Wednesday, December 26, 2012

عمران خان، میاں صاحب اور ڈاکٹرعامر لیاقت...طلوع…ارشاد احمد عارف



کراچی سے اسلام آباد جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 308 کے مسافروں کے ساتھ ایئرپورٹ پر جو ہوا پاکستان کے عوام عرصہ دراز سے اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ ریاست کی دیکھ بھال پر مامور نااہل، کام چور، حرام خور اور عوام دشمن حکمرانوں کی لاپروائی، بے نیازی اور بے حسی کے سبب انجن خراب، مسافروں کادم گھٹ رہا ہے، آکسیجن کی کمی کے باوجود پینے کا پانی ناپید اور دروازے بند، بہت سے قریب المرگ مگر ریاست کے کاک پٹ پر قابض کپتان اور سینئر عملے کادعویٰ ہے کہ کچھ برا نہیں، سب ٹھیک ہے اورخرابی کی بات کرنے والے لاعلم، حاسد اورجمہوریت کے دشمن ہیں۔

میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے شیخ سعدی کاوہ تعویذ گھول کر پی رکھا ہے جوانہوں نے اپنے اوراپنے گدھے کی شب بسری کے لئے جگہ فراہم کرنے والے کسان کو دردِ زہ میں مبتلا بیوی کے لئے دیا تھاتاکہ وہ زچگی کے مراحل سے بحسن وخوبی عہدہ برا ہوسکے۔ تعویذ میں لکھا تھا ”مرا و خرِ مرا جا باید، زنِ دہقان زاید کہ نہ زاید (مجھے کہ میرے گدھے کو جگہ چاہئے میری بلا سے دیہاتی کی بیوی بچہ جنے نہ جنے) ہمارے ہر نوع اورنسل کے حکمرانوں کو اعلیٰ ایوانوں میں قدم جمانے، عرصہ اقتدار میں عیش و عشرت، نمودونمائش اور لوٹ کھسوٹ کاموقع ملنا چاہئے ان کی بلا سے قوم غربت و افلاس، بدامنی ا وربیروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرے،بھوک سے مرے، قاتل، ڈکیت،بھتہ خور، اغوابرائے تاوان کے مجرم، ٹارگٹ کلر ان کا رشتہ ٴ حیات منقطع کریں، انہیں پرواہ نہیں۔

کراچی کے حالات پر ان دنوں سب سے زیادہ تشویش ظاہر کی جارہی ہے کیونکہ کراچی کی بدامنی کے اثرات پورے ملک کی معیشت، سلامتی اور سیاست پر مرتب ہو رہے ہیں۔ کراچی اور بلوچستان کی صورتحال کی خرابی کے بہانے الیکشن کے طویل عرصہ تک التوا کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے اورایوان صدر کے علاوہ حکمرانوں سے قربت کے دعویدار بعض تجزیہ کاراس ضمن میں پیش پیش ہیں۔ کیا سچ ہے اور کیاجھوٹ کوئی نہیں جانتا؟ سرمایہ کاری کاعمل جامد، لوگ اپنے مستقبل سے مایوس اور نوجوان نسل آمادہٴ بغاوت ہے۔ مگرحکمران مطمئن ہیں کہ ہم نے پانچ سال پورے کرلئے۔ قوم کو اور کیاچاہئے؟ پانچ سال اور دے تو بتائیں گے کہ ہم مزید کیاکرسکتے ہیں۔

کراچی میں قیام امن کی مختلف تجاویز سامنے آرہی ہیں عمران خان اور میاں نوازشریف سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ صدر اور حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں فوجی کارروائی کا مطالبہ کررہی ہیں جبکہ سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے جزوی مارشل لا کا شوشہ چھوڑا ہے حالانکہ 12مئی 2007 کو بدترین بدامنی اور لاقانونیت پر سنگدل حکمران پھولے نہ سمایا تھا۔ گزشتہ روزدانشوروں سے تبادلہ خیال کیا۔ ایک محفل میں جیو گروپ کے مقبول اینکرپرسن مذہبی پروگرام کے ذریعے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے نوجوان دانشور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے کسی قسم کی فوجی کاررروائی اور مصنوعی قیادت ابھارنے کے عمل کوکراچی کے ساتھ زیادتی قراردیاکہ اس طرح حالات خراب کرنے والے ٹولے کو مظلومیت کا لبادہ اوڑھنے میں مدد ملے گی۔

ان کی رائے تھی کہ عسکریت پسندوں ، بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے علاوہ ان کے سیاسی سرپرستوں سے خوفزدہ کراچی کے عوام کو قومی قیادت کی طرح تحفظ کا احساس فراہم کئے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں۔ میاں نوازشریف، عمران خان، سید منور حسن، ایک ڈیڑھ ماہ کراچی میں ڈیرہ ڈالیں۔ مقامی قیادت کو فعال کریں۔ عوام بالخصوص حالات کے ستائے عوام سے براہ راست رابطہ کریں اور یہ یقین دہانی کرائیں کہ عام انتخابات میں آزادی سے حق رائے دہی استعمال کرنے کی صورت میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کوکوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا۔ ہمارے کارکنوں کی یہ کھیپ اورریاستی مشینری آپ کا تحفظ کرے گی۔ میاں نوازشریف بہتر پوزیشن میں ہیں کہ کراچی کے نوجوان اپنے بزرگوں کی جماعت مسلم لیگ میں آسودگی محسوس کریں گے۔ جبکہ ماضی کے بوجھ سے آزاد عمران خان کاجلسہ شاندار تھا اور نوجوان نسل ان پر فریفتہ ہے مگردونوں کو مقامی قیادت کی سوچ تبدیل کرنی ہوگی جو اب تک ڈلیور نہیں کرسکی۔ سید منور حسن کے لئے پیغام واحد ہے تاہم پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے خلاف بننے والا کسی قسم کا اتحاد نقصان دہ ہوگا۔ منفی پروپیگنڈے کا سبب اور ایجنسیوں کی کارروائی قرارپائے گا البتہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ مفید ہوگی اور بریلوی مکتب ِ فکر کا تعاون ثمر آور۔ دانشور عامر لیاقت کے تجزیے سے متفق تھے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے ایم کیو ایم کے گھاٹ کا پانی پیاہے۔ کراچی کیا پاکستان بھر میں مقبول ہیں گزشتہ روز سنٹرل کالج کی تقریب میں نوجوان نسل ان پر جس طرح صدقے واری جارہی تھی وہ چشم کشا تھا۔ اگر میاں نواز شریف اور عمران خان میں سے کوئی ان کے حقیقت پسندانہ تجزیئے، عوامی مقبولیت اور سامعین کومسحور کرنے کی خداداد نعمت سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلے توکراچی اور پاکستان کے نوجوان جھوم اٹھیں گے اور 2012 کے انتخابات تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ مگرکیا دونوں لیڈران کرام کے مقامی ساتھی اتنا ویژن اور ظرف رکھتے ہیں؟

