Wednesday, December 26, 2012

عبدالستار ایدھی


عبدالستار ایدھی

عبدالستار ایدھی المعروف مولانا ایدھی خدمت خلق کے شعبہ میں پاکستان اور دنیا کی جانی مانی شخصیت ہیں، جو پاکستان میں ایدھی فاونڈیشن کے صدر ہیں۔ ایدھی فاونڈیشن کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی بیوی محترمہ بلقیس ایدھی، بلقیس ایدھی فاونڈیشن کی سربراہ ہیں۔ دونوں کو 1986ء میں عوامی خدمات کے شعبہ میں رامون ماگسےسے ایوارڈ (Ramon Magsaysay Award) سے نوازا گیا۔


ابتدائی حالات
مولانا ایدھی 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بنتوا میں پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد کپڑا کے تاجر تھے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کی چھوٹے چھٹوے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب انکی ماں انکو سکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسہ خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے کی زندگی کے لیے کامیابی کی کنجی تھا۔



آغاز
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوۓ۔ 1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی جنہوں نے ان کو طبی امداد کی بنیادات سکھائیں۔ اسکے علاوہ آپ نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔


1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگواۓ اور مفت مدافعتی ادویہ فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوۓ باقی پاکستان نے بھی۔ امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لیے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے سکول کھول لیا، اور یہی ایدھی فاونڈیشن کا آغاز تھا۔


ایدھی فاونڈیشن کی ترقی
آنے والوں سالوں میں ایدھی فاونڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتی گئی۔ فلو کی وبا کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو کافی بڑی رقم کی امداد دی جس سے انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی جس کو وہ خود چلاتے تھے۔ آج ایدھی فاونڈیشن کے پاس 600 سے زیادہ ایمبولینسیں ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ میں امداد کے لیے وہ خود روانہ ہوتے ہیں اور ایدھی فاونڈیشن کی حادثات پر ردعمل میں کی رفتار اور خدمات میونسپل کی خدمات سے کہیں زیادہ تیز اور بہتر ہے۔ ہسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاونڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول کھولے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی مراکز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر بچہ گاڑی کا اہتمام ہے تا کہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا سکے۔ اس بچے کو ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اسکو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔


ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاونڈیشن
فاونڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کی ہے۔ اسلامی دنیا میں ایدھی فاونڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم مدد فراہم کرتی ہے۔ جہاں امداد اور نگرانی ایدھی بزات خود متاثرہ ممالک میں جا کر کرتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ فاونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں سے چند نام افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفت سماٹرا اندامان کے زلزلہ (سونامی) سے متاثرہ ممالک کے ہیں۔


16 اگست 2006ء کو بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی کی جانب سے ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کااعلان کیا گیا۔ جس کے تحت دنیا کے امیریاغریب ہویا دنیا کا کوئی بھی ملک امریکہ، یو کے، اسرائیل، شام، ایران، بھارت، بنگلہ دیش ہوں میں یہ ایمبولینس بطور عطیہ دی جا رہی ہے اورانہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان ایمبولینس کو 5 سال تک استعمال کرنے کے بعد فروخت کرکے اس کی رقم خیراتی کاموں میں استعمال کریں۔


بیگم بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی نے اس موقعہ پر کہا کہ وہ دنیا کاامیر یاغریب ملک ہووہاں مریض مریض ہی ہوتا ہے ایمبولینس کامقصد انسانوں کی جانیں بچانا ہوتا ہے اور ہمیں اس بات کی خوشی ہوگی کہ ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کی ایمبولینسیں دنیا بھرمیں انسانوں کی جانیں بچائیں خواہ وہ لندن، نیویارک، ٹوکیو، تل ابیب، بیروت اوردمشق ہوں انہوں نے کہا کہ انسانیت کی بین الاقوامی خدمت کے حوالے سے ہمارا ایک قدم اورآگے بڑھ رہا ہے۔



