Tuesday, February 1, 2011

بیت المقدس کسی ایوبی کے انتظار میں

بیت المقدس کسی ایوبی کے انتظار میں

آج جس فلسطین کیلیے خیر و شر اور حق و باطل کی قوتیں باہم ستیزہ کار ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔اس مقدس شہر کی تاریخ ایسی ہنگامہ آرائی اور معرکہ خیزیوں سے بھری پڑی ہے جس میں تین آسمانی مذاہب کے مقدس مقامات و آثار پائے جاتے ہیں ۔اسی متبرک سرزمین کی بابت اس کے صحیح حقداروں اور اس کے جھوٹے دعویداروں کے درمیان ایک مستقل آویزش اور کشمکش چل رہی ہے
طاغوتی قوتیں شب و روز اسے نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہیں ۔انہوں نے اسرائیل کو اپنا آلہ کاربنا کر اسلام کی مقدس ترین مسجد مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیا جس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ بھی نہیں کہ بتدریج اس مقدس سرزمین سے مسلمانوں اور اسلام کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔
اس مقدس سرزمین کا تعارف بیان کرتے ہوئے فاتح اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے سپاہیوں سے کہتے ہیں : "ا ے میرے رفیقو16ہجری کا ربیع الاول یاد کرو جب عمربن العاص اور ان کے ساتھیوں نے بیت المقدس کو کفار سے آزاد کرایا تھا ۔ حضرت عمر اس وقت خلیفہ تھے وہ بیت المقدس گئے۔ حصرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ ان کے ساتھ تھے۔ حصرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ حضورۖ کی وفات کے بعد ایسے خاموش ہوئے تھے کہ لوگ ان کی پرسوز آواز کو ترس گئے تھے۔انہوں نے اذان دینی چھوڑ دی تھی مگر مسجد اقصیٰ میں آ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں کہا کہ بلال رضی اللہ تعالی عنہ !مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے درودیوار نے بڑی لمبی مدت سے اذان نہیں سنی۔ آزادی کی پہلی اذان تم نہیں دو گے؟حضوراکرم ۖ کی و فات کے بعد پہلی بار حضرب بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلی بار اذان دی اور جب انہوں نے کہا کہ اشہدان محمد رسول اللہ۔ تو مسجد اقصیٰ میں سب کی دھاڑیں نکل گئیں۔
ہمارے دور میں مسجد اقصیٰ اذان کو ترس رہی ہے ۔ نوے برس سے اس مسجد کے دو و دیوار کسی موذن کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔ یاد رکھو۔ مسجد اقصیٰ کی اذانیں ساری دنیا میں سنائی دیتی ہیں ۔صلیبی ان اذانوں کا گلہ گھونٹ رہے ہیں ، اس عظیم مقصد کو سامنے رکھو۔ہم کوئی عام سی جنگ لڑنے نہیں جا رہے ہیں ہم اپنے خون سے تاریخ کا وہ باب پھر لکھنے جار ہے ہیں جو عمربن العاص رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں نے لکھا تھا اور ان کے بعد آنے والوں نے اس درخشان باب پر سیاہی پھیر دی تھی۔اگر چاہتے ہو کہ خدا کے حضور ماتھے پر روشنی لے کر جاو اور اگر چاہتے ہو کہ آنے والی نسلیں تمہاری قبروں پر آ کر پھول چڑھایا کریں تو تمہیں بیت المقدس میں یہ منبر رکھنا ہو گا جو بیس سال گزرنے نورالدین زنگیورحمتہ اللہ مغفور نے وہاں رکھنے کیلیے بنوایا تھا۔بیت المقدس آج بھی ایک بہترین یادگار کے طور پر موجود ہے ۔ قرون اولیٰ میں بھی وہ ایک قدیم شہر تھا ۔ یہاں حضرت داؤد علیہ السلام کی محراب اور حصرت سلیمان علیہ السلام کا تخت تھا۔اس میں وہ عظیم مسجد بھی تھی جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے جس میں امام الانبیاء ۖ اس رات کو تشریف لے گئے جس رات کو معراج ہوئی تھی۔اس مسجد کا نام مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)ہے ۔ جہاں رسول اللہۖ نے تمام پیغمبروں کی امامت فرمائی۔اللہ رب العزت قرآن کریم میں اس واقعے کو اس طرح بیان فرما تا ہے : پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا ، مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ۔ آج اسی بیت المقدس پر یہودی قابض ہیں ، مسجداقصیٰ کے دروازے مسلمانوں کیلیے بند ہیں ۔ محراب و مبنر کی بے حرمتی ہو رہی ہے ۔ مقامات مقدس کا احترام ختم ہو چکا ہے ۔ بیت المقدس کے صحن میں ظالم یہودی خون خرابہ کر رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے قبلہ اول میں داخل ہونے والے مسلمانوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے اور آج فلسطین ، بیت المقدس کے درودیوار ایک نئے صلاح الدین ایوبی کا انتظار کر رہے ہیں ۔