پی کے 308کے کپتان کومسافروں کی فکرتھی اورجہازکی خرابی کا احساس اس لئے وہ ٹیک آف کے بجائے جہازکو واپس لے آیا مگرموجودہ انسان دشمن اور عوام بیزار نظام کے علمبرداروں ، محافظوں کامعاملہ مختلف ہے انہیں تو ساون کے اندھے کی طرح ہرطرف ہراہی ہرا نظر آتا ہے اور وہ اس بات پر خوش ہیں کہ غربت، بیروزگاری، بدامنی، قانون شکنی، بدانتظامی اور لوٹ کھسوٹ کے باوجود ریاست پاکستان سٹیٹس کو کے ساتھ قدم بقدم چلی جارہی ہے۔ کٹھارا بسوں کے عقبی حصے میں لکھے اس فرسودہ بے وزن شعر کی طرح نہ انجن کی خوبی، نہ کمال ڈرائیورچلی جارہی ہے خدا کے سہارے مگر تابکے؟ہم کب تک انگوروں کی بیلیں کیکر پر چڑھا کر ہر گچھے کو چھلنی کرتے رہیں گے۔
Irshad Ahmad Arif Column About Imran khan,Mian Nawaz Sharif and Dr Aamir Liaquat Hussain in Daily Jang Newspaper

http://www.facebook.com/aamirliaquat...pehchan?ref=hl
Official Website of Dr Aamir Liaquat Hussain

رولا رپا توازن کا ضامن ہے

رولا رپا توازن کا ضامن ہے
 
کل کی بات ہے بیغم بلا فل سٹپ بولے چلی جا رہی تھی اور میں اس کے حضور کھوگو بنے بیٹھا تھا۔ میں جانتا تھا ایک لفظ بھی میرے منہ سے نکلا تو دو چار گھنٹے بنے۔ مجھے ہمیشہ چپ کی چادر میں ہی پناہ ملی ہے۔ شوہر حضرات کو اکثر یہ جملہ سننے کو ملا ہو گا
" تم نے ساری عمر کیاہی کیا ہے‘ کون سے تم نے میرے ماتھے پر ٹیکے سجا دیے ہیں"
یہ جملہ پہلے بھی کوترسو بار سن چکا تھا۔ میں سقراط کا زہر سمجھ کر پی جاتا تھا۔ کل مجھے تاؤ آ گیا۔ کمال ہے وہ ساری عمر میں اس عرصہ کو بھی شمار کر رہی تھی جو میرے کنوار پن کا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں مجھے ابھی اور کتنا جینا ہے۔ ساری عمر میں تو یہ دونوں زمانے بھی آتے ہیں۔ جی میں آیا اس حوالہ سے بات کروں لیکن مجھے اس کے اس جملے نکمے تو ہو ہی اوپر سے حکایتں کرتے ہو کے تصور نے لرزا کر رکھ دیا۔ مجھے غصہ بڑا تھا جو میں ہر حال میں نکالنا چاہتا تھا۔ میں نے بڑی کڑک دار آواز جو کمرے کی دہلیز بھی پار نہ کر سکی‘ میں کہا کیوں خوامخواہ مغز چاٹ رہی ہو۔ اس کا جواب میری سوچ سے بھی بڑھ کر نکلا۔ کہنے لگی میں اپنے منہ سے بول رہی ہوں اس میں تمہارا کیا جاتا ہے۔
اس کی بات میں حد درجہ کی معقولیت تھی۔ ورزش تو اس کے دماغ اور منہ جس میں زبان اور جبڑے بھی شامل ہیں‘ ہو رہی۔ ہاں البتہ میرے کانوں کو زحمت ضرور تھی۔ دماغ کا خرچہ تب ہوتا جب میں اس کے کہے کو کوئ اہمیت دے رہا ہوتا۔ روز کی چخ چخ کو اہمیت دینا حماقت سے زیادہ نہیں۔
غصہ میں آ کر ڈھیٹ اور چکنا گھڑا تک کہہ جاتی ہے۔ میں دونوں کانوں سے کام لیتا ہوں یعنی ایک کان سے سنتا ہوں دوسرے کان سے نکال دیتا ہوں اور بس۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری لڑائ یک طرفہ رہتی ہے۔ معروف مقولہ ہے کہ رعایا ملک کے قدموں پر قدم رکھتی ہے۔ میں بھی اس ذیل میں حاکم کے قدموں پر قدم رکھنے والا ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنے گھر کے افراد کی پوری دیانتداری سے خدمت کرتا ہوں۔ چوک اسی معاملہ میں ہوتی ہے جو میری پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔ گھر والے یقین نہیں کرتے۔ ہر گھر والی اپنے شوہر کو اوباما کا سالا سمجھتی ہے جو ہر کچھ اس کی دسترس میں ہے۔ بہر طور دسترس سے باہر کام کے لیے مجھے دونوں کانوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ حکومت میں موجود لوگ دونوں کانوں سے کام نہیں لیتے۔ وہ کانوں میں روئ ٹھونس لیتے ہیں۔ لوگ جب سڑکوں پرآتے ہیں تو نظر آنے کے مطابق یہ سازش اور بغاوت کے مترادف ہوتا ہے اس لیے وہ اس رولے رپے کے لیے ڈنڈے کا استعمال فرض عین سمجھتے ہیں۔ لوگ اتنا بولتے اور لکھتے ہیں لیکن ان کی چال میں رائ بھر فرق نہیں آتا۔ رہ گئ تاریخ کی بات تو مورخ ان کا ہتھ بدھا گولا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں پیٹو مورخ جسے میں مورکھ کہتا ہوں‘ انہیں نبی سے دو چار انچ ہئ نیچے رہنے دے گا۔ لہذا آتے وقت سے کیا ڈرنا۔
 
رعایا اور حکومت ریاست کے دو اہم رکن ہیں۔ رعایا حکومت کو ٹیکس دیتی ہے اگر نہیں ادا کرتی تو حکومت کو خوب خوب وصولنا آتا ہے۔ ٹیکس کے عوضانے میں حکومت رعایا کو سہولتیں جن میں تعلیم اورعلاج معالجے کی سہولتیں شامل ہیں‘ فراہم کرتی ہے یہی نہیں انہیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکس وصولنا یاد رہتا ہے لیکن سہولتیں فراہم کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ میں ہر ابے یا شوہر کی پیروی میں مسیتے جا کر قسم کھانے کو تیار ہوں کہ گھر والوں سے ٹیڈی پیسہ ٹیکس وصول نہیں کرتا۔ اپنی مزدوری سے روٹی کپڑا مکان تعلیم علاج معالجہ وغیرہ دستیاب کرتا ہوں اس کے باوجود ڈھیٹ ایسے ثقیل کلمات سنتا ہوں۔ سن کر ہاتھ نہیں کھنچتا۔ میں یہ سب کرنا اپنا فرض جانتا ہوں۔
 