جدید میراث
آج پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا میں بھی ایدھی نے ایک غیر خود غرض اور محترم شخص کے طور شہرت پائی ہے۔ شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ سادہ روائتی پاکستانی لباس پہنتے ہیں، جو صرف ایک یا دو انکی میلکیت ہیں، اسکے علاوہ انکی ملکیت کھلے جوتوں کا ایک جوڑا ہے، جسکو وہ سابقہ بیس سال سے استعمال کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایدھی فاونڈیشن کا بجٹ ایک کروڑ کا ہے جس میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسہ بھی نہیں خرچ کرتے۔ آپ کے بیٹے فیصل بتاتے ہیں، جب افغانستان میں مرکز کا افتتا ح کیا جا رہا تھا تو عملہ نے مہمانوں اور صحافیوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں خرید لیں۔ جب ایدھی وہاں آۓ تو وہ اس بات پر سخت خفا ہوۓ، کونکہ انکے خیال میں یہ رقم کسی ضرورت مند کی مدد پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ اس رات آپ کلینک کے فرش پر ایمبولینسوں کے ڈرائیوروں کے ساتھ سوۓ۔


ایدھی فاونڈیشن کا مستقبل
آج ایدھی فاونڈیشن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ایدھی مستقبل کی طرف دیکھتے ہوۓ کہتے ہیں، وہ پاکستان کے ہر 500 کلو میٹر پر ہسپتال تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ گرچہ انکو احترام کے طور پر مولانا کا لقب دیا گیا ہے لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے کبھی کسی مذہبی سکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلوانا پسند کرتے ہیں، کیونکہ انسانیت کی خدمات پر پاکستان میں انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹلریشن سے ڈاکٹری کی اعزازی سند دی گئی ہے۔ وہ اس بات کو بھی سخت ناپسند کرتے ہیں جب لوگ انکی یا انکے کام کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ حکومت یا سابقہ مذہبی جماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی امداد مشروط ہوتی ہے۔ ضیاءالحق اور اطالوی حکومت کی امداد انہوں نے اسی خیال سے واپس کر دی تھی۔


1996ء میں انکی خودنوشت سوانح حیات شائع ہوئی۔


1997ء گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ ایدھی بذات خود بغیر چھٹی کیے طویل ترین عرصہ تک کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں۔ اور ریکارڈ بننے کے بعد بھی ابھی تک انہوں نے چھٹی نہیں لی۔


اعزازات
1988ء لینن امن انعام (Lenin Peace Prize)
1986ء عوامی خدمات میں رامون مگسےسے اعزاز (Ramon Magsaysay Award)
1992ء پال ہیریس فیلو روٹری انٹرنیشنل فاونڈیشن (Paul Harris Fellow Rotary International Foundation)
2000ء انسانیت، امن اور بھائی چارے کا انٹرنیشنل بالزن اعزاز (International Balzan Prize)
مارچ 2005ء عالمی میمن تنظیم کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ اعزاز (Life Time Achievement Award)

ماڈرن خواتین



ماڈرن خواتین مغرب کی تقلید کا شکار ہیں. انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ ان کا اپنا دین ان کوکس بات کی ترغیب دے رہا ہے. وہ اندھادھند مغرب کے جال میں پھنستی جارہی ہیں. الله نے بنیادی طورپرعورت کےاندرحیا ڈال رکھی ہے لیکن شیطان یعنی مغرب کا کمال ہے کہ اس نےعورت کو اسکی حیا بھی بھلادی اور دین کی تعلیمات بھی، سو مسلمان عورت بے پردہ اور بے حیا ہوکر یہ محسوس کرنے لگی ہے کہ وہ بھی آخر ماڈرن بن ہی گئی. اسکی فطری حیا اس کو کچوکے لگاتی ہے لیکن وہ جدیدیت کے خوشنما لباس کو اتارنا پسند نہیں کرتی.



آخرکار اسے بے حیائی جیسے گناہ میں لذّت محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے اور اسی لذّت کے احساس کو پانے کے لئے وہ کپڑے پہن کربھی برہنہ نظر آنے لگتی ہے. جب مردوں کی گندی اور غلیظ نظریں اس کے بے پردہ جسم پر پڑتی ہیں تو وہ لطف کی وادیوں کی سیر کرنے لگتی ہے اور سمجھتی ہے کہ وہ دنیا کی حسین ترین عورت بن گئی ہے حالانکہ وہ صرف بدنظر مردوں کا شکار بنی ہوتی ہے.



ایسے لوگ بدنظری میں اس قدر مہارت حاصل کرلیتے ہیں کہ باپردہ خاتون کے پوشیدہ جسم سے بھی حرام مزے لیتے رہتے ہیں. یہ قرب قیامت کی نشانی ہے.



