If You Pass Near A Futile Play, Then Pass By With Dignity [25/72]

13. Do Not Verge Upon Any immodesty Or Lewdness Whether Surreptitious Or Overt [6/151].

14. If, Unintentionally, Any Misconduct Occurs By You, Then Correct Yourself Expeditiously [3/134].

15. Do Not Be Contemptuous Or Arrogant With People [31/18]
16. Do Not Walk Haughtily Or With Conceit [17/37, 31/18]

17. Be Moderate in Thy Pace [31/19]

18. Walk With Humility And Sedateness[25/63]

19. Keep Your Gazes Lowered Devoid Of Any Lecherous Leers And Salacious Stares[24/30-31, 40/19].

20. If You Do Not Have Complete Knowledge About Anything, Better Keep Your Mouth Shut. You Might Think That Speaking About Something Without Full Knowledge is A Trivial Matter. But it Might Have Grave Consequences [24/15-16]

21. When You Hear Something Malicious About Someone, Keep A Favourable View About Him/Her Until You Attain Full Knowledge About The Matter. Consider Others innocent Until They Are Proven Guilty With Solid And Truthful Evidence[24/12-13]

22. Ascertain The Truth of any news, lest you smite someone in ignorance and afterwards repent of what you did [49/6]

23. Do not follow blindly any information of which you have no direct knowledge. (Using your faculties of perception and conception) you must verify it for yourself. In the Court of your Lord, you will be held accountable for your hearing, sight, and the faculty of reasoning [17/36].

24. Never think that you have reached the final stage of knowledge and nobody knows more than yourself. Remember! Above everyone endowed with knowledge is another endowed with more knowledge[12/76]. Even the Prophet [PBUH] Was asked to keep praying,
 "O My Sustainer! Advance me in knowledge." [20:114]

25. The believers are but a single Brotherhood. Live like members of one family, brothers and sisters unto one another [49/10].

26. Do not make mockery of others or ridicule others [49/11]

27. Do not defame others [49/11]

28. Do not insult others by nicknames[49/11]
29. Avoid suspicion and guesswork. Suspicion and guesswork might deplete your communal energy [49/12]
30. Spy not upon one another [49/12]

31. Do not backbite one another [49/12]

32. When you meet each other, offer good wishes and blessings for safety. One who conveys to you a message of safety and security and also when a courteous greeting is offered to you, meet it with a greeting still more courteous or (at least) of equal courtesy [4/86]

33. When you enter your own home or the home of somebody else, compliment the inmates [24/61]

34. Do not enter houses other than your own until you have sought permission; and then greet the inmates and wish them a life of blessing, purity and pleasure [24/27]

35. Treat kindly -Your parents-Relatives-The orphans-And those who have been left alone in the society [4/36]

36. Take care of -The needy,-The disabled-Those whose hard earned income is insufficient to meet their needs-And those whose businesses have stalled -And those who have lost their jobs. [4/36]

37. Treat kindly -Your related neighbours, and unrelated neighbours-Companions by your side in public gatherings, or public transportation. [4/36]

38. Be generous to the needy wayfarer, the homeless son of the street,and the one who reaches you in a destitute condition[4/36]

39. Be nice to people who work under your care. [4/36]
40. Do not follow up what you have given to others to afflict them with reminders of your generosity [2/262].

41. Do not expect a return for your good behaviour, not even thanks [76/9]

42. Cooperate with one another in good deeds and do not cooperate with others in evil and bad matters [5/2]

43. Do no try to impress people on account of self-proclaimed virtues [53/32]

44. You should enjoin right conduct on others but mend your own ways first. Actions speak louder than words. You must first practice good deeds yourself, then preach [2/44]

45. Correct yourself and your families first [before trying to correct others] [66/6]

46. Pardon gracefully if anyone among you who commits a bad deed out of ignorance, and then repents and amends[6/54, 3/134]

