Wednesday, December 26, 2012

رولا رپا توازن کا ضامن ہے

رولا رپا توازن کا ضامن ہے
 
کل کی بات ہے بیغم بلا فل سٹپ بولے چلی جا رہی تھی اور میں اس کے حضور کھوگو بنے بیٹھا تھا۔ میں جانتا تھا ایک لفظ بھی میرے منہ سے نکلا تو دو چار گھنٹے بنے۔ مجھے ہمیشہ چپ کی چادر میں ہی پناہ ملی ہے۔ شوہر حضرات کو اکثر یہ جملہ سننے کو ملا ہو گا
" تم نے ساری عمر کیاہی کیا ہے‘ کون سے تم نے میرے ماتھے پر ٹیکے سجا دیے ہیں"
یہ جملہ پہلے بھی کوترسو بار سن چکا تھا۔ میں سقراط کا زہر سمجھ کر پی جاتا تھا۔ کل مجھے تاؤ آ گیا۔ کمال ہے وہ ساری عمر میں اس عرصہ کو بھی شمار کر رہی تھی جو میرے کنوار پن کا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں مجھے ابھی اور کتنا جینا ہے۔ ساری عمر میں تو یہ دونوں زمانے بھی آتے ہیں۔ جی میں آیا اس حوالہ سے بات کروں لیکن مجھے اس کے اس جملے نکمے تو ہو ہی اوپر سے حکایتں کرتے ہو کے تصور نے لرزا کر رکھ دیا۔ مجھے غصہ بڑا تھا جو میں ہر حال میں نکالنا چاہتا تھا۔ میں نے بڑی کڑک دار آواز جو کمرے کی دہلیز بھی پار نہ کر سکی‘ میں کہا کیوں خوامخواہ مغز چاٹ رہی ہو۔ اس کا جواب میری سوچ سے بھی بڑھ کر نکلا۔ کہنے لگی میں اپنے منہ سے بول رہی ہوں اس میں تمہارا کیا جاتا ہے۔
اس کی بات میں حد درجہ کی معقولیت تھی۔ ورزش تو اس کے دماغ اور منہ جس میں زبان اور جبڑے بھی شامل ہیں‘ ہو رہی۔ ہاں البتہ میرے کانوں کو زحمت ضرور تھی۔ دماغ کا خرچہ تب ہوتا جب میں اس کے کہے کو کوئ اہمیت دے رہا ہوتا۔ روز کی چخ چخ کو اہمیت دینا حماقت سے زیادہ نہیں۔
غصہ میں آ کر ڈھیٹ اور چکنا گھڑا تک کہہ جاتی ہے۔ میں دونوں کانوں سے کام لیتا ہوں یعنی ایک کان سے سنتا ہوں دوسرے کان سے نکال دیتا ہوں اور بس۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری لڑائ یک طرفہ رہتی ہے۔ معروف مقولہ ہے کہ رعایا ملک کے قدموں پر قدم رکھتی ہے۔ میں بھی اس ذیل میں حاکم کے قدموں پر قدم رکھنے والا ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں اپنے گھر کے افراد کی پوری دیانتداری سے خدمت کرتا ہوں۔ چوک اسی معاملہ میں ہوتی ہے جو میری پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔ گھر والے یقین نہیں کرتے۔ ہر گھر والی اپنے شوہر کو اوباما کا سالا سمجھتی ہے جو ہر کچھ اس کی دسترس میں ہے۔ بہر طور دسترس سے باہر کام کے لیے مجھے دونوں کانوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ حکومت میں موجود لوگ دونوں کانوں سے کام نہیں لیتے۔ وہ کانوں میں روئ ٹھونس لیتے ہیں۔ لوگ جب سڑکوں پرآتے ہیں تو نظر آنے کے مطابق یہ سازش اور بغاوت کے مترادف ہوتا ہے اس لیے وہ اس رولے رپے کے لیے ڈنڈے کا استعمال فرض عین سمجھتے ہیں۔ لوگ اتنا بولتے اور لکھتے ہیں لیکن ان کی چال میں رائ بھر فرق نہیں آتا۔ رہ گئ تاریخ کی بات تو مورخ ان کا ہتھ بدھا گولا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں پیٹو مورخ جسے میں مورکھ کہتا ہوں‘ انہیں نبی سے دو چار انچ ہئ نیچے رہنے دے گا۔ لہذا آتے وقت سے کیا ڈرنا۔
 