آج کسی خاتون کو پردے کی ترغیب دی جائے تو کہنے لگتی ہیں کہ اصل پردہ تو دل کا ہوتا ہے دل صاف ہونا چاہیے. اپنا اندر اچھا ہوتو مردوں کی بدنظری اور ہوس کچھ نہیں بگاڑسکتی. یہ بہت احمقانہ جاہلانہ اور بےوقوفانہ بات ہے.اگر دل ہی کو صاف رکھنا کافی ہوتا تو پردے کے بارے میں الله اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتنے واضح احکام اور ان کی تشریح کیوں دیتے؟



تین ہی عورتیں ایسی بات کرسکتی ہیں ایک وہ جو بے پردگی میں لذّت پاتی ہو اور اسے چھپانے کے لئے اپنی نگاہ میں بڑے فلسفے پیش کر رہی ہو. دوسری وہ جو دین کے بارے میں شدید لاعلمی کا شکار ہوں.تیسری وہ جو پردے کرتی ہو لیکن اپنے آپ کو دوسری جدیدیت کی ماری خواتین کے سامنے کم تر محسوس کرتی ہو چناں چھ اس احساس کمتری کو چھپانے کے لئے ایسی احمقانہ باتیں کہتی ہو. یہ تیسری خاتون تو قابل حیرت ہے کہ اپنے دین پر عمل کرکے بھی احساس کمتری کا شکار ہے، کیا اسکو علم معلوم نہیں کہ الله رب العزت نے پردہ کرنے کا حکم دیا ہے؟ کیا اسکو معلوم نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ کرنے کی کتنی تاکید کی ہے؟ اسکو معلوم نہیں کہ اسکا مذہب اسلام کتنا بڑا اور سچا مذہب ہے. پھر وہ اپنے مذہب پر عمل کرنے سے کیوں کتراتی ہے؟ کیا اس لئے کہ لوگ اسکو پینڈو وغیرہ کہیں گے؟ تو ایسی عورت کو جان لینا چاہیے کہ سچائی کو بولنے اور اس پر عمل کرنے میں ہی اصل عظمت ہے.



کچھ خواتین پردہ نہ کرنے کا یہ عذر پیش کرتی ہیں کہ انہیں اس معاملے میں رشتہ داروں کی حمایت حاصل نہیں. اگر آپ کے رشتہ دار آپ کو روز قیامت جنّت میں جانے سے روکیں گے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ یہی کہ آپ ضرور ضرور جنّت میں جا ئیں گی اور ان کی نادان بات کو بلکل بھی نہیں سنیں گے. اس طرح اس دنیا میں بھی آپ کے رشتہ دار آپ کو دین پر عمل کرنے سے روک رہے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ دین اسلام ہی پر عمل کرکے آپ کے الله کی رضا اور خوشی اور جنّت الفردوس میں مقام پائیں گی تو آپ کو ان سے ڈرنے اور جھکنے کی ضرورت نہیں. آپ سکون سے اپنے دین پر عمل کریں. باحیا و باپردہ بننے اور الله رب العزت کی رضا کی مشتاق رہیں اس صورت میں الله رب العزت آپ کی ضرور مدد کریگا. اگر آپ ہرطعنوں کو پیچھے ہٹا کر با پردہ بن کر رہیں.



کچھ خواتین موسم گرما میں دوپٹے اوڑھتی ہیں جبکہ موسم سرما میں موٹی چادریں. نام یہ ہوتا ہے کہ حجاب اوڑھ رہی ہیں. بس ذرا موسم گرما میں گرمی محسوس ہوتی ہے تو بڑا حجاب چھوڑ کر بے پردہ ہوجاتی ہیں یعنی توہین حجاب کی جارہی ہے. ایسی خواتین سے گزارش ہے کہ براہ کرم یہ روش چھوڑدیجیے. مسلمان خاتون برقعے اور چادر میں پریشان نہیں ہوا کرتی ہے. اور پھر بےحیائی کی ٹھنڈک سے پردے کی گرمائش بہتر ہے. الله پاک ہمیں حیا وغیرت جیسی صفات سے مالامال فرمائیں کہ اسی میں ہماری عزت ہے.