کل مجھے ایک پراءویٹ میسج موصول ہوا جس میں کراچی کی حالت زار کا تذکرہ تھا۔ پراءویٹ میسج پڑھ کر میرے ہاتھ پاؤں سے جان نکل گئ۔ پراءویٹ میسج میں ایک موثر اور منظم پارٹی کا ذکر تھا۔ لکھا تھا کہ ہر طبقہ کی عورت آبرو سے محروم ہو رہی ہے اور کوئ پوچھنے یا سننے والا موجود نہیں۔ ریاست کے اختیارات بے انتہا ہوتے ہیں۔ ریاست اپنے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہے۔ ادارے اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر ادارے کچھ بھی نہیں کرتے تو ان کے ہونے کا کوئ جواز نہیں بنتا۔ جب جنگل کا قانون چلنا ہے تو انھیں چلتا کرنا چاہیے اور ان پر اٹھنے والی خطیر رقم ہاؤسز اور اس کے مکینوں کی بہتری کے لیے خرچ ہونی چاہیے۔ ایک خیال یہ ہے کہ ادارے اپنے اور ہاؤسز کے لیے کماتے ہیں لہذا انہیں ختم کرنا ہاؤسز اور اس کے مکینوں کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف ہے۔ اس مخصوص گروہ یا ارٹی کو نکیل ڈالنا ہاوسز سے مرحومی کے مترادف ہے۔ گویا ان عنصر کو کھلی چھٹی دینا سیاسی مجبوری ہے۔ مجبوری کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ جن عورتوں کی عزت برباد ہوتی ہے کون سی ان کی اپنی ماءیں بہنیں ہوتی ہیں۔ دوسرا عورت کے ساتھ شادی کے بعد بھی یہی کچھ ہوتا ہے بلاشادی ہو رہا ہے تو کون سی قیامت ثوٹ رہی ہے۔ بس تھوڑا سا بے غیرت ہونے کی ضرورت ہے۔ بے غیرتی بھی کیسی۔ یہ ترقی پسندی کی علامت ہے۔ بہت سے علاقے موجود ہیں جہاں باپ کا تصور ہی نہیں۔ ان کے ہاں کوئ رولا نہیں تو ہمارے ہاں قدامت پسندی سے کام لیا جا رہا۔ ہمیں ہاؤسز کی سیاسی مجبوری دیکھتے ہوءے بے غیرت ہو جانا چاہیے۔عوام کا رولا اور بے بس سسکیاں قطعی ناجاءز اور باؤسز کے خلاف کھلی سازش ہے۔
گھر کی کرسی میرے پاس ہے رولے رپے کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا میری مالی مجبوری ہے۔ غنڈہ عناصر کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا ہاؤسز کی سیاسی مجبوری ہے۔ اس کا اس سے بہتر اور کوئ حل نہیں کہ بیغم بولتی رہے اور میں کام سے کام رکھوں۔ اس کے بولنے سے اس کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔ بےعزتی کرکےاس کی انا کو تسکین ملتی ہے اور وہ خود کو ونر سمجھتی ہے جبکہ میں اپنا پرنالہ آنے والی جگہ پر رکھتا ہوں۔ رولا ڈالنے اور برداشت کرنے سے بدامنی پیدا نہیں ہوتی بلکہ توازن کا رستہ ہموار ہوتا ہے۔

مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان

مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان 
دو میاں پیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ کر اپنی زوجہ محترمہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی صاحب کی کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور دو سو نان ڈال دیے۔ نئ شادی پر اٹھنے والے خرچے سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں نے مولوی صاحب کے ڈالے گیے اصولی خرچے میں عافیت سمجھی۔ رات کو میاں بیوی چولہے کے قریب بیٹھے ہوءے تھے۔ بیوی نے اپنی فراست جتاتے ہوءے کہا
"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔"
بات میں سچائ اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔ میاں نےدوبارہ بھڑک کر کہا
"
توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی"
بظاہر اس میں ایسی کوئ بات نہیں جس پر بھڑکا جاءے بلکہ اس میں میاں کی ہی حماقت نظر آتی ہے۔ اصل معاملہ یہ نہیں جو بظاہر دکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زوجہ محترمہ غلطی میاں کی ثابت
کرنا چاہتی تھی۔ گویا اس کی غلطی کے سبب خرچہ پڑا۔ اسے یہ یاد نہ رہا کہ اس نے کوئ ایسی چبویں بات کی ہو گی جس کے ردعمل میں میاں نے ماں بہن کہا ہو گا۔ اگر وہ یہ کہتی حضرت سوری میں نے اشتعال میں آ کر فلاں بات کہہ دی جس کے سبب ہمیں دیگ اور نانوں کا خرچہ پڑ گیا۔ بات ختم ہو جاتی۔ وہ دراصل میاں کو سزا دینا چاہتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ دیگ اور نان کا خرچہ برداشت کر لے گا کیونکہ یہ نئ شادی پر اٹھنے والے خرچے کا عشر عشیر بھی نہیں۔
ایچ ای سی پاکستان مندے حال میں ہے۔ اس کی کوئ سننے والا نہیں کیونکہ سننے والوں کو اس نے بری طرح ڈسٹرب کیا اب اوپر سے خود کو سچا اور برحق سمجھ رہی ہے۔ مجھے اس کے دو ای میل ملے ہیں وہ ہسمجھ رہی ہے کہ میں اس کے حق میں کچھ لکھوں گا۔ میں پاگل ہوں جو اس کے حق میں قلم اٹھاؤں گا۔ کسی جھوٹے کے لیے قلم اٹھانا جھوٹے کے جھوٹ کی تاءید کرنے کے مترادف ہے۔ ادارے تاج وتخت کے غلام ہوتے ہیں اور انہیں تاج وتخت کے غلط معاملات کو تحفظ اور انہیں درست ثابت کرنے کے لیے قیام میں میں لایا گیا ہوتا ہے۔ وہ پروفیسر ہیں اور خود کو سچائ کا ٹھیکیدارسمجھتے ہیں حالانکہ سچائ ان کی گندی سوچ کے برعکس ہے۔ انہیں تنخواہ اس بات کی ملثی ہے کہ وہ تاج والوں کے اشاروں پر رقص کریں۔ انہوں نے حاکم طپقے کی ڈگریوں کو جعلی قرار دیا۔ حاکم طبقہ کبھی جعلی نہیں ہوتا۔ اگر تگڑے غلط قرار پانے لگے تو انہیں تگڑا کون مانے گا۔ ازل سے غلط عضو کمزور رہا ہے۔ انہیں کس حکیم نے اتنے ووٹ حاصل کرنے والے لوگوں کی ڈگریاں غلط قرار دینے کو کہا تھا۔ انہیں سیٹوں پر رعایا کی وقت پڑنے پر مرمت کرنے کے لیے عہدے دیے جاتے ہیں۔ ڈگری تو بہرصورت ڈگری ہوتی ہے اس میں غلط یا صیح ہونے کا سوال کہاں اٹھتا ہے۔
ویسے خود کو تابع فرفان لکھتے ہیں لیکن عملی طور پر خود کو بالاتر سے بھی بالاتر سمجھتے ہیں۔ پانی اوپر سے نیچے آتا ہے‘ نیچے سے اوپر نہیں جاتا۔ جن کی انہوں نے ڈگریاں جعلی قرار دی ہیں جیل نہیں چلے گیے۔ موج میں تھے موج میں ہیں۔ اقبال نے کہا تھا
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
اصولی سی بات ہے مچھلی دریا میں زندہ رہ سکتی ہے لہذا وہ دریا سے باہر کیوں آءیں گءے۔ دریا ان کا اپنا ہے۔ اپنوں سے کبھی کوئ جدا ہوا ہے؟
ان کے نکالنے کی کوشش سے وہ کیوں نکلیں گے۔ دریا قطرے قطرے سے بنتا ہے۔ ان کے لیے چند قطرے معنویت نہ رکھتے ہوں لیکن دریا کے لیے بڑی معنویت رکھتے ہیں۔
 