رعایا اور حکومت ریاست کے دو اہم رکن ہیں۔ رعایا حکومت کو ٹیکس دیتی ہے اگر نہیں ادا کرتی تو حکومت کو خوب خوب وصولنا آتا ہے۔ ٹیکس کے عوضانے میں حکومت رعایا کو سہولتیں جن میں تعلیم اورعلاج معالجے کی سہولتیں شامل ہیں‘ فراہم کرتی ہے یہی نہیں انہیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ ہمارے ہاں ٹیکس وصولنا یاد رہتا ہے لیکن سہولتیں فراہم کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ میں ہر ابے یا شوہر کی پیروی میں مسیتے جا کر قسم کھانے کو تیار ہوں کہ گھر والوں سے ٹیڈی پیسہ ٹیکس وصول نہیں کرتا۔ اپنی مزدوری سے روٹی کپڑا مکان تعلیم علاج معالجہ وغیرہ دستیاب کرتا ہوں اس کے باوجود ڈھیٹ ایسے ثقیل کلمات سنتا ہوں۔ سن کر ہاتھ نہیں کھنچتا۔ میں یہ سب کرنا اپنا فرض جانتا ہوں۔
 
کل مجھے ایک پراءویٹ میسج موصول ہوا جس میں کراچی کی حالت زار کا تذکرہ تھا۔ پراءویٹ میسج پڑھ کر میرے ہاتھ پاؤں سے جان نکل گئ۔ پراءویٹ میسج میں ایک موثر اور منظم پارٹی کا ذکر تھا۔ لکھا تھا کہ ہر طبقہ کی عورت آبرو سے محروم ہو رہی ہے اور کوئ پوچھنے یا سننے والا موجود نہیں۔ ریاست کے اختیارات بے انتہا ہوتے ہیں۔ ریاست اپنے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کر گزرتی ہے۔ ادارے اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر ادارے کچھ بھی نہیں کرتے تو ان کے ہونے کا کوئ جواز نہیں بنتا۔ جب جنگل کا قانون چلنا ہے تو انھیں چلتا کرنا چاہیے اور ان پر اٹھنے والی خطیر رقم ہاؤسز اور اس کے مکینوں کی بہتری کے لیے خرچ ہونی چاہیے۔ ایک خیال یہ ہے کہ ادارے اپنے اور ہاؤسز کے لیے کماتے ہیں لہذا انہیں ختم کرنا ہاؤسز اور اس کے مکینوں کے پیٹ پر لات مارنے کے مترادف ہے۔ اس مخصوص گروہ یا ارٹی کو نکیل ڈالنا ہاوسز سے مرحومی کے مترادف ہے۔ گویا ان عنصر کو کھلی چھٹی دینا سیاسی مجبوری ہے۔ مجبوری کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ جن عورتوں کی عزت برباد ہوتی ہے کون سی ان کی اپنی ماءیں بہنیں ہوتی ہیں۔ دوسرا عورت کے ساتھ شادی کے بعد بھی یہی کچھ ہوتا ہے بلاشادی ہو رہا ہے تو کون سی قیامت ثوٹ رہی ہے۔ بس تھوڑا سا بے غیرت ہونے کی ضرورت ہے۔ بے غیرتی بھی کیسی۔ یہ ترقی پسندی کی علامت ہے۔ بہت سے علاقے موجود ہیں جہاں باپ کا تصور ہی نہیں۔ ان کے ہاں کوئ رولا نہیں تو ہمارے ہاں قدامت پسندی سے کام لیا جا رہا۔ ہمیں ہاؤسز کی سیاسی مجبوری دیکھتے ہوءے بے غیرت ہو جانا چاہیے۔عوام کا رولا اور بے بس سسکیاں قطعی ناجاءز اور باؤسز کے خلاف کھلی سازش ہے۔
گھر کی کرسی میرے پاس ہے رولے رپے کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا میری مالی مجبوری ہے۔ غنڈہ عناصر کے حوالہ سے خاموشی اختیار کرنا ہاؤسز کی سیاسی مجبوری ہے۔ اس کا اس سے بہتر اور کوئ حل نہیں کہ بیغم بولتی رہے اور میں کام سے کام رکھوں۔ اس کے بولنے سے اس کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔ بےعزتی کرکےاس کی انا کو تسکین ملتی ہے اور وہ خود کو ونر سمجھتی ہے جبکہ میں اپنا پرنالہ آنے والی جگہ پر رکھتا ہوں۔ رولا ڈالنے اور برداشت کرنے سے بدامنی پیدا نہیں ہوتی بلکہ توازن کا رستہ ہموار ہوتا ہے۔

مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان

مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان 
دو میاں پیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ کر اپنی زوجہ محترمہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی صاحب کی کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور دو سو نان ڈال دیے۔ نئ شادی پر اٹھنے والے خرچے سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں نے مولوی صاحب کے ڈالے گیے اصولی خرچے میں عافیت سمجھی۔ رات کو میاں بیوی چولہے کے قریب بیٹھے ہوءے تھے۔ بیوی نے اپنی فراست جتاتے ہوءے کہا
"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔"
بات میں سچائ اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔ میاں نےدوبارہ بھڑک کر کہا
"
توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی"
بظاہر اس میں ایسی کوئ بات نہیں جس پر بھڑکا جاءے بلکہ اس میں میاں کی ہی حماقت نظر آتی ہے۔ اصل معاملہ یہ نہیں جو بظاہر دکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زوجہ محترمہ غلطی میاں کی ثابت
کرنا چاہتی تھی۔ گویا اس کی غلطی کے سبب خرچہ پڑا۔ اسے یہ یاد نہ رہا کہ اس نے کوئ ایسی چبویں بات کی ہو گی جس کے ردعمل میں میاں نے ماں بہن کہا ہو گا۔ اگر وہ یہ کہتی حضرت سوری میں نے اشتعال میں آ کر فلاں بات کہہ دی جس کے سبب ہمیں دیگ اور نانوں کا خرچہ پڑ گیا۔ بات ختم ہو جاتی۔ وہ دراصل میاں کو سزا دینا چاہتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ دیگ اور نان کا خرچہ برداشت کر لے گا کیونکہ یہ نئ شادی پر اٹھنے والے خرچے کا عشر عشیر بھی نہیں۔
ایچ ای سی پاکستان مندے حال میں ہے۔ اس کی کوئ سننے والا نہیں کیونکہ سننے والوں کو اس نے بری طرح ڈسٹرب کیا اب اوپر سے خود کو سچا اور برحق سمجھ رہی ہے۔ مجھے اس کے دو ای میل ملے ہیں وہ ہسمجھ رہی ہے کہ میں اس کے حق میں کچھ لکھوں گا۔ میں پاگل ہوں جو اس کے حق میں قلم اٹھاؤں گا۔ کسی جھوٹے کے لیے قلم اٹھانا جھوٹے کے جھوٹ کی تاءید کرنے کے مترادف ہے۔ ادارے تاج وتخت کے غلام ہوتے ہیں اور انہیں تاج وتخت کے غلط معاملات کو تحفظ اور انہیں درست ثابت کرنے کے لیے قیام میں میں لایا گیا ہوتا ہے۔ وہ پروفیسر ہیں اور خود کو سچائ کا ٹھیکیدارسمجھتے ہیں حالانکہ سچائ ان کی گندی سوچ کے برعکس ہے۔ انہیں تنخواہ اس بات کی ملثی ہے کہ وہ تاج والوں کے اشاروں پر رقص کریں۔ انہوں نے حاکم طپقے کی ڈگریوں کو جعلی قرار دیا۔ حاکم طبقہ کبھی جعلی نہیں ہوتا۔ اگر تگڑے غلط قرار پانے لگے تو انہیں تگڑا کون مانے گا۔ ازل سے غلط عضو کمزور رہا ہے۔ انہیں کس حکیم نے اتنے ووٹ حاصل کرنے والے لوگوں کی ڈگریاں غلط قرار دینے کو کہا تھا۔ انہیں سیٹوں پر رعایا کی وقت پڑنے پر مرمت کرنے کے لیے عہدے دیے جاتے ہیں۔ ڈگری تو بہرصورت ڈگری ہوتی ہے اس میں غلط یا صیح ہونے کا سوال کہاں اٹھتا ہے۔
ویسے خود کو تابع فرفان لکھتے ہیں لیکن عملی طور پر خود کو بالاتر سے بھی بالاتر سمجھتے ہیں۔ پانی اوپر سے نیچے آتا ہے‘ نیچے سے اوپر نہیں جاتا۔ جن کی انہوں نے ڈگریاں جعلی قرار دی ہیں جیل نہیں چلے گیے۔ موج میں تھے موج میں ہیں۔ اقبال نے کہا تھا
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
اصولی سی بات ہے مچھلی دریا میں زندہ رہ سکتی ہے لہذا وہ دریا سے باہر کیوں آءیں گءے۔ دریا ان کا اپنا ہے۔ اپنوں سے کبھی کوئ جدا ہوا ہے؟
ان کے نکالنے کی کوشش سے وہ کیوں نکلیں گے۔ دریا قطرے قطرے سے بنتا ہے۔ ان کے لیے چند قطرے معنویت نہ رکھتے ہوں لیکن دریا کے لیے بڑی معنویت رکھتے ہیں۔
 