پاکستان کے کچھ ریکارڈز


.
.
.
.














































لاہوت لامکاں ۔ ایک سحر انگیز مقام

























عمران خان، میاں صاحب اور ڈاکٹرعامر لیاقت...طلوع…ارشاد احمد عارف



کراچی سے اسلام آباد جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 308 کے مسافروں کے ساتھ ایئرپورٹ پر جو ہوا پاکستان کے عوام عرصہ دراز سے اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ ریاست کی دیکھ بھال پر مامور نااہل، کام چور، حرام خور اور عوام دشمن حکمرانوں کی لاپروائی، بے نیازی اور بے حسی کے سبب انجن خراب، مسافروں کادم گھٹ رہا ہے، آکسیجن کی کمی کے باوجود پینے کا پانی ناپید اور دروازے بند، بہت سے قریب المرگ مگر ریاست کے کاک پٹ پر قابض کپتان اور سینئر عملے کادعویٰ ہے کہ کچھ برا نہیں، سب ٹھیک ہے اورخرابی کی بات کرنے والے لاعلم، حاسد اورجمہوریت کے دشمن ہیں۔

میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے شیخ سعدی کاوہ تعویذ گھول کر پی رکھا ہے جوانہوں نے اپنے اوراپنے گدھے کی شب بسری کے لئے جگہ فراہم کرنے والے کسان کو دردِ زہ میں مبتلا بیوی کے لئے دیا تھاتاکہ وہ زچگی کے مراحل سے بحسن وخوبی عہدہ برا ہوسکے۔ تعویذ میں لکھا تھا ”مرا و خرِ مرا جا باید، زنِ دہقان زاید کہ نہ زاید (مجھے کہ میرے گدھے کو جگہ چاہئے میری بلا سے دیہاتی کی بیوی بچہ جنے نہ جنے) ہمارے ہر نوع اورنسل کے حکمرانوں کو اعلیٰ ایوانوں میں قدم جمانے، عرصہ اقتدار میں عیش و عشرت، نمودونمائش اور لوٹ کھسوٹ کاموقع ملنا چاہئے ان کی بلا سے قوم غربت و افلاس، بدامنی ا وربیروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرے،بھوک سے مرے، قاتل، ڈکیت،بھتہ خور، اغوابرائے تاوان کے مجرم، ٹارگٹ کلر ان کا رشتہ ٴ حیات منقطع کریں، انہیں پرواہ نہیں۔

کراچی کے حالات پر ان دنوں سب سے زیادہ تشویش ظاہر کی جارہی ہے کیونکہ کراچی کی بدامنی کے اثرات پورے ملک کی معیشت، سلامتی اور سیاست پر مرتب ہو رہے ہیں۔ کراچی اور بلوچستان کی صورتحال کی خرابی کے بہانے الیکشن کے طویل عرصہ تک التوا کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے اورایوان صدر کے علاوہ حکمرانوں سے قربت کے دعویدار بعض تجزیہ کاراس ضمن میں پیش پیش ہیں۔ کیا سچ ہے اور کیاجھوٹ کوئی نہیں جانتا؟ سرمایہ کاری کاعمل جامد، لوگ اپنے مستقبل سے مایوس اور نوجوان نسل آمادہٴ بغاوت ہے۔ مگرحکمران مطمئن ہیں کہ ہم نے پانچ سال پورے کرلئے۔ قوم کو اور کیاچاہئے؟ پانچ سال اور دے تو بتائیں گے کہ ہم مزید کیاکرسکتے ہیں۔

کراچی میں قیام امن کی مختلف تجاویز سامنے آرہی ہیں عمران خان اور میاں نوازشریف سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ صدر اور حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں فوجی کارروائی کا مطالبہ کررہی ہیں جبکہ سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے جزوی مارشل لا کا شوشہ چھوڑا ہے حالانکہ 12مئی 2007 کو بدترین بدامنی اور لاقانونیت پر سنگدل حکمران پھولے نہ سمایا تھا۔ گزشتہ روزدانشوروں سے تبادلہ خیال کیا۔ ایک محفل میں جیو گروپ کے مقبول اینکرپرسن مذہبی پروگرام کے ذریعے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے نوجوان دانشور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے کسی قسم کی فوجی کاررروائی اور مصنوعی قیادت ابھارنے کے عمل کوکراچی کے ساتھ زیادتی قراردیاکہ اس طرح حالات خراب کرنے والے ٹولے کو مظلومیت کا لبادہ اوڑھنے میں مدد ملے گی۔