تیر کمان سے نکل چکا ہےاب کچھ نہیں ہو سکتا ہاں البتہ ایچ ای سی‘ پاکستان دوسرے اداروں کے لیے نشان عبرت ضرور ہے۔ جو بھی چنیدہ اور دریا کے اندر موجود دریا کی ذاتی مخلوق کے خلاف قدم اٹھاتا ہے گلیوں کا روڑا کوڑا بھی نہیں رہ پاتا۔ ہٹ دھرمی اور ڈھیٹ پنا تو یہ ہے کہ یہ سچ پتر غلطی کو غلطی تسلم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حسین ایک ہی تھا۔ آج کسی کو ریاست کے گناہ گاروں کے لیے اپنے بچے مروانے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔ ان کی مدد کے لیے کوئ میدان میں نہیں آءے گا۔ باور رہنا چاہیے سر کا بوجھ سر والے کے پاؤں پر آتا ہے۔

Friday, December 21, 2012

Proud to b a Pakistani


پاکستانی طالبہ سنبل سید او-لیول کے انگریزی لٹریچر کے امتحان میں اعلیٰ ترین اعزاز سے کامیابی حاصل کرکے دنیا بھر میں سرفہرست رہیں۔

پاکستان کو ایک اور اعزاز تب ملا جب تیزاب سے متاثرہ خواتین پر بنائی گئی ’سیونگ فیس‘ نامی ڈاکیومینٹری فلم پر شرمین عبید چنائے کو ’آسکر ایوارڈ‘ دیا گیا۔

ایک اور پاکستانی نوجوان موسیٰ فیروز نے ریاضی کے عالمی آن لائن امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے پاکستان کو اعزاز سے نوازا اور آسٹریلوی حکومت کی جانب سے اُنھیں اسناد سے نوازا گیا۔

آرٹ اور ملٹی میڈیا مقابلوٕں کی بات کی جائے تو اس میں پاکستانی پیش پیش رہے ہیں، جب کہ اپیس فاوٴنڈیشن اسٹوڈنٹ آرٹ کے مقابلوں میں حصہ لینے والے طالب علموں نے کامیابی حاصل کی۔

پاکستان کے ہونہار طالب علم سکندر محمود نے ’مائیکروسافٹ‘ اور ’گوگل‘ کے سات نئے کمپیوٹر آپریٹرنگ سسٹم بناکر عالمی سطح پر پاکستان کو اعزاز سے نوازا۔

میٹرک کے طالب علم، شاداب رسول نے بین الاقوامی سطح پر ہونےوالے ماحولیاتی مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔

اسلامی ممالک کی سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن نے رواں برس سائنس اور ٹیکنالوجی کا انعام پاکستانی پروفیسر تصور حیات کو دیا۔

اسپورٹس کے مقابلوں میں بھی پاکستان نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ دیگر کھیلوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کا قومی کھیل ’ہاکی‘ بھی اس سال نمایاں رہا۔ پاکستان نے چیمپیئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ میں آٹھ سال بعد کانسی کا تمغہ حاصل کیا اور ٹیم کی کارکردگی پورے ٹورنامنٹ میں قابل قدر رہی۔

سنوکر کے عالمی مقابلے میں 18 سال بعد پاکستان عالمی چیمپیئن بنا۔ محمد آصف نے سنوکر مقابلے کے آخری معرکے میں برطانوی کھلاڑی گیری ولسن کو شکست دے کر یہ عالمی اعزاز پاکستان کے نلیے حاصل کیا۔

دوسری جانب، ایشیائی ممالک کے مابین ہونےوالے کبڈی کے مقابلوں میں پاکستان نے اپنے روایتی حریف ہندوستان کو شکست دی اور ایشیائی سطح پر کبڈی کی یہ چیمپئن شپ جیت لی۔

پنجاب یوتھ فیسٹیول 2012 ءمیں 42810 نوجوانوں نے قومی پرچم کی شکل میں ایک ساتھ کھڑے ہوکر قومی ترانہ پڑھنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا، اور یوتھ فیسٹیول میں منعقدہ کھیلوں کے مقابلوں میں آٹھ عالمی ریکارڈ بنائے، جسے عالمی سطح پر خوب پذیرائی حاصل ہوئی اور پاکستانی طلبا کو اعزازت اور میڈلز سے نوازا گیا۔