تیر کمان سے نکل چکا ہےاب کچھ نہیں ہو سکتا ہاں البتہ ایچ ای سی‘ پاکستان دوسرے اداروں کے لیے نشان عبرت ضرور ہے۔ جو بھی چنیدہ اور دریا کے اندر موجود دریا کی ذاتی مخلوق کے خلاف قدم اٹھاتا ہے گلیوں کا روڑا کوڑا بھی نہیں رہ پاتا۔ ہٹ دھرمی اور ڈھیٹ پنا تو یہ ہے کہ یہ سچ پتر غلطی کو غلطی تسلم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حسین ایک ہی تھا۔ آج کسی کو ریاست کے گناہ گاروں کے لیے اپنے بچے مروانے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔ ان کی مدد کے لیے کوئ میدان میں نہیں آءے گا۔ باور رہنا چاہیے سر کا بوجھ سر والے کے پاؤں پر آتا ہے۔

Friday, December 21, 2012

Proud to b a Pakistani


پاکستانی طالبہ سنبل سید او-لیول کے انگریزی لٹریچر کے امتحان میں اعلیٰ ترین اعزاز سے کامیابی حاصل کرکے دنیا بھر میں سرفہرست رہیں۔

پاکستان کو ایک اور اعزاز تب ملا جب تیزاب سے متاثرہ خواتین پر بنائی گئی ’سیونگ فیس‘ نامی ڈاکیومینٹری فلم پر شرمین عبید چنائے کو ’آسکر ایوارڈ‘ دیا گیا۔

ایک اور پاکستانی نوجوان موسیٰ فیروز نے ریاضی کے عالمی آن لائن امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے پاکستان کو اعزاز سے نوازا اور آسٹریلوی حکومت کی جانب سے اُنھیں اسناد سے نوازا گیا۔

آرٹ اور ملٹی میڈیا مقابلوٕں کی بات کی جائے تو اس میں پاکستانی پیش پیش رہے ہیں، جب کہ اپیس فاوٴنڈیشن اسٹوڈنٹ آرٹ کے مقابلوں میں حصہ لینے والے طالب علموں نے کامیابی حاصل کی۔

پاکستان کے ہونہار طالب علم سکندر محمود نے ’مائیکروسافٹ‘ اور ’گوگل‘ کے سات نئے کمپیوٹر آپریٹرنگ سسٹم بناکر عالمی سطح پر پاکستان کو اعزاز سے نوازا۔

میٹرک کے طالب علم، شاداب رسول نے بین الاقوامی سطح پر ہونےوالے ماحولیاتی مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔

اسلامی ممالک کی سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن نے رواں برس سائنس اور ٹیکنالوجی کا انعام پاکستانی پروفیسر تصور حیات کو دیا۔

اسپورٹس کے مقابلوں میں بھی پاکستان نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ دیگر کھیلوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کا قومی کھیل ’ہاکی‘ بھی اس سال نمایاں رہا۔ پاکستان نے چیمپیئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ میں آٹھ سال بعد کانسی کا تمغہ حاصل کیا اور ٹیم کی کارکردگی پورے ٹورنامنٹ میں قابل قدر رہی۔

سنوکر کے عالمی مقابلے میں 18 سال بعد پاکستان عالمی چیمپیئن بنا۔ محمد آصف نے سنوکر مقابلے کے آخری معرکے میں برطانوی کھلاڑی گیری ولسن کو شکست دے کر یہ عالمی اعزاز پاکستان کے نلیے حاصل کیا۔

دوسری جانب، ایشیائی ممالک کے مابین ہونےوالے کبڈی کے مقابلوں میں پاکستان نے اپنے روایتی حریف ہندوستان کو شکست دی اور ایشیائی سطح پر کبڈی کی یہ چیمپئن شپ جیت لی۔

پنجاب یوتھ فیسٹیول 2012 ءمیں 42810 نوجوانوں نے قومی پرچم کی شکل میں ایک ساتھ کھڑے ہوکر قومی ترانہ پڑھنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا، اور یوتھ فیسٹیول میں منعقدہ کھیلوں کے مقابلوں میں آٹھ عالمی ریکارڈ بنائے، جسے عالمی سطح پر خوب پذیرائی حاصل ہوئی اور پاکستانی طلبا کو اعزازت اور میڈلز سے نوازا گیا۔