ان کی رائے تھی کہ عسکریت پسندوں ، بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے علاوہ ان کے سیاسی سرپرستوں سے خوفزدہ کراچی کے عوام کو قومی قیادت کی طرح تحفظ کا احساس فراہم کئے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں۔ میاں نوازشریف، عمران خان، سید منور حسن، ایک ڈیڑھ ماہ کراچی میں ڈیرہ ڈالیں۔ مقامی قیادت کو فعال کریں۔ عوام بالخصوص حالات کے ستائے عوام سے براہ راست رابطہ کریں اور یہ یقین دہانی کرائیں کہ عام انتخابات میں آزادی سے حق رائے دہی استعمال کرنے کی صورت میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کوکوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا۔ ہمارے کارکنوں کی یہ کھیپ اورریاستی مشینری آپ کا تحفظ کرے گی۔ میاں نوازشریف بہتر پوزیشن میں ہیں کہ کراچی کے نوجوان اپنے بزرگوں کی جماعت مسلم لیگ میں آسودگی محسوس کریں گے۔ جبکہ ماضی کے بوجھ سے آزاد عمران خان کاجلسہ شاندار تھا اور نوجوان نسل ان پر فریفتہ ہے مگردونوں کو مقامی قیادت کی سوچ تبدیل کرنی ہوگی جو اب تک ڈلیور نہیں کرسکی۔ سید منور حسن کے لئے پیغام واحد ہے تاہم پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے خلاف بننے والا کسی قسم کا اتحاد نقصان دہ ہوگا۔ منفی پروپیگنڈے کا سبب اور ایجنسیوں کی کارروائی قرارپائے گا البتہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ مفید ہوگی اور بریلوی مکتب ِ فکر کا تعاون ثمر آور۔ دانشور عامر لیاقت کے تجزیے سے متفق تھے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے ایم کیو ایم کے گھاٹ کا پانی پیاہے۔ کراچی کیا پاکستان بھر میں مقبول ہیں گزشتہ روز سنٹرل کالج کی تقریب میں نوجوان نسل ان پر جس طرح صدقے واری جارہی تھی وہ چشم کشا تھا۔ اگر میاں نواز شریف اور عمران خان میں سے کوئی ان کے حقیقت پسندانہ تجزیئے، عوامی مقبولیت اور سامعین کومسحور کرنے کی خداداد نعمت سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلے توکراچی اور پاکستان کے نوجوان جھوم اٹھیں گے اور 2012 کے انتخابات تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ مگرکیا دونوں لیڈران کرام کے مقامی ساتھی اتنا ویژن اور ظرف رکھتے ہیں؟

پی کے 308کے کپتان کومسافروں کی فکرتھی اورجہازکی خرابی کا احساس اس لئے وہ ٹیک آف کے بجائے جہازکو واپس لے آیا مگرموجودہ انسان دشمن اور عوام بیزار نظام کے علمبرداروں ، محافظوں کامعاملہ مختلف ہے انہیں تو ساون کے اندھے کی طرح ہرطرف ہراہی ہرا نظر آتا ہے اور وہ اس بات پر خوش ہیں کہ غربت، بیروزگاری، بدامنی، قانون شکنی، بدانتظامی اور لوٹ کھسوٹ کے باوجود ریاست پاکستان سٹیٹس کو کے ساتھ قدم بقدم چلی جارہی ہے۔ کٹھارا بسوں کے عقبی حصے میں لکھے اس فرسودہ بے وزن شعر کی طرح نہ انجن کی خوبی، نہ کمال ڈرائیورچلی جارہی ہے خدا کے سہارے مگر تابکے؟ہم کب تک انگوروں کی بیلیں کیکر پر چڑھا کر ہر گچھے کو چھلنی کرتے رہیں گے۔
Irshad Ahmad Arif Column About Imran khan,Mian Nawaz Sharif and Dr Aamir Liaquat Hussain in Daily Jang Newspaper

http://www.facebook.com/aamirliaquat...pehchan?ref=hl
Official Website of Dr Aamir Liaquat Hussain