47. Divert and sublimate your anger and potentially virulent emotions to creative energy, and become a source of tranquillity and comfort to people [3/134]

48. Call people to the Way of your Lord with wisdom and beautiful exhortation. Reason with them most decently [16/125]

49. Leave to themselves those who do not give any importance to the Divine code and have adopted and consider it as mere play and amusement [6/70]

50. Sit not in the company of those who ridicule Divine Law unless they engage in some other conversation [4/140]

51. Do not be jealous of those who are blessed [4/54]
52. In your collective life, make rooms for others [58/11]

53. When invited to dine, Go at the appointed time. Do not arrive too early to wait for the preparation of meal or linger after eating to engage in bootless babble. Such things may cause inconvenience to the host [33/53]

54. Eat and drink [what is lawful] in moderation [7/31].
55. Do not squander your wealth senselessly [17/26]

56. Fulfil your promises and commitments [17/34]

57. Keep yourself clean, pure [9/108, 4/43, 5/6].

58. Dress-up in agreeable attire and adorn yourself with exquisite character from inside out [7/26]

59. Seek your provision only by fair endeavour [29/17, 2/188]
60. Do not devour the wealth and property of others unjustly, nor bribe the officials or the judges to deprive others of their possessions [2/188]

Thursday, December 27, 2012

Article by Javed Ch - A Must Read


حقیقت اور امید کی جنگ جاری ہے

پاکستان کی فوج آج ایسے نقصان سے دوچار ہے جسے شاید اُس کی تاریخ کے سب سے بڑے غیر جنگی نقصان میں شمار کیا جائے گا۔
سیاچن گلیشیئر کا گیاری سیکٹر، دنیا کے سب سے اونچے میدانِ جنگ کے دل کا کردار ادا کر رہا تھا جہاں آج سِکس ناردرن لائٹ انفنٹری کا صدر دفتر وہاں پر تعینات ایک سو پینتیس افراد کے فوجی اور غیر فوجی عملے سمیت برف کے وسیع تودے تلے دبا ہوا ہے

اتوار کو علاقے کا دورہ کرنے والے ایک دوست کے بقول ’برف کے میدان میں نام و نشان نہیں دکھائی دیتا کہ یہاں ایک بٹالین کا ہیڈکوارٹر تھا۔ امدادی کارروائیوں کے لیے پہنچنے والی بھاری مشینری چیونٹیوں کی طرح دکھائی دیتی ہے‘۔
خیال ہے کہ ایک مربع کلومیٹر چوڑے برفانی تودے کی گہرائی سو فُٹ کے لگ بھگ ہے۔ یعنی اِتنی کھدائی کے بعد ہی فوجی نام و نشان ملنا شروع ہو سکتے ہیں۔
حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو نہ صرف جانی بلکہ دفاعی اعتبار سے بھی پاکستانی فوج کا ناقابلِ تلافی نقصان ہو چکا ہے۔ اگرچہ سیاچن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر ہے لیکن روایتی حریف ہونے کے باعث، دونوں افواج کا سیاچن جیسے یخ بستہ مقام پر بھی چوکنا رہنا ناگزیر ہے۔
گیاری سیکٹر کے دب جانے سے اگلی سرحدی چوکیوں کے راشن پانی اور اسلحے کی ترسیل کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے یا دنیا کی مشکل ترین فوجی سپلائی لائن کا زخم بھرنے کے لیے دوبارہ کتنے جتن کرنا پڑیں گے، اِن سوالوں کے جواب، دفاعی نزاکت کے باعث شاید پاکستانی فوج مستقبل قریب میں نہ دے لیکن ایک سو پینتیس افراد کے لیے اُن کے عزیز و اقارب کے ہاں، حقیقت اور امید کی جنگ جاری ہے کہ حقیقت مان کر صفِ ماتم بچھائی جائے یا امید کی دعا کے لیے صف آراء ہوا جائے۔
میجر ذکاء الحق بھی گیاری سیکٹر میں موجود تھے جب برفانی تودے نے اُن کے ہیڈ کوارٹر کو آ لیا۔ مجھ سمیت، اُن کے تمام دوست اور والدین کسی معجزے کے منتظر ہیں۔
ضلع مظفر گڑھ کے قصبے چوک مُنڈا میں اُن کے زمیندار والد سردار عبدالحق چانڈیہ کے ہاں خیر خبر لینے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے لیکن وہ اِس کشمکش میں ہیں کہ خیر بتائیں یا خبر۔ مجھ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بھی، وہ تازہ صورتحال جاننا چاہتے تھے۔
’پہلے موت کی خبر آئی اور پھر ملتان سے ایک بریگیڈئر صاحب نے آ کر حوصلہ دیا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں۔ دعا کریں‘۔
چوک مُنڈا یا چوک سرور شہید جیسے پسماندہ پاکستانی قصبوں میں بہت کم گھرانے ایسے ہوتے ہیں، جہاں پر آٹھ بھائیوں میں سے ایک افسری کے پھول پہنتا ہے اور اُس کی شخصیت آنے والی نسلوں کے لیے مثال بن جاتی ہے