بیت المقدس کو یہودیو ں کے ناپاک تسلط سے رہا کرنے کیلیے حضرت خالد بن ولیدنے سب سے پہلے جنگ کی تھی۔یہ جنگ آج بھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دنیا سے ظلم و ستم اور بے انصافی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔الحاد اور بے دینی ختم نہ ہو جائے گی اور طاغوتی طاقتیں اپنی شکست تسلیم نہ کر لیں گی۔آخر فلسطینیوں کا صبر و تحمل ، ایثار و قربانی رنگ لایااور فلسطین سے ناپاک یہودی بستیوں کا اجاڑااور یہودیوں کا انخلا شروع ہو گیا ہے ۔فلسطینیوں کی جس زمین پر یہودی اپنا پیدائشی دعوی سمجھتے تھے اب اس زمین سے خود اسرائیل کی فوجیں ہی انہیں نکال رہی ہیں ۔
اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کیا تھا مگر اب جو وہاں حالات ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ایک سو چالیس کلومیٹر کے اس علاقے میں نو ہزار یہودی اکیس بستیوں میں آباد تھے ۔ یہ یہووی بستیاں تیرافلسطینیوں کی گنجان آباد علاقوں میں گھری ہوئی تھی۔ وہ فلسطین جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے وہاں سے یہودیوں کے انخلاء سے پہلے امریکی وبرطانوی صدرنے کہا تھا کہ فلسطین یہودیوں کا ہی علاقہ ہے انہیں وہاں سے نکالا نہیں جا سکتا۔
یہ بیان بالکل ایسے ہی کہ جب 27اگست 1897کو سوئٹزلینڈ کے شہر سبیل میں یہودیوں کا پہلا اجلاس ہوا تھا جس میں مختلف ممالک کے یہودیوں نے شرکت کی تھی۔اس کانفرنس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ فلسطین کو یہودیوں کا وطن بنایا جائے یہ تحریک ناکام ہو گئی۔ 1902میں ڈاکٹر تھیوردورہزل کا انتقال ہوا اپنی وفات سے قبل وہ یہود نوآبادیاتی بنک اور یہودی بیت المال قائم کر گیا۔ان اداروں نے بعد میں یہود کے لیے فلسطین میں زمین کی خریداری اور نوآبادیوں کی تعمیر میں اہم رول ادا کیا اور سالانہ خرچ دیا کرتے ہیں ۔
یہودیوں کی صہیونیت اور عیسائیوں کی صلیبیت یا امریکا کی سی آئی اے اور اسرائیل کی موساد کے درمیان ایک عملی یا خاموش معاہدہ ہے کہ اپنے تاریخی اختلافات سے قطع نظر کرتے ہوئے اور ملکی مفادات کو ایک حد تک نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں اس وقت صرف اور صرف عالم اسلام کو نشانہ بنانا ہے ۔ قرآن کو مشق ستم بنایا ہے ، مسلمانوں کا خائف اور مرعوب کرنا ہے۔افغانوں کی غیر ت ملی کو کچلنا ہے، عراقیوں کی حمیت قومی کو خاک میں ملانا ہے۔ فلسطینیوں کو یہودیوں سے لڑا کر فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنا ہے۔عربوں کی توہین و تذلیل کرنی ہے اور جس طرح بھی ہو سکے سارے عالم اسلام کو سرنگوں کر کے شوکت اسلام کا جنازہ نکال دینا ہے۔
کبھی آپ نے سوچا کہ آخر غزہ کی پٹی سے یہودیوں کا انخلا کیوں ہو ا ہے۔اس کا جواب اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتا کہ اسرائیل امریکا نے کوئی چال چلی ہو گی کہ اس انخلاء کے بعد فلسطینیوں کو آرام سے ان کے علاقوں سے نکالا جا سکتا ہے۔اپنے ساتھیوں کونکال دینے کے بعد وہاں سے ان کا صفایا ہو جائے گاجس سے اگر ہم ان سے لڑیں تو اپنے ساتھیوں کی بستیاں اور یہودیوں پر کوئی آنچ نہ آئے۔اس انخلاء کے پیچھے کیا چھپا ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ امن یا دہشت گردی۔۔۔۔۔