Wednesday, December 19, 2012

بد نیتی اور ناثکر گزاری

ملالہ یوسف زئی ۔۔۔سوشل میڈیا کی نظر میں








ملالہ یوسف زئی کو قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں قوم کی بہادر بیٹی کے
 طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔اسکولوں ، کالجوں اور گھروں میں اس کی جلد صحت یابی کے لیے دُعائیں مانگی جا رہی ہیں۔سوشل میڈیا بھی اس سلسلے میں کسی سے پیچھے نہیں ۔بہت سوں نے ملالہ کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کے لیے فیس بک پر اپنی پروفائل پکچر کی جگہ ملالہ کی تصویر ڈسپلے کر رکھی ہے۔شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں۔ادبیوں نے مذمتی قراردادیں اپنے اسٹیٹس پر آویزاں کر رکھی ہیں۔بہت سوں کا خیال ہے کہ ملالہ کو باقاعدہ ”قوم کی بیٹی“ کے خطاب سے نوازا جائے۔اسے امن کا نوبل انعام دیے جانے کا بھی مطالبہ کیا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ملالہ پر حملے کو ایک الگ زاویے سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ملالہ کی ”گل مکئی ڈائری “ کا معمہ حل ہو گیا ۔یہ ڈائری ایک غیرملکی ادارے کا مقامی نامہ نگار لکھتا رہا ہے ۔چوتھی جماعت میں پڑھنے والی ایک بچی اوباما کے بارے میں کتنا جان سکتی ہے کہ اسے اپنا آئیڈیل قرار دے۔ایک کالم نویس نے ”گل لالہ بمقابلہ ملالہ“ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ”ملالہ یوسف زئی پر حملے پر تلملانے اور آنسو بہانے والے ڈرامے بازو، کیا تمہیں وزیرستان میں ڈرون اور جیٹ حملوں میں شہید ہونے والی معصوم بچیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ایک صاحب نے ملالہ کی ڈائری سے یہ جملہ بھی نقل کیا ہے ” برقعہ پتھر کے دور کی نشانی ہے “ واللہ علم باالصواب۔ جتنے منہ ، اتنی باتیں۔کوئی کہتا ہے کہ اگر ملالہ پر یہی حملہ کراچی میں ہوا ہوتا تو کیا اسے اتنی زیادہ کوریج ملتی ؟عافیہ صدیقی بھی تو قوم کی بیٹی ہے ۔ اس پر ہونے والے امریکی مظالم پر خاموشی کیوں ؟ ڈرون حملوں اور لال مسجد میں شہید ہونے والی معصوم بچیوں کا ماتم کون کرے گا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ملالہ یوسف زئی پر حملے کی آڑ میں کوئی اور کھیل کھیلا جا رہا ہو ؟

پولیو قطرے: دوا یا کچھ اور ؟

پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے کے بعد بھی پولیو کے کیس سامنے آتے ہیں۔


اور یہ بات انتہائی پریشانی کی ہے کہ بعض وکلاء اور ڈاکٹروں نے باقاعدہ
پولیو کے قطروں کے خلاف پریس کانفرنس کی تھی ۔ لیکن پھر انکو خاموش کرادیا گیا۔


ذیل کے کالم انصاری محمد صاحب نے پولیو کے قطروں کے بارے میں وضاحت کی گئی ۔ لھذا پڑھیئے اور سر دھنئے۔


(بشکریہ انصاری محمد صاحب اور)


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


اسلام و مسلم دشمن عناصر کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کی جڑیں کاٹ کر صفحہٴ ہستی سے ہمیشہ کے لئے انہیں مٹا دیا جائے۔


مسلمانوں کو مجبور ومقہور بناکر ان پر حکومت کرنے کے لئے ان کو مختلف محاذوں پر کمزور کردیا جائے، مثلاً ایمان واسلام، معیشت واقتصادیات، فوجی قوت، افرادی قوت اور اخلاقی قوت وغیرہ ۔ ایمان واسلام کا جنازہ تو پہلے ہی سے مسلمانوں کے دلوں سے نکال دیا گیا ہے۔ رنگ ڈھنگ، چال ڈھال، شکل وشباہت غرض یہ کہ قول وفعل کے اعتبار سے اغیار کی تقلید کرتے نہیں تھکتے۔ بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔


اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اقتصادیات کو تباہ وبرباد کردیا گیا۔ سارے مسلمان غیر مسلموں کے مقروض اور مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی فوجی قوت کو کمزور کرنے کی مہم شروع کی گئی ہے۔


کسی مسلمان ملک کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے دفاع کے لئے جدید اسلحہ کی صورت میں حاصل کریں،


جبکہ ارشاد خداوندی ہے،


”واعدوا لہم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم وآخرین من دونہم لاتعلمونہم اللہ یعلمہم“ (سورۃ الانفال: ۶۰)۔


یعنی ”اور مسلمانوں! سپاہیانہ قوت سے اور گھوڑوں کے باندھے رکھنے سے جہاں تک تم سے ہو سکے کافروں کے مقابلے کے لئے ساز وسامان مہیا کئے رہو کہ ایسا کرنے سے اللہ کے دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھو گے اور نیز ان کے سوا دوسروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے اور ان کے حال سے اللہ تعالیٰ خوب واقف ہے“۔


مسلمانوں کی اخلاقی قوت کو تباہ وبرباد کردیا گیا ہے، مرد وزن کا اختلاط عام سی بات ہے،


قرآن کریم کے حکم


”وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیة الاولیٰ“ (الحزاب: ۳۳)


کو حقوق نسواں پر نعوذ باللہ! ڈاکہ اور عورت کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں اور حضورﷺ کا ارشاد، ”بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“ (موطا امام مالک)۔


یعنی ”میں بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں“ کو بھول گئے ہیں اور سیاحت وروشن خیالی کے نام پر عورتوں کا غیر مردوں کی جھولی میں گرنا اور ان سے بغل گیر ہونے کو روشن خیالی سمجھتے اور اس پر فخر کرتے ہیں، بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی نظر میں ایسے افراد حضور ﷺکے اس قول، ”من تشبہ بقوم فہو منہم“ یعنی ”جس نے کسی قوم سے مشابہت اپنائی وہ انہیں میں سے ہیں“ کا مصداق ہیں۔


اب اغیار کا اگلا ہدف مسلمانوں کی افرادی قوت کا خاتمہ ہے۔ جس کے لئے مختلف قسم کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔جن میں سے ایک مرحلہ وار اور آہستگی کے ساتھ ویکسین کے ذریعے مسلمانوں کی آئندہ نسل کا خاتمہ ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ مسلمان وہ واحد قوم ہے جو تعداد میں سب سے زیادہ ہے،


اب ان لوگوں کی یہ کوشش ہے کہ مسلمانوں کی افرادی قوت کو کم کیا جائے۔ اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے پہلے ایک مرض پولیؤ کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور پھر اس کی ویکسین تیار کرکے سپلائی کی جاتی ہے، اور ہم ان کی تقلید میں ہی اپنی فلاح وبہبود ڈھونڈتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اغیار نہ کبھی ہمارا خیرخواہ رہا اور نہ اب ہے۔


قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے، ”یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا الیہود والنصاریٰ اولیاء بعضہم اولیاء بعض ومن یتولہم منکم فانہ منہم“ (سورۃ المائدۃ: ۵۱)۔ یعنی ”اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو اپنے دوست مت بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کی طرف پھرا وہ انہی میں سے ہے“۔


پولیو ویکسین کیا چیز ہے؟


اس کے کیا نقصانات ہیں؟


اور سائنس اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟


اللہ تعالیٰ بچے کو نر و مادہ کے باہم جنسی ملاپ سے پیدا فرماتاہے۔ نر میں اعضائے تولیدی کو ”ٹیسٹیز“ اور مادہ کے اعضائے تولیدی کو ”اووری“ کہتے ہیں۔ یہ اعضاء نہ صرف تولیدی ہیں بلکہ یہ ”غدود“ کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں۔


غدود انسانی جسم کا ایسا جز ہے جس کے ذمہ جسم کے مختلف افعال کو باقاعدہ بناکر انہیں کنٹرول کرنا ہے۔ جیسا کہ ”پٹیوٹری“ غدود انسان کے قد کا ذمہ دار ہے، اگر یہ ٹھیک وقت پر برابر مقدار میں ہا رمونز خارج کرے تو انسان کا قد نارمل ہوگا ورنہ یا تو بہت زیادہ بڑھے گا یا پھر پست رہ جائے گا ۔


اسی طرح مادہ میں ”اووری“ بھی ایک خاص قسم کا ہارمونز ”اسٹروجن“ خارج کرتی ہے۔ اس ہارمونز کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام لگا رکھا ہے کہ بچیوں میں عورت ذات والی تمام خصلتیں اور خصوصیات بھردے، اس کے ساتھ اسے نسوانی حسن بخش دے گی۔ اسی طرح نر میں” ٹیسٹیز“ جو ہارمونز خارج کرتا ہے اسے ”انڈروجن“ کہتے ہیں اور یہ انسانی بچے مردانہ پن پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اگر یہ دونوں غدود صحت مند ہوں گے اور اپنا کام صحیح طور پر سرانجام دیں تو نر (بچہ) میں مردانہ خصوصیات اور مادہ (بچی) میں نسوانی خصوصیات ہوں گی لیکن اگر یہ غدود اپنا کام صحیح طور پر سرانجام نہ دیں اور”اسٹروجن“ اور”انڈروجن“ صحیح مقدار میں پیدا نہ کرسکیں تو پھر پیدا ہونے والے بچے میں بے قاعدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔


یہ ویکسین جب شروع سے پلائی جاتی ہے تو آہستہ آہستہ بچے جب جوان ہوتے ہیں تو اس وقت تک یہ اپنا کام کرچکی ہوتی ہے اب بچہ جوان ہوکر مستقل بانجھ پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ویکسین میں کون سی چیز ملائی جاتی ہے یہ تو ابھی تک زیر تحقیق ہے۔


ڈاکٹر ہاروناکائیٹا جو کہ احمد دبلو یونیورسٹی زاریا میں فارماسوٹیکل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ ہیں، وہ نائیجریا سے ویکسین کے کچھ نمونے تحقیق کے لئے انڈیا لے گئے تاکہ ان میں موجود اجزاء کی جانچ پڑتال ہوسکے، جب ڈاکٹر کائٹانے ان ویکسین کو مختلف ٹیسٹ اور جانچ پڑتال کے مراحل سے گزارا تو اس میں کچھ ایسے مواد کی ملاوٹ کے شواہد ملے جو کہ صحت کے لئے خطرناک ہیں۔


ڈاکٹر کائٹا نے ہفت روزہ ”کیڈونا ٹرسٹ“ کو ایک انٹرویو میں بتایا،


”ہم نے پولیو کے اس ویکسین میں کچھ ایسی اشیاء دریافت کی ہیں جو صحت کے لئے نقصان دہ اور زہریلی ہیں اور خاص طور پر کچھ ایسی ہیں جو براہ راست انسان کے جنسی نظام تولید پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے خود ہمارے بیچ ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی خباثت اور بدتمیزی کی پشت پناہی کررہے ہیں اور برابر ان کی مدد کررہے ہیں اور مجھے یہ کہہ کر افسوس ہو رہا ہے کہ ان میں کچھ ہمارے اپنے ماہرین بھی شامل ہیں“


ڈاکٹر کائٹا نے یہ مطالبہ کیا کہ جو لوگ پولیو ویکسین کے نام پر یہ جعلی دوائی در آمد کررہے ہیں، ان کے خلاف دوسرے مجرموں کی طرح مقدمہ چلانا چاہئے اور سزا دینی چاہئے“۔


۱۹۹۵ء میں فلپائن کی آزاد خواتین کی ایک لیگ نے تشنج کے ٹیکوں کے خلاف کورٹ میں مقدمہ جیت لیا تھا اور یونیسف کی اس مہم کو روک لیا تھا۔ اس ویکسین میں ایسی دوائی (Beta-Human Chorionic Gonadotropinیا β-hCG) استعمال کی گئی تھی۔ جس کے استعمال کرنے سے عورت کا حمل مکمل طور پر نہیں ٹھہر سکتا تھا ۔ فلپائن کی سپریم کورٹ نے یہ معلوم کیا کہ تین ملین خواتین کو جن کی عمر ۱۲ سے ۴۵ سال تک تھی پہلے ہی سے یہ ویکسین دی جاچکی تھی۔


عالمی ادارہ صحت کی طرف سے (۲۰جون ۲۰۰۵ء)جاری کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں پولیو کے قطرے پلانے کے باوجود ۵۰۰ سے زائد پولیو کے کیس سامنے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ یمن اور انڈونیشیا جنہیں ۱۹۹۶ء میں پولیو ویکسین کی مہم چلانے کے بعد اس بیماری سے آزاد خطہ قرار دے دیا گیا تھا۔ وہاں پھر سے یہ وبا پھوٹ پڑی ہے۔ یمن میں ۲۴۳ اور انڈونیشیا میں ۵۳ نئے کیس سامنے آئے ہیں۔


بہت سے محققین نے اس ویکسین کو دراصل دنیا کی آبادی کنٹرول کرنے کا خفیہ مگر انتہائی مؤثر ہتھیار ثابت کیا ہے اور اس حوالے سے دستاویزی ثبوت بھی فراہم کئے ہیں۔ ایک خفیہ امریکی دستاویز “NSSMZOO” جو ۱۹۷۴ء میں شائع ہوئی اور ۱۹۸۹ء میں ڈی کلاسیفائی ہوئی۔ اس دستاویز پر اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے دستخط ہیں۔ اس دستاویز میں شناخت کئے گئے ممالک میں سے ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نائیجریا، انڈونیشیا، برازیل، فلپائن، میکسیکو، تھائی لینڈ، ترکی، ایتھوپیا اور کولمبیا ہیں۔ پاپولیشن کنٹرول اس دستاویز کا مرکزی اور یک نکاتی ایجنڈا ہے۔