رولا رپا توازن کا ضامن ہے

رولا رپا توازن کا ضامن ہے
 
کل کی بات ہے بیغم بلا فل سٹپ بولے چلی جا رہی تھی اور میں اس کے حضور کھوگو بنے بیٹھا تھا۔ میں جانتا تھا ایک لفظ بھی میرے منہ سے نکلا تو دو چار گھنٹے بنے۔ مجھے ہمیشہ چپ کی چادر میں ہی پناہ ملی ہے۔ شوہر حضرات کو اکثر یہ جملہ سننے کو ملا ہو گا
" تم نے ساری عمر کیاہی کیا ہے‘ کون سے تم نے میرے ماتھے پر ٹیکے سجا دیے ہیں"
یہ جملہ پہلے بھی کوترسو بار سن چکا تھا۔ میں سقراط کا زہر سمجھ کر پی جاتا تھا۔ کل مجھے تاؤ آ گیا۔ کمال ہے وہ ساری عمر میں اس عرصہ کو بھی شمار کر رہی تھی جو میرے کنوار پن کا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں مجھے ابھی اور کتنا جینا ہے۔ ساری عمر میں تو یہ دونوں زمانے بھی آتے ہیں۔ جی میں آیا اس حوالہ سے بات کروں لیکن مجھے اس کے اس جملے نکمے تو ہو ہی اوپر سے حکایتں کرتے ہو کے تصور نے لرزا کر رکھ دیا۔ مجھے غصہ بڑا تھا جو میں ہر حال میں نکالنا چاہتا تھا۔ میں نے بڑی کڑک دار آواز جو کمرے کی دہلیز بھی پار نہ کر سکی‘ میں کہا کیوں خوامخواہ مغز چاٹ رہی ہو۔ اس کا جواب میری سوچ سے بھی بڑھ کر نکلا۔ کہنے لگی میں اپنے منہ سے بول رہی ہوں اس میں تمہارا کیا جاتا ہے۔
اس کی بات میں حد درجہ کی معقولیت تھی۔ ورزش تو اس کے دماغ اور منہ جس میں زبان اور جبڑے بھی شامل ہیں‘ ہو رہی۔ ہاں البتہ میرے کانوں کو زحمت ضرور تھی۔ دماغ کا خرچہ تب ہوتا جب میں اس کے کہے کو کوئ اہمیت دے رہا ہوتا۔ روز کی چخ چخ کو اہمیت دینا حماقت سے زیادہ نہیں۔
غصہ میں آ کر ڈھیٹ اور چکنا گھڑا تک کہہ جاتی ہے۔ میں دونوں کانوں سے کام لیتا ہوں یعنی ایک کان سے سنتا ہوں دوسرے کان سے نکال دیتا ہوں اور بس۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری لڑائ یک طرفہ رہتی ہے۔ معروف مقولہ ہے کہ رعایا ملک کے قدموں پر قدم رکھتی ہے۔ میں بھی اس ذیل میں حاکم کے قدموں پر قدم رکھنے والا ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنے گھر کے افراد کی پوری دیانتداری سے خدمت کرتا ہوں۔ چوک اسی معاملہ میں ہوتی ہے جو میری پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔ گھر والے یقین نہیں کرتے۔ ہر گھر والی اپنے شوہر کو اوباما کا سالا سمجھتی ہے جو ہر کچھ اس کی دسترس میں ہے۔ بہر طور دسترس سے باہر کام کے لیے مجھے دونوں کانوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ حکومت میں موجود لوگ دونوں کانوں سے کام نہیں لیتے۔ وہ کانوں میں روئ ٹھونس لیتے ہیں۔ لوگ جب سڑکوں پرآتے ہیں تو نظر آنے کے مطابق یہ سازش اور بغاوت کے مترادف ہوتا ہے اس لیے وہ اس رولے رپے کے لیے ڈنڈے کا استعمال فرض عین سمجھتے ہیں۔ لوگ اتنا بولتے اور لکھتے ہیں لیکن ان کی چال میں رائ بھر فرق نہیں آتا۔ رہ گئ تاریخ کی بات تو مورخ ان کا ہتھ بدھا گولا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں پیٹو مورخ جسے میں مورکھ کہتا ہوں‘ انہیں نبی سے دو چار انچ ہئ نیچے رہنے دے گا۔ لہذا آتے وقت سے کیا ڈرنا۔
 
رعایا اور حکومت ریاست کے دو اہم رکن ہیں۔ رعایا حکومت کو ٹیکس دیتی ہے اگر نہیں ادا کرتی تو حکومت کو خوب خوب وصولنا آتا ہے۔ ٹیکس کے عوضانے میں حکومت رعایا کو سہولتیں جن میں تعلیم اورعلاج معالجے کی سہولتیں شامل ہیں‘ فراہم کرتی ہے یہی نہیں انہیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکس وصولنا یاد رہتا ہے لیکن سہولتیں فراہم کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ میں ہر ابے یا شوہر کی پیروی میں مسیتے جا کر قسم کھانے کو تیار ہوں کہ گھر والوں سے ٹیڈی پیسہ ٹیکس وصول نہیں کرتا۔ اپنی مزدوری سے روٹی کپڑا مکان تعلیم علاج معالجہ وغیرہ دستیاب کرتا ہوں اس کے باوجود ڈھیٹ ایسے ثقیل کلمات سنتا ہوں۔ سن کر ہاتھ نہیں کھنچتا۔ میں یہ سب کرنا اپنا فرض جانتا ہوں۔
 