میجر ذکاء الحق اُن لوگوں میں سے ہیں جو خاندان، قصبے اور معاشرے کی وراثتی اور روایتی حدوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، قابلیت کے بل بوتے پر نیا مقام بناتے ہیں۔


انیس سو ترانوے میں مجھ سے ایک جماعت پیچھے ہونے کے باوجود انہوں نے پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک، کیڈٹ کالج حسن ابدال میں آٹھویں جماعت کے لیے داخلے کا امتحان پاس کیا۔


مظفر گڑھ کے نامور مثالی پبلک سکول میں ٹاٹوں، مٹی کے میدانوں اور درختوں کی چھاؤں تلے، صاف اور میلے کپڑوں سے بے نیاز ہو کر، فارغ التحصیل ہونے کے بعد، کیڈٹ کالج کی فوجی چمک دمک اور نظم و نسق میں جگہ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا جس کا احساس مجھے ذکاء الحق کے ایک سال بعد وہاں پہنچنے پر ہوا۔


وہاں ذکاء الحق مجھ سے سینئر ہو گئے اور چار سال کے دوران، ہر موقع پر میں نے انہیں، روایتی حدیں توڑ کر آگے بڑھتے ہوئے دیکھا۔ زندہ دل شخصیت کے ساتھ ساتھ، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں سے نام بنایا۔
ہاکی، باسکٹ بال، ایتھلیٹکس اور گھُڑ سواری کے علاوہ اُن کی ایک تقریر میرے لیے ناقابلِ فراموش ہے جو انہوں نے ایک مقابلے کے دوران، ٹھیٹ سرائیکی ہونے کے باوجود، خالص انگریزی لہجے میں کی لیکن اپنے دیہی خد و خال کے باعث، انگریز ظاہری پن پر زیادہ یقین رکھنے والے جج صاحبان کو اول پوزیشن کے لیے مرعوب نہ کر سکے۔
بالآخر پاکستان ملٹری اکیڈمی میں انہوں نے بہترین مقرر کا اعزاز حاصل کیا جہاں ایک سو پانچ لانگ کورس میں انہیں دو ہزار دو میں کمیشن ملا۔ سیاچن میں پوسٹ ہونے سے پہلے وہ پاکستان کے فعال محاذ جنوبی وزیرستان میں تعینات رہے اور اقوامِ متحدہ کے مشن پر بیرونِ ملک بھی گئے۔
یہی شخصی یادیں ہیں جو شاید آج امید کا سہارا نہیں چھوڑنے دے رہیں۔ میجر ذکاء الحق کے فیس بُک نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اُن کے دوستوں کو جمع کر دیا ہے۔
فوج نے تو سیاچن جیسے مشکل مقام پر تعیناتی کے لیے اپنے افسر پر جو محنت اور سرمایہ کاری کی ہو گی، لیکن دوست احباب کے فیس بُک پیغامات سے یہی لگ رہا ہے کہ ذکاء جیسا بندہ، سو فٹ گہری برف کے نیچے سے نکل باہر آئے گا