۲۹جون ۱۹۸۷ء کو ایک امریکی اخبار نے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر روبرٹ سے بات کی، جن کا کہنا تھا کہ خسرہ کی ویکسین نقصان دہ وائرس سے آلودہ ہیں۔ ۳۰ برس تک نامی گرامی ڈاکٹر چلاتے رہے کہ ہم ”ویکسین“ نامی ٹائم بم سے کھیل رہے ہیں، خسرہ کے ویکسین سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ کینسر کا باعث ہے۔


لندن کے موقر ترین روز نامے دی ٹائمز نے ۱۱مئی ۱۹۸۷ء کو فرنٹ پیج پر اس حوالے سے یہ سرخی لگائی تھی کہ ”خسرہ کے لئے لگائے گئے ٹیکے ایڈز وائرس پھیلا رہے ہیں“۔


عالمی ادارہ صحت کے ایک کنسلٹنٹ نے اپنے ادارہ کو رپورٹ دی کہ زیمبیا، زائرے اور برازیل میں خسرہ ویکسین اور ایڈز وائرس کے پھیلاؤ کے درمیان تعلق کا شبہ تھا۔ تحقیق پر یہ شک وشبہات صحیح نکلے۔ عالمی ادارہ صحت نے رپورٹ ملنے کے باوجود اسے شائع نہیں کیا۔ برازیل واحد جنوبی امریکی ملک تھا جس نے خسرہ سے بچاؤ کی ویکسین مہم میں حصہ لیا اور پھر یہی ملک ایڈز کا سب سے بڑا شکار بنا۔ پولیو، خسرہ اور ہیپٹائٹس کی ویکسین میں وائرس کی موجودگی کے ثبوت سامنے آچکے ہیں ۔ان میں منگی وائرس جیسا خطرناک وائرس بھی شامل ہے ۔


عالمی ادارہ صحت پر خسرہ ویکسین کے ذریعے ایڈز پھیلانے کے الزامات بھی لگ چکے ہیں۔ ان ٹیکوں کی وجہ سے بانجھ پن ہونا بھی ثابت ہوچکا ہے۔ ویکسین دو ماہ کے بچوں کے لئے قطعاً محفوظ نہیں۔ مگر یہ ویکسین کا شیڈول نومولود کے ابتدائی دنوں سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ نومولود کے وزن، قد اور جسامت جیسے معاملات بالکل نظر انداز کردیئے جاتے ہیں۔ یہ سائنسی حقیقت ہے کہ ایک ہی دوائی یا ٹیکہ کسی ایک انسان کے لئے تو قطعی محفوظ ہو سکتے ہیں، مگر دوسرے کے لئے موت کا باعث بھی۔


ویکسین کو بچوں میں ذہنی عوارض کا سبب بھی قرار دیا جاتا ہے۔ پولیو کے قطرے جب پلوانے شروع ہوئے جن بچوں نے یہ استعمال کئے ہیں، یقیناً آج وہ جوان ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوں گے اور آج کل نوجوانوں کی اکثریت جن امراض میں مبتلا نظر آتی ہے وہ مردانہ امراض ہی ہیں۔ اس ضمن میں مزید جو حقائق دیئے گئے ہیں وہ بہت خوفناک ہیں۔


ہندوستان کے ایک جریدے ”المرشد“ میں پولیو کے قطروں سے متعلق ایک مدلل مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون کو پاکستان کی ”اشرف لیبارٹریز“، فیصل آباد کے ترجمان ماہنامہ ”رہنمائے صحت“ کی اشاعت میں شامل کیا گیا۔ جس میں سات سے زائد ایسے کیس ذکر کئے گئے ہیں جن میں بچوں کو پولیو کے قطروں کا کورس مکمل کروایا گیا تھا۔ انہیں اس روک تھام کے باوجود پولیو ہوگیا۔

MQM behind unrest in Karachi: JI leader




LAHORE: Jamaat-e-Islami’s Karachi Ameer Muhammad Hussain Mehnti has alleged that the Muttahida Qaumi Movement (MQM) is a terrorist party that has made the city of Karachi hostage to disturb the peace of the whole country.


He said this while addressing the representatives of the Lahore Bar Association (LBA) at LDA Plaza on Tuesday. He said the MQM had made the Karachi city hostage to fulfil its vested interests.


He said the Muttahida Qaumi Movement had got recruited its party workers in all departments to control everything in the city.The JI leader said that government and agencies were supporting the MQM as police officials and poor masses were murdered in Karachi but no one was ready to put culprits on trial.


He said no one was secure in Karachi but the political leaders were running here and there to secure their slots. He said lawyers have had laid down their lives to save democracy and they should come forward to play their role to save the country.


LBA President Ch Zulfiqar Ali asked the foreign ministry to produce the MQM chief Altaf Hussain before the Supreme Court in light of the show-cause notice issued by the apex court. He also demanded to ban the MQM from taking part in politics.


LINK

Thumbs down CARD Chori se LEI kar PAISEY CHORI TAKK

Monday, December 17, 2012

YA JOOOJ --- MA JOOOOJ

Description: cid:image001.png@01CDD962.0C0C7DA0

Reactive and Response Modes

In life, we have essentially two psychological modes that we are in most of the time: reactive and responsive. The reactive mode is the one that feels stressful. In it, we feel pressured and are quick to judge. We lose perspective and take things personally. We're annoyed, bothered, and frustrated.

Needless to say, our judgment and decision making capacity is severely impaired when we are in a reactive state of mind. We make quick decisions that we often regret. We annoy other people and tend to bring out the worst in them. When an opportunity knocks, we are usually too overwhelmed or frustrated to see it. If we do see it, we're usually overly critical and negative.

source: unknwon

The responsive mode, on the other hand, is our most relaxed state of mind. Being responsive suggests that we have our bearings. We see the bigger picture and take things less personally. Rather than being rigid and stubborn, we are flexible and calm. In the responsive mode, we are at our best. We bring out the best in others and solve problems gracefully. When an opportunity comes our way, our mind is open. We are receptive to new ideas.