چودہ سو فوجی کس طرح ایک لاکھ بیس ہزارفوجوں کی حوصلہ افزائی کریگی ؟

چودہ سو فوجی کس طرح ایک لاکھ بیس ہزارفوجوں کی حوصلہ افزائی کریگی ؟


امریکی اخبار نیو یارک ٹایمز کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون روان سال کے دوران مزید1400 سو تازہ دم فوجیوں کو افغانستان بھیجنا چاہتا ہے ،تاکہ اس نئی کمک کے ذریعے اس خلاءاور کمزوری کو دور کیا جائے جو گزشتہ سال مجاہدین کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے سامنے آئی۔


اگر چہ پینٹاگون نے اس نئی کمک کو افغانستان میں مجایدین کیخلاف روان سال کے دوران موثر حملوں اور خاص فوجی حکمت عملی سے تعبیر کیا،مگر حقیت اس کے برعکس ہے،کیونکہ گزشتہ سال امریکی فوجیوں کو افغانستان میں اس حد تک جانی اور مالی نقصان پہنچ چکاہے جس کی مثال گزشتہ نو سالوں میں امریکی حکام کو بھی نظر نہیں آتی ، تو اب یہ بات لازم ہے کہ امریکی حکام اپنے ہلاک شدہ فوجیوں کی اس خلاءکو پر کرنے کے لئے کسی حد تک نئے فوجیوں کو بھیج دینگے۔
پینٹاگون کا یہ کہنا کہ وہ ان 1400تازہ فوجیوں کے ذریعے مجایدین کیخلاف موثر کاروائی کرینگے ،ان کا یہ دعوی اس لئے بے معنی ہے کیونکہ گزشتہ دس سال کے دوران پینٹاگون کے وحشی دماغ نے ہرقسم کے اقدامات کیے، مجاہدین کے کیخلاف جنگ،تعذیبی کاروائیاں،انٹیلی جنس اور سیاسی چالوں کے ساتھ ساتھ افغان عوام کا قتل عام،گرفتاریاں ان کے گھروں اور کھیتوں کو تباہ کرنے سمیت کس بھی قسم کے جرائم کے ارتکاب سے باز نہیں آئے ہیں،اب لگتا ہے کہ پینٹاگون کا ان نئے فوجیوں کے ارسال کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں کہ اس سے وہ گزشتہ سال پہنچنے والے جانی خسارے کو پورا کریں اس کے علاوہ اس نئی عسکری کمک کا کوئی اور مفہہوم اور مطلب نہیں۔
اگر ہم حقایق کا بغور جائزہ لے تو پینٹاگون کھبی بھی 1400فوجیوں کے بھیجنےکی صورت میں اس خسارے کو پورانہیں کرسکتا ہے، کیونکہ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ گزشتہ سال ملک بھر میں مجاہدین کی جانب سے ایسی کاروائیاں ہوئیں جن کو نہیں چھپایا جاسکتا ہے اور ان واقعات پر امریکی حکام اور بگرام میں موجودان کے ترجمان بھی اعتراف کرتے ہیں،بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال مرنے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 3000سے تجاوز کرچکی ہے،جب دیگرموثق شواہداورمجاہدین کے معلومات کی رو سے یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔
اگر ہم فرض کرلیں کہ ان1400فوجیوں کے ارسال سے امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے اس خلاءکو پر کیا جاسکتا ہے،مگر اس خلاءاورضرورت کو کیسے پوراکیا جائے گاجو افغانستان میں ہے اور جس کا سامنا ایک لاکھ بیس ہزار امریکی فوجی روزانہ کر رہے ہیں،حواس باختہ اور جنگ سے خوف زدہ ان فوجیوں کے بارے میں پینٹاگون کا کیا خیال ہے کہ وہ اس خلاءکو ان چودہ سو فوجیوں کے ارسال سے پورا کرلینگے اورپھر ان چودہ سوفوجیوں میں سرخاب کا کونسا پر لگا ہے کہ وہ سال 2011 میں کمال کرکےدیکھائیگا ،کھبی بھی نہیں بلکہ اگر یہ چودہ سو فوجی اگران ایک لاکھ بیس ہزار فوجیوں میں شامل ہوجاتے ہیں اور یہ ان کے واقعات اور طالبان کے جنگ کے قصے سن لے، تو پھر یہ سب ایک ساتھ ہی چیخ اٹھےینگے اور ایک ماہ کے اندر اندرافغانستان کی جہادی فضاءان کو اس طرح لپٹ لے گی کہ پھر یہ فرق کرنا مشکل ہوگا کہ ان میں تازہ دم فوجی کونسے ہیں اور پرانے کونسے ہیں ،یعنی یہ پرانے اور نئے فوجی، افغان مجاہدین کی اعلی حوصلہ مندی کے سامنے اتنے مغلوب ہوچکے ہونگے اور ان کو اتنی ضربیں لگ چکی ہونگی کہ ان کی خاص جنگی حکمت عملی ختم ہوچکی ہوگی اور ان کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہوگا کہ وہ کسی طرح افغانستان سے دم دباکر راہ فرار اختیار کرلے۔

پاکستان میں نجی جاسوسی کمپنی

پاکستان میں نجی جاسوس شروع سے افسانوی کردار ہی رہے ہیں لیکن اب حال ہی میں لاہور میں ایسی ایک کمپنی قائم ہوئی ہے۔ اس کمپنی کی انتظامی نگراں عائشہ آصف سے بات چیت