ہر چند منٹ بعد ذکاء کی فیس بُک پروفائل پر کوئی دوست، اُن کے ساتھ اپنی پرانی تصویر شائع کر رہا ہے، کوئی اگلی ظہر پر ساتھ دیکھنا چاہتا ہے تو کوئی اُن کی زندگی کی دعاؤں کا طلبگار ہے۔


سیاچن میں پوسٹِنگ کے بعد اور روانگی سے پہلے میجر ذکاءالحق نے ایک شعر پوسٹ کیا تھا۔
’کھڑے ہیں سرحدِ ایماں پہ، کے ٹو کی طرح
دستِ کفر سے سیاچن کو بچانے کے لیے‘
اور ساتھ ہی انہوں نے لکھا، ’کچھ دن بعد میں وہاں ہوں گا جہاں عاصمہ جہانگیر کو ہونا چاہیے‘۔ پانچ جولائی دو ہزار گیارہ کی اِس پوسٹ پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ شاید اسی لیے میجر ذکاء نے بھی نہیں بتایا کہ عاصمہ جہانگیر کو سیاچن میں کیوں ہونا چاہیے؟
لیکن میجر ذکاء الحق کی فیس بُک پر جس آخری پوسٹ نے میری توجہ کھینچی، وہ ایک ویڈیو ہے جو انہوں نے پچیس فروری کو یو ٹیوب سے لِنک کی۔ ویڈیو میں شہزادی جیسی گڑیا کا کیک بنانے کی ترکیب بتائی گئی ہے۔ ذکاء کی بڑی بیٹی مریم تین سال کی ہے اور بیٹا جہانزیب ایک سال کا ہو گیا ہے۔
فیس بُک کے محبوب قول کے حصے میں میجر ذکاء الحق نے یہ تحریر ہمیشہ کے لیے چھوڑ رکھی ہے۔ ’امید ایک اچھی چیز ہے، شاید بہترین چیز اور اچھی چیز کبھی نہیں مرتی‘۔

پاکستانی فوج بھی آئی پیڈ تیار کرنے لگی

Coulmn of the Day



Top 10 Brain Damaging Habits!! (must share )

1. No Breakfast

People who do not take breakfast are going to have a lower blood sugar level. This leads to an insufficient supply of nutrients to the brain causing brain degeneration.

2. Overeating

It causes hardening of the brain arteries, leading to a decrease in mental power.

3. Smoking

It causes multiple brain shrinkage and may lead to Alzheimer disease.

4. High Sugar Consumption

Too much sugar will interrupt the absorption of proteins and nutrients causing malnutrition and may interfere with brain development.

5. Air Pollution

The brain is the largest oxygen consumer in our body. Inhaling polluted air decreases the supply of oxygen to the brain, bringing about a decrease in brainefficiency .

6 . Sleep Deprivation

Sleep allows our brain to rest. Long term deprivation from sleep will acceleratethe death of brain cells.

7. Head Covered While Sleeping

Sleeping with the head covered increases the concentration of carbon dioxide and decrease concentration of oxygen that may lead to brain damaging effects.

8. Working Your Brain During Illness

Working hard or studying with sickness may lead to a decrease in effectiveness of the brain as well as damage the brain.

9. Lacking in Stimulating Thoughts

Thinking is the best way to train our brain, lacking in brain stimulation thoughts may cause brain shrinkage.

10. Talking Rarely

Intellectual conversations will promote the efficiency of the brain.

یہ شادی نہیں ہو سکتی - عطاْالحق