Once you are aware of these two drastically different modes of being. You will begin to notice which one you are in. You'll also notice the predictability of your behavior and feelings when you are in each mode. You'll observe yourself being irrational and negative in your reactive mode and calm and wise in your responsive state of mind

The 5 Qualities of Remarkable Bosses

Consistently do these five things and the results you want from your employees--and your business--will follow.
Getty
 
Remarkable bosses aren’t great on paper. Great bosses are remarkable based on their actions.

Results are everything—but not the results you might think.
Consistently do these five things and everything else follows. You and your business benefit greatly.

More importantly, so do your employees.

1. Develop every employee. Sure, you can put your primary focus on reaching targets, achieving results, and accomplishing concrete goals—but do that and you put your leadership cart before your achievement horse.
Without great employees, no amount of focus on goals and targets will ever pay off. Employees can only achieve what they are capable of achieving, so it’s your job to help all your employees be more capable so they—and your business—can achieve more.
It's your job to provide the training, mentoring, and opportunities your employees need and deserve. When you do, you transform the relatively boring process of reviewing results and tracking performance into something a lot more meaningful for your employees: Progress, improvement, and personal achievement.
So don’t worry about reaching performance goals. Spend the bulk of your time developing the skills of your employees and achieving goals will be a natural outcome.
Plus it’s a lot more fun.

2. Deal with problems immediately. Nothing kills team morale more quickly than problems that don't get addressed. Interpersonal squabbles, performance issues, feuds between departments... all negatively impact employee motivation and enthusiasm.
And they're distracting, because small problems never go away. Small problems always fester and grow into bigger problems. Plus, when you ignore a problem your employees immediately lose respect for you, and without respect, you can't lead.
Never hope a problem will magically go away, or that someone else will deal with it. Deal with every issue head-on, no matter how small.

3. Rescue your worst employee. Almost every business has at least one employee who has fallen out of grace: Publicly failed to complete a task, lost his cool in a meeting, or just can’t seem to keep up. Over time that employee comes to be seen by his peers—and by you—as a weak link.

While that employee may desperately want to “rehabilitate” himself, it's almost impossible. The weight of team disapproval is too heavy for one person to move.
But it’s not too heavy for you.

Before you remove your weak link from the chain, put your full effort into trying to rescue that person instead. Say, "John, I know you've been struggling but I also know you're trying. Let's find ways together that can get you where you need to be." Express confidence. Be reassuring. Most of all, tell him you'll be there every step of the way.
Don't relax your standards. Just step up the mentoring and coaching you provide.
If that seems like too much work for too little potential outcome, think of it this way. Your remarkable employees don’t need a lot of your time; they’re remarkable because they already have these qualities. If you’re lucky, you can get a few percentage points of extra performance from them. But a struggling employee has tons of upside; rescue him and you make a tremendous difference.
Granted, sometimes it won't work out. When it doesn't, don't worry about it.  The effort is its own reward.

And occasionally an employee will succeed—and you will have made a tremendous difference in a person's professional and personal life.
Can’t beat that.

4. Serve others, not yourself. You can get away with being selfish or self-serving once or twice... but that's it.
Never say or do anything that in any way puts you in the spotlight, however briefly. Never congratulate employees and digress for a few moments to discuss what you did.
If it should go without saying, don't say it. Your glory should always be reflected, never direct.
When employees excel, you and your business excel. When your team succeeds, you and your business succeed. When you rescue a struggling employee and they become remarkable, remember they should be congratulated, not you.
You were just doing your job the way a remarkable boss should.
When you consistently act as if you are less important than your employees—and when you never ask employees to do something you don’t do—everyone knows how important you really are.

5. Always remember where you came from. See an autograph seeker blown off by a famous athlete and you might think, “If I was in a similar position I would never do that.”
Oops. Actually, you do. To some of your employees, especially new employees, you are at least slightly famous. You’re in charge. You’re the boss.
That's why an employee who wants to talk about something that seems inconsequential may just want to spend a few moments with you.
When that happens, you have a choice. You can blow the employee off... or you can see the moment for its true importance: A chance to inspire, reassure, motivate, and even give someone hope for greater things in their life. The higher you rise the greater the impact you can make—and the greater your responsibility to make that impact.
In the eyes of his or her employees, a remarkable boss is a star.
Remember where you came from, and be gracious with your stardom.

Thursday, December 13, 2012

Relationship With Parents.

1. Never be disrespectful to parents. Do not say a harsh word to them.
2. Even if parents are unjust, it is not lawful for children to ill-treat, disobey or displease them.
3. Obey them in all lawful things. If they instruct you to do anything which is unlawful in the Shariah, then politely and with respect and apology decline. Never refuse rudely nor argue with them.
4. When parents abuse, scold or even beat their children, they should submit to such treatment with humility. Never should they utter a word af disrespect or complaint, nor should they display on their faces any indication of disgust or anger. Bear their treatment in silence and with patience. Make dua for them.
5. Assist them in all lawful ways even if they happen to be non-Muslims.
6. Whenever you see them, greet them.
7. If you are living with them, take their permission before
8. If you are engaged in Nafl Salaat and your parents call you, break your Salaat and answer their call even if there is no urgency or importance in their call. If you are performing Fardh Salaat and you detect urgency in theircall, then break even the Fardh Salaat to answertheir call.
9. Do not call them on their names. Address them with a title of respect and honour.
10. After their death, make Dua-e-Maghfirat for them. Pray for their forgiveness and within your means, practisevirtuous deeds with the intention of the thawaab thereof being bestowed on them by Allah Ta'ala.
11. Pay the debts of your parents.
12. If they had made any lawful wasiyyat (bequest), fulfil it if you are by the means to do so.
13. Be kind, respectful and helpful to the friends of your parents.
14. When entering the private room of parents, seek their permission before entering.
15. Always be cheerful in their presence.
16. Speak kindly and tenderly with them.
17. When speaking to parents, keep your gaze low. Do not stare them in the face.
18. Do not raise your voice above the voices of your parents.
19. Be humble in their presence.
20. When accompanying parents on a walk, do not walk in front of them nor on their right or left side. Walk slightly behind them.
21. Even in their absence speak highly and respectfully of them.
22. Do not give preference to the wife over them (this does not apply to the rights of the wife). Where parents instruct their son to violate or discard the obligatory rights of his wife, it will not be permissible to obey them in this case. – Transla tors).
23. Always endeavour to keep them happy.
24. Do not embark on a journey without their permission.
25. When they question you, do not inconvenience them by delaying your reply.
26. It is highly disrespectful to refrain from answering them.
27. If at any time you were disrespectful to your parents, regret your action and hasten to obtain their pardon

Popular Pakistani Celebrities Who Dated In The Past

  Popular Pakistani Celebrities Who Dated In The Past Hamza Ali Abbasi and Saba Qamar Saba Qamar’s “I love you” post on Hamza Ali Abbasi’s p...