کل مجھے ایک پراءویٹ میسج موصول ہوا جس میں کراچی کی حالت زار کا تذکرہ تھا۔ پراءویٹ میسج پڑھ کر میرے ہاتھ پاؤں سے جان نکل گئ۔ پراءویٹ میسج میں ایک موثر اور منظم پارٹی کا ذکر تھا۔ لکھا تھا کہ ہر طبقہ کی عورت آبرو سے محروم ہو رہی ہے اور کوئ پوچھنے یا سننے والا موجود نہیں۔ ریاست کے اختیارات بے انتہا ہوتے ہیں۔ ریاست اپنے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہے۔ ادارے اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر ادارے کچھ بھی نہیں کرتے تو ان کے ہونے کا کوئ جواز نہیں بنتا۔ جب جنگل کا قانون چلنا ہے تو انھیں چلتا کرنا چاہیے اور ان پر اٹھنے والی خطیر رقم ہاؤسز اور اس کے مکینوں کی بہتری کے لیے خرچ ہونی چاہیے۔ ایک خیال یہ ہے کہ ادارے اپنے اور ہاؤسز کے لیے کماتے ہیں لہذا انہیں ختم کرنا ہاؤسز اور اس کے مکینوں کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف ہے۔ اس مخصوص گروہ یا ارٹی کو نکیل ڈالنا ہاوسز سے مرحومی کے مترادف ہے۔ گویا ان عنصر کو کھلی چھٹی دینا سیاسی مجبوری ہے۔ مجبوری کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ جن عورتوں کی عزت برباد ہوتی ہے کون سی ان کی اپنی ماءیں بہنیں ہوتی ہیں۔ دوسرا عورت کے ساتھ شادی کے بعد بھی یہی کچھ ہوتا ہے بلاشادی ہو رہا ہے تو کون سی قیامت ثوٹ رہی ہے۔ بس تھوڑا سا بے غیرت ہونے کی ضرورت ہے۔ بے غیرتی بھی کیسی۔ یہ ترقی پسندی کی علامت ہے۔ بہت سے علاقے موجود ہیں جہاں باپ کا تصور ہی نہیں۔ ان کے ہاں کوئ رولا نہیں تو ہمارے ہاں قدامت پسندی سے کام لیا جا رہا۔ ہمیں ہاؤسز کی سیاسی مجبوری دیکھتے ہوءے بے غیرت ہو جانا چاہیے۔عوام کا رولا اور بے بس سسکیاں قطعی ناجاءز اور باؤسز کے خلاف کھلی سازش ہے۔
گھر کی کرسی میرے پاس ہے رولے رپے کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا میری مالی مجبوری ہے۔ غنڈہ عناصر کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا ہاؤسز کی سیاسی مجبوری ہے۔ اس کا اس سے بہتر اور کوئ حل نہیں کہ بیغم بولتی رہے اور میں کام سے کام رکھوں۔ اس کے بولنے سے اس کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔ بےعزتی کرکےاس کی انا کو تسکین ملتی ہے اور وہ خود کو ونر سمجھتی ہے جبکہ میں اپنا پرنالہ آنے والی جگہ پر رکھتا ہوں۔ رولا ڈالنے اور برداشت کرنے سے بدامنی پیدا نہیں ہوتی بلکہ توازن کا رستہ ہموار ہوتا ہے۔

مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان

مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان 
دو میاں پیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ کر اپنی زوجہ محترمہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی صاحب کی کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور دو سو نان ڈال دیے۔ نئ شادی پر اٹھنے والے خرچے سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں نے مولوی صاحب کے ڈالے گیے اصولی خرچے میں عافیت سمجھی۔ رات کو میاں بیوی چولہے کے قریب بیٹھے ہوءے تھے۔ بیوی نے اپنی فراست جتاتے ہوءے کہا
"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔"
بات میں سچائ اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔ میاں نےدوبارہ بھڑک کر کہا
"
توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی"
بظاہر اس میں ایسی کوئ بات نہیں جس پر بھڑکا جاءے بلکہ اس میں میاں کی ہی حماقت نظر آتی ہے۔ اصل معاملہ یہ نہیں جو بظاہر دکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زوجہ محترمہ غلطی میاں کی ثابت
کرنا چاہتی تھی۔ گویا اس کی غلطی کے سبب خرچہ پڑا۔ اسے یہ یاد نہ رہا کہ اس نے کوئ ایسی چبویں بات کی ہو گی جس کے ردعمل میں میاں نے ماں بہن کہا ہو گا۔ اگر وہ یہ کہتی حضرت سوری میں نے اشتعال میں آ کر فلاں بات کہہ دی جس کے سبب ہمیں دیگ اور نانوں کا خرچہ پڑ گیا۔ بات ختم ہو جاتی۔ وہ دراصل میاں کو سزا دینا چاہتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ دیگ اور نان کا خرچہ برداشت کر لے گا کیونکہ یہ نئ شادی پر اٹھنے والے خرچے کا عشر عشیر بھی نہیں۔
ایچ ای سی پاکستان مندے حال میں ہے۔ اس کی کوئ سننے والا نہیں کیونکہ سننے والوں کو اس نے بری طرح ڈسٹرب کیا اب اوپر سے خود کو سچا اور برحق سمجھ رہی ہے۔ مجھے اس کے دو ای میل ملے ہیں وہ ہسمجھ رہی ہے کہ میں اس کے حق میں کچھ لکھوں گا۔ میں پاگل ہوں جو اس کے حق میں قلم اٹھاؤں گا۔ کسی جھوٹے کے لیے قلم اٹھانا جھوٹے کے جھوٹ کی تاءید کرنے کے مترادف ہے۔ ادارے تاج وتخت کے غلام ہوتے ہیں اور انہیں تاج وتخت کے غلط معاملات کو تحفظ اور انہیں درست ثابت کرنے کے لیے قیام میں میں لایا گیا ہوتا ہے۔ وہ پروفیسر ہیں اور خود کو سچائ کا ٹھیکیدارسمجھتے ہیں حالانکہ سچائ ان کی گندی سوچ کے برعکس ہے۔ انہیں تنخواہ اس بات کی ملثی ہے کہ وہ تاج والوں کے اشاروں پر رقص کریں۔ انہوں نے حاکم طپقے کی ڈگریوں کو جعلی قرار دیا۔ حاکم طبقہ کبھی جعلی نہیں ہوتا۔ اگر تگڑے غلط قرار پانے لگے تو انہیں تگڑا کون مانے گا۔ ازل سے غلط عضو کمزور رہا ہے۔ انہیں کس حکیم نے اتنے ووٹ حاصل کرنے والے لوگوں کی ڈگریاں غلط قرار دینے کو کہا تھا۔ انہیں سیٹوں پر رعایا کی وقت پڑنے پر مرمت کرنے کے لیے عہدے دیے جاتے ہیں۔ ڈگری تو بہرصورت ڈگری ہوتی ہے اس میں غلط یا صیح ہونے کا سوال کہاں اٹھتا ہے۔
ویسے خود کو تابع فرفان لکھتے ہیں لیکن عملی طور پر خود کو بالاتر سے بھی بالاتر سمجھتے ہیں۔ پانی اوپر سے نیچے آتا ہے‘ نیچے سے اوپر نہیں جاتا۔ جن کی انہوں نے ڈگریاں جعلی قرار دی ہیں جیل نہیں چلے گیے۔ موج میں تھے موج میں ہیں۔ اقبال نے کہا تھا
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
اصولی سی بات ہے مچھلی دریا میں زندہ رہ سکتی ہے لہذا وہ دریا سے باہر کیوں آءیں گءے۔ دریا ان کا اپنا ہے۔ اپنوں سے کبھی کوئ جدا ہوا ہے؟
ان کے نکالنے کی کوشش سے وہ کیوں نکلیں گے۔ دریا قطرے قطرے سے بنتا ہے۔ ان کے لیے چند قطرے معنویت نہ رکھتے ہوں لیکن دریا کے لیے بڑی معنویت رکھتے ہیں۔
 
تیر کمان سے نکل چکا ہےاب کچھ نہیں ہو سکتا ہاں البتہ ایچ ای سی‘ پاکستان دوسرے اداروں کے لیے نشان عبرت ضرور ہے۔ جو بھی چنیدہ اور دریا کے اندر موجود دریا کی ذاتی مخلوق کے خلاف قدم اٹھاتا ہے گلیوں کا روڑا کوڑا بھی نہیں رہ پاتا۔ ہٹ دھرمی اور ڈھیٹ پنا تو یہ ہے کہ یہ سچ پتر غلطی کو غلطی تسلم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حسین ایک ہی تھا۔ آج کسی کو ریاست کے گناہ گاروں کے لیے اپنے بچے مروانے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔ ان کی مدد کے لیے کوئ میدان میں نہیں آءے گا۔ باور رہنا چاہیے سر کا بوجھ سر والے کے پاؤں پر آتا ہے۔